قمرالزماں خاں
موجودہ صورتحال میں کچھ چیزیں زیادہ ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ یہ کہ سامراجی معیشت اور طبقاتی سیاست کے تحت تمام تراداروں اور طاقتوں کی حمایت کے باوجود بننے والی حکومت بھی نہ تو کوئی کامیابی حاصل کرسکتی ہے اور نہ ہی ملک اور عوام کو درپیش بحرانوں پر قابو پاسکتی ہے۔ یہ کہ حکومتوں کی تبدیلی سے کچھ (مثبت)نہیں بدلتا بلکہ حکومتوں کی اپنی ساخت میں کمزوریوں کے سبب پہلے سے بھی زیادہ گھمبیرمسائل ابھر کر سامنے آجاتے ہیں، نئے بحرانوں میں اضافہ ہوتا ہے اور عوام پر پے درپے معاشی حملوں میں شدت لانا پڑتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں ریاست کے طاقتور حلقے کسی طور بھی اپنی گرفت ڈھیلی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے‘ چاہے ان کی اپنی ہائبرڈ حکومت ہی کیوں نہ چل رہی ہو۔ یہ طاقتیں جن کو قانون نافذ کرنے والے ادارے، اسٹیبلشمنٹ، مقتدرہ یا کچھ اور ناموں سے احتیاط کے طور پر پکارا جاتا ہے‘ بالمقابل متوازی حکومت بھی چلاتے ہیں اور سیاسی میدان میں متبادل قوتوں میں سے ہم خیال پارٹیوں اور افراد کو ممکنہ حکومتی تبدیلی کے لئے تیار بھی کرتے رہتے ہیں۔ ایک مغالطہ جس کو تاریخ کی پیش رفت مٹاتی جارہی ہے اب برہنہ ہوکر سامنا آرہا ہے کہ اس ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کے کردار اور نظریات میں فرق صرف پارٹیوں کے مختلف ناموں، نعرہ بازی اور پراپیگنڈے کا ہے۔ ورنہ ان کے نظریات، کردار، خریدنا، بکنا، سازشیں،منشورتقریباً ملتے جلتے ہیں۔ مقتدرہ تین چار بڑی پارٹیوں کے ساتھ تین چار چھوٹے چھوٹے گروہ براہ راست اپنی سرپرستی میں چلاتی ہے جن کو بطور ’پھانہ‘ (Voussoir) استعمال میں لایا جاتا ہے۔ یہ ’پھانے‘ کمزوراتحادوں کو ”مضبوط“ بنا کر حکومت بنانے اور پھر ”کمزور“ کر کے تحلیل کرنے کا کام دیتے ہیں۔
ایسی پارٹیاں جو تاریخ میں کبھی نہ کبھی اپنی ضرورت کے تحت ’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘ ہونے کا تاثر دیتی ہیں وہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ صرف اس مقتدرہ کے ساتھ نئی دھڑے بندی اور نئے الحاق کے لئے بناتی ہیں۔ اسی طرح موجودہ سیاسی کشمکش میں سب سے کلیدی نکتہ بھی کھل کر سامنے آیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سمیت غیر سیاسی قوتوں، حکومت اور حکومت مخالف سیاسی دھڑوں کے پاس 22 کروڑ عوام بالخصوص محنت کش طبقے کی نجات کے لئے (نعرہ بازی سے ہٹ کر) کوئی معاشی پروگرام نہیں ہے اور نہ ہی سماجی بہبود کے لئے کوئی تصوریا خواب ہے۔ہر حکومت مخالف سیاسی پارٹی (گروہ) مہنگائی اور بے روزگاری کا واویلہ صرف اس لئے کر رہا ہے کہ لوگ عمران خان کی حکومت کے پے درپے معاشی حملوں سے بلبلا اٹھے ہیں۔ مگرخود کو متبادل قرار دینے والے‘ نعرہ بازی پر مبنی چارٹر سے آگے کوئی ایسا معاشی منصوبہ بیان نہیں کرتے جو ان سامراجی سیاسی، معاشی، سماجی اور فسطائی اورغیر جمہوری حملوں کو روک کر ایک نئے ترقی پسند، بلند معیار زندگی کے حامل ایسے پاکستان کی بنیاد رکھ سکے جو نہ صرف معاشی طور پر خود مختیاری کی طرف پیش رفت کرے، جس میں بے روزگاری، غربت، مہنگائی اور پسماندہ طرز زندگی کا خاتمہ ہوسکے، بلکہ غیر جمہوری قوتوں کی گرفت کی ستر سالہ تاریخ کا خاتمہ بھی ہوسکے۔ عام لوگوں کا مسئلہ کبھی بھی یہ نہیں رہا کہ حکمران طبقے کی پرانی یا نئی پارٹیوں کی اقتدار تک رسائی کس طرح ہو یا نہ ہو۔ ان کے مسائل دال روٹی، زندگی کی بقا، علاج معالجے اور بچوں کی تعلیم اور روزگار سے شروع ہوتے ہیں۔ مگردوسری طرف حکمران طبقے کی روایتی پارٹیاں عوام کو بھکاری سے زیادہ کوئی درجہ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اسی لئے یہ کوئی حیران کن امر نہیں ہے کہ محنت کش طبقے کی روایت سے حکمران طبقے کی پارٹی بننے کے بعد‘ جہاں پیپلز پارٹی کے معاشی تصور کی آخری حد ”بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام“ جیسے خیرات کے منصوبے تک پہنچتی ہے، وہیں سے حکمرانوں کی اپنی کھوکھ سے نکلنے والی تحریک انصاف کا سماجی بہبود کا تصور بھی ابھر کر ”احساس پروگرام“ جیسی بھیک کا روپ دھار لیتا ہے۔ مسلم لیگ ن کو اس قسم کے بھی کسی پروگرام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس جماعت کا وجود جس قسم کے طبقے یا سماجی حصے پر انحصار کرتا ہے وہ غربت اور افلاس کی بجائے کروڑ پتیوں اور ارب پتیوں کی تعداد بڑھانے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ن لیگ کے نام نہاد ماہرین معاشیات اقتدار میں آنے کے بعد معیشت کے ایسے حصوں میں تحرک پیدا کرتے ہیں جو ٹھیکوں، کمیشن، ماردھاڑ، رشوت اور لوٹ مارکے مواقع پیدا کرنے والے منصوبوں پر منحصر ہوں۔ سیاسی اور نظریاتی طور پر سیاسی پارٹیوں میں اتنی گہری قربت ہے کہ وہ لڑتے جھگڑے اور دست و گریبان ہونے کے بعد‘ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر محبت کے گیت گانا چاہیں تو کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔
بھارت کے دوسرے وزیراعظم رہنے والے لال بہادر شاستری نے ایک دفعہ کہا تھا کہ میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنے پاکستان کے وزیر اعظم بدل چکے ہیں۔ اُن دنوں پاکستان میں چھ سالوں میں چھ وزرائے اعظم بدل چکے تھے۔ یہ سلسلہ اب تک ختم نہیں ہوا۔ پچھلے 74 سالوں میں تیس وزرائے اعظم بدل چکے ہیں۔ یعنی اوسطاً ہر اڑھائی سال بعد وزیر اعظم بدل جاتا ہے۔پھر بھی وزیر اعظم بدلنے کی خواہش نہیں جاتی۔ ادھر حکومت بنتی ہے اُدھر اس کو بدلنے کی باتیں شروع ہوکر آخر کسی تحریک کی شکل اختیا ر کرلیتی ہیں۔ وطن عزیز میں حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی طرف سے اتنی تحریکیں چلائی گئی ہیں کہ اب عام لوگوں کے لئے ان تحریکوں کے اعلان پر کسی قسم کی حیرانگی کا اظہار نہیں ہوتا۔ ویسے بھی ان دنوں پاکستان‘ حکومت مخالف تحریکوں اور حکومت کے حق میں واویلوں کا ”لنڈا بازار“ بنا ہوا ہے۔
پارٹیوں میں پہلے نظریات اور سیاسی پروگرام کی بنیاد پر کارکن متحرک ہوا کرتے تھے۔ یہ کارکن اپنے کرائے اور خرچے پر تحریکوں کا حصہ بنتے تھے۔ ریاستی اداروں کی مداخلت یا تشدد کا بھی حوصلے اور بہادری سے سامنا کرتے تھے۔ مگرجہاں پارٹیوں نے نظریات سے چھٹکارہ حاصل کیا‘ وہاں ان کے لئے ضروری تھا کہ تنظیموں اور کارکنوں سے بھی گلو خلاصی حاصل کرکے بحث مباحثوں، تنقید اور جواب دہی سے جان چھڑائی جائے۔ لہٰذا نظریات کی نج کاری کے بعد پارٹیوں کو ورکروں کی بجائے الیکٹیبلز، سیاسی وار لارڈز اور اجرتی کارکنوں کے سپرد کرنے سے عوامی سیاست اور سیاست میں دانستہ طور پر محنت کش طبقے کی رسائی و شمولیت کے تمام راستے بند کر دیئے گئے ہیں۔جہاں ایک طرف دیہاڑی کے طور پر پانچ ہزار روپے مل رہے ہوں وہاں بالمقابل کوئی سیاسی و نظریاتی موقف، مواد یا مباحثہ وقتی طور پر قابل توجہ نہیں رہتا۔ پہلے پارٹیاں ہائبرڈ بنتی تھیں اب تحریکوں کو بھی دیہاڑی دار اجرتی کارکنوں سے مرصع کرکے ہائبرڈ تحریکوں کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ سیاسی تحریکیں پارٹیوں کے ڈھانچوں کی بجائے بھاری سرمایہ کاری کرنے والے ماضی (اور مستقبل کے بھی) وزرا کے سپرد کردی جاتی ہیں جو اربوں روپے کی ”تحریک“ کے تقاضے پورے کرتے ہیں۔ دیہاڑی نقد، روٹی اور سفر بذمہ سرمایہ کار۔ کچھ اوپر والے لیڈروں کی راتوں کو مہنگے لوازمات سے مرصع بھی کیا جاتا ہے۔ ایسی تحریکوں کے نعرے اور تقاریر وقتی سیاسی مصلحتوں اور ذاتی تشخص کو ابھارنے کے گرد ہی استوار ہوتے ہیں۔ یوں تحریک نظریات کے بغیر سرمائے کے پہیوں پر بھاری بھرکم سرمایہ کاروں کے شخصی تسلط کے ماتحت رواں دواں رہتی ہے۔ اسی طرح کے سیاسی کلچر میں پارٹیوں اور قیادتوں کی نظریات سے عا ری سیاست، بے ضمیری اور کردار سے عاری پن نے نچلے درجے کی ”عوامی قیادت“ کو لوٹا ازم کو بطور کاروباریا سیاسی حکمت عملی اپنانے کی قباحت کو شہ دی ہے۔ ایک رکن قومی اسمبلی کے سامنے اپنی پارٹی اور لیڈ ر کا کردار ہوتا ہے جو جابجا اپنا موقف بدلتا رہتا ہے اور اقتدار پرستی میں بکتا رہتا ہے۔ پھر اس کو کس قسم کی ’اخلاقی ترغیب‘ متاثر کرسکتی ہے؟ اقتدار کے ایوانوں کے اندر اور باہر‘ سارا کھیل ایک ہی طرف کھیلا جا رہا ہے۔وقتی ہی سہی مگر یہی عہد کا المیہ اور معروض کا جبر ہے۔
2008-13ء کی پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران طاہر القادری کی تحریک اور دھرنا بعنوان ”سیاست نہیں ریاست بچاؤ“ لانچ کرایا گیا۔ پھر 2013-18ء کی نواز حکومت کے دوران طاہر القادری نے ماڈل ٹاؤن واقعہ اور تحریک انصاف نے پہلے دن سے ہی چار حلقوں میں دھاندلی کے نام پراور پھر موضوعات بدل بدل کر ”تحریک“ جاری رکھی۔ یکایک عالمی سطح پر پانامہ اسکینڈل آنے پر تحریک انصاف کا رخ بھی بدل گیا مگر نواز شریف کی حکومت پانامہ کی بجائے دبئی کے اقامے کے ظاہر نہ کرنے پر فارغ کردی گئی۔ یہ تحریک بھی انہی درپردہ عناصر کی شہ، مدد اور عملی اقدامات کے باعث نواز شریف کے نکالے جانے پر منتج ہوئی جنہوں نے پچھلی حکومت میں دھرنوں کی مشقیں کرائی تھیں۔ تحریک انصاف کو الیکشن سے قبل اور بعد میں انہی قوتوں کی مکمل عملی مدد حاصل رہی جن کو مسلم لیگ کے سربراہ نواز شریف ”خلائی مخلوق“ کہتے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کو 22 کروڑ لوگوں کی بجائے محض مڈل کلاس کی حمایت حاصل تھی۔ اس حمایت کی بنیاد پر پی ٹی آئی کبھی بھی اپنے طور پر حکومت نہیں بنا سکتی تھی۔ لہٰذا مقتدر اداروں نے اپنے طرز کی ”ہائبرڈ“ حکومت کی’طرح‘ رکھی۔ ایسا پاکستان میں بارہا ہوچکا تھا۔ اس بار سماج میں گزشتہ حکومتوں کے خلاف مایوسی اور غم و غصہ بھی تھا۔ مگر سب سے بڑھ کر عمران خان کے زمین و آسمان کے قلابے ملادینے والے دعووں اور وعدوں کے فریب کو امید بنا کرپیش کرنے کا دھوکہ بڑی شد ومد سے کیا گیا۔ مگر مشکل یہ تھی کہ نظام وہی تھا جس میں انتیس وزرائے اعظم بدلنے سے بھی کوئی کامیابی نہیں ملی تھی۔ پھر تیسواں وزیراعظم کسی انقلابی پروگرام کے بغیر بڑی بڑی باتوں کو انجام تک کیسے پہنچا سکتا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت کی ناکامی کم از کم ہمارے لئے قرین القیاس تھی۔ ایسا ہی ہوا۔ یہ اس بحران زدہ نظام کی حکومتوں کی ناکامیوں کا تسلسل ہے۔ اس میں ہمارے لئے نہ تو کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی حیرانی والی۔ اس حکومت میں ایک بات کچھ الگ ڈھنگ سے ہوئی کہ تمام عارضی اور جعلی بندوبست بھی بے نقاب ہو گئے۔ معاشی بدحالی اعداد وشمار کے ہیر پھیر سے نکل کر سماجی بدحالی میں اضافہ کرتے کرتے سنگین تر ہوتی جا رہی ہے۔مہنگائی نے ہرہفتے نئے ریکارڈ بنائے اور پھر اگلے ہفتے پچھلے ریکارڈ کو توڑ کر نئے ریکارڈ بنانے لگی۔ اگست 2018ء سے مارچ 2022ء تک لوگوں پر معاشی حملوں کی شدت بڑھتی ہی چلی گئی۔ ایک لمبے عرصے سے وسیع تر عوام حاوی سیاست سے اپنا ناطہ توڑ کر لاتعلق ہو چکے ہیں۔ مسلسل مہنگائی کے وار کرنے پر گہری مایوسی میں ڈوبے ہوئے عوام کا ردعمل نہ آنے کے سبب عمران حکومت اور اس کے ترجمانوں نے جھوٹ اور دروغ گوئی کے طوفان کھڑے کردیئے۔ اپنے ہر ظلم و ستم کو اپنا کارنامہ بنا کر پیش کیا۔ جس نے بھی معاشی حملوں، جبر، ناانصافی اور وعدوں کی عدم تکمیل پر آواز اٹھائی اس کو ریاستی جبر کا نشانہ بنایا گیا۔ عمران خان کی حکومت کو ”نیم مارشل لا“ کہا جا سکتا ہے۔ تمام جابر اداروں کی شراکت سے جبرمسلسل، زبان بندی، تنقیدکے حق پر پابندی، اظہار رائے اور آزادی کے تمام ذرائع پر بندشیں، میڈیا پرسنسر شپ، نام نہاد دفاعی اور ان کے ساتھ ہائبرڈ تجزیہ نگاروں کا چینلوں اور اخبارات میں حاوی کردار، اشتہارات کا حربہ، جسمانی اور معاشی حملے، مخالفین کے پروگرام بند کرانا وغیرہ ثابت کرتا ہے کہ تحریک انصاف اور اس کے ’پشت بان‘ کس قدر فاشسٹ انداز فکر کے حامل ہیں۔ تحریک انصاف کی تین سال اور سات ماہ کی حکومت کا کردار عوام پر حملے، جھوٹ، ناکامی اور پراپیگنڈہ ہی رہا۔ مڈل کلاس کے ایک حصے کی تائید کو چھوڑ کر تحریک انصاف پاکستان کی تاریخ کی ناکام اور ناپسندیدہ ترین حکومت بن چکی ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ طاقتور اداروں کی ملی بھگت، مینجمنٹ، توڑ پھوڑ، دھونس اور دھاندلی سے بنائی جانے والی حکومتیں اور دیئے گئے بھاری اور غیر بھاری مینڈیٹ والے حکمران کچھ وقت گزرنے کے بعد اپنے جعلی مینڈیٹ کو اصلی تصور کرکے‘پر پرزے نکالنے شروع کردیتے ہیں۔ یہیں سے وہ سپارکنگ شروع ہوتی ہے جو متعدد اسباب اور واقعات کے ساتھ مل کر حکومتوں کے نکالے جانے کا باعث بنتی ہے۔ کسی غبارے میں جتنی زیادہ ہوا بھری جاتی ہے‘ پھٹتے ہوئے اتنا ہی شوروغل زیادہ ہوتا ہے۔ یہ شور کچھ زیادہ بڑھا چڑھا کر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ حکمران طبقے کی پالیسی ہے کہ جعلی تبدیلیوں کا اتنا شور مچائے رکھو کہ محنت کش طبقے کے اوسان خطا ہی رہیں۔ اس شور میں ان کے حواس مفلوج رکھے جائیں تاکہ وہ حقیقی بحران اور نظام کے بانجھ پن کی پرکھ کرنے سے معذور ہی رہیں۔موجودہ حکومت کا متبادل وہی ہیں جو پچھلے پچاس سالوں سے ایک دوسرے کے متبادل بن کر سرمایہ دارانہ نظام کی وحشت ناک پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی لڑائیاں اور صلح پر مبنی اتحاد عوام کی نجات کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کی سربراہی میں حکمران سیاست اور سامراجی معیشت کو جاری رکھنے کے لئے ہیں۔ لہٰذا یہ سوال ہی سرے سے غیر اہم ہوجاتا ہے کہ حکومت رہے گی یا جائے گی۔ حکومت کس کی؟ حکومت عمران خان کی رہے یا اُن کی آ جائے جو اس سے پہلے بھی بار بار اقتدار نشین رہے ہیں‘ معاشی عدم استحکام اور عوام پر حملے جاری رہیں گے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی اداروں کی غلامی ہے۔ پاکستان جیسے نیم نو آبادیاتی ممالک میں حکومتوں کی تبدیلی عوامی ایجنڈے کے بغیر حکمران دھڑوں کے مفادات کی پاس داری تک محدود ہو چکی ہے۔جب تک محنت کش طبقہ متحرک نہیں ہوتا‘ عام شعور کو حکومتوں کے بدلاؤ کے دھوکوں اور ہٹانے اور لانے کی کشمکش کے تماشوں میں الجھانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ تاریخ کی آنکھیں اس محنت کش طبقے کی طرف مرکوز ہیں جس کے حرکت میں آئے بغیر صرف چہرے بدلیں گی۔ جب محنت کش طبقہ تاریخ کے میدان میں اترے گا تب ہی حقیقی تبدیلی کی طرف پہلا قدم اٹھے گا۔