راہول

معاشی بحران کی مسلسل ایک پوری دہائی گزرنے کے بعد جب 2021ء کا آغاز ہوا تو اُس وقت بورژوازی کے معاشی ترجمان عالمی معیشت کی بہت جلد بحالی کے بارے میں انتہائی پر اُمید نظر آ رہے تھے۔ وبا کے بعد بحران میں لپٹی سرمایہ داری اور اس کے خیر خواہان کی جانب سے یہ بیانیہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ عوام پر تھوپنے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ دنیا کو درپیش مسائل میں سرمایہ دارانہ نظام کی کوئی خرابی نہیں بلکہ یہ محض کورونا وبا کے اثرات ہیں۔ یہی سبب تھا کہ کورونا وبا پربظاہر قابو پانے کے بعد اس سال کو ’خوشحالی‘ کا سال قرار دیا جا رہا تھا۔ لیکن بڑی معیشتوں کی شرح نمو میں وقتی اضافے کے باوجود غربت، بیروزگاری، لا علاجی اور مسلسل بڑھتی عدم مساوات ہی اس نظام میں اب انسانیت کا مقدر بن چکے ہیں۔

لینن نے کہا تھا کہ سیاست مجتمع شدہ معیشت کا عکس ہوتی ہے۔ عالمی معیشت کی کمزوریاں اور تضادات اپنا اظہار طبقات کی نفسیات کے ذریعے کرتے ہیں۔ آج سرمائے کے ترجمانوں کا موڈ مبالغہ آمیز رجائیت اور بد ترین خوف کا ملغوبہ نظر آتا ہے۔ عالمی طور پر جنم لینے والا عدم استحکام کھل کر اپنا اظہار کر رہا ہے۔ اس وقت بورژوازی کے ترجمان جس نام نہاد ’بحالی‘ کا ذکر کر رہے ہیں درحقیقت وہ کوئی قابل ذکر بحالی نہیں ہے۔ لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد معیشتوں میں وقتی بہتری کے باوجود 2008ء کے بحران کا تسلسل جاری ہے۔

2019ء میں جاری کی گئی اپنی آخری سہ ماہی رپورٹ میں آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ 70 فیصد عالمی معیشتیں گراوٹ کا شکار ہیں۔ اب دو سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی اس نام نہاد ’بحالی‘ کے دور میں دنیا کی بیشتر معیشتیں بحران سے نکل نہیں سکی ہیں۔ جبکہ موجودہ عالمی قرضہ گزشتہ 150 سالوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے جہاں ہر ایک ڈالر کی سرمایہ کاری مزید دو ڈالر کے قرضے کو جنم دے رہی ہے۔ آئی ایم ایف نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عالمی معیشت کی شرح نمو 2024ء تک دوبارہ نیچے آ جائے گی۔ چین کے علاوہ تمام نام نہاد ’ابھرتی معیشتیں‘ بھی بحران کی زد میں ہیں۔ موجودہ حالات میں ان معیشتوں کی آمدنی میں ہونے والا حقیقی نقصان ایشیا میں جی ڈی پی کے 8 فیصد کے برابر ہے جبکہ باقی عالمی جنوب میں نقصان کی یہ شرح جی ڈی پی کے چار سے چھ فیصد تک دیکھی گئی ہے۔ اسی طرح اگر ان ممالک کی شرح نمو کو دیکھا جائے تو وہ تقریباً سبھی معیشتوں میں 2010ء کی دہائی سے کم ریکارڈ کی گئی ہے۔

’ترکی‘جس کی معاشی پالیسیوں کو ترقی پذیر ممالک کے لئے چند سال قبل ایک ’رول ماڈل‘ کے طور پر تصور کیا جاتا تھا اب ایک بد ترین معاشی بحران کی زد میں ہے۔ ترکی کی کرنسی ’لیرا‘ پچھلے ایک سال میں اپنی 78 فیصد قدر کھو چکی ہے۔ کرنسی کی قدر میں اس کمی کے سبب مہنگائی کا ایک طوفان امڈ آیا ہے۔ اکتوبر تک مہنگائی کی یہ شرح بیس فیصد تک ریکارڈ کی گئی جو کہ اس کے سالانہ پانچ فیصد ٹارگٹ سے چار گنا زیادہ تھی۔ یہ کسی بھی ابھرتی معیشت میں بد تر ین کیفیت ہے۔ جبکہ 2018ء کے کرنسی بحران کے بعد ترکی میں دیکھی جانے والی یہ سب سے بڑی گراوٹ ہے۔ ترکی کی جس ترقی کا پاکستان جیسے ممالک کے حکمران راگ الاپتے نہیں تھکتے تھے وہ درحقیقت سٹہ بازی، بڑے پیمانے کی نجکاری، قرضوں، اعداد و شمار کی ہیرپھیر و نیو لبرل اکانومی کا مظہرتھی۔ حکومت کی ان پالیسیوں کے خلاف ترکی کی عوام آئے روز سراپا احتجاج رہے ہیں۔

ترکی، بھارت، جنوبی افریقہ ہو یا پھر امریکہ و یورپ‘ حالیہ بحران نہ صرف سرمایہ داری کا طویل ترین بحران بن چکا ہے بلکہ یہ اس نظام کے نامیاتی بحران کا مظہر ہے۔ معاشی سست روی‘ مہنگائی اور نہ ختم ہونے والی بیروزگاری کے ساتھ مجتمع ہے۔ کئی ایک بورژوا تجزیہ کار تو اس نظام کی ناکامی اور اسے در پیش مسائل کو اب ایک بار پھر محض عروج و زوال کا ایک روایتی چکر قرار دے رہے ہیں۔ اُن کی خوش گمانیوں میں سے بہت کچھ محض نیک خواہشات پر ہی مبنی ہے۔ لیکن عروج و زوال کے چکر (سائیکل) کے خاتمے کا جو خواب انہوں نے دیکھا تھا وہ چکنا چور ہو چکا ہے۔چیزیں اپنے الٹ میں بدل چکی ہیں۔ بظاہر مستقل خوشحالی و ترقی اب مستقل مندی اور بحران میں بدل چکے ہیں۔ اس نظام نے سات ارب سے زائد آبادی رکھنے والے سیارے کو ایک جہنم میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ عالمی سطح پر یہ نظام نہ صرف ترقی نہیں کر پا رہا بلکہ بالعموم ایک ٹھہراؤ کا شکا ر نظر آتا ہے جو ٹھہرے ہوئے پانی کی مانند تعفن پھیلانے کا باعث بن رہا ہے۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی اور سرمائے کے چند ہاتھوں میں ارتکاز نے دنیا بھر میں غربت اور امارت کے مابین خلیج کو انسانی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔ عالمی عدم مساوات کی رپورٹ (WIR) سال 2021ء کے مطابق دنیا گزشتہ چالیس سالہ عرصے میں اس وقت بد ترین نا برابری کا شکار ہے۔ رپورٹ میں مزید گردانا گیا کہ ذاتی دولت کے حوالے سے یہ نا برابری اپنی انتہائی سطح کو عبور کر چکی ہے۔ دنیا کے محض دس فیصد افراد کے پاس دنیا کی 80 فیصد تک دولت ہے۔ مزید برآں ان امیر افراد میں سے محض ایک فیصد ایسے ہیں جو دنیا کی 45 فیصد دولت پر حاکمیت رکھتے ہیں۔ جبکہ تین ارب انسانوں کے پاس سرے سے کوئی جمع پونجی موجود ہی نہیں ہے۔

2022ء عالمی معیشت کے لئے کس قدر کار آمد ثابت ہوتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے مگر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ قرضوں کے بوجھ تلے دبی عالمی معیشت اب ایک ایسی بند گلی میں داخل ہو چکی ہے جہاں سے اسے نکالنے والا ہر قدم ایک نئے بحران کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ مارکس نے بہت پہلے وضاحت کی تھی کہ سرمایہ دار اپنے بحرانوں سے بچنے کے لئے نئے، وسیع اور تباہ کن بحرانوں کے راستے ہموار کرتے ہیں جبکہ اس دوران وہ اُن ذرائع کا بھی خاتمہ کر دیتے ہیں جن کے ذریعے اُن بحرانات سے بچا جاتا ہے۔

ایسے میں تناظر کی تشکیل مشکل اور پیچیدہ ہو جاتی ہے۔ یہ پر انتشار عالمی صورتحال اپنے اندر کئی حیران کن عوامل بھی سمیٹے ہوئے ہے۔ طبیعات میں ایک سادہ تجربہ کیا جاتا ہے جس میں محض ایک زرہ ریت کے پورے ڈھیر کو بکھیر کے رکھ دیتا ہے۔ کسی ایک ایسے لمحے کوئی بھی بظاہر حادثاتی عنصر بحران کو گہرا کر سکتا ہے۔ دنیا بھر میں یقینا چھوٹی بڑی تحریکیں موجود ہیں اور کئی ایک جگہ عوام نے اپنے مطالبات منواتے ہوئے حکومتوں کا دھڑن تختہ بھی کیا ہے۔ مگر مارکسیوں کے لئے ضروری ہے کہ ہم فوری واقعات کو بھی ان کی وسعت اور تاریخی ارتقا کی گہرائی میں دیکھیں۔

تاریخ میں ہمیں معاشی، سماجی، سفارتی، ماحولیاتی اور سیاسی سطح پر ایسی دھماکہ خیزیاں بہت کم دیکھنے کو ملی ہیں۔ آج عالمی سطح پر خود رو تحریکوں کا ایک مظہر موجود ہے جو قیادت کے فقدان کو شدت کے ساتھ ظاہر کر رہا ہے۔ مارکسزم میں ترمیم پسندی کے خواہشمند خواتین و حضرات جو اپنے خمیر میں محنت کش طبقے پر اپنا اعتماد کھو چکے ہیں‘ ان واقعات کی بیہودہ تشریحات سے باز نہیں آتے۔ لیکن ان تمام تر کوششوں کے باوجود مارکسزم آج بھی پوری طرح نہ صرف قابل ِ عمل ہے بلکہ سماج کے درست تجزیے اور اس کی تبدیلی کے انقلابی پروگرام کے طور پر بھی ایک درست نظریہ اور لائحہ عمل بھی پیش کرتا ہے۔ یہی سبب رہا ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں اٹھنے والی ہر وہ تحریک جس کی یاس اس نظام تک محدود تھی نہ کوئی مسئلہ حل کر سکی نہ ہی آئندہ کر سکتی ہے۔ آنے والا سال یقینا کئی دھماکہ خیز واقعات کو جنم دے گا مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ان واقعات کو اس نظام کے خلاف جدوجہد کا ایندھن بناتے ہوئے عالمی تحریکوں سے جوڑا جائے۔ عالمی یکجہتی اور عالمگیریت کے پرچم کو سر بلند رکھا جائے۔ کوئی ایک واقعہ، کوئی ایک تحریک ساری صورتحال کو یکسر بدل سکتی ہے۔ اس نظام کی غلاظت اور عالمی پرولتاریہ کی سوشلسٹ جدوجہدکے متعلق 1918ء میں لکھے گئے لینن کے یہ الفاظ آج بھی آنے والے سال کا انقلابی پیغام دیتے ہیں:

”سرمایہ داری کی لاش ہمارے درمیان گل سڑ رہی ہے۔ ہماری فضا کو آلودہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری زندگیوں میں زہر گھول رہی ہے۔ ہر وہ چیز جو نئی، تازہ، جوان اور جراتمندانہ ہے اس کو ہزاروں دھاگوں اور ناطوں سے پرانی، مردار اور بوسیدہ پرتوں سے جوڑ رہی ہے۔ اس سب کے باوجود ہمیں پختہ یقین ہے کہ ہم ناقابل ِ تسخیر ہیں۔ کیونکہ انسانیت کی روح اور عزم سامراجی قتل و غارت سے کبھی بھی توڑے نہیں جا سکتے۔ انسانیت ان پر فتح مند ہو کر رہے گی… پرولتاری انقلاب ہی وہ واحد قوت ہے جو اس قابل ہے کہ ڈوبتی ہوئی انسانیت کو بچا سکے۔“