حسن جان
تقریباً ایک سال پہلے افغانستان میں اشرف غنی کی مغربی حمایت یافتہ حکومت شرمناک انداز میں ڈھے گئی اور طالبان کابل میں داخل ہوئے۔ 2001ء میں افغانستان پر حملے اور طالبان کی حکومت کو ختم کر کے بیس سال کے بے تحاشہ عسکری و دیگر اخراجات کیساتھ امریکی سامراج اور اس کے مغربی اتحادیوں کی حمایت سے شروع کیا جانے والا جمہوری تجربہ بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا۔ یہ نام نہاد جمہوری ریاست جس کی قیادت کی باگ ڈور تمام تر سابقہ جرائم پیشہ جہادیوں کے ہاتھوں میں تھی اور جس پر مغربی دنیا جمہوریت، انسانی حقوق اور خواتین کی خود مختاری کے نام پر ناز کرتی تھی تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔ ایک ہزار اَرب ڈالر سے بھی زائد خرچ کرنے کے بعد وہ ایک صحت مند ریاست، مضبوط فوج اور دیگر ریاستی انفراسٹرکچر نہیں بنا سکے۔ تمام تر سیاسی اور جمہوری عمل پر ہمیشہ جنگی سردار اور سابقہ مجاہدین غالب رہے جنہیں ایک وقت میں امریکہ نے ثور انقلاب کو کچلنے کے لیے پروان چڑھایا تھا۔ دوسری طرف امریکہ طالبان کے ابھار اور کاروائیوں کو روکنے میں بھی مکمل طور پر ناکام رہا۔ نوے کی دہائی کی نسبت اب طالبان کے پاس زیادہ علاقائی اتحادی تھے۔ یہ تمام تر عوامل حکومت کے انہدام کا باعث بنے لیکن افغان عوام کی مصیبتیں بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ طالبان کی نئی حکومت تمام شعبوں بالخصوص معاشی شعبے میں کسی تباہ کاری سے کم نہیں ہے۔ کسی سنجیدہ معاشی پروگرام کی غیر موجودگی میں نئی حکومت عوام کے معاشی زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے ان کی اخلاقی پولیسنگ کر ر ہی ہے۔ ملک کھنڈرات بننے کی طرف رواں دواں ہے۔
پچھلی چار دہائیوں سے رجعتی جہادی سرکشیاں افغانستان کو تاراج کر رہی ہیں۔ 27 اَپریل 1978ء کے ثور انقلاب کے نتیجے میں بننے والی نئی انقلابی حکومت کو کچلنے کے لیے مغربی سامراجیوں نے اپنے مقامی اتحادیوں کے ساتھ رجعتی ڈالری جہاد کا آغاز کیا اور اس کی مالی ضروریات کے لیے ایک نارکو اکانومی کی بنیاد رکھی۔ اس رجعتی کاروائی کو ’آپریشن سائیکلون‘ کا نام دیا گیا جس میں اربوں ڈالر جھونکے گئے تاکہ خلق پارٹی کی قیادت میں بننے والی حکومت، جس نے افغانستان سے سرمایہ داری اور جاگیرداری کو ختم کر کے اسے ایک خوشحال اور ترقی یافتہ سماج بنانے کا آغاز کیا تھا، کو کچلا جا سکے۔ پاکستان اور دنیا بھر سے ہزاروں زر خرید جہادی بھرتی کر کے انہیں تربیت دے کر افغانستان میں تباہی پھیلانے کے لیے بھیجا گیا۔ سوویت یونین کے معاشی بحران و انہدام اور خلق پارٹی کے اندرونی تضادات بالآخر انقلابی حکومت کے خاتمے پر منتہج ہوئے۔ لیکن اپنی تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود انقلابی حکومت طویل عرصہ جہادی رجعت کے سامنے کھڑی رہی۔ سوویت یونین کا انہدام وہ اہم عنصر تھا جو اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوا کیونکہ اس سے ملک کی معاشی و عسکری لائف لائن کٹ گئی۔
خلق پارٹی کی حکومت کے گرنے کے بعد مجاہدین کے مختلف ٹولے، جو دراصل مختلف سامراجی طاقتوں کی پراکسیاں تھے، آپس میں کابل پر قبضے کے لیے لڑ پڑے۔ اس خانہ جنگی نے ملک کو کھنڈرات میں بدل دیا۔ یہ صورت حال امریکی سامراج کے لیے بھی ناقابل قبول تھی کیونکہ وہ نئی ’آزاد شدہ‘ وسط ایشیائی ریاستوں کے وسائل پر آنکھیں جمائے ہوئے تھے۔ 1994ء میں انہی مجاہدین گروہوں سے طالبان وجود میں آئے۔ پاکستان کی سٹریٹجک کمک اور خفیہ امریکی مالی حمایت کے نتیجے میں جلد ہی طالبان دوسرے مجاہدین گروہوں پر غالب آ گئے اور کابل پر قبضہ کر لیا۔ وسط ایشیائی ریاستوں کے قدرتی وسائل کو لوٹنے کے لیے ضروری تھا کہ کابل میں ایک مضبوط مرکزی حکومت موجود ہو جو وسائل کی ان ممالک سے افغانستان اور پھر افغانستان سے بحفاظت پاکستان منتقلی کو یقینی بنائے۔ جن کو پاکستان سے بحیرۂ عرب اور وہاں سے عالمی منڈی میں پہنچایا جانا تھا۔ تیل و گیس کی تلاش میں امریکی کمپنی یونوکال، جو اس پائپ لائن منصوبے کا ٹھیکہ ہتھیانے میں مشغول تھی، نے طالبان کی کابل میں اقتدار کی حمایت کی۔ لیکن خطے میں متضاد معاشی مفادات کی حامل عالمی اور علاقائی طاقتوں کی آپسی چپقلش سے یہ منصوبہ شرمندہئ تعبیر نہ ہو سکا۔ 11 ستمبر 2001ء کے واقعات کو بنیاد بنا کر امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا جس کا بظاہر مقصد طالبان اور القاعدہ کو 11 ستمبر کے حملوں کی سزا دینا تھا اور افغانستان میں جمہوریت قائم کرنا تھا۔
حملے کے وقت امریکی سامراج کے کچھ واضح اور چند خفیہ مقاصد تھے۔ بظاہر مقاصد میں طالبان کی حکومت کو گرانا، بنیاد پرستی کو ختم کرنا، جمہوریت قائم کرنا، انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کو فروغ دینا وغیرہ شامل تھے۔ جبکہ خفیہ اور حقیقی مقاصد میں چینی اثر و رسوخ کو روکنا، روس پر نظر رکھنا، ایران پر دھونس جمانا اور افغانستان کے وسیع معدنی وسائل کو لوٹنا تھا۔ بیس سال کی قبضہ گیری کے بعد امریکی سامراج اور ان کے اتحادی اپنے مندرجہ بالا تمام مقاصد میں بری طرح ناکام رہے۔ یہ بات کتنی مضحکہ خیز ہے کہ امریکی سامراج انہی بنیاد پرست رجعتی قوتوں کے ذریعے افغانستان میں جمہوریت لانا چاہتا تھا جنہیں اس نے خلق پارٹی کی حکومت گرانے کے لیے تربیت دی تھی۔ یہی مجاہدین، وار لارڈز اور ڈرگ مافیا ملک میں مغربی جمہوریت کا چہرہ تھے۔
امریکہ نے افغانستان میں ملک سازی یا ’Nation-Building‘ ایک اہم تاریخی موڑ پر شروع کی جب عالمی سرمایہ داری کا نیو لبرل معاشی ماڈل پوری دنیا میں اپنے پھیلاؤ کی آخری حدود کو پہنچ چکا تھا۔ عالمی سرمایہ داری میں پیداواری قوتوں میں آخری بڑی پیش رفت دوسری جنگ عظیم کے بعد کے عرصے میں ہوئی تھی وہ بھی جنگ میں پیداواری قوتوں کی وسیع تباہ کاری کے بعد ہی ممکن ہو سکا۔ تاہم یہ معاشی ابھار بھی 1973ء کے تیل کے بحران کے ساتھ ہی ختم ہوا۔ تب سے ہی گرتی ہوئی شرح منافع کو بحال کرنے کے لیے عالمی سرمایہ داری نے نیو لبرل معاشی نسخوں کٹوتیوں، نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، رائٹ سائزنگ، ڈی ریگولیشن اور معیشت میں ریاستی مداخلت کو کم کرنے جیسے اقدامات کو لاگو کرنا شروع کر دیا۔ ٹریکل ڈاؤن معاشیات کے یہ نسخے ترقی یافتہ ممالک کے محنت کشوں کے لیے بھی کسی تباہی سے کم نہیں تھے۔ معیشت کے تمام کلیدی حصے نجی شعبے کے حوالے کر دیئے گئے تاکہ شرح منافع کو بحال کیا جا سکے۔ اس سے اَرب پتیوں کی ایک نئی پرت پیدا ہوئی جبکہ کروڑوں لوگ اس کی قیمت ادا کرتے ہوئے پوری دنیا میں غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں چلے گئے۔
عالمی سرمایہ داری کی اس کیفیت میں افغانستان میں ’تعمیر نو‘ اور جمہوریت کے قیام کے منصوبے کو ناگزیر طور پر ناکامی سے دو چار ہونا تھا۔ عالمی سرمایہ داری اپنی تاریخی ترقی پسندی کے کردار کو کب کی کھو چکی تھی۔ نہ تو امریکی کسی سنجیدہ تعمیر نو کے خواہاں تھے نہ ہی اس طرح کے کسی اقدام کی گنجائش تھی۔ پس پردہ ان کے منصوبے کچھ اور ہی تھے۔ ان میں بھی وہ ناکام ہو گئے۔ تعمیر نو پر تمام تر وسیع اخراجات کے باوجود وہ افغانستان کو ایک جدید قومی ریاست نہیں بنا سکے۔ امریکہ نے اس سے پہلے اسی طرح کے تجربات جنوبی کوریا، ہانگ کانگ اور چین کے گرد دیگر چھوٹی ریاستوں میں کیے تھے تاکہ سوشلزم کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ لیکن وہ اور دور اور مختلف حالات تھے۔ افغانستان میں ان کے تمام تر تعمیراتی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے مقاصد عسکری تھے۔
جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے تو حامد کرزئی اور اشرف غنی کی شکل میں تمام تر سابقہ مجاہدین اور وار لارڈز کو اقتدار میں لایا گیا۔ انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے نعروں سے صرف شہروں کی مڈل کلاس ہی مستفید ہوئی جو عالمی امداد اور این جی اوز کی سرمایہ کاری سے پیدا ہوئے تھے جبکہ بقیہ افغانستان پہلے کی طرح ہی رلتا رہا۔ منشیات کے گرد بننے والی کالی معیشت اسی طرح جاری رہی جو حتیٰ کہ آج بھی طالبان کی معاشی لائف لائن ہے۔ ان تمام سالوں میں کابل میں امریکی سفارت خانے کے اہلکار بھی منشیات کے اس کالے دھندے میں ملوث پائے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق افغانستان کی 90 فیصد معیشت غیر دستاویزی یا غیر رسمی ہے جس کا ایک بڑا حصہ منشیات کے کاروبار پر مشتمل ہے۔ اس طرح کی معیشت کی موجودگی میں ریاستی ڈھانچوں میں کرپشن اور انتشار پھیلنا ایک ناگزیر عمل ہے۔ دو دہائیوں کی جمہوریت کے دوران بھی نہ افغان حکومت اور نہ امریکی اس غیر رسمی معیشت کو روک سکے۔ اس کے برعکس افغان حکومت کے اپنے اہلکار اس بہتی گنگا سے ہاتھ دھوتے رہے۔ نتیجتاً ان کی نیشن بلڈنگ کا منصوبہ دھڑام سے گر پڑا۔
اپنی تمام تر جدید ٹیکنالوجی اور عسکری برتری کے باوجود نیٹو والے طالبان کی سرکشی کو قابو نہیں کر سکے جنہیں پاکستان کی ڈیپ سٹیٹ سے مسلسل سٹریٹجک اور عسکری کمک مل رہی تھی۔ نوے کی دہائی کے برعکس آج طالبان نے خطے کی طاقتوں ایران، روس اور چین کے ساتھ گہرے تعلقات استوار کر لیے تھے۔ جب امریکی طالبان کو قابو کرنے میں ناکام ہوئے تو انہوں نے طالبان کی صفوں سے بندے توڑ کر اور شام اور عراق سے داعش کے جنگجو منگوا کر افغانستان میں داعش خراسان کی بنیاد رکھی۔ طالبان کی روس اور ایران سے گہری وابستگی اس وقت زیادہ منظر عام پر آئی جب اُن کا اُس وقت کا امیر ملا اختر منصور ایران پاکستان بارڈر کے قریب امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ ملا اختر منصور دراصل داعش اور امریکہ کے خلاف حمایت حاصل کرنے کے لیے روس اور ایران کے دورے سے واپس آ رہے تھے۔
الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں دو دہائیوں میں دو ہزار اَرب ڈالر کے عسکری اخراجات کیے۔ اس کے باوجود امریکہ کو افغانستان سے آبرو مندانہ انداز میں بھاگنے کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے۔ طالبان کے ساتھ قطر میں ہونے والا معاہدہ دراصل امریکہ کی جانب سے اعتراف شکست تھا۔ وہ تمام تر مقاصد میں بُری طرح ناکام ہوئے۔ نہ تو وہ اسلامی بنیاد پرستی کا خاتمہ کر سکے، نہ افغانستان کی تعمیر نو اور نہ ہی ایران، روس اور چین کو قابو کر سکے۔ طالبان کے ساتھ ہونے والے تمام تر مذاکرات کے دوران اشرف غنی کی حکومت کو امریکہ نے اس سارے عمل سے بے خبر یا دور رکھا جو امریکیوں کی بیس سال میں تعمیر کی گئی افغان حکومت کے بارے ان کے حقیقی رویوں اور وقعت کی غمازی کرتا ہے۔ کیونکہ ان کو افغان حکومت کی حیثیت اور طاقت کا پتہ تھا۔
جیسے ہی امریکیوں نے اپنا انخلا شروع کیا تو افغان حکومت ریت کے گھروندوں کی مانند منہدم ہونا شروع ہوئی۔ تین لاکھ پر مشتمل افغان فوج طالبان کی پیش قدمی کے سامنے کوئی مزاحمت پیش نہ کر سکی۔ ایک طرف بے تحاشا کرپشن اور بد انتظامی نے افغان فوج کو کھوکھلا کر دیا تھا۔ تقریباً آدھی فوج تو صرف کاغذوں میں وجود رکھتی تھی جن کی تنخواہیں حکام بالا ہڑپ کر جاتے تھے۔ اکثر اوقات فوجی سامان رسد نہ پہنچنے کی وجہ سے ہتھیار ڈال دیتے تھے۔ سپاہیوں کو خوراک اور دیگر رسد کے لیے افسران کو رشوت دینا پڑتی تھی۔ دوسری طرف سیاسی قیادت (وار لارڈز اور سابقہ مجاہدین) اور حکومت کسی قسم کی مزاحمت کا سوچ بھی نہیں رہے تھے۔ انہوں نے اپنے تئیں طالبان سے مراسم استوار کیے ہوئے تھے کیونکہ وہ خود مختلف علاقائی طاقتوں کی پراکسیاں تھے۔ مثلاً ہرات کے وار لارڈ اسماعیل خان نے شروع میں کچھ مزاحمت کا مظاہرہ کیا لیکن تہران میں اپنے آقاؤں کے حکم پر طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ بعد میں وہ ایران فرار ہوا۔ صوبوں کا اس تیزی سے سقوط کرنا دراصل وار لارڈز اور قبائلی عمائدین کی طالبان کے ساتھ پس پردہ سفارت کاری کی وجہ سے تھی۔ اس انتشار کی کیفیت میں طالبان کی پیش قدمی کے سامنے صدر اشرف غنی مکمل بے بس تھا۔ عالمی مالیاتی اداروں کے اس سابقہ آفس کلرک سے اس سے زیادہ توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ ایک مضبوط مرکزی قیادت کی غیر موجودگی میں تمام صوبوں کے کمانڈرز ایک کے بعد ایک طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالتے رہے۔ 15 اَگست 2021ء کو صدر اشرف غنی خصوصی طیارے میں سوار ہوا اور مبینہ طور پر لاکھوں امریکی ڈالروں کے ساتھ ملک سے فرار ہوا۔ طالبان کابل میں داخل ہوئے اور امریکی انخلا کے لیے مختص دن یعنی 31 اَگست سے پہلے ہی کابل پر قابض ہوئے۔
دنیا کے ایک رجعتی ترین ٹولے کے ہاتھوں امریکہ کی شرمناک شکست پاکستان، ایران، روس اور چین کی کمک کے بغیر ناممکن تھی۔ اس بار کابل پر طالبان کا قبضہ تقریباً بغیر کسی خون خرابے کے مکمل ہوا کیونکہ درج بالا ریاستوں میں ایک ہم آہنگی تھی۔ امریکی جارحیت کے مقاصد میں سے ایک انہی ریاستوں کو لگام دینا تھا۔ اس مقصد کے لیے ہی امریکہ نے بعد میں داعش کو تخلیق کیا تھا۔
طالبان کی اس رجعتی فتح کے بعد عوام کے لیے مصیبتوں کے ایک اور دور کا آغاز ہوا ہے۔ جب امریکی سامراج اپنے تمام تر معاشی اور عسکری وسائل کے باوجود افغانستان میں ایک صحت مند ریاست تعمیر نہیں کر سکی تو طالبان جیسا رجعتی گروہ، جن کے پاس نہ کوئی معاشی وسائل ہیں اور نہ ہی کوئی معاشی پروگرام، یہ کام کیسے کر سکتا ہے؟ کابل میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد ملک معاشی طور پر محصور ہو گیا ہے۔ معاشی پابندیاں لگنے کی وجہ سے ملک عالمی منڈی سے کٹ چکا ہے جس کے نتیجے میں تھوڑی بہت رسمی معیشت کا بھی جنازہ نکل گیا ہے۔ طالبان سے پہلے افغانستان کی 75 فیصد سرکاری معیشت بیرونی امداد پر چلتی تھی۔ سابقہ حکومت کے انہدام کے ساتھ ہی تمام تر بیرونی امداد رُک گئی۔ نتیجتاً تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بے روزگاری میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ جہاں تک طالبان کی حمایت کرنے والی علاقائی ریاستوں (چین، روس، ایران، پاکستان) کا تعلق ہے تووہ کبھی بھی افغانستان کو سابقہ دور میں ملنے والی امداد کی جگہ نہیں لے سکتے۔ چین کی نظریں ملک میں موجود لیتھیم، کاپر اور دیگر معدنیات پر ہیں۔ چین نے سرمایہ کاری کا بھی وعدہ کیا ہے لیکن غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے ہچکچا رہا ہے۔ ایران، پاکستان اور روس پہلے ہی اپنے معاشی بحران سے جوجھ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال میں پانچ لاکھ سے زائد افراد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس سال 97 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے گر جائے گی۔ سوشل میڈیا پر سابقہ صحافیوں اور میڈیا کارکنان کی تصاویر وائرل ہیں جس میں وہ گلیوں میں پھل بیچ رہے ہوتے ہیں۔ کابل میں ہر دن خیرات تقسیم کرنے والوں کے گرد لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ روٹی کے ایک ٹکڑے کی خیرات کے لیے بیکریوں کے سامنے لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں۔ طالبان کے معاشی پروگرام کے عین مطابق ملک میں بھکاریوں کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے کیونکہ طالبان کے پاس بھی امداد مانگنے اور خیرات کے علاوہ کوئی اور معاشی منصوبہ نہیں۔ 95 فیصد افغان خاندانوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔ بچوں کے تحفظ کے عالمی ادارے ’Save the Children‘ کی فروری 2022ء کی ایک رپورٹ کے مطابق، ”اگست 2021ء سے 82 فیصد افغان خاندانوں کی آمدنی ختم ہو چکی ہے۔ ہر پانچ میں سے ایک خاندان اپنے بچوں کو قلیل اجرت کے لیے کام پر بھیجتے ہیں جبکہ 7.5 فیصد خاندانوں کا کہنا ہے کہ ان کو خیرات بھی مانگنی پڑتی ہے۔“
ایک طرف معاشی وسائل اور قابل عمل معاشی پروگرام کی غیر موجودگی میں طالبان سماج پر اپنی رجعتی عورت دشمن اخلاقیات لاگو کر رہے ہیں۔ لڑکیوں پر تعلیمی اداروں کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔ مختلف محکموں میں کام کرنے والی خواتین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی جگہ کسی مرد رشتہ دار کو کام کرنے لیے بھیجیں۔ اب ان کی ضرورت نہیں۔ میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کو اپنا چہرہ ڈھانپنے کی ہدایت کی گئی ہیں۔ دوسری طرف طالبان کے مختلف دھڑوں کے درمیان تضادات بھی سر اٹھا رہے ہیں۔ پچھلے سال اپنی حکومت کے ابتدائی ایام میں کابل میں ایک میٹنگ کے دوران طالبان قیادت کے بیچ خوفناک تصادم ہوا۔ مبینہ طور پر یہ لڑائی طاقت کی تقسیم پر تھی جو طالبان کے دو دھڑوں حقانی نیٹ ورک(جس کی قیادت سراج الدین حقانی کر رہا ہے) اور ملا برادر کے دھڑے کے درمیان ہوئی۔ اس لڑائی میں ملا برادر زخمی بھی ہوا جہاں سے وہ قندھار فرار ہوا۔ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی ڈیپ سٹیٹ کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ افغانستان کی اندرونی سکیورٹی اور وزارت داخلہ کا قلمدان بھی حقانی دھڑے کے پاس ہے۔ جبکہ ملا برادر نے دوحا میں امریکیوں کے ساتھ مذاکرات کیے تھے جس کے نتیجے میں امریکی انخلا کا راستہ بنا۔ مبینہ طور پر 2010ء میں وہ اسلام آباد کی خواہشات کے برعکس امریکہ کے ساتھ الگ ڈیل کرنا چاہتا تھا۔ اسے اسی سال کراچی سے گرفتار کیا گیا اور 2018ء تک قید میں رہا۔ ملا برادر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کابل میں ایک ہمہ شمول حکومت کے حق میں ہے۔ تاریک معاشی مستقبل کے تناظر میں اس جیسی مزید اندرونی لڑائیاں آنے والے دنوں میں جنم لے سکتی ہیں۔
پچھلی چار دہائیوں سے افغانستان پر ایک خانہ جنگی مسلط ہے۔ اس انتشار اور تباہ کاری نے سیاسی عمل کو ڈی ریل کر دیا ہے۔ سیاسی سرگرمیوں کی جگہ وار لارڈز، مجاہدین اور اب طالبان کی غنڈہ گردی نے لے لی ہے۔ دراصل طالبان نے ایک زندہ ملک کی بجائے کھنڈرات پر قبضہ کیا ہے جہاں کوئی معاشی مستقبل نہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک زیادہ خطرناک انسانی المیے کی طرف جا رہا ہے۔ عوام یقینا ان حالات کو زیادہ دیر برداشت نہیں کریں گے۔ صنفی امتیاز کے خلاف خواتین کے مظاہرے موجودہ حالات میں موجود امکانات کو ظاہر کرتے ہیں۔ اگر طالبان اس طرح کی مزاحمت کو کچلنے کی کوشش کریں گے تو اس سے عوامی غم و غصہ مزید بڑھے گا اور صورت حال کو مزید پیچیدہ کر دے گا۔ کیونکہ افغانستان ایران کی تھیوکریٹک ریاست کی طرح نہیں ہے جہاں تمام تر جبر کے باوجود کچھ معاشی اور سماجی امکانات بھی وجود رکھتے ہیں۔ مزید جبر سے افغانستان کی نسلی بنیادوں پر ٹوٹ پھوٹ بھی ہو سکتی ہے۔ نام نہاد قومی مزاحمتی محاذ (سابقہ مجاہدین کا ایک رجعتی ٹولہ جس کی قیادت احمد شاہ مسعود کا بیٹا احمد مسعود کر رہا ہے) داعش کے ساتھ مل کر مستقبل میں طالبان پر حملے بھی کر سکتا ہے جس سے ملک میں خون خرابہ مزید پھیلے گا۔ لیکن صورت حال کوئی اور رخ بھی اختیار کر سکتی ہے۔ یوکرائن کی جنگ نے پہلے سے بحران زدہ پاکستانی ریاست کے خلفشار کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ ریاستی بحران پھٹ کر گلی محلوں کی زینت بن چکا ہے۔ اسی طرح ایران میں افراط زر آسمانوں سے باتیں کر رہا ہے۔ یہ صورت حال ان ممالک میں سماجی دھماکے کر سکتی ہے۔ اسلام آباد یا تہران میں سے کسی بھی جگہ کوئی ترقی پسند تبدیلی افغانستان کے لیے امید کی کرن ثابت ہو گی۔ خطے میں ایسی انقلابی تبدیلی ہی افغانستان کے عوام کو اس دہائیوں کی اذیت سے نجات دلا سکتی ہے۔