حسن جان

پاکستان جیسے ملکوں میں اب یہ ایک دلخراش معمول بن چکا ہے کہ ہر چند سال بعد شدید بارشوں کے نتیجے میں قیامت خیز سیلاب آتے ہیں جس سے نشیبی اور کمزور انفراسٹرکچر کے حامل علاقے زیر آب آ جاتے ہیں۔ ہزاروں کچے پکے گھروں کو سیلاب بہا کر لے جاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں لوگوں کے مال و مویشی اور تمام تر جمع پونجی بھی اس آفت کی نذر ہو جاتے ہیں جبکہ سینکڑوں غریب لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ غریب خاندانوں کی دن رات کی محنت سے بنایا گیا قلیل نظام زندگی ایک دم سے ختم ہو جاتا ہے اور ان کی زندگی کا سفر پھر صفر سے شروع ہو جاتا ہے۔ ان آفات کے دوران امدادی امور میں ریاستی عمل داری کہیں نظر نہیں آتی اور لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے انتظامات کرتے ہیں۔ حکمران طبقات، ان کے سیاسی نمائندے اور حکومتیں سیلاب متاثرین کے ساتھ معمول کے فوٹو سیشن شروع کر دیتے ہیں۔ حکومت اور بیوروکریسی میں سیلاب متاثرین کی امداد کے نام پر لوٹ مار کا ایک اور سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ان بحران زدہ ریاستوں کے بے حس حکمرانوں کے لیے شاید یہ آفات، جو قطعاً قدرتی نہیں، معمول کی چیزیں ہوں گی لیکن اس طرح کی تمام تر آفات عوام کی آنکھوں میں حکمرانوں کے نظام اور ان کے طرز حکمرانی کو مزید ننگا کرتی ہیں اور محنت کشوں کے شعور کو جھنجھوڑ دیتی ہیں۔

بارشوں اور سیلاب کی حالیہ لہر نے جنوبی پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کے بیشتر علاقوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق حالیہ بارشوں اور سیلاب سے اب تک 650 سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں (بین الاقوامی میڈیا کی مطابق تقریباً ایک ہزار) جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں لیکن اندرون بلوچستان میں ایسے بہت سے علاقے ہیں جن کا زمینی رابطہ ملک سے منقطع ہو چکا ہے اور جہاں شدید جانی اور مالی نقصانات کا اندیشہ ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق جانی نقصانات کا تخمینہ دو ہزار لگایا جا رہا ہے۔ حقیقی اموات اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہیں۔ سرائیکی وسیب میں بھی سیلاب کی تباہ کاریاں ناگفتہ بہ ہیں۔ شہر کے شہر سیلابی پانی میں ڈوب گئے ہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہروں میں بارش اور سیلاب کے نقصانات زیادہ تر غیر قانونی یا غیر منصوبہ بند تعمیرات کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ لیکن اندرون بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں نقصانات کچے مکانات کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پورے ملک میں سیلاب کی وجہ سے تباہ ہونے والے 60 فیصد مکانات کا تعلق بلوچستان سے ہے۔

این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق پچھلے تیس سالوں میں مجموعی طور پر ملک میں بارشوں کی سالانہ اوسط 119 ملی میٹر رہی جبکہ اس سال اوسطاً 267 ملی میٹر بارشیں ہوئیں یعنی 124 فیصد کا اضافہ۔ بلوچستان کا پچھلے تیس سال کا بارشوں کا اوسط 55 ملی میٹر تھا جبکہ اس سال 289 فیصد بڑھ کر 200 ملی میٹر ہو گیا ہے۔ اسی طرح سندھ کا تیس سال کا اوسط 107 ملی میٹر تھا جبکہ اس سال 375 ملی میٹر ہو گیا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کو اگر مد نظر رکھا جائے تو یقینا یہ ایک تشویشناک صورت حال ہے۔ اگرچہ کاربن کے عالمی اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن اپنے تباہ حال انفراسٹرکچر اور معیشت کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ اس نظام میں کاربن اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے ذمہ داران بڑے سرمایہ دارانہ ممالک (اور ان ممالک میں بھی زیادہ تر حکمران طبقات) ہیں لیکن خمیازہ غریب خطوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اگر موسمیاتی تبدیلیوں کو ہی موجودہ آفات کی وجہ مان لیا جائے تو یہ بات برملا کہی جا سکتی ہے کہ موجودہ منافع کی ہوس کا عالمی سرمایہ دارانہ نظام اس بین الاقوامی تباہ کاری کا ذمہ دار ہے۔ ایک طرف صنعتی پیداوار اور منافعوں میں اضافے کے لیے لاکھوں ایکڑ جنگلات کو ختم کیا جا رہا ہے۔ صنعتی فضلوں اور گیسوں کے اخراج پر کوئی قدغن نہیں۔ دوسری طرف اربوں ڈالر کا حامل ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس تابکاری اور انسانی تباہی کے اسلحوں کے بے دریغ تجربات کر رہا ہے۔ جو موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بن رہے ہیں۔

تیسری دنیا کے ممالک اپنی کمزور معیشت اور ناقص انفراسٹرکچر کی وجہ سے سیلاب جیسی آفات سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جبکہ بہتر انفراسٹرکچر اور تعمیرات کے حامل ترقی یافتہ ممالک اس طرح کی آفات میں کم جانی اور مالی نقصانات اٹھاتے ہیں۔ مثلاً لندن میں اوسط سالانہ بارش 690 ملی میٹر ہے جبکہ نیو یارک میں اوسط سالانہ بارش 1139 ملی میٹر ہے لیکن اتنی زیادہ بارشوں کے باوجود بھی وہاں جانی اور مالی نقصانات شاذ و نادر ہی رپورٹ ہوتے ہیں کیونکہ اپنی سرمایہ دارانہ تاریخی فوقیت کی وجہ سے وہ ایک جدید سرمایہ دارانہ ریاست تعمیر کر سکے ہیں جہاں نسبتاً بہتر انفراسٹرکچر، تعمیرات اور نکاسی آب کا نظام موجود ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں 1961-2010ء کے دورانئے میں اوسط سالانہ بارش 297 ملی میٹر رہی جبکہ 2010-2020ء کے عرصے میں 408 ملی میٹر رہی۔ اگر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو بھی شامل کیا جائے تو بھی یہ ترقی یافتہ ممالک کی بارشوں سے مقدار میں کم ہے۔ اس کے باوجود یہاں ان بارشوں سے ہر چند سال بعد تباہ کاریاں سامنے آتی ہیں۔ پاکستان کی اپاہچ سرمایہ داری اور یہاں کے حکمران طبقات کا جنم ہی برطانوی راج کی کاسہ لیسی اور ان کی فرمانبرداری کے لیے ہوا تھا۔ اسی وجہ سے جب ان کو براہ راست حکمرانی کا موقع ملا تو ایک جدید سرمایہ دارانہ ریاست بنانے میں مکمل ناکام رہے۔ اپنی تاریخی متروکیت کی وجہ سے پاکستان کے حکمران طبقات پچھلے 75 سالوں میں نہ تو جدید اور منصوبہ بند شہر آباد کر سکے، نہ بہتر انفراسٹرکچر تعمیر کر سکے اور نہ نکاسی آب کا نظام بنا سکے۔ بلکہ پہلے سے موجود انفراسٹرکچر بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور سماجی تنزلی کا عمل اسی وقت سے جاری ہے۔ اس وقت آبادیاں ایسے بے ہنگم انداز میں پھیل رہی ہیں کہ جس میں برساتی پانی کے قدرتی راستوں اور نکاسی آب کے مسائل کو سرے سے ہی نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ نتیجہ ہر کچھ عرصے بعد سیلابی تباہی ہے۔ اور یہ سب اس نظام کے اپنے بے ہنگم اور پرانتشار ارتقا کی وجہ سے ہے جو کسی قسم کی ٹھوس اور دوررس منصوبہ بندی سے عاری ہے۔

حالیہ بارشیں اور سیلاب پاکستان کے حکمران طبقات اور ان کی اپاہچ سرمایہ داری کی تاریخی متروکیت کو ایک بار پھر واضح کرتے ہیں۔ ان حالات میں پہلے سے بحران زدہ معیشت اور سیاست مزید زوال پذیر اور پرانتشار ہو جائے گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوام بھی ان حکمرانوں کی سفاکیت اور ان کی آپسی لڑائیوں کے بارے میں اہم نتائج اخذ کریں گے جو مستقبل کی کسی بھی عوامی اتھل پتھل میں اہم کردار ادا کریں گے۔ جب ایک نظام عالمی سطح پر نامیاتی بحران کا شکار ہو تو پاکستان جیسی سرمایہ داری کی کمزور کڑیاں کیسے ایک صحت مند ریاست اور سماج تعمیر کر پائیں گی۔ موجودہ سرمایہ داری کے ہوتے ہوئے غریب عوام اسی طرح ’قدرتی آفات‘ کی زد میں آ کر برباد ہوتے رہیں گے۔ یہاں عوام کو معمولی سا ریلیف دینے کے لیے بھی بہت بڑی سماجی اور معاشی تبدیلی اور اکھاڑ پچھاڑ کی ضرورت ہے۔ اسی طرح شہروں میں سیلاب کی تباہ کاریوں کو روکنے کے لیے ہاؤسنگ اسکیموں کی منافع خوری اور قبضہ گیریت کو ختم کر کے ریاستی منصوبہ بندی کی بنیاد پر انسانی ضروریات کی تکمیل کے لیے شہروں کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیلاب کی قدرتی گزر گاہوں پر رہائشی اسکیمیں بنانے کی بجائے ان گزر گاہوں کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ سب اسی وقت ہو سکتا ہے جب یہاں کی مجرمانہ سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینک کر یہاں ایک مرکزی منصوبہ بند معیشت کا اجرا کیا جائے جو معیشت کے تمام کلیدی حصوں کو قومی تحویل میں لے کر تمام تر وسائل کو سماجی ترقی، بہتر انفراسٹرکچر اور انسانی ضروریات کی تکمیل کے لیے استعمال کرے۔