حارث قدیر

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں بجلی کی طویل اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے خلاف شروع ہونے والا احتجاج نوآبادیاتی جبر اور تسلط کے خلاف ایک بھرپور عوامی بغاوت کے ابتدائی اظہار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ تحریک کی قیادت اور حکومت کے مابین ہونے والے مذاکرات اور معاہدے کے بعد اس احتجاج کے خاتمے کا اعلان تو کیا گیا ہے۔ تاہم مذاکراتی معاہدے پر تحفظات اور حکمرانوں کی ماضی کی روایات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نظر نہیں آتا کہ عوامی مسائل کو حل کرنے میں کوئی سنجیدگی دکھائی جائے گی۔ جو تحریک کے نئے ابھار کا موجب بن سکتا ہے۔

گزشتہ ماہ 2 جولائی کو ضلع پونچھ کے ایک چھوٹے سے دیہی مرکز تھلہ ٹائیں کے مقام سے چند نوجوانوں نے اس تحریک کا آغازکیا تھا۔ یہ چند نوجوان بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے خلاف سراپا احتجاج تھے اور اس خطے سے پیدا ہونے والی 3 ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی میں سے 350 میگاواٹ کی بلاتعطل فراہمی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان نوجوانوں نے 6 روز تک مرکزی شاہراہ پر ٹریفک کا سلسلہ معطل کر کے احتجاجی دھرنا دیئے رکھا۔ اس احتجاج کے حق میں دیگر مقامات اور دیگر علاقوں میں بھی شاہرات بند کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ تاہم یہ احتجاج حکومت کی جانب سے مطالبات منظور نہ کیے جانے کے باوجود موخر کر دیئے گئے۔

حکومت نے مطالبات تسلیم کرنے کی بجائے احتجاج موخر ہونے کے بعد مظاہرین کے خلاف مقدمات قائم کرنے اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اسی اثنا میں وزیراعظم تنویر الیاس نے 6 جولائی کو ایک تقریر میں احتجاج کرنے والوں کو بھارتی خفیہ ایجنسی کا ایجنٹ قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے انتظامیہ کو ہدایات دے رکھی ہیں کہ ان کے خلاف سختی سے نمٹا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پونچھ میں تہاڑ جیلیں (بھارتی دارالحکومت دہلی کی بدنام زمانہ جیل) بنانے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔

وزیراعظم کی تقریر اور مقدمات کے قیام کے بعد ایک مرتبہ پھر دیہی مراکز میں قائم عوامی ایکشن کمیٹیوں نے احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا۔ تاہم وزیراعظم کی ہدایات پر عملدرآمد کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات قائم کرنے اور مظاہرین پر تشدد اور شیلنگ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ اس دوران ڈیڑھ درجن سے زائد شہریوں کو گرفتارکیا گیا۔ ابھی تک مجموعی طور پر 9 مقدمات سامنے آچکے ہیں جن میں سے 4 مقدمات میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

حکومت کی احتجاج کو کچلنے کی کوشش نہ صرف احتجاج کے مختلف علاقوں اور بڑے شہروں تک پھیلنے کا موجب بنی بلکہ احتجاجی تحریک کے مطالبات میں بھی بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔ مظاہرین نے اس خطے کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے کیلئے حکومت پاکستان کی طرف سے اس خطہ میں نافذ العمل عبوری آئین ایکٹ1974ء میں 15ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ بل کو فوری واپس لینے اور اس خطے کے لوگوں کو آئین سازی اور حکومت سازی کا مکمل اختیار دینے کا مطالبہ تحریک میں شامل کر دیا۔ ٹورازم پروموشن ایکٹ2019ء میں ترمیم کے ذریعے ٹورازم ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو قائم کرتے ہوئے سیاحتی اراضی کو بیرونی سرمایہ کاروں کو لیز پردینے کی منصوبہ بندی ترک کرنے کا مطالبہ بھی تحریک کا حصہ بن گیا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے مکمل استثنیٰ، بجلی بلات پر سے ہر طر ح کے ٹیکسوں کا خاتمہ اور اشیائے خوردونوش پر سبسڈی دینے کے علاوہ حکمرانوں کی مراعات کے خاتمے کے مطالبات بھی اس تحریک کا حصہ بن گئے۔

مظاہرین پرپولیس تشدد اور ریاستی جبر کے استعمال کی کوشش میں ناکامی کے بعد مختلف علاقوں میں پولیس نے کیمپ لگائے اور انفرادی گرفتاریوں اور تھرڈ ڈگری ٹارچر کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ تاہم اس ریاستی جبر نے تحریک کو مزید جلا بخشی۔ سرکاری سطح پر احتجاجوں کو روکنے کیلئے قائم کیے گئے آل پارٹیز اتحاد کو بھی مجبوراً گرفتاریوں اور تشدد کے بعد احتجاجی تحریک کا حصہ بننا پڑا۔ آل پارٹیز نے پہلے پہل مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کی لیکن حکومتی نمائندگان کی ہٹ دھرمی اور گرفتار رہنماؤں کو رہا نہ کیے جانے کی وجہ سے مذاکرات ناکام ہو گئے۔

28 جولائی کو راولاکوٹ میں ایک بڑے احتجاجی جلوس کے بعد 11 روز کا طویل دھرنا دیا گیا۔ پونچھ ڈویژن کے دیگر اضلاع، تحصیلوں اور قصبات میں بھی احتجاج کا سلسلہ مسلسل جاری رہا اور بتدریج مختلف مقامات پر احتجاجی دھرنوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ راولاکوٹ میں احتجاجی دھرنا کے حق میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کیا گیا جس کے بعد پونچھ ڈویژن کے مختلف شہروں میں 2 اگست کو ایک روزہ شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔ اس وقت راولاکوٹ، پلندری، باغ، تھوراڑ، منگ، ہجیرہ، بیڑیں، سہنسہ سمیت دیگر مقامات پر احتجاجی دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے۔ میرپور میں احتجاجی مظاہرہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ مظفرآباد میں بھی اس تحریک کے حق میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

 6 اگست کو پونچھ ڈویژن بھر میں پہیہ جام ہڑتال کی کال دی گئی تھی۔ عوام کی جانب سے پونچھ ڈویژن کے تمام اضلاع کے داخلی اور خارجی راستے مختلف مقامات سے بند کیے گئے۔ ٹرانسپورٹروں نے رضاکارانہ طور پر گاڑیاں سڑک پر لانے سے انکار کر دیا۔ پورا دن پونچھ ڈویژن بھر میں سڑکوں پر عوام کا قبضہ رہا اور ریاست مکمل طور پر ہوا میں معلق ہو کر رہ گئی۔ 6 اگست کو ہی ضلع حویلی اور نیلم میں بڑے احتجاجی جلوس منعقد کیے گئے اور پونچھ سے شروع ہونے والی اس تحریک کے تمام مطالبات کے حق میں آواز بلند کی گئی۔

بڑے پیمانے پر عوامی تحرک نے حکومت کو ایک مرتبہ پھر عوامی قوت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اورمذاکرات کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع کیا گیا۔ عوامی تحریک کے تقریباً25 نمائندگان نے دو رکنی حکومتی کمیٹی اور کچھ حاضر سروس و ریٹائرڈ بیوروکریٹوں کے ساتھ طویل مذاکرات کیے۔ مذاکرات کے بعد سامنے آنے والا تحریری معاہدہ جہاں عوامی ایکشن کمیٹیوں کیلئے خلاف توقع تھا وہیں مذاکرات میں شامل جماعتوں کے اپنے کارکنان اور رہنماؤں کو بھی اس سے شدید دھچکا لگا۔ کمال مہارت سے انتظامی افسران اور حکومتی وزرا نے آئینی ترمیم اور ٹورازم پروموشن ترمیمی بل کو مجوزہ مسودہ جات کی موجودہ حالت میں اسمبلی میں پیش نہ کیے جانے کی یقین دہانی کروائی۔ عوامی مطالبہ مقامی آبادیوں کو آئین سازی کا اختیار دینے کا تھا جسے قیادتوں کی مصلحتوں نے پندرہویں ترمیم کے ذریعے خطے کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے سے روکنے کے مطالبہ تک محدود کیا۔ تاہم اس سے متعلق بھی واضح یقین دہانی نہ مل سکی۔

ٹورازم پروموشن ترمیمی بل کی موجودہ حالت سے ہٹ کر بھی جو شکل ہو گی وہ اس خطے کی سیاحتی اراضی پر قبضے کا راستہ ہی ہموار کرے گی۔ اس طرح اس مطالبہ پر بھی مقامی قیادتیں حکومتی نمائندوں سے دھوکہ کھا گئیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کیلئے بھی اس خطے سے پیدا ہونے والی بجلی سے مقامی ضرورت پوری کرنے کے بعد اضافی بجلی پاکستان کے نیشنل گرڈ کو ترسیل کرنے کا اقدام کیا جانا تھا۔ تاہم حکومتی نمائندوں نے 435 میگاواٹ بجلی بلاتعطل فراہم کرنے کیلئے حکومت پاکستان سے منظوری حاصل کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ بجلی کے بلات پر ناجائز ٹیکسوں اور قیمتوں سے متعلق مطالبہ پر بھی وزیراعظم کے اعلان پر عملدرآمد کرنے اور حکومت پاکستان سے ٹیکسوں سے متعلق بات کرنے کیلئے کمیٹی تشکیل دینے کی یقین دہانی کروائی گئی۔ حکمران اشرافیہ، ججوں اور بیوروکریٹوں کی مراعات کے خاتمے کیلئے بھی ایک کمیٹی ہی قائم کرنے پر اتفاق ہو سکا۔ اشیائے خورد و نوش (بالخصوص آٹا) کی سبسڈی اور ایلوکیشن سے متعلق مطالبہ پر بھی ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کی یقین دہانی کروائی گی۔ تاہم جملہ اسیران کو غیر مشروط رہا کرنے اور مقدمات ختم کرنے کے مطالبہ کو تسلیم کیا گیا۔لیکن مظاہرین اور پولیس کے مابین تصادم کے بعد درج مقدمات کو محض التوا میں رکھ کر ایک ’فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی‘ تشکیل دی گئی جس کی سفارشات پر عملدرآمد کیا جائیگا۔ اس طرح جو خطرناک مقدمہ میں الجھائے گئے مظاہرین تھے ان پر خطرے کی تلوار بدستور قائم رہے گی۔

یوں اس احتجاجی تحریک میں بھرپور عوامی مداخلت کے باوجود قیادت کی کمزوریوں، حکمران اشرافیہ سے ملاقات کے شوقین رہنماؤں کی بھرمار اور اس خطے کے آئینی، سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کے کام کرنے کے طریقہ کار سے عدم واقفیت نے مطالبات پر کوئی سنجیدہ نتائج حاصل کرنے کی بجائے الفاظ کی ہیر پھیر پر ہی اکتفا کیا۔ اس کے باوجود یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ریاست عوامی غم و غصے اور تحرک کے سامنے جزوی پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ تاہم اس تحریک کے مطالبات اور جوش و جذبہ میں جس تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے وہ اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ اس تحریک کو حکومتی یقین دہانیوں اور قیادتوں کے اعلانات کے باوجود مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک بڑی اور طویل تحریک کے ابتدائی مراحل ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو قومی محرومی کے نام پر ماضی میں بھی متعدد مرتبہ سیاسی طور پر استعمال کرتے ہوئے اس خطے کی مقامی حکمران اشرافیہ نے اپنے مفادات کو تحفظ دیا اور اپنے اقتدار کے راستے ہموار کیے۔

گزشتہ 75 سال میں یہ پہلا ایسا بڑا عوامی ابھار ہے جس میں محنت کشوں اورنوجوانوں نے اس خطے پرنوآبادیاتی قبضے کی وجہ سے پیدا ہونے والے طبقاتی مسائل اور وسائل سے مقامی آبادیوں کو محروم کرتے ہوئے بیرونی سرمایہ داروں کو قبضہ دلانے کی کوششوں کے خلاف مزاحمت کا آغاز کیا ہے۔ سوشل میڈیا کی موجودگی نے اس تحریک کو پھیلانے میں نہ صرف ایک کلیدی کردار ادا کیا بلکہ خطے میں موجود وسائل اور عوامی محرومیوں کا ادراک حاصل کرنے میں نوجوانوں کیلئے سوشل میڈیا ایک اہم ہتھیار بنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تنگ نظر قوم پرستی اور تعصبات کی بنیاد پر سیاست کرنے والی قوتیں بھی طبقاتی مسائل کو اجاگر کرنے پر مجبور ہو رہی ہیں۔ تحریک کی طاقت نے رجعتی اور بنیاد پرست قوتوں کو بھی روزگار، تعلیم، علاج اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے وسیع عوامی جڑت اوریکجہتی کے پیغامات دینے پر مجبور کیا ہے۔ روایتی سیاست میں شریک حکمران اشرافیہ کی نمائندہ جماعتوں کی قیادتیں بھی تحریک کے زور سے ان مطالبات پر احتجاج کرنے پر مجبور ہو رہی ہیں جن کی بات کرنے والوں کو غدار اور غیر ملکی ایجنٹ قرار دینے پر اکتفا کیا جاتا رہا ہے۔ یوں فوری مطالبات سے ہٹ کے بھی اس تحریک نے کئی ثمرات حاصل کیے ہیں۔

مقامی حکمران اشرافیہ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی عوامی تحریک کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ جن کے ذریعے سے اپنے لیے معمولی اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالانکہ گزشتہ75 سال سے اس خطے کے پاکستانی ریاست کے ساتھ آئینی تعلق کی وضاحت اور اختیارات کی تقسیم کے نام پرآنے والی تمام ترامیم اور ایکٹوں کے سامنے یہ حکمران اشرافیہ ہمیشہ سرتسلیم خم کرتی آئی ہے۔ ہمیشہ اپنے اختیارات چھن جانے پر قومی محرومی کے نام پر اس خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے جذبات سے کھلواڑ کرنے اور اقتدار میں اپنا حصہ حاصل کرنے میں یہ اشرافیہ پیش پیش رہی ہے۔

انقلابی قوتوں کی اس تحریک میں موجودگی اور مسلسل وضاحت کا عمل محنت کشوں اور نوجوانوں کو نتائج اخذ کرنے پرمجبور کر رہا ہے۔عوامی ایکشن کمیٹیوں کے ذریعے شروع ہونے والی اس تحریک کو وقتی طور پر ٹھنڈا تو کیا جاسکتا ہے لیکن یہ پہلے سے زیادہ طاقت سے دوبارہ ابھرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ انقلابی قوتوں کی واضح انقلابی پروگرام کے ساتھ اس تحریک کے اندر موجودگی اور ہر اول کردار اس تحریک کو جموں کشمیر بھر میں پھیلانے کا موجب بن سکتا ہے۔ اس خطے سے ابھرنے والے طبقاتی بغاوت کے شعلے پورے برصغیر کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔