اداریہ جدوجہد

معاشروں کے ارتقا کے سفر میں ایسے موڑ بھی آتے ہیں جو اگلے طویل عرصوں کے لئے ان کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔ اس حوالے سے موجودہ حالات کو سمجھنے اور مستقبل کا تناظر تشکیل دینے کے لئے کئی گزرے واقعات انتہائی اہمیت کے حامل ہو جاتے ہیں۔ ایسے واقعات کو بار بار زیر بحث لانے کی ضرورت اس لئے بھی ہمیشہ رہتی ہے کہ ان کے اسباق نئی نسل تک منتقل کیے جائیں۔ کیونکہ ماضی کے بغیر کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ 1978ء کا ثور انقلاب ایسا ہی ایک واقعہ ہے جو نہ صرف افغانستان بلکہ اس پورے خطے کے موجودہ حالات کی تشکیل میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے جانے، سمجھے اور پرکھے بغیر یہاں کسی انقلابی لائحہ عمل کی ترتیب بہت محال ہو جاتی ہے۔ اس حوالے سے یہاں کے بائیں بازو میں جہاں بہت سے ابہام موجود ہیں وہاں یہ ایک المیہ ہے کہ اس خطے سے باہر کے بیشتر انقلابیوں کو اس تاریخی واقعے کا سرے سے علم ہی نہیں ہے۔ جہاں سٹالنزم نے ہمیشہ کی طرح اس انقلاب کے کردار کو مسخ کرنے کی کوشش کی وہاں سامراجیوں نے اسے تاریخ کے اوراق سے ہی کھرچ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سرکاری کتابوں اور نصابوں میں افغانستان میں خانہ جنگی کا آغاز 24 دسمبر 1979ء سے ہوتا ہے۔ جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں۔ اس سے پیچھے اپریل 1978ء تک کا سارا وقت ہی تاریخ سے غائب کر دیا گیا ہے۔ بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ افغانستان میں ڈالر جہاد کا آغاز امریکی سامراج نے روسی فوجوں کے داخلے سے تقریباً چھ ماہ قبل جون 1979ء میں ہی کر دیا تھا۔ جس کا بنیادی مقصد 27 اپریل 1978ء کو سردار داؤد کی رجعتی اور عوام دشمن آمریت کو اکھاڑ کر نور محمد ترکئی کی قیادت میں برسراقتدار آنے والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (PDPA) کی انقلابی حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔ ایک انقلابی سرکشی کے ذریعے’پی ڈی پی اے‘ کی حکومت کا قیام خطے میں ایک ایسی تبدیلی تھی جس نے اسلام آباد سے لے کے ریاض اور برسلزسے لے کے واشنگٹن تک سامراجی ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی تھیں۔ برسر اقتدار آنے کے بعد اس انقلابی حکومت نے افغانستان کو صدیوں کی ظلمت،پسماندگی اور جہالت سے نکالنے کا بیڑہ پوری جرات اور بے باکی سے اٹھایا۔ نسل در نسل غریب دہقانوں کو ذلت اور غربت میں غرق رکھنے والے سودی قرضوں کی تنسیخ، جاگیرداروں کی زمینوں کی مزارعوں میں تقسیم، عورتوں کیساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کرنے والے قوانین کا خاتمہ اور ایسی رجعتی روایات پر پابندی، ریاست کی مذہب سے علیحدگی، خواندگی کے ہنگامی پروگرام، علاج اور تعلیم کی مفت فراہمی کے منصوبے، پانی کی منصفانہ تقسیم، صنعتکاری کا آغاز… یہ ایسے ریڈیکل اقدامات تھے جو پورے خطے میں حکمران طبقات اور سامراج کے مفادات کے لئے خطرہ بن رہے تھے اور دنیا بھر کے محنت کشوں کے لئے ایک حوالہ بن کے مزید سرکشیوں کو بیدار کر سکتے تھے۔ دوسری طرف سوویت افسر شاہی بھی اپنے ہمسائے میں ایک آزاد اور صحت مند انقلابی حکومت کے قیام سے پریشان تھی۔ عام تاثر کے برعکس ثور انقلاب‘ سوویت افسر شاہی کی منشا اور علم کے بغیر برپا ہوا تھا۔ چنانچہ وہ نئی انقلابی حکومت کو اپنے تسلط اور کنٹرول میں لا کے اپنے ماڈل کے مطابق ڈھالنا چاہتے تھے۔ اس المیے سے بھی کم ہی لوگ واقف ہیں روسی فوجوں نے افغانستان میں داخل ہو کے پہلی گولی حفیظ اللہ امین پہ چلائی۔ جو اس وقت انقلابی حکومت کے سربراہ تھے۔ اس سے قبل انقلاب کے قائد نور محمد ترکئی صدارتی محل میں پراسرار طور پہ مردہ پائے گئے تھے۔ گمان کیا جاتا ہے کہ انہیں بھی سوویت ’کے جی بی‘ نے قتل کروایا تھا۔ یوں سوویت افسر شاہی نے اپنے منظورِ نظر ببرک کارمل (جس کا تعلق پارٹی کے مخالف دھڑے ’پرچم‘ سے تھا) کو اقتدار پر براجمان کروایا۔ سوویت فوجوں کی آمد نے پاکستانی ریاست کے ذریعے سی آئی اے کی زیادہ کھلی اور جارحانہ مداخلت کی راہ ہموار کی۔ جس میں رجعتی خلیجی بادشاہتوں کے تعاون سے جو جہادی گروہ پروان چڑھائے گئے وہ 1988ء میں سوویت فوجوں کے نکل جانے اور 1992ء میں نجیب اللہ حکومت کے سقوط کے بعد آپس میں ایسے لڑے کہ افغانستان کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا۔ اس دوران ان جہادی گروہوں کو فنڈ کرنے کے لئے سی آئی اے نے یہاں منشیات کی پیداوار اور ترسیل کا ایک پورا نیٹ ورک بچھایا جو آج تک برقرار ہے اور جس کا کالا دھن آج بھی یہاں ریاستی و غیر ریاستی رجعت اور دہشت گردی کی قوت محرکہ کا کردار ادا کرتا ہے۔ انہی جہادی گروہوں میں سے بعد میں طالبان برآمد ہوئے جن کے امریکی سامراج کے ساتھ دوستی و دشمنی کے رشتے افغانستان کی موجودہ پرانتشاراور تباہ کن صورتحال پر منتج ہوئے ہیں۔ لیکن جہاں دشمنوں کی یلغار تھی وہاں ثور انقلاب کئی طرح کے داخلی تضادات کا شکار بھی رہا۔ بالخصوص پارٹی کے اندر ’خلق‘ اور ’پرچم‘ دھڑوں کی کشمکش نے انقلاب کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ لیکن یہاں ایک اور بات بھی قابل غور ہے۔ ڈاکٹر اشرف غنی کی امریکی کٹھ پتلی حکومت، جو اپنے بلبوتے پر طالبان کے سامنے چند ہفتے بھی نہ ٹک پائی، کے برعکس ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت سوویت فوجوں کے نکل جانے کے چار سال بعد تک بھی جہادیوں سے نبردآزما رہی۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ ڈاکٹر اشرف غنی کے برعکس نجیب اللہ حکومت، جو پی ڈی پی اے حکومت کا ہی تسلسل تھی، کو افغان آبادی کے وسیع تر حصے کی حمایت حاصل تھی۔ اس دوران کئی محاذوں پر افغان انقلابی فوج کے سپاہیوں، جن میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل تھی، نے جرات اور قربانی کی کئی ناقابل فراموش داستانیں رقم کیں۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بورس یلسن کی رجعتی حکومت کا ہر طرح کے ایندھن اور اسلحے کی فراہمی سے انکار نجیب اللہ حکومت کے خاتمے کی اہم وجہ بنا۔ جس کے بعد افغانستان جن تاریکیوں کی نذر ہوا ان کے اثرات آج نہ صرف اس پورے خطے بلکہ کئی حوالوں سے پوری دنیا میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ ظلمتیں افغان محنت کشوں اور نوجوانوں کا مقدر نہیں ہیں۔ 1978ء کا ثور انقلاب اپنی تمام تر کمزوریوں اور غلطیوں کے باوجود ان اندھیروں میں بھی امید کی کرن ہے اور ثابت کرتا ہے کہ پسماندہ ترین خطوں اور کٹھن ترین حالات میں بھی جبر و استحصال کے اس نظام کو للکارا اور اکھاڑا جا سکتا ہے۔ آج کی نئی نسل کو اس عظیم انقلاب کے اسباق طبقاتی جدوجہد میں سمو کے اس سرخ سویرے کی نوید بننا ہو گا جو سامراجیت، بنیاد پرستی اور سرمایہ داری کی تاریکیوں کو مٹا کے رکھ دے۔