عمر رشید
طبقاتی معاشرے میں حکمران طبقہ اپنے سماجی نظام کو قائم اور طبقاتی استحصال کو جاری رکھنے کے لئے مسلح افراد کے جتھوں سے لے کر قانون، پارلیمنٹ، مقننہ، انتظامیہ، ذرائع ابلاغ، میڈیا، خاندان اور تعلیمی اداروں وغیرہ کے ساتھ اپنا اخلاقی جبر بھی برقرار رکھتا ہے۔ جس میں مذہب، رسم و رواج، تہواروں اور دوسرے زہریلے ہتھکنڈوں سے محکوم و مظلوم طبقے کو ذہنی، ثقافتی اور معاشی طور پر مفلوج رکھ کے ان کی جرات اور یکجہتی کو تقسیم در تقسیم کیا جاتا ہے۔ حکمرانوں کے زر خرید دانشور اور تاریخ دان سچ کو مسخ یا قتل کرتے ہیں اور ان کے فلسفی یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ظلم و ستم انسانیت کا ہمیشہ سے مقدر ہے اور رہے گا۔
آج سرمایہ داری ایک معاشی اور سماجی نظام کے طور پر پورے کرۂ ارض پر جو وحشت، ذلت، دہشت، بربادی، تخریب اور موت پھیلا رہی ہے وہ انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ اس سیارے پر ہوس پرست اور پاگل بورژوازی نے اس نظام زر کی حاکمیت کو برقرار رکھنے کے لئے ایٹمی ہتھیاروں اور دوسرے بربادی کے آلات کے جو انبار لگا لیے ہیں، جہاں وہ انسانی محنت اور وسائل کا ضیاع ہیں وہاں انسانیت اور فطرت کی بقا کے لئے سنجیدہ خطرہ بھی ہیں۔ مصنوئی ذہانت، ڈیجیٹل کرنسی، آن لائن تجارت، روبوٹکس، نباتات و حیوانات کی جینیاتی انجینئرنگ اور ادویات سازی کے کمال درجے تک ترقی کر جانے کے باوجود روزانہ اس دنیا میں پندرہ ہزار بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے بیماری اور بھوک کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ قومی ریاستیں ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو رہی ہیں جس سے نہ ختم ہونے والا ہجرت کا اذیت ناک عمل جاری ہے۔ آج کا حکمران طبقہ نہ صرف مذہب کو استعمال کر رہا ہے بلکہ اپنے نظام کی بند گلی میں کسی بھی قسم کی ترقی پسندانہ و سائنسی سوچ سے محروم ہو کر رجعتی قسم کے توہماتی اور مابعدالطبیعاتی فلسفوں کو فروغ دے رہا ہے اور نو خیز ذہنوں کو اندھیروں میں غرق کر رہا ہے۔ ایسے میں بورژوازی کا سماجی وجود، اس کی حرکات و اس کا کردار پیداواری قوتوں کی ترقی میں رکاوٹ بن چکے ہیں۔
سرمایہ داری کے عالمی کردار کی وجہ سے طبقاتی کشمکش بھی آفاقی ہے۔ یوم مئی مزدوروں کی عالمی یکجہتی کی پہچان ہے۔ یہ پرولتاریہ کا طبقاتی تہوار ہے۔ یہ طبقاتی لڑائی کا وہ معرکہ ہے جس میں امریکہ کے شہر شکاگو میں مئی 1886ء میں محنت کشوں نے محنت کے اوقات کار آٹھ گھنٹے کروانے کے لئے دلیرانہ جدوجہد کی اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ 4 مئی کو ریاست نے وحشیانہ تشدد کرتے ہوئے کئی مزدوروں کو شہید کر دیا اور درجنوں گھائل ہوئے۔ بعد ازاں امریکی ریاست نے اس تحریک کے چار رہنماؤں کو پھانسی پہ لٹکا دیا جبکہ باقیوں کو طویل قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ اس جدوجہد کی گونج اور شدت پوری دنیا میں سنی گئی جس سے مزدور تحریک کو نئی زندگی ملی۔ بیشتر ممالک میں ان بنیادی مطالبات کے حصول کی خاطر احتجاجوں اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس جدوجہد اور قربانیوں کے ثمرات آنے والے دنوں میں ملے اور دنیا بھر میں مزدور آٹھ گھنٹے کے اوقات کار قانونی طور پہ منوانے میں کامیاب ہوئے۔ مزدوروں کی عالمی تنظیم ’دوسری انٹرنیشنل‘ نے مارکسی استاد فریڈرک اینگلز کی قیادت میں اس جدوجہد کی یاد میں 1889ء میں یکم مئی کو مزدورں کا عالمی دن قرار دیا۔ اس کے بعد سے محنت کشوں کا عالمی دن ایسے تہوار کی حیثیت رکھتا ہے جس میں مذہب، صنف، قوم، زبان، رنگ، برادری اور ماضی کے دوسرے بیہودہ تعصبات کو چیر کر محنت کش اکٹھے ہوتے ہیں۔ اپنے دکھوں، مصائب اور استحصال کی وجوہات معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے حقوق کی جنگ کو تیز کرنے کا عہد کرتے ہیں۔
سرمایہ داری کے تحت پیداواری عمل انسانی محنت کو دوحصوں میں بانٹ دیتا ہے۔ ایک طرف سرمائے کا انبار لگ جاتا ہے جبکہ دوسری طرف محنت کی غربت، بیماری، جہالت، ذلت اور پسماندگی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ سرمایہ دار طبقہ مزدوروں کی جدوجہد سے ملنے والی حاصلات کو بھی پسپائی اور جمود کے وقتوں میں دوبارہ چھین لیتا ہے۔ انفرادی طور پر سرمایہ داروں کو اپنی منڈی اور پیداواریت کو بڑھانے کے لئے منڈی کے مقابلے کے جبری قانون کا سامنا رہتا ہے۔ جس کے تحت انہیں اپنی بقا کی خاطر اپنی مشینوں اور ٹیکنالوجی کو بے کراں توسیع دینا پڑتی ہے۔ دوسری طرف انہیں محنت کشوں کی اجرتیں ہمیشہ کم کرنے کی کوشش کرنی پڑتی ہے اور ان کے اوقات کار مسلسل بڑھانے پڑتے ہیں تاکہ اپنے منافعوں کو برقرار رکھ سکیں۔ ایسے میں بازار اشیا ئے صرف کی چیزوں سے بھرے ہوتے ہیں لیکن اکثریت کی زندگی محرومی و مفلسی میں سسکتی رہتی ہے۔ سرمایہ داروں کو اپنی پیداوار کو کھپانے کے لئے منڈیوں میں مسلسل توسیع کی ضرورت پڑتی رہتی ہے جس سے ان کے درمیان تجارتی، اقتصادی اور عسکری جنگیں مسلسل جنم لیتی رہتی ہیں۔ جن میں پھر پیداواری قوتوں، انفراسٹرکچراور انسانی زندگیوں کو تباہ کیا جاتا ہے۔ یہ اس تخریبی اور خونی عمل کا ہی شاخسانہ تھا جس سے پہلی عالمی جنگ (1914-18ء) اور دوسری عالمی جنگ (1939-45ء) میں کروڑوں معصوم انسانوں کو سرمائے کی سیاہ دیوی کی بَلی چڑھایا گیا۔ خونریزی کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ آج بھی دنیا میں جو بیشتر مسائل ہیں وہ سرمایہ داری کے انہی پیدائشی تضادات کی وجہ سے ہیں جو سوشلسٹ انقلاب کے بغیر ختم نہیں ہو سکتے۔ لینن نے کہا تھا کہ سرمایہ داری ایک نہ ختم ہونے والی وحشت ہے۔ یہ وحشت ترقی پذیر اور غریب ممالک میں زیادہ شدت سے اپنا اظہار کرتی ہے جہاں عالمی سرمائے کی سامراجی یلغار مسلسل جاری و ساری رہتی ہے۔ دنیا بھر میں محنت کو سرمایہ داروں کی بنائی ہوئی مصنوئی سرحدوں کی پرواہ کئے بغیر لوٹا جاتا ہے۔ پسماندہ ممالک کا حکمران طبقہ اپنی مالیاتی، فنی اور تکنیکی پسماندگی اور خستہ حال صنعت کی وجہ سے سامراجی اداروں اور ریاستوں کا غلام اور کمیشن ایجنٹ بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی تاریخی کردار نہیں بنتا۔ ایسے میں ان ممالک میں محنت کشوں کو وہ مراعات اور سہولیات بھی حاصل نہیں ہو پاتیں جو ترقی یافتہ ممالک کے مزدوروں نے اپنی طویل جدوجہد اور معیشت میں گنجائش کی بدولت حاصل کی ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستان جیسے ممالک میں آٹھ گھنٹے کے اوقات کار اکثریتی محنت کشوں کے لئے ایک خواب ہی ہیں۔
پاکستان میں آج مروجہ سیاسی قوتوں کا مکروہ تماشا سرمائے کے متضاد مفادات کی گماشتگی کی لڑائی کے علاوہ کچھ نہیں۔ ان میں سے کوئی پارٹی محنت کشوں کی بنیادی اور سلگتے ہوئے مسائل سے سروکار نہیں رکھتی ہے۔ محنت کش طبقہ صنعت، خدمات اور زراعت کے شعبوں میں انتہائی غیر یقینی اور غیر محفوظ حالات میں اپنی محنت کا استحصال کروانے پر مجبور ہے۔ بیروزگاری کا ایک سمندر ہے۔ اس بیروزگاری کے خوف کا بوجھ مزدوروں کی اجرتوں کو مسلسل نچلی سطح پر رکھتا ہے۔ غربت میں بالخصوص پچھلے چار سالوں کے دوران اضافہ ہی ہوا ہے لیکن مزدوروں کے ان طبقاتی مسائل کا حکمران سیاست اور ریاست میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ طبقاتی سیاست کی بات اور نظریہ ہی سیاسی افق سے غائب کر دیا گیا ہے لیکن دولت اور بدعنوانی کی مروجہ سیاست نے اگر مزدوروں کو دھتکارا ہے تو کارپوریٹ میڈیا کی مدد سے سجایا گیا حکمرانوں کا یہ سیاسی سرکس بھی محنت کش عوام کی نظروں میں بہت بے معنی اور بے وقعت ہو چکا ہے۔ اس نظام کے سب اداروں کے استحصالی کردار کا ادراک محنت کش اپنے تجربات سے حاصل کر رہے ہیں۔ یہ ایسے فیصلہ کن سیاسی اور نظریاتی اسباق ہیں جو طبقہ اپنے شعور کے دامن میں سمیٹے آگے بڑھ رہا ہے۔ وقت کے بدلتے رنگوں، طبقاتی کشمکش کی نئی اٹھانوں اور نظام کے بڑھتے خلفشار میں اس سفر کی رفتار تیز ہو گی۔ اوجھل منزلیں چمکتے آفتاب کی طرح آشکار ہونے لگیں گی۔ مایوسی اور بد دلی کی جگہ یقین، اعتماد اور جدوجہد لے لے گی۔ سرمائے کی آمریت پر محنت کے فیصلہ کن وار کا وقت ضرور آئے گا۔ ان حالات میں یومِ مئی آج بھی سرمایہ داری کی ظلمتوں میں روشنی کا نشاں ہے۔ آئیے اس یومِ مئی پہ ہم یہ عہد کریں کہ محنت کش طبقے کی صدیوں کی جدوجہد کو انقلابی مارکسزم کے نظریات سے آراستہ کر کے آگے بڑھائیں گے اور اس کرۂ ارض پر سے کٹوتیوں، بیروزگاری، مہنگائی اور نجکاری کیساتھ ساتھ اس سرمایہ داری کا بھی خاتمہ کریں گے جو ان تمام لعنتوں کی بنیادی وجہ ہے۔