اے الطارقی
ترجمہ: شفا
سری لنکا میں کچھ ہفتوں کے ٹھہراؤ کے بعد عوام کی احتجاجی تحریک ایک بار پھر بھڑک اٹھی ہے۔ گزشتہ دنوں محنت کش عوام کے بڑے ہجوم نے صدارتی محل اور وزیر اعظم ہاؤس پر دھاوا بول کر قبضہ کر لیا ہے۔ جس کے بعد صدر گوٹابایا راجاپکسا، جو کئی مہینوں کے احتجاج کے باوجود اقتدار سے چمٹا ہوا تھا، کو خاندان سمیت فوجی طیارے پر ملک سے فرار ہونا پڑا ہے۔ اسی دوران مظاہرین نے ملک کے وزیراعظم کے نجی گھر کو بھی آگ لگا دی جو شدید معاشی بدحالی اور تنگی سے مشتعل مظاہرین کی جانب سے اس جلاؤ گھیراؤ کا تسلسل ہے جس میں حکمران طبقات اور سیاسی اشرافیہ کے کئی محلات کو نذرِ آتش کیا جا چکا ہے۔ صدر گوٹابایا راجاپکسا کے اپنے خاندان کے ہمراہ ملک سے فرار ہونے کے بعد وزیر اعظم رانیل وکرم سنگھے عبوری صدر بن گئے ہیں اور انہوں نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ بی بی سی کے مطابق سری لنکا میں معاشی و سیاسی بحران مزید سنگین ہو گیا ہے اور وزیر اعظم کے دفتر کے ترجمان کے مطابق ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کرتے ہوئے مغربی صوبے میں کرفیو لگا دیا گیا ہے۔ اس دوران مظاہرین نے وزیر اعظم کے دفتر پر بھی دھاوا بولا ہے لیکن موصوف گزشتہ کئی دنوں سے روپوش ہیں اور کسی نامعلوم مقام سے ملکی قیادت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ جبکہ مظاہرین تاحال صدارتی محل پر قابض ہیں اور یہ مناظر دنیا بھر میں عوام کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ یہ واقعات ملک میں محنت کش عوام کی ایک غیرمنظم لیکن جارحانہ سرکشی کی کیفیت کی غمازی کرتے ہیں۔ اس تناظر میں ہم کچھ عرصہ قبل تحریر کیے گئے ایک مضمون کا تلخیص و ترجمہ شائع کر رہے ہیں جو ملک کی عمومی صورتحال، بحران کے پس منظر اور آنے والے دنوں کے امکانات کو سمجھنے کے حوالے سے اہم ہے۔
مظاہروں میں اضافہ کیوں ہوا؟
یہ مظاہرے جو ایک ماہ سے جاری ہیں ملک کے جنوبی اکثریتی سنہالی علاقے میں مرکوز ایک بڑی عوامی بغاوت کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ یہ احتجاجات تقریباً آٹھ دہائیوں سے ملک کو بدترین مالیاتی بحران سے نکالنے کے لیے حکومت کے غلط طور طریقوں اور بدانتظامی پر عوامی غصے کا اظہار ہیں۔
جمعہ 6 مئی کو لاکھوں سرکاری اور نجی شعبے کے محنت کشوں نے ہڑتال کی۔ کولمبو اور دیگر بڑے شہروں میں بینک، کاروبار اور ٹرانسپورٹ سب بند کردئیے گئے۔ ڈاکٹروں اور نرسوں نے کھانے کے وقفے کے دوران احتجاجوں میں شمولیت اختیار کی۔ 7 اور 8 مئی کو صدر گوٹابایا راجا پکسا نے ایمرجنسی نافذ کر دی جو کہ احتجاج شروع ہونے کے بعد دوسری دفعہ نافذ کی جا رہی تھی۔
یوکرائن پر روسی فوج کشی اور مہنگائی میں اضافے جیسے عالمی واقعات کے ساتھ حکومتی بد انتظامی نے ایک گہرا بحران پیدا کر دیا ہے جس کے نتیجے میں خوراک، ایندھن اور ادویات کی قلت کے ساتھ ساتھ بار بار بلیک آؤٹ (لوڈشیڈنگ) بھی ہو رہے ہیں۔ روس اور یوکرائن، ایک ایسا خطہ جو ایشیا اور افریقہ کے بیشتر حصوں کے لیے روٹی کا ذریعہ ہے، کی جنگ کے نتیجے میں عالمی خوراک کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ سری لنکا میں پچھلے سال چاول کی قیمت دو گنا سے بھی زیادہ ہو گئی تھی۔
حکومت نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ امریکی ڈالر کے ذخائر ختم ہونے کی وجہ سے 51 بلین امریکی ڈالر کے غیر ملکی قرضوں پر نادہندہ (ڈیفالٹ) ہے۔ قرض پر سود اب قومی آمدن سے زیادہ ہے۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران مہنگائی کی شرح 40 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور خوراک جیسی بنیادی اشیا کے لیے یہ 50 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ وزیر خزانہ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ معاشی مشکلات مزید دو سال تک ایسے ہی جاری رہیں گی۔ سری لنکا کی عوام روزانہ 13 گھنٹے بجلی کے بغیر گزارا کر رہے ہیں اور پیٹرول یا قدرتی گیس کے لیے دن بھر لائنوں میں کھڑے رہنے پر مجبور ہیں۔
وزیر اعظم نے 16 مئی کو اعلان کیا کہ اگر وہ مزید پیڑول خریدنے کے لیے 75 ملین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل نہ کر سکے تو ملک میں ایک دن میں پیٹرول ختم ہو سکتا ہے۔ کنٹینر جہاز سمندر کے کنارے انتظار کر رہے تھے اور سامان اتارنے سے انکار کر رہے تھے جب تک کہ انہیں ادائیگی نہیں ہو جاتی۔
ہڑتال کی کال ٹریڈ یونینوں اور سول تنظیموں نے دی تھی۔ مظاہرین نے راجا پکسا سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے راجا پکسا خاندان کی کرپشن پر سوال اٹھایا۔ یہ خاندان تقریباً دو دہائیوں سے سری لنکن حکومت پر قابض ہے اور پچھلے ڈھائی سالوں کے دوران ملک کو دیوالیہ کر دیا ہے۔ موجودہ بحران سے پہلے انہوں نے قوم پرستی (جس کے بارے میں مزید نیچے بیان کیا گیا ہے) کا سہارا لیتے ہوئے ملک کی سنہالی بدھ اکثریت میں مضبوط بنیاد بنا لی تھی اگرچہ اب یہ کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
اگرچہ راجا پکسا نے اپنے وزیر اعظم بھائی کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر لیا جو کہ بغاوت سے نپٹنے کا ایک مضحکہ خیز طریقہ تھا لیکن خود اس نے استعفیٰ دینے پر آمادگی کے کوئی آثار ظاہر نہیں کیے۔ اس نے رانیل وکرما سنگھے کو متبادل کے طور پر اس عہدے پر مقرر کیا جو خود راجا پکسا کا قریبی ساتھی ہے اور اسے صدارت پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے میں مدد دے گا۔ مزید یہ کہ راجا پکسا نے ایمرجنسی نافذ کر رکھی ہے جس کے تحت فوج کو لوگوں کو حراست میں لینے کے وسیع اختیارات دیئے گئے ہیں۔
”گوٹا گھر جاؤ“
جیسا کہ ایک جلا وطن سری لنکن انقلابی سوشلسٹ اور ایشیا کمیون کے ادارتی بورڈ کے رکن ڈان سمانتھا نے اپریل کے وسط میں ہمیں بتایا:
”حکومت کے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ اگر وہ آئی ایم ایف کے پاس جاتی ہے تو اسے شفافیت جیسی شرائط پر عمل کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ اس لیے حکومت نجی منڈیوں کو ترجیح دیتی ہے۔ ریاست تقریباً دیوالیہ ہو چکی ہے۔ حکومت نے بہت سے اثاثے بھارت یا چین کو فروخت کیے ہیں جن میں سب سے بڑی بندرگاہیں بھی شامل ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اونے پونے داموں جنگلات کو تباہ کرنے دیا جا رہا ہے۔“
جیسا کہ ’دی گارڈین‘ میں رپورٹ کیا گیا ہے کہ پیر 9 مئی کے واقعات ایک اہم موڑ ثابت ہوئے اور صدر کے بھائی (اب) سابق وزیر اعظم مہندا راجا پکسا کو ہٹانے کا باعث بنے۔ حکومت کے حامیوں نے دارالحکومت میں وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر جمع ہونے والے مظاہرین پر پرتشدد حملہ کیا۔ حکومت کے حامی ان بدمعاشوں نے اس کے بعد مظاہرین کے ایک اور قریبی کیمپ پر بھی حملہ کیا جب کہ پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔
یہ چیز بڑے پیمانے پر جھڑپوں کا محرک بنی جس کے نتیجے میں کئی پارلیمانی ارکان کے گھروں کے ساتھ ساتھ کرونیگالا قصبے میں وزیر اعظم کی رہائش گاہ کو آگ لگا دی گئی۔ پارلیمانی ارکان کی جانب سے حکومت مخالف مظاہرین پر گولیاں چلانے کی بھی اطلاعات ہیں۔ وزیر اعظم کے استعفیٰ دینے سے کچھ دیر پہلے صدر نے اقتدار، جو کہ اب تک اس کے ہاتھوں میں مرتکز تھا، پارلیمنٹ کے سپرد کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ راجا پکسا خاندان کے دیگر افراد نے کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔ ’گوٹا‘ خاندان کا واحد فرد ہے جو اقتدار سے چمٹا ہے۔ وہ ایک آل پارٹیز ’اتحادی حکومت‘ بنانا چاہتا ہے۔ مظاہرین کی طرف سے ’گوٹا گھر جاؤ‘ کے مطالبے کے باوجود وہ اب بھی اقتدار چھوڑنے سے انکار کر رہا ہے۔
انقلابی قیادت کا سوال
یہ مظاہرے خود رو طور پر متحرک اور منظم ہوئے ہیں جن میں مظاہرین صدارتی محل کے باہر دن رات کیمپ لگائے بیٹھے ہیں۔ سمانتھا کا کہنا ہے کہ، ”بہت سے لوگ سیاسی جماعتوں کے مخالف ہیں۔“ یہ کیفیت 1953ء میں سری لنکا میں ابھرنے والی انقلابی صورتحال سے یکسر مختلف ہے جس میں عام ہڑتال کی قیادت ٹراٹسکائسٹ لنکا سما سماجا پارٹی (LSSP) نے کی تھی۔ 1953ء کی ہڑتال ایک انقلابی ابھار کے تناظر میں ہوئی جو کہ واشنگٹن کے زیر اثر معاشی ٹوٹ پھوٹ اور نتیجتاً سری لنکا کے انقلابی چین کی طرف جھکاؤ کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ ہڑتال کی جارحیت اور تنظیم نے اس وقت کی حکومت کو مختصر عرصے کے لیے دارالحکومت سے بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا! بدقسمتی سے 1960ء کی دہائی میں ایل ایس ایس پی نے سری لنکا فریڈم پارٹی (SLFP) کے ساتھ مخلوط حکومت میں شمولیت اختیار کی جو سنہالی شاؤنسٹ رجحانات رکھنے والی ایک سنٹرسٹ سرمایہ دارانہ جماعت ہے۔ اس نے بڑی تعداد میں تامل اور مسلم اقلیتوں کو پارٹی سے دور کر دیا جو کہ انقلابی تحریک کی اہم سماجی بنیاد تھیں۔ دوسرے الفاظ میں ایل ایس ایس پی کے زوال سے سری لنکا میں انقلابی سوشلزم کو شدید نقصان پہنچا۔
سری لنکا میں آخری عام ہڑتال 1980ء میں ہوئی تھی جب اس وقت کی یونینیں آج کی طرح اکٹھی ہوئیں اور انقلابی عمل کی قیادت کرنے میں مدد کی۔ 1980ء کی ہڑتال کے مطالبات میں تنخواہوں میں اضافہ، فوڈ سبسڈی کی بحالی اور اس وقت کی حکومت کی طرف سے کیے گئے غیر جمہوری اور یونین مخالف اقدامات کا خاتمہ شامل تھا۔ صدر جے آر جے وردھنے نے راجا پکسا اور دیگر تمام سرمایہ دار سیاست دانوں کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے فوج کی مدد سے ان مظاہروں کو دبایا، ایمرجنسی نافذ کی اور ہڑتال کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
الجزیرہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں ٹمپیٹئے سوگتانندا، جو کہ 32 سالہ بدھ راہب اور جوائنٹ ہیلتھ ورکرز یونین کے چیف سیکرٹری ہیں، نے کہا ”جے وردھنے نے 1980ء کی ہڑتال کو کچل دیا تھا لیکن آج ٹریڈ یونینیں اپنی غلطیوں سے سیکھ چکی ہیں اور مستقبل میں بڑھنے کے لیے تیار ہیں۔ 1980ء کے بعد سے سیاسی جماعتوں نے بہت سی ٹریڈ یونینیں بنائی تھیں لیکن گزشتہ چند سالوں میں یہ رجحان بدل گیا ہے۔ محنت کش طبقے کے لوگوں کی جدوجہد اہمیت اختیار کر چکی ہے اور آج کے واقعہ نے اس رجحان کو مزید تقویت بخشی ہے۔ پورے جنوبی سری لنکا سے لاکھوں مزدوروں نے ہڑتال کی کال پر اتحاد اور پوری سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا ہے۔“
سیاسی جماعتوں سے اس دشمنی کو انقلابی سوشلسٹ سیاسی جماعتوں سے دشمنی کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ ہم دوبارہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جب ایل ایس ایس پی انقلابی مارکسزم کے اصولوں پر قائم تھی تو وہ 1953ء میں ایک عام ہڑتال اور قریب قریب ایک سوشلسٹ انقلاب کی قیادت کرنے میں کامیاب ہوئی۔ یہ ان کی اس کے بعد کی موقع پرستی تھی جس کے تحت انہوں نے اصلاح پسندی کو اپنایا اور سنہالی شاؤنسٹ سیاست کو ٹھوس انداز میں مسترد نہ کیا۔ جو کہ ان کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئی۔ گزشتہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے دوران بالترتیب 2019ء اور 2020ء میں ایل ایس ایس پی دیگر سوشل ڈیموکریٹک، سٹالنسٹ اور سنٹرسٹ سرمایہ دارانہ جماعتوں کے ساتھ راجا پکسا کی مخلوط حکومت میں ایک اتحادی کے طور پر شامل تھی! اس سے ظاہر ہے کہ تمام پارٹیوں کو بجا طور پر مسترد کیا گیا ہے۔
سمانتھا کے مطابق دیگر سوشلسٹ اور کمیونسٹ پارٹیاں بھی اصلاح پسندانہ رجحانات دکھا رہی ہیں۔ ورکرز وائس کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے نشاندہی کی کہ جناتھا ویمکتھی پیرامونا (جے وی پی یا پیپلز لبریشن فرنٹ) جو خود کو ایک ”مارکسسٹ لیننسٹ“ پارٹی بتاتی ہے نے پچھلے دو سالوں میں احتجاجوں میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں کولمبو میں ایک بڑا احتجاج کیا جس میں حیرت انگیز حد تک لوگوں نے شمولیت اختیار کی۔ تاہم ان کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ لوگ ان کو ووٹ دیں کیونکہ ان کے مطابق وہ گوٹا حکومت سے بہتر طور پر بحران کا حل کر سکتے ہیں۔ ان کا دوسرا مطالبہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کا ہے!
ایک دوراہے پر
موجودہ ہڑتال کی سری لنکا کے اقلیتی گروہوں بالخصوص تاملوں اور مسلمانوں کو خود میں شامل کرنے میں ناکامی بہت تشویشناک ہے۔ 2020ء میں ہی سنہالی اکثریت نے راجا پکسا کی پارلیمانی جیت کا جشن منایا جو کہ تامل اور مسلم مخالف نسل پرستی کو پڑوان چڑھانے کے نتیجے میں حاصل ہوئی۔ سری لنکا کے تبصرہ نگار ماریو ارولتھاس لکھتے ہیں، ”راجا پکسا کی جیت تقریباً حتمی تھی۔ سنہالی ووٹوں کی بڑی اکثریت ان کی پارٹی سری لنکا پوڈوجانا پرامونا کو گئی جو کہ پاپولسٹ اور نسل پرستانہ نعروں کے ذریعے خوشحالی، شان و شوکت اور جزیرے پر سنہالی بدھ مت کی بالادستی جیسے وعدے کرتی رہی۔“
حالیہ برسوں میں راجا پکسا کی حکومت کی گھناؤنی کاروائیوں میں تامل اکثریتی علاقوں میں بڑھتی ہوئی عسکری جارحیت، تامل صحافیوں اور این جی اوز پر ظلم و ستم، مسلم کووڈ متاثرین کی جبراً مردہ سوزی اور ایک ایسے ماحول کی تخلیق شامل ہے جس کا مقصد تاملوں اور مسلمانوں کو یہ باور کرانا ہے کہ وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں۔
مختصراً موجودہ بغاوت ایک بنیادی تضاد کی زد میں ہے۔ زیادہ تر سنہالی مظاہرین اب تسلیم کر چکے ہیں کہ موجودہ حکومت محنت کش طبقے کے حق میں نہیں ہے۔ یہ حکومت اپنے ”معاشی خوشحالی“ کے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام ہوئی ہے اور اپنے بنیادی ووٹ بینک کو خود سے دور کر چکی ہے۔ تامل اور مسلمان ان کے نسلی شاؤنزم کی وجہ سے ہمیشہ سے ان سے نفرت کرتے رہے ہیں۔ تاہم احتجاجی مطالبات میں ”سیاسی حقوق، شمال مشرق میں تامل اکثریتی علاقوں سے فوج کا انخلا اور جنگی جرائم کا احتساب“ جیسے تامل مطالبات کے ’محدود حد تک شامل‘ کیے جانے نے تامل لوگوں کی نسبتاً تھوڑی سی شرکت کو یقینی بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
18 مئی کے دن تامل کمیونٹی تامل نسل کشی کی یاد میں سوگ مناتی ہے۔ جنوب کے سنہالی اکثریتی علاقوں میں اس دن ’فتح‘ کی تقریبات منائی گئی ہیں۔ گوٹا مخالف مظاہرین کا اس دن کے حوالے سے کیا رد عمل ہو گا؟ یہ ایک اہم سوال ہے: کیا محنت کشوں کی موجودہ تحریک معاشی سوالات سے آگے بڑھ کر راجا پکسا اور بین الاقوامی حکومتوں کے سرمایہ دارانہ استحصال کو نسل پرستانہ تقسیم، جو کہ ان کی حکمرانی میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے، سے جوڑنے والے سیاسی تجزیہ کی طرف بڑھے گی؟ یہ ایک اہم سیاسی سوال ہے اور یہ طے کرے گا کہ کیا موجودہ بغاوت اپنے آپ کو محض اصلاح پسندی کے چکر میں کمزور کر دے گی یا انقلابی تحریک کی طرف بڑھے گی۔