ڈاکٹر طاہر شبیر

کرتا ہوں لعن طعن جو سرمایہ دار پر
ٹوٹے ہے قہر اس کے ہر اک پیروکار پر
خلقت پہ ظلم و جبر کا میں چارہ ساز ہوں
الزام مجھ پہ یہ ہے کہ میں نعرہ باز ہوں
اس کو ہے علم جس نے بھی تاریخ کو پڑھا
مجہول اس کو کہتے ہیں جس نے بھی سچ لکھا
کچھ شاعر اور ادیب یہاں زر پرست ہیں
دکھنے میں سب نفیس ہیں کردار پست ہیں
لکھتے ہیں قصیدے ہی جو ہر حکمران کے
ذلت کا ہیں نشان وہ دنیا جہان کے
اہل سخن جو بات کریں انقلاب کی
وہ ہی تو اس سماج کو دیتے ہیں آگہی
گنتی کے دن ہی باقی ہیں اس سامراج کے
لو چل پڑے ہیں قافلے اب انقلاب کے
جاگیں گے لوگ سن کے جسے میں وہ ساز ہوں
میں انقلابِ وقت ہوں میں نعرہ باز ہوں