شیراز مل
پاکستان عالمی طاقتوں کے باہمی تذویراتی اور سامراجی متضاد مفادات کے ٹکراؤ کا مرکزی نقطہ بن کر شدید خلفشار کا شکار بن گیا ہے۔ جبکہ انہی خارجی تضادات کے نتیجے میں ریاست اپنی داخلی ٹوٹ پھوٹ، عدم استحکام اور وسیع پیمانے کے انتشار کی حالت میں ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔ بحرانات کی شکار نحیف معاشی حالت اور دیوہیکل و تاریخی مالیاتی خساروں کے باعث حکمرانوں کے مختلف گروہ اور ریاستی ستون گومگو کی کیفیت میں رہ کر کوئی بھی فیصلہ کرنے کی طاقت کھو چکے ہیں۔ کسی بھی فیصلہ کن قدم اٹھانے کے نتیجے میں ان دیکھے انتشار اور بدنظمی کی آگ کو چنگاری مل سکتی ہے۔ یہاں تک کہ 3 اپریل سے مملکت خداداد کسی حکومت نام کی شئے کی عدم موجودگی میں چل رہی ہے۔
پاکستانی حکمرانوں نے اپنے مغربی بارڈر سے کسی سیاسی یا عسکری مداخلت سے بچاؤ اور خود ڈیورنڈ لائن کی حیثیت پر کسی سوال کے اٹھنے سے بچنے کی خاطر تذویراتی گہرائی کی پالیسی تشکیل دی۔ اس پالیسی کے تحت افغانستان میں اپنی پراکسی قوتوں کی تخلیق کی اور انہیں جنگی تربیت دے کر مسلح کیا۔ سوویت یونین اور افغان انقلابی حکومت کے خلاف افغان ڈالر جہاد کے دنوں میں امریکہ و سعودی یہ خرچ برداشت کرتے رہے لیکن پھر سامراج نے افیون اور منشیات کی سمگلنگ کی اربوں ڈالر کی متبادل ہائبرڈ معیشت کھڑی کر دی جس سے یہ پراکسیاں ڈالر مجاہدین کی صورت میں خوب پھلی پھولیں۔ منشیات کی سمگلنگ اور اس سے حاصل ہونے والے کالے دھن نے امریکی سی آئی اے اور پاکستان کے اداروں میں بھی سرایت کر لی۔ چار عشروں سے زیادہ کے عرصے میں اس کالے دھن کے کاروبار اور گوریلا جنگ نے اس خطے میں ایک پوری غیر مرئی ریاست کو جنم دیا۔ اس ریاست کے اپنے مسلح جتھوں، جاسوسی کے اداروں، اپنی عدلیہ، اپنے قوانین اور قاعدوں اور حکمرانی کے اداروں کی درجہ بندی تشکیل پائی۔ یہ غیر مرئی ریاست افغانستان اور پاکستان کی ڈیورنڈ لائن کے ساتھ ملحقہ علاقوں تک پھیلتی گئی جبکہ اس کے سیاسی اثرات پاکستانی حکمرانوں کے ایوانوں پر پڑنے میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہوتا گیا۔ ضیا مارشل لا کی طوالت ہو یا اس کی موت، جونیجو حکومت کا خاتمہ ہو یا بینظیر کی پہلی بے اختیار حکومت کی کیفیت، آئی جے آئی کی تشکیل ہو یا نواز کو اقتدار کی حوالگی، مشرف کے مارشل لا کا تسلسل ہو یا ایم ایم اے کو جنم دینے کی ضرورت اور آج پاکستانی ریاست کے آئینی اور سیاسی بحران کا مظہر… تمام کے تمام واقعات پر اسی غیرمرئی ریاست، اس کے کالے دھن اور سامراجی ریاستوں کے ساتھ اس کے تعلقات کی چھاپ نظر آتی ہے۔ نائن الیون کے بعد اس غیرمرئی ریاست کے ہاتھوں روس کے انٹیلی جنس تعاون کے ساتھ امریکہ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں یہ غیر مرئی ریاست ایک سقوط خوردہ و برباد ملک کے اقتدار پر نمودار ہوئی جبکہ امریکہ کی اس خطے میں سامراجی و عسکری موجودگی سکڑ کر محدود ہونے لگی۔ امریکی سامراج کی اسی شکست خوردگی، بے بسی اور سکڑنے کی کمزور حالت نے دیگر عوامل کے ساتھ روس کا یوکرائن پر حملہ کروانے اور سامراجی عسکری اتحاد نیٹو کو اپنی سرحد سے دور کرنے کا راستہ ہموار کیا۔
سرمایہ دارانہ نظام کے 2008ء سے گہرے اور وسیع مالیاتی و معاشی بحران نے تقریباً پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کمزور ہوتی ہوئی سرمایہ دار ریاستوں کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے کرنٹ اکاؤنٹ اور بجٹ خساروں کا بوجھ کٹوتیوں یا سادگی کے نام پر محنت کش طبقے کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے۔ نجکاری، ٹھیکے داری، پنشن و سماجی بہبود کے فنڈز میں کٹوتی، بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے اور صحت و علاج سے ریاستی دست کشی کے ظالمانہ اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سرمایہ دار ریاستیں (بشمول نام نہاد سوشل ویلفیئر ریاستیں) عوام پر ننگی جارحیت پر اتر آئی ہیں۔ بحران کے آغاز اور اس کے اثرات (کٹوتیاں) کے خلاف محنت کشوں اور نوجوانوں کی کئی تحریکیں عالمی پیمانے پر پھوٹیں۔ پاپولسٹ نعرے بازی کے بازیگروں نے ان تحریکوں کو کیش کیا اور اقتدار کے سنگھاسن پر جب براجمان ہوئے تو انہوں نے سرمایہ داروں کی روایتی دائیں بازو کی لیڈرشپ سے بڑھ کر سامراجی گماشتگی میں عوام دشمن اقدامات کیے۔ یونان و سپین اس کی کلاسیکی شکلیں ہیں جبکہ کسی حد تک پاکستان میں عمران خان کی تحریک انصاف اس کی ایک مسخ شدہ شکل تھی۔ انہوں نے سرمایہ داروں کے شرح منافع کو قائم رکھنے کے لئے محنت کش عوام کے جسم سے خون تک چوس لیا۔ عالمی سطح پر معاشی بحران کے مزید گہرے ہو جانے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری، مہنگائی اور لا علاجی کو نظام کے نقائص و ناکامی قرار دینے کی بجائے مہاجرین، آبادکاروں یا دیگر کمزور طبقوں اور گروہوں کو موردِ الزام ٹھہرانے والی نیم فسطائی طاقتوں کو سیاسی افق پر ابھرنے کا موقع ملا۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ نے رسد کے پورے نظام کو توڑ کر پہلے سے معاشی بحران کو مزید گہرا کیا۔ اس وائرس سے نبردآزما ہونے کی بجائے سرمایہ دار ریاستوں نے اسے محنت کش عوام کو قابو میں کرنے اور تحریکوں کو زائل کرنے کے ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا۔
اسی عالمی معاشی بحران اور اس خطے کے مخصوص حالات کے ارتقا کے پس منظر میں پاکستانی ریاست اپنی تاریخ کے سب سے گہرے و ہمہ جہت معاشی، سیاسی، سفارتی، ریاستی اور مالیاتی بحرانات کا شکار ہے۔ عدم استحکام اور ہر سطح پر ٹوٹ پھوٹ ایک معمول بن کے رہ گیاہے۔ حکمرانوں کی تاریخی کمزوری، نااہلی اور سامراجی دلالی کی وجہ سے نہ صرف ملکی سر زمین مخالف و متصادم سامراجی قوتوں کی پراکسی جنگوں کا اکھاڑہ بن چکی ہے بلکہ حکمرانوں کے ایوان اور ریاستی ادارے بھی ان سامراجی قوتوں کے متضاد سامراجی مفادات کے بیچ پولرائزیشن کی نئے حدوود کا شکار ہو گئے ہیں۔ عمران خان کی تحریک انصاف اور اس کی رہبری میں شامل نو دولتیوں، جن میں جرنیل بھی شامل ہیں، سے ریاست کا ایک بڑا حصہ واقعتا یہ سنجیدہ امید لگائے بیٹھا تھا کہ سرمایہ داروں کا یہ دھڑا ملکی معیشت کو استحکام بخشے گا۔ کرپشن کا خاتمہ اور سیاسی لیڈرشپ کی حد تک لوٹ کا سرمایہ وطن واپس لا کر ملک میں سیاسی و سماجی استحکام اور خوشحالی لائے گا۔ لیکن بحرانات میں گھری نحیف معیشت، ریاستی انتشار اور نو دولتیوں کی خود غرضانہ، بیہودہ اور لمپن نفسیات سے اس امید کا عبث ٹھہرنا ناگزیر تھا کیونکہ یہ نودولتیے کوئی پیداوار دیئے بغیر اور صنعتی تعمیرات اور سماجی انفراسٹرکچر کا کشت اٹھائے بنا پیسہ بنانے کے جنون میں گرفتار انتہائی سفاک لوگ ہوتے ہیں۔ زمینوں پر قبضے، ہاؤسنگ سکیموں کی تعمیر، ذخیرہ اندوزی اور مختصر مدت کی سرمایہ کاری سے بڑا منافع کمانے سے آگے یہ سوچ ہی نہیں سکتے۔ کمزور شخصیت اور عدم تحفظ کی نفسیات کے تحت یہ اپنے آقا بدلنے میں تھوڑی سی بھی ہچکچاہٹ اور دیر نہیں لگاتے۔ عمران خان کو جو اقتدار ریاست کے تعاون اور امریکی آشیرباد سے ملا تھا وہ ایسے ہی نو دولتیوں کے سفاک مافیاز پر مبنی حکومت تھی۔ انصافی حکومت میں شامل ان نو دولتیوں کے مافیاز نے مذکورہ بالا شعبوں کے ذریعے اربوں کی دولت کمائی، کرپشن اور رشوت کا بازار بام عروج پر رہا۔ عمران خان اور اس کی مافیوزی حکومت کو ریاست کی بھرپور مدد اور سرپرستی اس وقت تک میسر رہی کہ جب تک خطے اور ملک کی داخلی صورت حال میں ایک توازن رہا۔ یہ توازن اس وقت بگڑنا شروع ہوا کہ جب افغانستان میں امریکی شکست اور طالبان کے اقتدار پر قبضے کے ساتھ ہی پاکستانی ریاست پر امریکہ اور مختلف سامراجی اداروں کا دباؤ بڑھتا چلا گیا۔ جبکہ ریاست کا ایک دھڑا طالبان کی اقتدار تک رسائی کی جیت کی خوشی سے سرشار تھا اور برسراقتدار پاکستانی حکومت کے بظاہر سربراہ عمران خان، جسے طالبان کے ساتھ شدید ہمدردی کی بنیاد پر سیاسی مخالفین طالبان خان بھی کہتے رہے ہیں، طالبان کی عالمی تنہائی کے خاتمے، ان کی عالمی پیمانے پر معاشی امداد اور مغرب سے ان کے سفارتی تعلقات کی استواری کے لئے سرگرم رہا۔ اس طرح ریاست کے ایک طاقتور حصے اور عمران حکومت کے بیچ دراڑ پڑ گئی۔ اس سے قبل بھارت کے ساتھ تعلقات اور امریکہ کے ساتھ خارجہ پالیسی پر اختلافات بھی موجود رہے۔ یہ دراڑ اس وقت مزید وسیع ہوئی کہ جب فوج کے سربراہ نے کلیدی انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ کو اس ادارے کی سربراہی سے ہٹانے کی سمری وزیر اعظم کو بھیجی جسے وزیر اعظم نے کئی ہفتوں کی تاخیر کے ساتھ بڑے زدی اور متذبذب انداز سے منظور کیا۔ شاید یہ وہی حاصل کردہ وقت تھا جس میں حکومت نے اپنی خارجہ پالیسی کو مکمل شفٹ دینے، مغربی بلاک سے دوری اور مشرقی بلاک روس، چین، ایران وغیرہ کے ساتھ قربت کی حکمت عملی بنائی۔ ساتھ میں عمران کو اقتدار کا ایک اور ٹرم دلانے کے لئے کلیدی انٹیلی جنس ایجنسی کے مذکورہ بالا سربراہ، جس نے 2018ء میں عمران خان کو اقتدار دلانے میں مدد کی تھی، کو فوج کا سربراہ بنانا لازمی تھا(اور اس کے سربراہ بننے کے لئے اس حکومت کا قائم رہنا ضروری تھا)۔ اسی حکمت عملی کو جاری رکھنے اور عملی جامہ پہنانے کے لئے وہ عمران جو آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کے معاہدے کو ممکن بنانے کے لئے امریکی غلامی کی انتہا میں گرتے ہوئے سی پیک پر سابقہ حکومتوں کے چین کے ساتھ کیے گئے نیم خفیہ معاہدے نہ صرف آئی ایم ایف کے سامنے ظاہر کر چکا تھا بلکہ چین کے تمام پراجیکٹوں کو تقریباً بند کرنے کے قریب لے گیا تھا اور جس نے آئی ایم ایف کے قرض کی سنگین عوام دشمن شرائط من و عن تسلیم کرتے ہوئے مہنگائی کا سونامی کھڑا کر دیا تھا، محنت کشوں پر بیروزگاری، نجکاری اور کالے قوانین کی یلغار کر دی تھی اور سٹیٹ بینک تک آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا تھا… وہی عمران خان خارجہ پالیسی پر بھی یو ٹرن لے گیا۔ اس نے روس کا ایک ایسے وقت میں خودساختہ دورہ کیا کہ جب روس اور نیٹو کے درمیان یوکرائن کے اوپر تنازعہ تصادم کے دھانے پر کھڑا تھا۔ عمران کے دورے کے دوران ہی روس نے یوکرائن پر چڑھائی کر دی۔ ایسی حالت میں پاکستانی وزیر اعظم کی روس کے دارالحکومت ماسکو میں موجودگی نے امریکا اور نیٹو ممالک کو مشتعل کیا۔ ان سامراجی ممالک نے عمران کے دورے کو روس کی یوکرائن پر جارحیت کی حمایت قرار دیا اور پاکستانی فوج کے سربراہ کو، جو انہی دنوں مغربی یورپ میں تھا، مختلف طریقوں سے اپنی ناراضگی ظاہر کروائی۔ اس طرح فوج کی باضابطہ قیادت اور عمران حکومت کے بیچ ایک نہ پاٹا جا سکنے والا خلیج حائل ہوا۔ کابل پر طالبان کے قبضے سے لے کر عمران کے روس کے دورے تک کے عرصے میں پاکستانی ریاست و سیاست میں بے انتہا اتھل پتھل ہوئی۔ اپوزیشن کی پارٹیاں جو پی ڈی ایم کے نام سے ایک اتحاد میں اکٹھی ہوئی تھیں اور سال پہلے یہ اتحاد شدید شکست و ریخت کا شکار ہو چکا تھا جسے تقریباً ناکامی کے قبرستان میں دفنا دیا گیا تھا، اچانک اہمیت اختیار کر گیا۔ مختلف ملاقاتوں، وعدوں، قسموں، معافیوں اور تلافیوں کے بعد اس اتحاد نے کھڑے ہو کر خود کو جھاڑا اور ریاست کے ایک طاقتور حصے کی پشت پناہی اور مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں ایک نئے عزم کے ساتھ عمران حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے میدان میں اترا۔ اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے اپنے اپنے بے نتیجہ و بے ثمر لانگ مارچ کیے جبکہ آخر میں اپوزیشن پارٹیوں کا یہ اتحاد عمران حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے پر متفق ہوا۔ تحریک کی قراداد پارلیمان میں جمع ہوئی۔ حکومتی اتحادی پارٹیاں ایک ایک کر کے حکومت سے علیحدہ ہوئیں۔ حکومت اکثریت کھو بیٹھی۔ حکومت نے اجلاس بلانے میں جو غیر ضروری تاخیر کی اس سے حکومتی عزائم کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ طبقاتی نظام خصوصاً پسماندہ ممالک میں آئین، قانون اور سرمایہ دارانہ جمہوریت حکمرانوں کا صرف ایک ڈھکوسلہ ہی ہوتا ہے۔ عمران نے پارلیمنٹ میں قرارداد کو اپنی حکومت کے خلاف امریکی سازش، اپوزیشن کو اس سازش کا حصہ اور غدار قرار دے کر اپنے ایک چیلے ڈپٹی سپیکر کے ذریعے عدم اعتماد کی قراداد ہی مسترد کروا دی۔ ملک میں پہلے سے ہی چلے آ رہے ہمہ جہت بحران نے نئی گہرائیاں اور نئی وسعتیں ریکارڈ کرنا شروع کیں۔ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کی درستگی یا عدم درستگی پر عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کے سو موٹو نوٹس کے تحت انہی کی سربراہی میں کاروائی چل رہی ہے۔ جس کا فیصلے کل یا اگلے کچھ دنوں میں متوقع ہے۔ اس فیصلے میں یہ تاخیر بھی ریاست کی دھڑے بندی اور انتشار کی غمازی کر رہی ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کے مستقبل قریب کے حالات کا تعین کرنے میں بنیادی کردار ادا کرے گا۔ بہرحال فیصلہ کسی بھی فریق کے حق میں ہو عدم استحکام اور انتشار میں اضافہ ہی ہو گا۔
متوقع فیصلے میں دو اہم امکانات ہیں۔ زیادہ امکانات ہیں کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو خلاف دستور و ضابطہ قرار دے کر اسمبلی بحال اور عدم اعتماد پر دوبارہ ووٹنگ ہو۔ اسمبلی کی بحالی اور عدم اعتماد کے عمل کے بعد عمران نئی حکومت کے خلاف استعفوں، احتجاجوں، دھرنوں، مظاہروں، بدتمیزیوں اور انتشار کی حالت پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کر سکتا ہے۔ اگر چہ اپنی تقریباً چار سالہ حکومت میں اس کی لوگوں کو اکٹھا کرنے اور احتجاج میں لانے کی سکت میں خاصی کمی آ چکی ہے۔ لیکن امریکہ پر اپنی حکومت گرانے کی سازش اور اپوزیشن کے امریکہ کے ساتھ گٹھ جوڑ اور غداری کے بیانیے میں بالخصوص مڈل کلاس اور سماج کی پسماندہ پرتوں کے حوالے سے کافی توانائی موجود ہے۔
دوسرا متوقع فیصلہ جس کے امکانات کم ہیں وہ سپیکر کی رولنگ کو بہرصورت درست قرار دے کر تین مہینوں کے اندر انتخابات کے فیصلے کی توثیق ہے۔ اس صورت میں پہلی لڑائی بار اور بینچ کے درمیان کھل سکتی ہے۔ اس کے ساتھ پی ڈی ایم انتخابات کے فوری انعقاد کے خلاف بھرپور احتجاجی تحریک چلا سکتی ہے۔بائیکاٹ وغیرہ کا راستہ بھی اپنا سکتی ہے۔ بحران اور انتشار کے ان حالات میں پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک عدم استحکام کو نئی بلندیوں تک لے جا کر بہت بڑے پیمانے پر خلفشار کو جنم دے سکتی ہے جس کا انت ریاست کی مداخلت پر ہی ہو گا۔ اس دوران ریاستی دھڑوں کا ٹکراؤ کھل کے سامنے بھی آ سکتا ہے اور ایسے واقعات بھی جنم لے سکتے ہیں جن کا اندازہ ابھی انہیں بھی نہیں جو ان واقعات کا حصہ ہوں گے۔
سرمایہ داری کی جمہوری شکل ہو یا آمریت‘ یہ اپنے نامیاتی بحران کی سب سے بھیانک اور قبیح صورت میں نسل انسان کو ہر خطے میں برباد کر رہی ہے۔ اربوں انسان خوراک کی کمی کے شکار ہیں۔ جہالت، مفلسی، تنگ دستی اور لاعلاجی کا دیو ہر جگہ وحشت میں رقصاں ہے۔ سرمایہ داری کے پاس تباہی، موت اور ذلت کے سوا دینے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ محنت کشوں کے لئے اسے اکھاڑ پھینکنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ اگر اسے اکھاڑا نہ گیا تو یہ نسل انسان کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گی۔