ذیشان شہزاد
’تبدیلی‘ والی پارٹی کے چیئرمین اور پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو بار بار ایک بات دہراتے تھے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے سے بہتر ہے کہ میں خود کشی کر لوں۔ جذباتیت میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے یہ باتیں بہت اچھی لگتی ہیں مگر برسر اقتدار آنے کے بعد ہی اُن کو یہ پتہ چلا کہ پاکستان جیسی پسماندہ اور کمزور معیشت کو سرمایہ دارانہ نظام کے تحت چلانا پڑے تو قرضوں کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ لہٰذا حکومت میں آنے کے بعد بھی کافی پس و پیش کے بعد بالآخر اکتوبر 2018ء میں اُس وقت کے وزیر خزانہ اسد عمر کی قیادت میں ایک وفد آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لیے انڈونیشیا روانہ ہوا تاکہ آئی ایم ایف سے 7.5 ارب ڈالر کے قرض کے حصول کے لیے بات چیت کی جا سکے۔ اس دورے سے واپسی پر وزیر موصوف نے میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا کہ ہم آئی ایم ایف کو قرضے کے حصول کے لیے باقاعد ہ درخواست دے آئے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہمیں کچھ سخت ترین فیصلے کرنے پڑیں گے جو عوام کے لیے ممکنہ طور پر تکلیف دہ اور اذیت ناک ہوں گے۔ قرض کی باقاعد ہ منظوری سے پہلے ہی تبدیلی والی پارٹی کی موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کی تجویز کردہ اصلاحات کو نافذالعمل کرنے کے اعلانات کر دیے تاکہ قرض کے حصول میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔ ان حاصلات میں روپے کی قدر کو منڈی کی بے رحم قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا، شرحِ سود میں اضافہ اور گیس و بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے سمیت دیگر عوام دشمن اقدامات شامل ہیں۔ نومبر 2018ء کے آخر میں جب آئی ایم ایف کے وفدنے پاکستان کا دورہ کیا تو حکومت کی طرف سے کیے جانے والے ابتدائی اقدامات کے بارے میں کہا کہ ’اصلاحات‘ صحیح سمت بڑھ رہی ہیں مگر ابھی یہ ناکافی ہیں۔ ابتدائی طور پر مذاکرات میں ناکامی کے بعد وزیر خزانہ اسد عمر کو اس عہدے سے برطرف کر کے عمران خان نے ماضی کے ’چور اور لٹیرے‘ حکمرانوں کے دور کے مشیر خزانہ رہنے والے ماہر معیشت حفیظ شیخ کو امریکہ سے بلوا کر پھر سے مشیر خزانہ کے منصب پر براجمان کیا۔ جس نے مئی 2019ء میں عوام کو آگاہ کیا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین قرض کے حصول کا معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت آئی ایم ایف پاکستان کو تین سال کے عرصے میں 39 قسطوں کے ذریعے چھ ارب ڈالر کا قرض دے گا۔ جس کی باقاعدہ منظوری آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ نے جولائی 2019ء میں دے دی اور 2 سے 3 ارب ڈالر کا اضافی قرضہ ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے ملنے کے امکانات بھی ہو گئے۔
ان قرضوں کے حصول کے لیے ہونے والے مذاکرات کے آغاز سے ہی عوام پر مہنگائی کا جو بوجھ پڑا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ روزانہ کی بنیاد پر ڈالر اور سونے کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کو صدمے کی کیفیت سے دو چار کر دیا۔ ہر روز اشیائے خورد و نوش اور دیگر ضروری اشیا مثلاً ادویات وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ محنت کشوں کو نفسیاتی ہیجان میں مبتلا رکھنے لگا۔ سماجی تانوں بانوں کا شیرازہ یکلخت بکھرنے لگا۔ سماجی بیگانگی میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہونے لگا۔ یہاں تک کہ کورونا وبا کی اچانک آمد نے ایک خوف کی نئی لہر میں سماج اور معیشت کو جامد کر دیا وہیں سیاست میں بھی نئی جہتوں سے بحث اُمڈ آئی۔ پاکستان جیسے پسماندہ ملکوں میں اس کے اثرات میں سے ایک بڑے پیمانے کی بے روزگاری کی صورت میں نظر آیا جس نے خاص طور پر محنت کش نوجوان طبقے کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ اشیائے خورد و نوش کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کا ایک طوفان آیا جس نے پاکستانی سماجی بندھنوں کو یکسر تاراج کر کے رکھ دیا۔ ذہنی اور نفسیاتی ڈپریشن میں کبھی نہ دیکھا جانے والا عروج دیکھنے کو ملا۔ وہیں ادویات، چینی اور آٹے کی مد میں حکمران طبقات کے چند دھڑوں نے اپنی نجی دولت میں بیش بہا اضافہ کیا۔
اپریل 2021ء میں حکومت پاکستان نے یک طرفہ طور پر قرضے کے اس پروگرام کو روک دیا۔ اُس وقت تک پانچ دفعہ آئی ایم ایف پاکستانی معیشت کا باقاعدہ معائنہ کر چکا تھا۔ مگر معیشت کی کمزوری نے ایک بار پھر حکومت کو آئی ایم ایف کی طرف رجوع کرنے پر مجبور کیا اور فروری 2022ء کی ابتدا میں آئی ایم ایف کی جانب سے چھٹے باضابطہ ریویو کے بعد ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کی جس کے ساتھ ہی مجموعی طور پر پاکستان چھ ارب ڈالر میں سے تین ارب ڈالر لے چکا ہے۔ مگر اس کے اجرا کے بعد آئی ایم ایف کے دباؤ پر پاکستان کی قومی اسمبلی (جہاں بظاہر پاکستان تحریک انصاف کی اکثریت ہے) اور سینیٹ (جہاں اپوزیشن کی باقی ساری پارٹیوں کی اکثریت ہے) نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی خود مختاری کا بل خوشی خوشی پاس کیا جس سے پاکستانی معیشت عالمی ساہوکاروں کے چنگل میں ایسے آ جائے گی جیسے کسی جانور کی گردن پر قصائی کی تیز دھار چھری چلتی ہے۔ عالمی ساہوکارں کی یہ معاشی چھری مگر محنت کش عوام کی وسیع اکثریت کے گلے پر پھر چکی ہے۔ آئی ایم ایف کے ان قرضوں کی بدولت کھانا پکانے کے لیے گھروں میں گیس ندارد، پھر بھی فکس چارجز کی مد میں چھ سو سے سات سو روپے کا بل بھی عوام ادا کرتی ہے اور مہنگی ایل پی جی گیس بھی خریدنے پر مجبور ہے۔ پٹرول کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں جو ایک سو ساٹھ روپے فی لیٹر مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے۔ پٹرولیم لیوی کی مد میں حکومت اس وقت تقریباً اٹھارہ روپے فی لیٹر وصول کر رہی ہے جبکہ آئی ایم ایف سے قرضوں کے معاہدے کے مطابق اس مد میں ماہانہ چار روپے مزید اضافہ کرنا ہے اور اس کو تیس روپے فی لیٹر تک لے کر جانا ہے۔ اس پس منظر میں ادویات، خوردنی تیل، چینی، دالیں اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں گراں قدر اضافہ مستقبل میں مزید ہو گا۔
بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی بات کی جائے تو یہ بات واضح ہے کہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی محنت کشوں کی اکثریت کے لیے اس وقت جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ سال 2022ء کے موسم گرما میں بجلی کے بل محنت کشوں پر بجلی بن کر گریں گے۔ تین سال پہلے ابتدائی سو یونٹس کی بنیادی قیمت 5.79 روپے فی یونٹ تھی جو کہ اس وقت 9.42 روپے فی یونٹ ہو چکی ہے۔ اسی طرح ہر سلیب کی بنیادی قیمت میں اضافہ کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے ملنے والے قرضے کی حالیہ قسط کے بعد بجلی کی فی یونٹ قیمت میں مارچ 2022ء سے 65 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا جانا ہے اور جولائی 2022ء سے 2.17 روپے فی یونٹ کا اضافہ بھی آئی ایم ایف کی جانب سے مسلط کی گئی شرائط میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ سترہ فیصد جنرل سیلز ٹیکس بھی بجلی کی مد میں نافذالعمل ہے۔’مزید ٹیکس‘ اور ’اضافی ٹیکس‘ کی صورت میں دو نئے ٹیکس بھی پاکستان مسلم لیگ نواز کی پچھلی گورنمنٹ سے مسلط ہیں۔ جبکہ جنوری 2022ء کے استعمال شدہ یونٹس پر 5.94 روپے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اب تک کی سب سے بڑی واردات ہے۔ جو مارچ کے بجلی کے بلوں میں عوام سے وصول کیے جائیں گے جس سے 58 ارب روپے حکومت عوام سے مزید نچوڑے گی۔ حالانکہ پاکستان میں تیل سے صرف 33 فیصد بجلی پیدا ہوتی ہے جبکہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ بجلی کی تمام پیداوار پر نافذالعمل ہوتا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ میں بھی حکومت وقت کو یقینا اضافہ کرنا پڑے گا۔ جس کا پھر خمیازہ محنت کش عوام کو مزید مہنگی بجلی خریدنے کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔ اتنے سارے ٹیکس لگانے کے بعد بھی ایک اور مد بجلی کے بلوں میں نظر آتی ہے اور وہ ہے کوارٹر ٹیرف ایڈجسٹمنٹ۔ مالی سال 2021-22ء کے پہلے کوارٹر جولائی سے ستمبر تک اس مد میں 28 پیسے فی یونٹ کی درخواست بھی بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی جا نب سے نیپرا کو ارسال کی گئی ہے۔ ان تمام اقدامات کا مقصد بجلی کی مد میں گردشی قرضوں کے حجم میں کمی کرنا ہے جو موجودہ حکومت کے ساڑھے تین سال کے عرصے میں دو گنا ہو کر 2.45 ٹریلین روپے ہو چکے ہیں۔ جبکہ بجلی پیدا کرنے والے سرکاری اداروں (جینکوز) کو حکومت نے جب سے بند کیا ہے تب سے بجلی پیدا کرنے والے چھ ہزار مزدوروں کا روزگار خطرے میں پڑا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف نے قرضے کی حالیہ قسط کے اجرا کے بعد حکومت پاکستان پر اس بات کے لیے بھی دباؤ ڈالا ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر اِنکم ٹیکس دو گنا کیا جائے اور پرائیویٹ ڈاکٹروں اور ٹیوشن پڑھا کر ’اضافی آمدنی‘ کمانے والے اساتذہ کو بھی ٹیکس نیٹ میں لے کر آیا جائے۔
جہاں اس قسم کے عالمی ساہوکاروں کے ریاستوں پر ڈائریکٹ قرضے ہیں اور سماج میں مہنگائی کا باعث بنتے ہیں وہیں پاکستان اور بنگلہ دیش جیسی پسماندہ معیشتوں والے سماج میں مائیکرو فنانس (چھوٹے مالیاتی قرضے) کی صورت میں ایک اور ب لا بھی ایسے سماجوں کے محنت کشوں کا خون چوس رہی ہے۔ عمومی طور پر یہ قرضے مہنگی شرحِ سود پر محنت کش اپنی کسی فوری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے حاصل کرتے ہیں۔ یہ چھوٹے مالیاتی قرضے ماحولیاتی تبدیلوں کے اثرات کے تحت متاثر ہونے والے د یہی کسانوں اور دہقا نوں کو کس طرح دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں اور انہیں خود کشیاں کرنے پر مجبور کر رہے ہیں‘ اِس صورتحال کی بہترین عکاسی سال 2017ء میں درشیم فلمز پروڈکشن کے تحت بنائی جانے والی بھارتی فلم ’کڑوی ہوا‘ میں کمال مہارت سے کی گئی ہے۔ فلم کا مرکزی کردار سنجے مشرا ایک ایسے نابینا بزرگ کا کردار ادا کرتا ہے جس کو ہمہ وقت یہ پریشانی ستائے رکھتی ہے کہ مائیکرو فنانس بینک سے لیے گئے قرضے کی سود سمیت ادائیگی نہ کر سکنے کی وجہ سے گاؤں میں بہت سے نوجوان پہلے ہی خود کشی کر چکے ہیں اور کہیں اس کا اپنا بیٹا بھی اس وجہ سے جان کی بازی نہ ہار جائے۔ کیونکہ گاؤں میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اب خشک سالی میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے اور فصلوں کی پیداوار ہر گزرتے سال کے ساتھ کم ہو رہی ہے۔ اس گھمبیر صورتحال میں فوری ضرورتوں کو پورا کرنے کی خاطر لیے گئے قرضوں کی سود سمیت ادائیگی ناممکن ہو چکی ہے۔ بینک کی طرف سے قرضوں کی واپسی کے حصول کے لیے جو ملازم گاؤں میں آتا ہے اس کو گاؤں والے ’موت کے فرشتے‘ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ سنجے مشرا اس بینک ملازم سے گٹھ جوڑ کرتا ہے کہ وہ بینک ملازم کو نادہندہ لوگوں تک ایسے وقت میں رسائی دلائے گا جب نا دہندہ ادائیگی کے لیے پیسے بھی رکھتا ہو گا۔ اس کے بدلے مگر بینک ملازم اس کے بیٹے پر قرض واپسی کے لیے دباؤ نہیں ڈالے گا۔ فلم کے اختتام پر سنجے مشرا /نابینا بزرگ ذاتی لالچ کے لیے دوسروں کو مصیبت میں ڈالنے پر بڑا ہی نادم ہوتا ہے اوربینک ملازم سے گٹھ جوڑ کے خاتمے کا اعلان کرتا ہے۔ فلم میں بینک کا نام ’گرامین بینک‘ دکھایا گیا ہے۔ یہ ایک بنگلہ دیشی بینک ہے جس کو اس کے مالک پروفیسر یونس کے ساتھ مشترکہ طور پر سال 2006ء میں یہ کہہ کر نوبل انعام سے نوازا گیا تھا کہ یہ غربت کو کم کرنے اور سماجی بہتری میں سرمایہ دارانہ نقطہ نظر سے ایک نیا اور اہم قدم ہے۔ اب تو ٹیلی کمیونی کیشن کی ملٹی نیشنل کمپنیوں یعنی جاز وغیرہ کے مائیکرو فنانسنگ کے اپنے جدید طریقے ہیں جو صارف کو 20 فیصد شرحِ سود فی ہفتے کے حساب سے 10 ہزار روپے تک کے قرض کی ’سہولت‘ دیتے ہیں مگر اس کی صارف کو ادائیگی خود ایک ماہ کے اندر اندر کرنا پڑتی ہے اور اس مقررہ مدت میں ادائیگی نہ کرسکنے کی صورت میں شرحِ سود بڑھ کر 40 فیصد ہو جائے گی۔
فوری ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے لیے گئے ملٹی نیشنل کمپنیوں سے حاصل کردہ چھوٹے مالیاتی قرضے ہوں یا عالمی ساہوکاروں سے ریاستی سطح پر لیے گئے قرضے‘ محنت کش طبقات کے ذہنوں میں یہ سوال کلبلاتا رہتا ہے۔ جیسے افتخارعارف نے کہا تھا:
یہ قرضِ کج کلاہی کب تلک ادا ہو گا
تباہ ہو تو گئے ہیں اب اور کیا ہو گا
اب اور کیا ہوگا
مارکسی استادوں نے سرمایہ داری کے خمیر، جو کہ منافع خوری ہے، کو دریافت کر لینے کے بعد یہ پیش گوئی کی تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت جہاں دولت کا ارتکاز کم سے کم ہاتھوں میں ہو گا وہاں نسل انسان کی اکثریت غربت اور ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو گی۔ پاکستانی سماج اس کی ایک زندہ مثال ہے۔ جہاں قرضے لے لے کر حکمرانوں کی عیاشیاں اور بدقماشیاں ختم ہونے کو نہیں آتیں وہاں محنت کش عوام کی ذلتیں اور اذیتیں ہیں جن کا ایک لاامتناہی سلسلہ ہے جس میں کمی کے کوئی آثار اس نظام میں رہتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ جب تک ان عالمی سامراجی قرضوں کو ضبط نہیں کیا جائے گا تب تک ان اذیتوں سے محنت کشوں کے لیے چھٹکارا پانا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ سرمایہ داری میں رہتے ہوئے محنت کش طبقات قرضوں کے اس چنگل سے آزاد نہیں ہو سکتے بلکہ آنے والے وقت میں مسائل میں اضافہ ہی نظر آ رہا ہے۔ منافعے اور سود پر مبنی جبر کے اس نظام کو زیادہ دیر تک چلانا ناممکن ہے۔ محنت کش طبقات کو آپسی جڑت کے ذریعے اس جابر نظام کو پاؤں تلے کچلنا ہو گا اور ایسے نظام کی بنیاد ڈالنی ہو گی جس کے ذریعے ذرائع پیداوار اور ترسیل کو اشتراکی کنٹرول میں لے کر انسانی معاشرے کو عالمی اور مقامی ساہوکاروں کے چنگل سے آزاد کیا جا سکے۔ حکمران طبقات کی عمومی سوچ کے برعکس ایسا ہو کر رہے گا۔ جیسا کہ سید عاشور کاظمی نے کہا تھا:
کج کلاہی کو یقیں تھا گُھٹ کے مر جائیں گے لوگ
ہم یہ کہتے تھے کہ سڑکوں پر نکل آئیں گے لوگ