اداریہ جدوجہد

برسات کی بارشوں نے سیلاب بن کر ایک بار پھرشمالی علاقہ جات، بلوچستان اور جنوبی پنجاب سمیت ملک کے بیشتر حصوں میں تباہی مچا دی ہے جس میں اب تک سینکڑوں نہیں تو درجنوں غریب اور بے آسرا انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ مون سون کے شدت پکڑنے کی صورت میں یہ بربادی بڑھ اور پھیل بھی سکتی ہے۔ یہ اب ایک معمول بن چکا ہے کہ یہ سالانہ بارشیں، جنہیں کبھی بارانِ رحمت سے تعبیر کیا جاتا تھا، انفرسٹرکچر کی زبوں حالی یا ناپیدگی کی وجہ سے لاکھوں انسانوں کے لئے ایک زحمت‘ بلکہ ایک عذاب بن جاتی ہیں۔ اور یہ سلسلہ صرف پسماندہ خطوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ کینسر کی طرح بے ہنگم انداز میں پھیلتے بڑے شہروں میں بھی بڑے پیمانے کی تباہی ہوتی ہے۔ لیکن پھر ایک طبقاتی سماج میں ان نام نہاد قدرتی آفات کا کردار بھی طبقاتی ہی ہے۔ جن میں زیادہ تر محنت کش ہی جانی و مالی طور پہ برباد ہوتے ہیں۔ امیر اگر کبھی ان آفات کی لپیٹ میں آ بھی جائیں تو ان کے پاس اتنی دولت اور وسائل ہوتے ہیں کہ وہ دوبارہ معمول کی زندگی کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ لیکن غریبوں کی عمر بھر کی جمع پونجی کے ساتھ ساتھ جان سے پیارے بھی ان سے چھن جاتے ہیں۔ لیکن اس ملک کے حکمران تاریخی طور پہ جس قدر نااہل ہیں اسی قدر بے حس بھی ہیں۔ بلکہ بے حسی و سنگ دلی اس دیوالیہ نظام میں حکومت کرنے کی بنیادی شرائط بن چکی ہیں۔ ان حکمران دھڑوں کی اپنی لڑائی اور تضادات اس قدر شدت سے بھڑک رہے ہیں کہ ان کے پہلے سے رینگتے نظام کا بحران کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ انہیں اپنی پڑی ہوئی ہے۔ ریاست کے دو دھڑوں کا یہ تصادم، جو بظاہر نظر آنے والے سیاسی تصادم کے پیچھے کارفرما ہے اور جس کے اپنے پیچھے پھر دہائیوں سے جاری عوامل کارفرما ہیں، اس نظام کے اداروں کی ساکھ، ڈسپلن اور طریقہ کار پر جس طرح ضربیں لگاتا چلا جا رہا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ہے۔ اندر کی وہ باتیں جنہیں منظر عام پہ نہ لانے کا اتحاد و اتفاق تمام حکمران دھڑوں میں موجود ہوتا ہے‘ اب کھل کے کارپوریٹ میڈیا پہ امڈ آئی ہیں اور عام لوگوں کی روزمرہ بات چیت میں موضوع بحث ہیں۔ یہ سنگین صورتحال ہے جس میں پورا معاشرہ ایک انتشار، عدم استحکام اور بے یقینی کا شکار ہو چکا ہے۔ معیشت کا زوال ہر روز بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستانی حکام سے تمام معاملات پر اتفاق کے باوجود آئی ایم ایف قرضے کی قسط جاری کرنے سے گریزاں لگ رہا ہے۔ روپے کی قدر ہر روز گر رہی ہے۔ پچھلے تین مہینوں میں ڈالر 185 سے 245 روپے تک پہنچ چکا ہے۔ جس کی وجہ سے مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر چند ہفتوں تک ہی چل سکتے ہیں۔ معاملات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ آرمی چیف کو امریکہ سے درخواست کرنی پڑی ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے پاکستان کی سفارش کرے۔ لیکن اگر قرض مل بھی جاتا ہے تو کوئی بہت بڑی بہتری متوقع نہیں ہے۔ ہر طرح کی افواہوں اور سازشی تھیوریوں کا بازار گرم ہے کیونکہ رسمی منطق ان حالات میں بہت سے بنیادی تضادات اور پیچیدگیوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ عمران خان کے پیچھے کھڑا ریاست کا زیادہ تنگ نظر، قدامت پسند اور رجعتی دھڑا اقتدار کی اس جنگ میں ہر حد تک جانے کو تیار نظر آتا ہے۔ چاہے ان کا نظام مکمل بربادی سے دوچار ہی کیوں نہ ہو جائے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو نام نہاد پاکستانی طالبان کو مذاکرات کے نام پہ مزید سیاسی و سماجی سپیس دینا چاہتے ہیں۔ ان کا لانچ کردہ عمران خان بھی یہاں کی شہری اور ”پڑھی لکھی“ مڈل کلاس کا طالبان ہی ہے۔ جو کچھ دہائیوں سے یہاں نصابوں، میڈیا اور مذہبی اداروں کے ذریعے دماغوں میں ٹھونسا گیا ہے عمران خان اسے ہی ایسی ”گلیمرائزڈ“ شکل میں پیش کر رہا ہے جو انٹرنیٹ ایج کی شہری مڈل کلاس کے لئے قابل قبول بھی ہے اور اس کے اپنے منافقانہ رویوں اور سوچوں سے میل بھی کھاتا ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مضمون اور پھر الیکشن کمیشن کے فیصلے میں ہونے والے انکشافات سے ایک بار پھر ثابت ہوا ہے کہ تحریک انصاف کیسے اوپر سے نیچے تک ایک معاشی، سیاسی و اخلاقی فراڈ، بدعنوانی اور منافقت کا نام ہے۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ آنے والے دنوں میں عمران خان کے سر پر تلوار بن کے لٹکتا رہے گا۔ دوسری طرف نسبتاً ”پریگمیٹک“ اور لبرل دھڑا ہے جو رسمی طور پر اقتدار میں ہونے کے باوجود اپنی بدعنوانیوں اور نظریاتی دیوالیہ پن کے تحت بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ ان کے پاس ایسا کوئی متبادل نظریہ و بیانیہ نہیں ہے جو عمران خان کے نیم فسطائی رجحان کا مقابلہ کر سکے۔ اس دیوالیہ معیشت میں برسراقتدار آنے کے بعد ان کی ذلالت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ جوں جوں نومبر نزدیک آ رہا ہے کہ صورتحال مزید سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ عمران خان کسی صورت اس حکومت کو چلنے نہیں دینا چاہتا اور جلد از جلد الیکشن کے لئے پورا زور ڈال رہا ہے کیونکہ اس صورت میں اسے اپنی جیت یقینی نظر آ رہی ہے۔ دوسری طرف پی ڈی ایم اس کوشش میں ہے کہ الیکشنوں کو ہر ممکن حد تک موخر کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ وقت لے کے اپنی پوزیشن مستحکم کرے۔ اس ساری لڑائی سے جو سیاسی عدم استحکام جنم لے رہا ہے وہ ہر گزرتے دن کیساتھ معیشت کو دیوالیے کے قریب لے جا رہا ہے۔ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں پچھلے تین مہینوں سے عملاً کوئی حکومت نہیں ہے اور اب عدالتی حکم کے بعد وزیر اعلیٰ بننے والا پرویز الٰہی بھی پتا نہیں کب تک رہتا ہے۔ حکومتی و ریاستی عہدیداروں اور ماہرین کی طرف سے یقین دہانی تو بہت کروائی جا رہی ہے کہ پاکستان کی صورتحال سری لنکا سے مختلف ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں سری لنکا جیسے حالات کا پیدا ہونا مکمل طور پر خارج از امکان نہیں ہے۔ بالخصوص اگر یہ لڑائی طویل ہو جاتی ہے یا مزید بھڑک جاتی ہے۔ اس نظام میں محنت کشوں کے پاس یہی چوائس ہے کہ ایک طرف یہ پی ڈی ایم ہے جو نام نہاد جمہوری اور لبرل طریقے سے محنت کشوں کی زندگیوں کو عذاب در عذاب بنانا چاہتی ہے۔ دوسری طرف عمران خان کی صورت میں ریاست اور سیاست کا نیم فسطائی رجحان ہے جو جبر اور وحشت سے یہاں رجعت کو مسلط کر کے اپنے تئیں اس نظام کا دوام چاہتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں یہ سمجھنا سراسر خام خیالی ہے کہ کٹوتیاں، چھانٹیاں، مہنگائی اور نجکاری کر کے اس سرمایہ دارانہ معیشت کے خسارے اور قرضے کم کیے جا سکتے ہیں۔ ان طریقوں سے یہ بحران (یا دیوالیے) کو زیادہ سے زیادہ ٹال ہی سکتے ہیں۔ وہ بھی ہر طرح کے سماجی و سیاسی بحرانات کی قیمت پر۔ وہ واحد عامل جو اس معاشرے کو بحرانوں کے اس اذیت ناک چنگل سے نکال سکتا ہے‘ محنت کش طبقہ ہے۔ اور حالات و واقعات اس کے شعور پر گہری چوٹیں لگا رہے ہیں!