حسن جان
14 ستمبر کو تہران میں گشت ِ ارشاد (اخلاقی پولیس) کی حراست میں بائیس سالہ لڑکی مہسا امینی کو بد حجابی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ پولیس حراست میں مہسا پر بد ترین تشدد کیا گیا اور اسے زخمی حالت میں ہسپتال میں داخل کیا گیا جہاں دو دن بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اس کی موت واقع ہو گئی۔ بدحجابی اور مذہبی ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کے الزامات پر جوان لڑکیوں کی گرفتاریاں اور ان پر ریاستی تشدد ایران میں کوئی نئی چیز نہیں ہے لیکن شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مہسا امینی کی موت برسوں سے چلے آ رہے اس ثقافتی جبر کے خلاف ایک ایسی چنگاری ثابت ہو گی جو پورے ملک میں عوامی غم و غصے کو بھڑکا دے گی۔ اس وقت ایران کے تمام تر بڑے شہروں میں مظاہرے پھیل چکے ہیں جن میں خواتین پیش پیش ہیں اور ایرانی ملائیت کے جبری حجاب کے قانون کے خلاف احتجاجاً سر عام حجاب اتار کر اسے جلا رہی ہیں۔ یہ مظاہرے حجاب کے قانون کے خاتمے سے آگے بڑھتے ہوئے فوراً تھیوکریٹک ریاست کے خاتمے کے مطالبے تک پہنچ گئے اور لوگ 1979ء کے ایرانی انقلاب کے مشہور زمانہ نعرے ’مرگ بر دیکتاتور‘(آمر مردہ باد) بلند کرنے لگے ہیں۔ ایران میں دیکتاتور یا آمر سے لوگوں کی مراد ایران کا سپریم لیڈر خامنہ ای ہے۔ گرتی ہوئی معیشت اور سخت معاشی حالات میں ریاست کے مذہبی جبر نے لوگوں کی زندگیوں کو مزید اجیرن بنا دیا ہے۔ ایسے میں پولیس گردی کا یہ واقعہ لوگوں کے ایرانی مذہبی ریاست کے خلاف مجتمع شدہ غصے کا اظہار بن گیا ہے۔
حالیہ سالوں میں ایران میں جبری حجاب کے خلاف ایرانی خواتین کی جدوجہد مزید تیز ہوئی ہے۔ حجاب کے خلاف پہلے علامتی اور طاقتور پیغام کے حامل احتجاج 2017-2018ء کی احتجاجی تحریک کے دوران دیکھنے میں آئے جب 27 دسمبر کو ویدا موحد نامی لڑکی نے تہران میں سڑک کنارے نصب بکسے پر کھڑی ہو کر اپنی چادر اتار کر اسے لکڑی پر باندھ کر ہوا میں لہرا کر جبری حجاب کے خلاف احتجاج کیا۔ احتجاج کرتی ویدا موحد کی یہ تصویر اس جدوجہد کی ایک علامت بن گئی۔ بعد میں بے شمار خواتین نے اسی انداز میں مختلف شہروں میں حجاب کے خلاف احتجاج کیا جنہیں ریاست کی طرف سے گرفتاریوں، تشدد اور سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔
ایران میں خواتین پر جبری حجاب روح اللہ خمینی کے برسراقتدار آنے کے بعد 1979ء میں نافذ ہوا۔ اگرچہ جب خمینی نے پہلی دفعہ خواتین کے حجاب کی بات کی تو 8 مارچ 1979ء کو ایران میں حجاب کے خلاف وسیع مظاہرے ہوئے۔ جس کی وجہ سے خمینی حکومت کو پس قدمی کرنا پڑی اور موقف اختیار کیا کہ یہ صرف ایک تجویز ہے قانون نہیں۔ لیکن بعد میں اسے بتدریج زبردستی نافذ کیا گیا۔ ایران کے نئے قدامت پسند اور سپریم لیڈر خامنہ ای کے قریب سمجھے جانے والے صدر ابراہیم رئیسی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد ملک میں خواتین کے خلاف جبر میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اس سال اگست میں صدر نے ایک نئے قانون کی منظوری دی جس کے تحت خواتین کے لباس اور حجاب کے حوالے سے پابندیوں کو مزید سخت کر دیا گیا اور مختص کردہ ڈریس کوڈ اور حجاب سے رو گردانی کرنے والی خواتین پر مزید سزائیں اور جرمانے عائد کر دیئے گئے ہیں۔ اس قانون کے تحت اگر سرکاری ملازمت کی حامل کوئی خاتون اپنی بغیر حجاب والی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کرے گی تو اسے ملازمت سے برطرف کیا جائے گا۔ اسی طرح دیگر خواتین اگر نئے حجاب قوانین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوتی ہیں تو چھ سے سات مہینے تک مختلف شہری اور آئینی حقوق سے محروم ہو جائیں گی۔
صنفی نابرابری اور خواتین پر جابرانہ قوانین کے نفاذ کے خلاف حالیہ احتجاجوں سے پہلے بھی جدوجہد جاری تھی۔ اس سال 12 جولائی کو ایرانی حکومت نے ’یوم حجاب‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا لیکن اس سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر خواتین نے اس دن کے خلاف اپنے اسکارف یا چادر اتارتے ہوئے اپنی ویڈیوز بنائیں اور سوشل میڈیا پر شیئر کیں۔ اس دوران سوشل میڈیا پر کئی ایسی ویڈیوز دیکھنے میں آئیں جس میں ریاستی پروپیگنڈے کے دفاع میں برقعہ پوش خواتین حجاب کی پابندی نہ کرنے والی لڑکیوں کو بسوں اور سڑکوں میں دھمکیا ں دے رہی ہیں۔ لیکن اسی دوران ہی وہاں پر موجود مرد و خواتین ان برقعہ پوش خواتین کو وہاں سے لعن طعن کر کے بھگا دیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ تہران میٹرو میں اس سال جولائی میں اس وقت ہوا جب ایک ایرانی مصنفہ اور مترجم سپیدہ رشنو کو ایک مذہبی انتہا پسند خاتون نے بدحجابی کا طعنہ دیا اور اسے اخلاقی پولیس کے ذریعے گرفتار کروانے کی دھمکی دی۔ موقع پر موجود لوگوں نے اس مذہبی انتہا پسند کو میٹرو سے اتار دیا لیکن جاتے وقت اس خاتون نے سپیدہ رشنو کی ویڈیو بنا کر پولیس کے ذریعے اسے گرفتار کروا دیا۔ پولیس حراست میں سپیدہ کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بعد میں اسے مکمل حجاب میں ڈھانپ کر ٹیلی وژن پر لا کر اس سے معافی منگوائی گئی۔ اس وڈیو میں اس کے چہرے پر تشدد اور جبر کے نشانات واضح تھے۔ سپیدہ رشنو کی اس جبری معافی اور تذلیل نے لوگوں میں شدید غم و غصہ پیدا کیا۔
جب مہسا امینی کے ساتھ حالیہ واقعہ ہوا تو لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا۔ مہسا ایک کُرد تھیں جو کردستان صوبے سے تعلق رکھتی تھی جو دہائیوں سے ایرانی ریاست کے قومی جبر کا شکار ہے۔ لیکن مہسا کے قتل کے خلاف احتجاج پلک جھپکتے ہی کردستان سے تہران اور ایران کے تمام بڑے شہروں میں پھیل گئے۔ اپنی ابتدا سے ہی تحریک نے پوری مذہبی ریاست اور اس کی نفرت انگیز علامت علی خامنہ ای کو ’مرگ بر دیکتاتور‘ کا نعرہ بلند کر کے نشانہ بنایا جبکہ تحریک نے تمام تر صنفی تفریق کو مٹا کر ایک نئے نعرے کو بھی جنم دیا: زن، زندگی، آزادی۔
حسب معمول ملائیت نے شروع سے ہی اپنے جبر کے اداروں پولیس، بسیج اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں کے ذریعے مظاہرین پر بد ترین تشدد کر کے انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی۔ مختلف رپورٹس کے مطابق اب تک 30 سے زائد افراد پولیس تشدد اور فائرنگ سے ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ بے شمار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ دوسری طرف امریکی اقتصادی پابندیوں، عالمی سرمایہ داری کے بحران اور ملاؤں کی اپنی بد انتظامی اور کرپشن کی وجہ سے ملکی معیشت کی حالت دگرگوں ہے۔ افراط زر 50 فیصد سے زائد ہے۔ بیروزگاری اور غربت بڑھ رہی ہے جبکہ ایرانی ملاں مشرق وسطیٰ میں اپنے سامراجی عزائم اور ایٹمی طاقت بننے کے لیے عوامی وسائل کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ بے شک موجودہ احتجاج کی فوری وجہ جبری حجاب کا مسئلہ اور صنفی نابرابری ہے لیکن عوام کے معاشی مسائل، روزگار، صحت، تعلیم اور رہائش کے مسائل اس سے کہیں زیادہ گہرے ہیں جن کو موجودہ احتجاج میں اظہار کا موقع ملا ہے۔ ریاست کے لیے حجاب کے قانون کو ختم کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ اگر حجاب کے مسئلے پر ریاست معمولی پسپائی بھی اختیار کرے گی تو ملائیت پر مبنی تھیوکریٹک ریاست کی موت واقع ہو جائے گی کیونکہ حجاب کی غیر موجودگی میں اس کا وجود ہی بے معنی ہو گا۔ لوگ مزید آگے بڑھیں گے۔ لیکن دوسری طرف حکمرانوں میں تذبذب کے آثار دکھائی بھی دے رہے ہیں۔ ایران کے وزیر برائے ثقافتی ورثہ عزت اللہ ضرغامی نے موجودہ احتجاج کے بارے میں کہا ہے کہ’’ہمیں لاحاصل قوانین پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ عام تاثر کے برعکس اس سے نظام (مذہبی ریاست) منہدم نہیں ہو گا۔“ ایک بعد تو طے ہے کہ ایران میں مغربی جمہوریت کی طرز پر لوگوں کا غم و غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے کسی طرح کی کوئی اپوزیشن موجود نہیں ہے اور اسی وجہ سے ریاست کو ایسی تحریکوں کے سامنے اپنی بقا کے لیے بے رحم جبر پر ہی تکیہ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس طرح کے ننگے جبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ موجودہ تحریک اگرچہ اپنے حجم میں زیادہ بڑی نہیں ہے لیکن ملائیت پر ایک خوف بھی طاری ہے۔ اسی وجہ سے فوج سے یہ بیان دلوایا گیا کہ ہم امن قائم کرنے کے لیے پولیس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ تاہم اگر تحریک آگے بڑھتے ہوئے وسیع ہو جاتی ہے تو ریاستی جبر کے ادارے بھی ’متحد‘ حالت میں نہیں رہیں گے۔