آصف رشید
یوکرائن جنگ روسی اور امریکی سامراج کے توسیع پسندانہ عزائم اور مخاصمت کا نتیجہ ہے جو اب بڑے پیمانے پر انسانی المیے کو جنم دے رہی ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعدمغربی سامرجیوں کی مشرقی یورپ سمیت پوری دنیا میں اپنے مفادات کے تحت کی جانے والی مداخلت نے مسلح تصادم، پراکسی جنگ، سامراجی جارحیت اور شدید عدم استحکام کو جنم دیا ہے۔ امریکی سامراج کی عراق، افغانستان اور شام میں ذلت آمیز شکست نے علاقائی سامراجی طاقتوں کو مداخلت کے مواقع فراہم کیے جس کی وجہ سے ان خطوں میں ایک خونریز اور طویل خانہ جنگیوں ا ور پراکسی جنگوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ عالمی معاشی بحران کے نتیجے میں امریکہ کے چین اور روس جیسے ممالک کے ساتھ تضادات نے تجارتی جنگ اور علاقائی بالادستی کی جنگ کی شکل اختیار کر لی ہے جو آنے والے عرصے میں زیادہ شدید تر ہو گی۔ اس نظام میں نئے بحرانات، خانہ جنگیاں اور پراکسی جنگیں مستقل طور پر موجود رہیں گی۔
یوکرائن میں جاری جنگ مغربی سامراجیوں کی اشتعال انگیزی کا نتیجہ ہے۔ روس نے یوکرائن پر فوج کشی کر کے اپنی علاقائی بالادستی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ در اصل یہ جنگ اپنی ابتدائی شکلوں میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد ہی شروع ہو چکی تھی۔ جس میں امریکی سامراج اپنے دم چھلے نیٹو ممالک کے ساتھ مل کر مشرقی یورپ میں روسی اثر و رسوخ کے خاتمے کے لیے تگ و دو کر رہا تھا۔ امریکی سامراج اور روس کے درمیان یہ چپقلش 2014ء میں اس وقت شدت اختیار کر گئی جب امریکہ نے یوکرائن میں روس نواز صدر کا تختہ الٹ کر فسطائی قسم کے قوم پرستوں کو برسر اقتدار ہونے میں مدد دی۔ جس کا فوری نتیجہ یوکرائن کے مشرقی علاقے میں خانہ جنگی کی صورت میں نکلا اور یوکرائن کے حصے بخرے ہونا شروع ہو گئے۔ اس خانہ جنگی میں 14 ہزار سے زاہد سویلین لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں اور تقریباً 25 لاکھ لوگوں کوروس کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ 2015 ء میں جرمنی اور فرانس کی مدد سے جنگ بندی کا معاہدہ ہوا جسے ’منسک معاہدہ‘ کہا گیا اور اسے یو این سکیورٹی کونسل کی حمایت حاصل تھی۔ یوکرائن کی رجعتی حکومت مغربی سامراجیوں کی عسکری امداد کے ساتھ ڈونباس کے علاقے میں مسلسل سویلین آبادی پر جارحیت کرتی رہی اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتی رہی۔ روسی سامراج بھی اس جارحیت کو بنیاد بنا کر ڈونباس کے علاقے میں روسی زبان بولنے والوں کے تحفظ اور خود مختاری کے نام پر اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو بڑھاوا دیتا رہا ہے۔ جس سے اس علاقے میں مسلسل ایک خانہ جنگی جاری رہی ہے۔ یوکرائن پر جارحیت اور روسی زبان بولنے والے علاقوں میں روسی سامراج کی مداخلت کا کردار بھی انتہائی رجعتی اور خونریز ہے جس کا ایندھن یوکرائن کے عام محنت کش بنتے ہیں۔ یہ جنگ پہلے سے بد حال محنت کشوں پر قہر بن کر ٹوٹ رہی ہے۔ دوسری طرف مغربی سامراجیوں کی اشتعال انگیزی اور توسیع پسندی بھی اس آگ اور خون کی لڑائی کو شدید تر کر رہی ہے۔ نیٹو میں شمولیت کی واردات، نیو لبرل معاشی نسخوں اور سامراجی امداد کے در پردہ اپنے گھناؤنے سامراجی ایجنڈے کی تکمیل ان کے مقاصد رہے ہیں۔
1991ء کے بعد امریکہ یوکرائن کو مسلسل فوجی امداد اور اسلحہ فراہم کرتا رہا ہے۔ 1991ء سے 2014ء تک امریکہ نے یوکرائن کو 3.8 ارب ڈالر کی فوجی امداد دی جبکہ ا س کے بعد 2021ء تک مزید 2.4 ارب ڈالر کی فوجی امداد دی گئی۔ اس کے علاوہ دیگر نیٹو ممالک کے ساتھ مل کر فوجی امداد کا سلسلہ نہ صرف جاری رہا بلکہ یوکرائنی فوج کی تربیت اور مقامی حکومت کے ذریعے فسطائی نازی تنظیموں (ایزوو بٹالین جو کہ ایک داعش کی طرز کی عسکری فاشسٹ تنظیم ہے) کو افرادی قوت اور ٹریننگ کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس سلسلے میں مزید شدت آئی۔ موجودہ جنگ شروع ہونے کے بعد امریکہ نے اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر بہت بڑی مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود کی سپلائی جاری رکھی ہوئی ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں میں امریکہ نے ایک ارب ڈالر کی فوجی امداد دی ہے اور مزید 6.5 ارب ڈالر کی امداد دینے کا عندیہ دیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ اپنے سامراجی مفادات کی تکمیل کے لیے اس جنگ کو طوالت دینے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ ایک بات طے ہے کہ یوکرائن مغربی سامراجیوں کی براہ راست فوجی مداخلت جس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں کے بغیر جنگ نہیں جیت سکتا۔ نیٹو ممالک کی اسلحہ کی سپلائی کی وجہ سے جنگ زیادہ طوالت اختیار کرتی جا رہی ہے جو روس کو زیادہ جارحانہ جنگ مسلط کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔مغرب کی طرف یوکرائنی فوج کو فراہم کردہ جدید ترین اینٹی ٹینک اور اینٹی ایئر کرافٹ ہتھیار روسی فوج کے لیے انتہائی ڈراونا خواب ثابت ہو رہے ہیں۔
ابتدا میں بہت سے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ روس آسانی سے یوکرائن کے اہم شہروں اور تنصیبات کا محاصرہ کر کے ان کو مذاکرات کی میز پر لا کر اپنی مرضی کے نتائج لینے میں کامیاب ہو جائے گا۔ لیکن اب حقیقت کافی مختلف بلکہ متضاد نظر آ رہی ہے اور جو ہو رہا ہے اس کا امکان ہم نے انہی صفحات میں پیشگی بیان کیا تھا۔ نیٹو ممالک کی طرف سے بھاری اسلحے کی فراہمی نے روسی پیش قدمی کو کافی سست کر دیا ہے۔ بلکہ یہ کم و بیش رک چکی ہے۔ حالیہ کچھ دنو ں میں روسی افواج کو بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ 15 اپریل کو ایک روسی بحری بیڑے کا پرچم بردار جہاز ڈوب گیا جس میں 510 عملے کے ارکان سوار تھے۔ یوکرائن کا کہنا ہے کہ یہ جہاز یوکرائنی حملے کے نتیجے میں ڈوبا ہے جبکہ روسی شرمندگی سے بچنے کے لیے اس کی تردید کر رہے ہیں۔ اور فرسٹریشن میں وہ پورے کے پورے یوکرائنی شہروں کو ملبے کے ڈھیروں میں بدلنے کی پالیسی اپنا رہے ہیں جیسا کہ پہلے گروزنی (چیچنیا) اور حلب (شام) میں اپنا چکے ہیں۔ بلکہ ان شہروں میں روسی جنگوں کی کمان کرنے والا جرنیل ہی یوکرائن میں روسی افواج کی قیادت کر رہا ہے۔ جنگ جو نوعیت اور شدت اختیار کر رہی ہے اس سے لگ رہا ہے کہ یہ جنگ زیادہ طوالت اختیار کر ے گی جس میں تباہی اور بربادی مزید لاکھوں لوگوں کو لقمہ اجل بنا سکتی ہے یا انہیں معاشی اور سماجی طور پر برباد کر سکتی ہے۔ روس جس اعتماد کے ساتھ یوکرائن پر حملہ آور ہو ا تھا اب حالات تبدیل ہو رہے ہیں اور روس کا اس جنگ میں سے نکلنا اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر نا اب مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ جنگ کے اپنے اصول و قوانین ہوتے ہیں۔ آپ اسے شروع تو کر سکتے ہیں لیکن اس کو ختم کرنا آپ کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ روس ابھی تک بہت محتاط انداز میں آگے بڑھ رہا تھا لیکن اس جنگ کو جیتنا اور جلدی ختم کر نا اب اتنا آسان نہیں ہے۔
یوکرائن میں جنگ کے اثرات نہ صرف یوکرائن اور روس کے غریب محنت کشوں پر پڑیں گے بلکہ دنیا کے سات ارب انسان اس سے متاثر ہوں گے۔ اس جنگ کے باعث کورونا سے تباہ حال معیشت مزید مسائل کا شکار ہو گئی ہے۔ جنگ کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ پوری دنیا میں افراط زر کا باعث بن رہا ہے۔ جس سے غریب ممالک کی معیشتیں شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ یوکرائن سے اس وقت تک 30 لاکھ لوگ ملک چھوڑ کر یورپ کی طرف ہجرت کر چکے ہیں۔ اور تقریباً 60 لاکھ لوگ ملک کے اندر ہجرت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں جس سے یورپ کے اندر مہاجرین کا ایک نیا بحران کھڑا ہو گا جس کے اثرات پورے خطے پر پڑیں گے۔ ہر جنگ میں سب سے پہلے زندگی اور روزگار تباہ ہوتا ہے۔ جنگ کی تباہی کے باعث ابھی تک ایک سو ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے اور ملک کی آدھی برآمدات کا انحصارمار یوپول کی بندگاہ پر منحصر ہے جو اس وقت مکمل بندش کا شکار ہے۔ یوکرائن افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے بہت سے ممالک کو گندم اور دیگر زرعی اجناس فراہم کرتا ہے۔ اس جنگ کے باعث مشرق وسطیٰ میں خوراک کا شدیدبحران پیدا ہو گا۔ آئی ایم ایف کے تخمینے کے مطابق یوکرائن کی سالانہ پیداوار میں کمی 35 فیصد تک جا سکتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مشرقی یورپ میں سب سے بدترین حالات یوکرائن کے لوگوں کے ہیں۔ جنگ کی طوالت غربت، ذلت اور محرومی میں ہوشربا اضافے کا باعث ہی بنے گی۔
یہی صورتحال روس میں بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ روسی جارحیت کے نتیجے میں معاشی پابندیوں میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ بینکوں پر پابندیوں، بیرون ملک ملکی زرمبادلہ کو سیز کرنے اور تیل اور گیس کی برآمدات پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ ان پابندیوں کے ذریعے روس کی جنگی صلاحیت کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پہلے سے بحران زدہ روسی معیشت نئی پابندیوں کے نتیجے میں مزید برباد ہو گی۔ بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہو گا۔ جنگ کی قیمت بھی روسی محنت کش طبقہ ہی ادا کرے گا۔ عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق روس کا معاشی سکڑاؤ 15 فیصد ہونے کے امکانات ہیں۔ فی الوقت روس کی یورپ کو گیس کی سپلائی جاری ہے لیکن سامراجیوں کی طرف سے مزید پابندیوں کے نتیجے میں روس گیس کی سپلائی بند بھی کر سکتا ہے جس سے پہلے سے افراط زر کا شکار یورپی معیشت مزید تباہی کی طرف جائے گی۔
یہ دو سامراجی کیمپوں کے درمیان لڑی جانے والی ایک رجعتی جنگ ہے جس میں رو سی اور مغربی کیمپ اپنے اپنے سامراجی مفادات کے تحفظ کے لیے یوکرائن اور روس کے محنت کش طبقے کو جنگ کا ایندھن بنا رہے ہیں۔ یوکرائن کا صدر ولادیمیر زیلنسکی مغربی سامراجیوں کا دم چھلہ اور گماشتہ بن کر جعلی حب الوطنی کا استعمال کر رہا ہے اور ولادیمیر پیوٹن روسی زبان بولنے والوں کا نجات دہندہ بن کر اپنی جارحیت کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ ہم ہر اس جنگ کی مخالفت کرتے ہیں جو محنت کش طبقے کو تقسیم کرنے کا باعث بنتی ہے اور سامراجی مفادات کی تکمیل کرتی ہے۔ ہم صرف ایک جنگ کی حمایت کرتے ہیں اور وہ ہے طبقاتی جنگ۔ جو اپنے اپنے ملکوں میں حکمران طبقے کے خلاف محنت کشوں کو لڑنی ہے۔