اداریہ جدوجہد

پچھلے چند ماہ میں اقتدار سے ایک ریاستی پروردہ سیاسی دھڑے کو نکال کر دوسرے کو براجمان کیا گیا لیکن طاقت کے اصل سرچشمے جہاں پہلے تھے اب بھی وہیں ہیں۔ اپوزیشن میں ہوتے سول سپرمیسی اور ووٹ کی عزت کے نعرے لگانے والا حکومتی اتحاد پچھلی حکومت کی طرح ہی مطیع اور بے بس ہے۔ یہ نیم لبرل سیاسی اشرافیہ اندر سے اتنی کھوکھلی اور نحیف ہے کہ جوش خطابت میں ریاستی اداروں بارے کوئی بات کہہ بھی جائیں تو اگلے ہی دن معذرت کر لیتے ہیں۔ بعض اوقات تو استعفوں کی شکل میں جرمانے بھی ادا کرنے پڑ جاتے ہیں۔ غداریوں کے الزامات اور گرفتاریوں کا سلسلہ اب بھی تھما نہیں۔ بس مہرے آگے پیچھے کر دئیے جاتے ہیں۔ کل تک اسحاق ڈار مجرم اور اس کا بنگلہ عوامی پناہ گاہ تھا۔ آج وہ ملک کے سب سے اہم منصب پر فائز ہے۔ جنہیں احکامات سے روگردانی پر خود ساختہ جلاوطنی کی سزائیں ملیں وہ بھی شاید اگلے کچھ عرصے میں اقتدار کا حصہ بن جائیں۔ لیکن یہاں پھر علی وزیر جیسے ضمیر کے ایسے قیدی بھی ہیں جو زباں بندی پر مبنی مقدمات میں ضمانتوں کے باوجود پابند سلاسل ہیں۔ جو اس نظام اور مقتدرہ کے کل بھی باغی تھے‘ آج بھی باغی ہیں۔ یوں وہ کل بھی مجرم تھے اور آج بھی مجرم ہیں۔

سپریم کورٹ کے ججوں کی حالیہ تعیناتی کے معاملے سے پھر ثابت ہوا ہے کہ سودے بازی اور ضمیر فروشی ہی حکمرانوں کی اس سیاست کی بنیادی اخلاقیات اور اصول ہیں۔ عدل کے یہ ایوان، جنہیں اتنا مقدس اور غیرجانبدار بنا کے پیش کیا جاتا ہے، سودے بازی اور بدعنوانی کی غلاظت سے کس قدر آلودہ ہیں۔ یہ روگردانی کرنے والے سیاسی دھڑوں کی سرزنش اور اقتدار سے بے دخلی کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں اور پھر ضرورت پڑنے پر انہی دھڑوں کو ریلیف بھی دیتے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ سب اتنا واضح اور کھلم کھلا شاید کبھی نہیں تھا۔ حکمرانوں کی آپسی کشمکش میں یہ سارا گھن چکر عوام کے سامنے عیاں ہوتا جا رہا ہے۔ ہر اہم تعیناتی یہاں ایک سکینڈل میں بدل چکی ہے۔ اور ان تنازعات سے پورا نظام لرز رہا ہے۔ ایسے میں عمران خان کی جانب سے ایک بار پھر لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا ہے۔ لیکن اب کی بار یہ لانگ مارچ بھی اس کی فرسٹریشن کا غماز اور سیاسی بقا کی آخری کوششوں کا سوال بن چکا ہے۔ اس کے پاس آپشن بہت محدود ہو چکے ہیں۔ وہ اب اتنا پراعتماد بھی نظر نہیں آتا۔وقت کے ساتھ اس کی ”حقیقی آزادی“ کی تحریک بھی ایک معمول کا شکار ہو کے ماند پڑ گئی ہے۔ حالیہ احتجاجوں میں وہ کسی غیرمعمولی سٹریٹ پاور کا مظاہرہ نہیں کر پایا ہے۔ جس سے اس کی پوزیشن خاصی کمزور ہوئی ہے۔ اشارے یہی ہیں کہ ریاست کے اندر بھی طاقتوں کا توازن اس کے حق میں نہیں ہے۔ جس ریاستی دھڑے پہ وہ تکیہ کیے ہوئے تھا وہ خود بے بسی سے دوچار معلوم ہوتا ہے۔ ایسے میں زیادہ امکانات یہی ہیں کہ حالیہ لانگ مارچ سیاسی منظر نامے میں کوئی بڑی تبدیلی پیدا کرنے سے قاصر رہے گا۔ لیکن پھر فرسٹریشن میں اس کی جانب سے کوئی ایڈونچر بھی خارج از امکان نہیں ہے۔ کم امکانات کے باوجود عمران خان یا اس کے پشت پناہ دھڑے کی جانب سے ایسا کوئی اقدام خطرناک صورتحال کو جنم دے سکتا ہے جس میں ساری لڑائی ایک بلند تر پیمانے پہ بھڑک سکتی ہے اور ایک انارکی کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں سرمایہ دارانہ ریاستوں کا ڈسپلن ویسے ہی انتہائی کمزور ہوتا ہے۔ حالیہ سالوں کے دوران ریاستی دھڑوں کی ”اِن فائٹنگ“ نے تیسری دنیا کے اس پہلے سے نحیف بورژوا نظم و نسق کا بیڑہ مزید غرق کر دیا ہے۔ یوں ایسے حالات و واقعات کا پورا امکان اس منظر نامے میں موجود ہے جن کی پیش بینی شاید وہ افراد بھی نہیں کر سکتے جو خود اس کھیل کا براہ ِ راست حصہ ہیں۔ کینیا میں ایک پاکستانی صحافی کا قتل، جس کے بارے بے شمار قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں، ایسا ہی واقعہ ہے۔ جس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ دولت اور اقتدار کے حصول کا یہ کھیل کس قدر وسیع، پیچیدہ اور بے رحم ہے۔ مقتول کا تعلق صحافت اور دانش کے اسی دھڑے سے تھا جو عمران خان کی فسطائیت کے غلبے کے لئے ہر خونریزی کو جائز سمجھتا ہے۔

لیکن جہاں ایک طرف حکمرانوں کی یہ غلیظ اور انسان دشمن سیاست جاری ہے وہاں سوات اور دیر میں ہونے والے وسیع اور بے باک احتجاجی مظاہروں نے عوامی سیاست کی ایک جھلک بھی دکھلائی ہے۔ ان مظاہروں نے واضح کیا ہے کہ اب یہاں مسلح مذہبی جنونی گروہوں کو مسلط کرنا اتنا آسان نہیں رہا ہے۔ ان علاقوں کے عوام نے پہلے اس مسلح بنیاد پرستی اور پھر اس کے مبینہ خاتمے کے لئے ہونے والے آپریشنوں کے ہاتھوں بہت ذلتیں اور بربادیاں سہی ہیں۔ ان سے بہتر کون جانتا ہو گا کہ بنیاد پرستی اور سامراجی ریاستوں کا جبر ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اپنی سیاسی و نظریاتی کمزوریوں کے باوجواس جرات مندانہ تحریک کی گہری چھاپ حالیہ سالوں کی ساری پیش رفت پہ موجود ہے۔ مذکورہ بالا مظاہروں میں خودروی کا عنصر حاوی تھا۔ لوگ طبقاتی جڑت کی بنیاد پہ جوق در جوق شریک ہوئے جس نے خود منتظمین کو بھی حیرت میں مبتلا کر دیا۔ مظاہروں کے بعد عوامی کمیٹیوں کی شکل میں تنظیم سازی کی اطلاعات بھی ہیں۔ ایسی تحریکیں اور مظاہرے اپنی محدودیت کے باوجود طبقاتی جدوجہد اور لڑائی کے ان امکانات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو آنے والے دنوں میں کھل سکتے ہیں۔ محنت کش طبقہ، جس کی محرومیوں اور مسائل کی انتہا مہنگائی اور بیروزگاری نے کر دی ہے، اگر بڑے پیمانے پہ سیاسی تحرک میں آتا ہے تو یہ سارا منظر نامہ بدل جائے گا۔ کارپوریٹ میڈیا اور سرمائے کے ذریعے اوپر سے مسلط کردہ غلیظ حکمران سیاست کو چیرتے ہوئے ایک طبقاتی سیاست افق پر نمودار ہو گی۔ جسے مارکسی قیادت فراہم کرنے کا سوال آج انقلابیوں کے سامنے ہے۔