اویس قرنی

آج کرۂ ارض کا ہر خطہ سرمایہ داری کے تضادات سے لبریز ہے۔ بغاوتیں، مظاہرے، احتجاج اور ہڑتالیں پوری دنیا میں معمول بن چکے ہیں۔ بہت کم ممالک ہیں جہاں زندگی حسب معمول ہو۔ سامراجی جنگوں، چپقلشوں، دیوالیوں اور محرومی میں آبادی کی وسیع اکثریت برباد ہو رہی ہے۔ وسائل کا بے پناہ ضیاع ہے۔ سرمائے کی ہوس میں ماحولیاتی تبدیلیوں نے نسل انسان کی بقا پر سنجیدہ سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ افراط زر میں مسلسل اضافہ ہے۔ روایتی جمہوری آزادیوں پر قدغنیں ہیں۔ تعلیم ایک طرف عیاشی ہے تو دوسری جانب ایک عذاب بن چکی ہے۔ نوکریاں نا پید اور مسلسل چھانٹیاں جاری ہیں۔ ہر طرف ایک بے یقینی کا عالم ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر بقا کا مسئلہ حاوی ہو تا جا رہا ہے۔ یہ ماحول پوری دنیا میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کی معیشت اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے اور اس بحران زدہ معیشت پر پروان چڑھنے والی سیاست تعفن پھیلا رہی ہے۔ اس تعفن سے سماج کی حالت غیر ہوتی جا رہی ہے۔ اخلاقی قدریں، ثقافت، مزاج گویا ہر چیز مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ اس کیفیت میں یقینی طور پر تحریک انصاف کے رجعتی اور نیم فسطائی رحجان کے ابھار کے بعد کہیں زیادہ شدت آئی ہے۔ پاکستان اکثریتی نوجوان آبادی والا ملک ہے۔ ملک کی آبادی کا 64 فیصد 30 سال سے کم عمر نفوس پر مشتمل ہے۔ ملک کی سیاسی کیفیت اور رحجانات کا تناظر تخلیق کرنے کے لیے آبادی کے اس انتہائی اہم حصے کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔

یہ ایک ایسی نسل ہے جو مسلسل زوال اور بحرانات میں پروان چڑھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کی اس وقت کی آبادی کا تقریباً 64 فیصد سوویت یونین کے انہدام کے بعدپیدا ہوا اور پروان چڑھا۔ ایک ایسے ماحول میں جب امریکی سامراج اور یہاں کے گماشتہ حکمرانوں نے افغانستان میں بنیاد پرستانہ وحشت کو استوار کیا اور اس کی کمک کے حصول کے لیے پاکستان میں نصاب، ذرائع ابلاغ و مواصلات کے ذریعے رجعتی نظریات کی آبیاری کی گئی۔ اس نسل کی یاداشتوں میں زیادہ تر جہاد، اسلحہ، کرپشن، نفسانفسی، قومی شاونزم اور دہشت گردی ہی ہے۔ یا پھر ادھورے اور زوال پذیر لبرلزم کی بیہودگیاں ہیں۔ یہاں سینما، ڈرامہ، شاعری، ادب غرضیکہ ہر چیز کو اس رجعت سے زہر آلود کیا گیا ہے۔ لوگوں نے ادب اور فن کو خود سے جدا نہیں کیا لیکن جب فن نے خود کو لوگوں سے کاٹا تو لوگوں نے اسے مسترد کر دیا۔ جس کا اظہار آج ہمیں ہر جگہ ملتا ہے۔ ضیائی آمریت کے بعد کی حاکمیتوں کی نیو لبرل پالیسیوں نے سماج کو ثقافتی طور پہ مزید پیچھے کی جانب دھکیلا۔ اس لیے اس عرصہ میں پروان چڑھنے والی خاص طور پر شہری نوجوان نسل انتہائی قابل ترس ہے۔ سماج کے حالات اور طبقاتی ترکیب نے اس نسل میں پیٹی بورژوا رحجانات کی آبیاری کی اور یہی نسل بنیادی طور پر موجودہ سیاسی میدان میں اہم عامل بھی بنی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسی پرت نے اپنے رحجانات نئی نسل کے بچوں پر بھی بڑی بیدردی سے تھونپے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین پر پابندی اور سیاسی عمل میں عام لوگوں کے لیے بالکل ناپید مواقع نے آبادی کے اس وسیع تر حصے کو سیاست سے بالکل بے بہرہ کیا اور یہی سیاسی بے بہرہ پن ان کی ایسی سیاست بنی ہے جس کی کوئی اخلاقیات و روایات نہیں۔ بلکہ شاید زہریلی اور منافقانہ رجعت ہی اس سیاست کی اخلاقیات ہے۔ جو مغربی آزادیوں کے بھی خواہاں ہیں لیکن دہائیوں سے ٹھونسی گئی رجعت سے بھی ناطہ توڑنے کو تیار نہیں۔ جن کے لیے کوئی انسانی اصول و ضوابط بے معنی ہیں۔ سیاسی افق پر ان پیٹی بورژوا رجحانات نے بہرحال عمران خان کی شکل میں اپنا مجسم اظہار کیا اور مڈل کلاس کی تمام تر محرومیوں نے ایک منفی انداز میں یکجا ہو کر تحریک انصاف کے طوفان بدتمیزی کی بنیاد رکھی۔ جس میں یقینی طور کارپوریٹ میڈیا سمیت ریاست کے زیادہ رجعتی اور جابر دھڑوں کا فیصلہ کن کردار تھا۔

لیکن اس تمام تر عرصے میں سماج و سیاست بالکل ساکت بھی نہیں رہے۔ کئی دیوہیکل واقعات نے بھی جنم لیا۔ ان قومی اور طبقاتی تحریکوں میں نوجوانوں کی کئی پرتیں شامل رہیں۔ حالیہ عرصے میں مذہبی دہشتگردی اور ریاستی جبر کے خلاف قبائلی علاقہ جات اور خیبر پختونخواہ میں اٹھنے والی پی ٹی ایم کی تحریک میں نوجوانوں کی شمولیت فیصلہ کن رہی۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد کے حالات میں ایسی بیشتر تحریکوں کی قیادت کی موقع پرستی اور مایوسی نے ان تحریکوں کو قومی و لسانی محدودیت کی جانب بھی دھکیلا۔ لیکن ان میں نوجوانوں کی مسلسل شمولیت نے سطح کے نیچے پنپنے والے طبقاتی تضادات کو بھی آشکار کیا۔ اسی طرح 2007-08ء میں ایک جفا کش تحریک کا ملک گیر سطح پر اظہار ہو رہا تھا۔ جس کو پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت نے اقتدار کے حصول کے لیے مفاہمت کے نام پر کچل ڈالا اور اپنے دور حکومت میں یہاں کے عوام کو نفسیاتی طور پر اس قدر گھائل کیا جس کی مثال شاید ہی ماضی میں ملتی ہو۔ بدترین لوڈشیڈنگ اور آسمانوں کو چھوتی مہنگائی نے محنت کشوں کی کمر توڑ ڈالی۔ آئی ایم ایف کی ایما پر نیو لبرل پالیسیوں کا بے رحمی سے اطلاق کیا گیا۔ جن کی بنیاد خود کسی زمانے میں بے نظیر بھٹو نے ڈالی تھی۔ کبھی محنت کشوں کی طاقت سے ابھرنے والی اس پارٹی نے محنت کشوں کو ان کے تمام ناکردہ گناہوں کی سزا دی۔ نوجوانوں کے لیے کوئی ایک مثبت اقدام بھی نہیں کیا گیا۔ طلبہ یونین پر پابندی ہٹانے کے کھوکھلے وعدے وفا نہ ہو سکے۔ کوئی بڑا تعلیمی پراجیکٹ سامنے نہیں لایا گیا۔ آبادی کی اس انتہائی اہم اکثریت کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیا گیا۔ نتیجتاً انہوں نے بھی ان سے منہ پھیرنا شروع کر دیا۔ خیراتی پراجیکٹوں کو بے شرمی سے عظیم بنا کر دکھایا جاتا رہا اور پس پردہ کرپشن و بدعنوانی کا راج رہا۔ نظریات مٹتے گئے اور چاپلوسی و منافقت پارٹی کو دیمک کی طرح اس قدر چاٹتی رہی کہ آج صرف ریاستی منظوری اور آشیر باد ہی پارٹی قیادت کا نصب العین بن گیا ہے۔ اس تاریخی غداری اور انحراف نے جو خلا پیدا کیا اس کو ریاستی دھڑوں نے بھرپور پشت پناہی سے تحریک انصاف کی صورت بھرنا شروع کیا۔ یہ ایک ایسا غبارہ تھا جس میں کسی ٹھوس نظریے یا لائحہ عمل سے ماورا ہوا بھری جاتی رہی۔ نوجوانوں کی طاقت کو یہاں موجود پہلے کے حکمران بھی سمجھتے اور جانتے تھے لیکن وہ اس سے خوف بھی کھاتے تھے۔ انہیں بہرحال یہ اندازہ ضرور تھا کہ ان کو چھیڑنا اور بیدار کرنا مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ نوجوانوں کا متحرک کردار کسی ایک سیاسی پارٹی یا اس پارٹی کی موروثی قیادت کو ہی نہیں بلکہ پورے نظام کو لپیٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور یہ جائز خوف حکمران طبقات کو ہمیشہ سے لاحق ہے۔ خاص طور پر 1968-69ء کا انقلابی طوفان ابھی بھی حکمرانوں کی یاداشتوں سے مٹا نہیں۔ یہ درست ہے کہ حکمرانوں نے نئی نسل کو اس انقلابی تاریخ سے یکسر بے بہرہ رکھا لیکن اس کے باوجود یہ آج بھی ان کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ اس لیے ماضی میں حکمران طبقے کے کسی دھڑے نے نوجوانوں کو منظم اور متحرک کرنے کی غلطی نہیں کی۔ یا ایسی کوئی نعرے بازی کی بھی گئی تو ایک نیم دلانہ اور کنٹرولڈ انداز میں۔ لیکن اس نسل میں بڑھتی بے چینی کو یکسر نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں تھا۔ ایسے میں نوجوانوں کا اپنے تئیں متحرک ہونے کا خدشہ بھی موجود تھا جس کے نتائج ریاست اور حکمران طبقات کے لیے غضبناک ہو سکتے تھے۔ لیکن اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود تحریک انصاف کی اٹھان کے وقت سے ہی نوجوانوں کی زیادہ باشعور پرتوں میں اس رجحان کے جعلی پن اور اس نظام کی محدودیت کا پردہ بھی چاک ہوتا گیا۔ ان حالات میں نوجوانوں کی ایک اقلیتی لیکن باشعور ترین پرت نے انقلابی نتائج بھی اخذ کیے۔

نظام کا بحران شدت اختیار کرتا چلا گیا اور 2013ء سے لے کر آج تک مسلسل سیاسی دھینگا مشتی جاری و ساری ہے۔ ریاست کے دھڑوں میں کشمکش شدید تر ہوتی چلی گئی جس میں ن لیگ بھی اہم کھلاڑی کے طور پر شامل ہے۔ کاروباری پیٹی بورژوازی میں سماجی بنیادیں رکھنے والی بورژوازی کی اس روایتی جماعت کے لیے بعض لبرل اقدامات ناگزیر تھے جو پھر ریاست کے قدامت پسند لیکن طاقتور دھڑوں کے مفادات سے متصادم تھے۔ یوں برسوں کی آبیاری سے تخلیق کردہ اس پارٹی کے اپنے ہی آقاؤں سے تضادات بنے۔ لیکن ظاہر ہے اپنے دور اقتدار میں نواز لیگ نوجوانوں کو اپنی جانب راغب نہ کرسکی۔ نہ ان کے دکھوں کا مداوا ہو سکا۔ نمائشی انداز میں لیپ ٹاپ وغیرہ کی ترسیل تو کی گئی مگر فیسوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ کوئی نئے کالج یا یونیورسٹیاں نہیں بنیں۔ بلکہ سکولوں اور کالجوں کی نجکاری کی گئی۔ باعزت روزگار کا کوئی ایک منصوبہ بھی عمل پذیر نہ ہو سکا۔ ایسے میں اقتدار کے ایوانوں کی مذکورہ بالا چپقلش میں نواز شریف کا دھڑن تختہ ہوا۔ نواز شریف کے دھڑے کے نسبتاًجارحانہ موقف کو ابتدا میں پذیرائی بھی ملی لیکن خود ن لیگ میں تقسیم اور شاید اس سے بڑھ کے کوئی عوامی معاشی و سیاسی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے یہ مقبولیت بھی سست پڑتی گئی اور آج یہ ریاست کے ایک دھڑے کی کاسہ لیسی میں تخت پر براجمان ہیں۔ 2018ء کے الیکشن کے بعد ریاستی سرپرستی میں تحریک انصاف کے جابرانہ اقتدار کے وقتوں میں یہاں کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے خلاف جبر میں کہیں زیادہ شدت آئی۔ بچی کھچی جمہوری آزادیوں کا گلہ گھونٹا گیا۔ اپوزیشن کے وقتوں کے بلند و بانگ دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے۔ پہلے سے کہیں زیادہ نااہل اور ڈھیٹ حاکمیت نے ستم کے نئے ریکارڈ بنائے۔ معاشی حالت تو پہلے ہی نحیف تھی لیکن اس اناڑی حاکمیت نے عوام کے دکھوں اور تکالیف کو ہی مذاق بنا کے رکھ دیا۔

انہی وقتوں میں طلبہ کی مخصوص پرتوں میں سیاسی احیا کی کیفیت بھی نظر آئی۔ مشال خان کے بہیمانہ قتل نے ان کے شعور پر گہرے نقوش چھوڑے۔ ایسے میں کچھ ترقی پسند تنظیموں کی انتھک موضوعی کاوشوں سے طلبہ سیاست موضوع بحث بنی۔ ان طلبہ تنظیموں نے تحریک انصاف سے تنگ ترقی پسند رجحانات رکھنے والے طلبہ کی بنیاد پر تعداد میں قلیل ہونے کے باوجود ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیاں کیں۔ ملک گیر سطح کے طلبہ یونین بحالی مارچوں نے اس نئی صورتحال کا پتہ دیا۔ لیکن اس تحرک میں موضوعی عنصر کا کردار موضوعی حالات سے کہیں زیادہ تھا۔ جس میں نظریاتی پختگی کی کمی کے سبب یہ مومنٹم جاری نہیں رہ سکا۔ اس میں منتظمین کی خود نمائی اور آپسی چپقلشوں کا کردار بھی تھا۔ طلبہ کی وسیع تعداد نے جس قدر مارچوں میں شمولیت اپنائی تھی اس شرح سے ان تنظیموں میں شمولیت نہ ہو سکی اور یوں یہ محض ایک سالانہ تہوار بنتا گیا۔ لیکن طلبہ کی اس ہلچل نے بھی ایک نئے معمول کی بنیاد رکھی۔ خاص طور پر کورونا وبا کے وقتوں میں حکمرانوں کے بے حس اقدامات کے خلاف پھر طلبہ متحرک ہوئے۔ ایک ایسا ملک جہاں بجلی و پانی تک رسائی یقینی نہیں وہاں آن لائن تعلیم کا اطلاق ایک کھلواڑ نہیں تو اور کیا تھا۔ دور افتادہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے یہ لڑائی لڑی اور حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور بھی کیا۔ لیکن ہم نے اس وقت بھی واضح کیا تھا کہ اس کے بعد بھی طلبہ میں مسلسل ایک بے چینی کی کیفیت رہے گی۔ وہ پھر کسی اور ایشو پر مظاہرے بھی کریں گے۔ پہلے آن لائن تعلیم کے خلاف احتجاج ہوئے۔ پھر آن کیمپس امتحانات کے خلاف یہ سلسلہ نظر آیا۔ پھر میڈیکل کے طلبہ نے اپنے مطالبات کے حق میں ایجی ٹیشن کی۔ پھر فیسوں میں اضافے کے خلاف کئی یونیورسٹیوں میں احتجاجات نظر آئے۔ یوں طالبعلم مسلسل کسی نہ کسی مطالبے کو لیے سراپا احتجاج رہے۔ مقداری اور جغرافیائی حوالے سے محدود ہونے کے باوجود یہ سلسلہ ابھی بھی تھمے گا نہیں۔ آنے والے دنوں میں ایسے احتجاج زیادہ شدت اور سنجیدگی اختیار کر سکتے ہیں۔

لیکن حالیہ سیاسی ہلچل میں نوجوانوں کے کردار کا تعین کرنے کے لیے اس آبادی کی بنتر کو ملحوظ خاطر رکھنا بھی نہایت اہم ہے۔ یو این ڈی پی کی 2020ء کی رپورٹ کے مطابق آبادی کے 64 فیصد نوجوان حصے میں سے 29 فیصد ناخواندہ ہیں۔ جن پر تعلیم کے دروازے ہی بند ہیں۔ صرف 6 فیصد نوجوان ہی 12 سالہ تعلیم کے بعد تدریسی عمل جاری رکھنے کی سکت رکھتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں بات صاف ہو جاتی ہے کہ گزشتہ عرصے میں طلبہ کا تحرک بنیادی طور پر یونیورسٹی کے طلبہ کی کچھ پرتوں پر محیط تھا جس نے نوجوان آبادی کے نہایت ہی قلیل حصے کو سیاسی طور پر متحرک کیا۔ جبکہ نوجوانوں کی وسیع تعداد کسی سنجیدہ نوعیت کی سیاست سے لاتعلق ہی رہی۔ یہی پرتیں اب تحریک انصاف کا ایندھن بن رہی ہیں۔ یہ بھی اہم ہے کہ یونیورسٹی طلبہ کی ہی ایک وسیع تعداد اس رجعتی رحجان کی آبیاری کرتی نظر آتی ہے۔ جس میں جہاں معروضی حالات کا کردار فیصلہ کن ہے وہاں مذکورہ بالا موضوعی کمزوریوں کا بھی کردار ہے۔

نوجوانوں کی ایک خطیر تعداد غیر رسمی شعبہ جات سے وابستہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ہر سال 40 لاکھ نوجوان کام کرنے کی عمر میں داخل ہو رہے ہیں اور ان میں صرف 39 فیصد کو ہی کسی قسم کا روزگار میسر آتا ہے۔ ملک کی آدھی سے زائد نوجوان آبادی کسی قسم کی معقول تعلیم، نوکری یا ٹریننگ سے ہی یکسر باہر ہے۔ تعلیم یافتہ 20 لاکھ نوجوان ہر سال محنت کی منڈی میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ ملک کی سالانہ شرح ترقی اس کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ نوکریاں ناپید ہیں۔ ڈگریاں ہاتھوں میں لیے نوجوان بیروزگاری کی اذیت میں سسک رہے ہیں۔ ایسے میں غیر رسمی اور کالی معیشت کے شعبے ہی بچتے ہیں لیکن پھر ان کی سیاسی معاشیات کے سماج پر منفی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ ایک لمپن معیشت پر لمپن سیاست ہی استوار ہو سکتی ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کے مفادات جڑے ہوتے ہیں۔ موجودہ سیاسی تعفن ان ذہنوں کو مزید آلودہ کر رہا ہے۔ یہ درست ہے تحریک انصاف کی فسطائی روش میں شہری مڈل کلاس اور پیٹی بورژوازی کا اہم کردار ہے لیکن لمپن عناصر اور محنت کشوں کی پسماندہ پرتیں بھی اس رحجان کی جانب راغب معلوم ہوتی ہیں۔ اور یہ تعداد قابل ذکر ہے۔ لیکن پھر یہ کوئی نظریاتی سیاسی وابستگی بھی نہیں ہے۔ بلکہ ایک غیر مستحکم قسم کی جڑت ہے۔

یہاں تہوار ناپید ہو چکے ہیں۔ میلے ٹھیلے تاریخ بن چکے ہیں۔ سینما عملاً ختم ہو چکا ہے۔ میوزک انڈسٹری زوال پذیر ہے اور میوزک کنسرٹس کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے ختم کیا گیا ہے۔ تعلیم کے نام پر دھوکہ ہے اور روزگار کے نام پر اذیت ہے۔ اس لیے کسی تفریح کی عدم موجودگی میں یہاں کے سیاسی جلسے بھی کنسرٹس کی حیثیت تک محدود ہو گئے ہیں جن کو پھر عمران خان جیسے نوسرباز باقاعدہ مذہب کا تڑکہ لگاتے ہیں۔ ان جلسوں کی وسعت سے بھی سیاسی کیفیات کا بالکل درست اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

یوں آج کی نوجوان نسل بحیثیت مجموعی ایک سیاسی حبس اور تعفن کے ماحول میں شعوری لاشعوری طور پر کسی تازگی، کسی نجات، کسی متبادل راستے کی متلاشی ہے۔ ان کی طرف تضحیک آمیز رویہ انقلابی راستے اور منزل سے ان کی دوریاں ہی بڑھائے گا۔ اور منڈی کے نظام کی وحشت ان کو نگل جائے گی۔ حالات و واقعات جس سمت میں گامزن ہیں ایسے میں نوجوانوں (بالخصوص طلبہ) کا سیاسی تحرک نسبتاًبلند سطح پر خود کو دہرا سکتا ہے۔ ان نوجوانوں تک انقلابی سوشلزم کا پیغام لے کر جانا ہی اولین ذمہ داری بنتی ہے جو محنت کشوں کی نجات کی ضامن انقلابی پارٹی کی تعمیر میں فیصلہ کن اہمیت کی حامل ہے۔ خاص طور پر نئی نسل جیسا کہ ’ملینیلز‘ اور ’جنریشن زی‘ کے ذہنی و نفسیاتی رجحانات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ان کے مزاج اور ترجیحات بہت مختلف ہیں۔ ان کی تفریح سے لے کر کھیل کے انداز تک ماضی سے جدا ہیں۔ یہ ماضی سے کہیں زیادہ انٹرنیشنلسٹ رحجانات کی حامل نسل ہے اور پچھلی نسلوں کی نسبت اپنے جوہر میں ہی تکینکی اعتبار سے کہیں بلند اور ماڈرن ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے۔ ان کے سوالات بھی مختلف ہیں اور یہ اپنے تئیں جوابات کے متلاشی بھی ہیں۔ مروجہ نظام میں ان کو تسلی بخش جوابات نہیں مل رہے۔ جس کے وجہ سے ان میں شدید بے چینی موجود ہے۔ جو انکسائٹی اور ڈپریشن جیسی صورتوں میں بھی اپنا اظہار کرتی ہے۔ خاص طور پر لڑکیاں صدیوں کے عذابوں اور جبر سے سخت نفرت رکھتی ہیں۔ یہ نسل جوانی کے دوراہے پر کھڑی ہے۔ مستقبل میں یہ بہت طوفانی ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن اس بے چینی، تجسس اور بے انتہا توانائی کو کوئی انقلابی نظریہ درکار ہے۔ ان تک انقلابی مارکسزم کے سچے نظریات پہنچانا انقلابیوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ دہائی بغاوتوں اور سرکشیوں سے لبریز ہے۔ اور صرف ایک انقلابی پارٹی میں منظم نوجوان ہی وقت کا دھارا موڑ سکتے ہیں۔