ظفر اللہ
پاکستان کا ریاستی بندوبست اپنے جنم سے ہی بحران زدہ رہا ہے۔ مسلسل عدم استحکام اور انتشار کے دباؤ میں کیے گئے کئی اقسام کے تجربات کی ناکامی کی ایک تاریخ ہے مگر نہ ہی معیشت مستحکم ہوئی اور نہ ہی ریاست جدید خطوط پر استوار ہو سکی۔ در اصل یہ سرمایہ داری کے زوال اور بحران زدہ کیفیت کی غمازی کرتا ہے۔ سماجی ارتقا کا المیہ یہ ہے کہ یہ سیدھی لکیر میں وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ بیشتر لبرل خواتین و حضرات کی طرف سے ہمیں آئے روز یہ منطق سننے کو ملتی ہے کہ ابھی یہ ایک نو خیز ریاست ہے اور جمہوریت کو پنپنے اور ترقی کرنے میں وقت درکار ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اگر پاکستان کے ساتھ ارتقا پذیر ہونے والے ممالک پر سرسری نگاہ دوڑائیں تو یہ دلیل ہمیں بھاپ بن کے ختم ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ چین، جاپان اور کوریا وغیرہ کا اگر گہرائی میں تجزیہ کریں تو جواب مختلف ہے۔ ابھی تک مارکسزم کا یہ دعویٰ اور نظریہ رد نہیں ہو سکا کہ ریاستی استحکام اور ترقی کی بنیاد وہ معاشی نظام ہوتا ہے جس پر کوئی بھی ریاست قائم ہوتی ہے۔ ریاست اور سماج دراصل اس کی عمومی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں۔
پاکستان مختلف قومیتوں کا مجموعہ ہے جن کی اپنی جداگانہ ثقافت، اقدار اور روایات ہیں۔ ایک دیوہیکل انقلاب ہی ان مختلف ثقافتوں اور روایات کی حامل قومیتوں کو وسیع اور جدید تہذیب میں ڈھال کر ایک یکجا قوم بنا سکتا ہے۔ آلات پیداوار کی انتہائی جدت اور فراوانی کی ثقافت ہی ان تمام قومیتوں کو اپنے اندر سمو سکتی ہے۔ یہ ملک اپنی مخصوص تاریخی وجوہات کی بنا پر ایک معاشی اور سیاسی اکائی بننے میں ناکام رہا اور اس کو مصنوعی اور زبردستی ممکن بنانے کے لیے ہمیں حکمران طبقات کی طرف سے مختلف اوقات میں جبر، دھونس اور طاقت کے بے رحمانہ استعمال کی شکلیں نظر آتی ہیں۔
اس پس منظر میں سیاست اور ریاست بھی اسی طرز کی پروان چڑھی ہے۔ یعنی بورژوازی، حاوی سیاسی پارٹیوں اور ریاست کے طاقتور اداروں پر مشتمل اشرافیائی بندوبست۔ جو کبھی قرون وسطیٰ کے بادشاہوں کا خاصہ ہوتا تھا لیکن سرمایہ داری کا گزشتہ چند دہائیوں میں ہونے والا پیچیدہ ارتقا اس ہنگامہ خیزی میں اضافے کا سبب بنا ہے۔ عالمی پیداوار میں پھیلاؤ، تجارت کی نئی شکلوں اور صارفین کی منڈیوں پر تسلط نے اس سارے عمل کو مزید خونریز بنا دیا۔ بڑی عالمی طاقتوں کی منڈیوں پر قبضے اور تسلط کی ہوس نے کئی ممالک کو بالواسطہ جنگوں کا ایندھن بنا کر ان سماجوں کو شدید انتشار اور عدم استحکام سے دوچار کر دیا ہے۔ تکنیکی پسماندگی اور مالیاتی دیوالیہ پن نے پاکستان جیسے ممالک کی صنعتوں کو کھنڈر بنا ڈالا۔ جس کے نتیجے میں اس طرح کے ممالک کی معیشتیں محض کریانہ سٹور بن چکی ہیں۔ جس نے نئی معاشی اشکال اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے نئے ریاستی، سیاسی اور سماجی بندھن تخلیق کیے۔ مثلاً آج پاکستان جتنی بھی کوئلے کی پیداوار بڑھائے وہ چین کے پیدا کردہ کوئلے کی قیمت اور پیداواری صلاحیت کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ اس طرح گندم اور دوسری خوردنی اشیا کامعاملہ ہے جس میں پاکستان کبھی خود کو خودکفیل سمجھتا تھا۔
روس یوکرائن جنگ نے جہاں پوری دنیا کی معیشتوں کو مزید بحران کا شکار کر دیا ہے اور شدید افراط زر کا موجب بنی ہے وہیں پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ جنگ ایک بھونچال ثابت ہوئی ہے۔ خام تیل پر مکمل در آمدی انحصار نے دنوں کے اندر پاکستان کی معیشت، سیاست اور ریاستی منظر نامے کو بحران کا شکار کر دیا ہے۔ تیل کی ہوشربا قیمتوں اور نتیجے میں مہنگی بجلی نے جہاں وسیع تر غریب اور متوسط گھرانوں کو درہم برہم کر دیا ہے وہاں خود حکمران طبقات سے حاکمیت کا اعتماد بھی چھین لیا ہے۔ یہ آج کی عالمگیریت کی علامت ہے کہ کیسے سرمایہ داری کے ناگزیر عالمی پھیلاؤ کے نتیجے میں تشکیل دیے گئے نئے اداروں، عالمی تجارتی قوانین اور انحصار نے دنیا کو پہلے سے کہیں زیادہ غیر مستحکم اور نازک بنا دیا ہے۔ 2008ء سے چلے آ رہے عمومی معاشی بحران، پھر کورونا اور اس کے بعد روس یوکرائن جنگ نے پاکستان کو حالیہ دیوالیہ پن کی نہج تک لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سری لنکا اعلانیہ دیوالیے کا شکار ہو گیا۔ برطانیہ، اٹلی اور یورپ کے دیگر ممالک شدید معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو گئے اور دنیا کے دس بڑے بزنس گروپ امریکی اور عالمی معیشت کی دو ماہ بعد دسمبر میں کساد بازاری (Recession) کا پیش منظر بنا رہے ہیں۔
پاکستانی معیشت پچھلے چند ماہ سے شدید میکرو اکنامک بحران کا شکار ہے۔ روپے کی قدر میں 20 فیصد تک گراوٹ ہو چکی ہے جس نے افراط زر کو 25 سے 28 فیصد تک پہنچا دیا ہے۔ اس میں تیل کی قیمتوں کا بنیادی عمل دخل ہے جس نے روپے کی کمزوری کے ساتھ مل کر افراط زر کو بے قابو کر دیا ہے۔ پاکستان چونکہ تیل اور خوردنی اشیا کے علاوہ بہت سی ضروری مشینری درآمد کرتا ہے جس سے مہنگائی سماج کے ہر شعبے اور گھر کو شدید متاثر کرتی ہے۔ اسی پس منظر میں ورلڈ بینک نے پاکستان کی آئندہ مالی سال میں ترقی کی شرح کا صرف 2 فیصد تک امکان ظاہر کیا ہے جو کہ پاکستان جیسے معاشرے کے لیے ایک اور دھچکا ہو گا۔
تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو کہ زرمبادلہ کے ذخائر پر شدید دباؤ کا باعث ہے۔ آنے والے دنوں میں فوری طور پر قرضوں کی مد میں آٹھ ارب ڈالر کی ادائیگی مزید اس دباؤ میں اضافہ کرنے کا باعث بنے گی۔ اسحاق ڈار کی واپس ملک تشریف آوری کو ایک اوتار ثابت کرنے والے دانشوروں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگرچہ اسحاق ڈار معاشی اشاریوں اور کرنسی کو مصنوعی ہتھکنڈوں سے قابو میں رکھنے کا ماہر سمجھا جاتا ہے مگر وہ ایک مختلف معاشی کیفیت اور عالمی حالات میں واپس آیا ہے۔ عمران خان کی حکومت معاشی اصلاحات کے سراب میں وہ کام کر گئی ہے جن کو موجودہ کیفیت میں قابو کرنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ موڈیز کی طرف سے پاکستانی معیشت کی کریڈٹ ریٹنگ میں ’B3‘ سے ’Caa1‘ تک تنزلی کے فیصلے نے عالمی سطح پر پاکستان کے قرض لینے کی صلاحیت کو مزید مہنگا اور کمزور کر دیا ہے۔ اس روشنی میں باقی عالمی ادارے بھی لازمی طور پر پاکستانی معیشت کے آوٹ لک کے بارے منفی فیصلے کرنے پر مجبور ہوں گے۔ موڈیز نے یہ فیصلہ روس یوکرائن جنگ اور حالیہ سیلاب سے شدید طور پر پاکستانی معیشت کے متاثر ہونے کے تناظر میں کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنی خوراک اور توانائی کی درآمدات اور عالمی قرضوں کی واپسی کی پوزیشن میں نہیں ہو گا جس پر اسحاق ڈار بہت سیخ پا ہوا ہے۔ اور عالمی ایجنسی سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور ساتھ ہی کہا ہے کہ ریٹنگ کی اہمیت اس وقت ہوتی ہے جب ہم دنیا سے قرض لینے کا ارادہ رکھتے ہوں، جبکہ ہم ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ بہرصورت اسحاق ڈار کو انتہائی مشکل کیفیت میں وزارت خزانہ دی گئی ہے۔ قابلیت اور صلاحیت اس وقت تک قابل عمل ہوتی ہے جب کچھ وسائل موجود ہوں۔ جبکہ اس وقت شدید معاشی مشکلات ہیں۔ معیشت مزید سست روی کا شکار ہو سکتی ہے۔ ایسے وقت میں ریاستی سرمایہ کاری مزید مہنگائی کا موجب بن سکتی ہے۔ حکومت کوشش کرے گی کہ اس کیفیت کو کسی طریقے سے موجودہ حالت میں قائم رکھا جائے اور بجلی اور تیل کی قیمتوں میں کسی اضافے سے گریز کیا جائے مگر اس میں آئی ایم ایف کے ساتھ کی گئی ڈیل اور معاہدے بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ رسی پر چلنے والے کھیل جیسا ہے۔ عالمی سطح پر رونما ہونے والا کوئی منفی واقعہ اس سارے عمل کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس وقت حکمران طبقہ معیشت کے میکرو اکنامک پہلو کے استحکام کی جنگ لڑ رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ معیشت کو دیوالیے سے بچانے کی فکر میں ہیں۔ روزگار کی فراہمی، مہنگائی پر کنٹرول یا غربت کا خاتمہ فی الحال ان کی کسی ترجیح میں شامل نہیں۔ جبکہ یہ ایشوز پاکستان کی ایک بڑی آبادی کے لیے زندگی موت کا مسئلہ بن چکے ہیں۔
بے تحاشہ مہنگائی نے اچھے خاصے کھاتے پیتے مڈل کلاس گھرانوں کو شدید مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اس وقت پاکستانی ریاست ہمہ جہت بحرانوں کا شکار ہے جس میں سب سے شدید بحران ریاست کا اپنا اندرونی تضاد ہے جو مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اور جو سیاسی ہیجان میں مزید اضافے کا موجب بن رہا ہے۔ دس اپریل کو عمران حکومت کی اقتدار سے بے دخلی کے مضمرات نے نہ صرف نئی شکلیں اختیار کر لی ہیں بلکہ بحران کو شدید تر کر دیا ہے۔ حکومت سے بے دخل ہونے کے بعد خود عمران خان کے لیے بھی غیر متوقع طور پر اس کے عقیدت مندوں کی حمایت اور نیم ایجی ٹیشن نے اس کے اعتماد اور طاقت میں اضافہ کر دیا ہے۔ ساتھ ہی نئی اتحادی حکومت کی شدید اقتصادی کمزوری اور عوام پر مسلسل معاشی حملوں نے بھی عمران خان کو بہت فائدہ پہنچایا ہے اور اس کے جارحانہ انداز کو مہمیز دی ہے۔ جس کے جواب میں اس کے خلاف ایک کنٹرولڈ قسم کی سختی اور آڈیو لیکس کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ مگر جیسا کہ پہلے بھی ہم وضاحت کر چکے ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت زیادہ تر سطحی ہے اور شخصیت پرستی(Cult) کی نفسیات پر مشتمل ہے جو افق پر موجود دوسری سیاسی جماعتوں سے بیزاری اور نفرت کے ردعمل کے ساتھ ساتھ محنت کش عوام کی نجات کے انقلابی پروگرام پر مبنی کسی سیاسی پلیٹ فارم کے فقدا ن کے باعث ہے۔ یہ درست ہے کہ عمران خان موجودہ حالت میں مڈل کلاس کی نسبتاً وسیع اور متحرک پرتوں میں مقبول فرد ہے مگر یہ سارا ابھار زیادہ تر کھوکھلی لفاظی اور کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف جعلی اور ناقابل عمل نعرے بازی پر مشتمل ہے جس نے سطحی سوچ رکھنے والی سماج کی ان پرتوں کو اپنی طرف راغب کیا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ تحریک انصاف ایک منظم پارٹی کی بجائے کرپٹ اشرافیہ کے ہی ایک حصے کا کمزور سا اتحاد ہے جس کی سماجی و سیاسی بنیاد ایک بے ہنگم ہجوم پر مشتمل ہے۔ مگر اس وقت یہ جماعت سیاسی منظر نامے پر ان پرتوں کی نظر میں نجات دہندہ کے طور پر نظر آ رہی ہے۔ یہ عمل کچھ طوالت اختیار کر سکتا ہے۔ فی الوقت عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے حاوی دھڑے اور حکومتی اشرافیہ کو کافی مشکل حالات سے دو چار کیا ہوا ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں سات میں سے چھ سیٹوں پر عمران خان کی جیت جہاں ابھی تک اس کی مقبولیت کی نشاندہی کرتی ہے وہاں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک پارٹی نظریہ اور پروگرام کم اور ون مین شو زیادہ ہے۔ ایک فرد جتنا بھی مقبول اور ذہین ہو اس کی بہر حال کئی حدود ہوتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے عمران خان کی نااہلی شاید زیادہ دیرپا ثابت نہ ہو۔ عدلیہ اس فیصلے کو کسی نہ کسی شکل میں الٹ سکتی ہے۔ ریاستی اداروں میں جو تقسیم اور دھڑے بندی ماضی میں کسی حد تک ڈھکی چھپی تھی مسلسل بحرانات نے اسے عوام کے سامنے واضح اور ننگا کر دیا ہے۔ یہ بات اب زبان زد عام ہو چکی ہے کہ ڈیپ سٹیٹ کے مختلف دھڑے مختلف سیاسی جماعتوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ عمران خان کے گرد بتدریج اور محتاط انداز میں ریاستی گھیراؤ ضروری نہیں اس کو کمزور کر سکے۔ ”کلٹ“ کی اپنی نفسیات ہوتی ہے۔ مگر عمران خان کے لئے بھی طویل مدت اس مقبولیت کو قائم رکھنا آسان نہیں ہو گا۔ فی الوقت وہ اپنی اس مقبولیت کو جلد الیکشن کے ذریعے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگرچہ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ وہ واضح اکثریت سے الیکشن نہیں جیت پائے گا۔ ریاست کے کچھ طاقتور ستون جہاں اس کی حمایت میں ہیں وہاں ایک مضبوط اور سنجیدہ دھڑا اس کے مخالفت میں سرگرم ہے۔ مگر پاکستانی سیاست میں وہ ایک مضبوط اور مو ثر اپوزیشن کے طور پر موجود رہ کر مسلسل عدم استحکام اور انتشار کا باعث بنا رہے گا۔ مستقبل میں اس کی جارحیت میں ممکنہ شدت کی صورت میں ریاست اسے مکمل فارغ کرنے کے کئی منصوبوں پر غور کر سکتی ہے۔
فی الحال اس نے مڈل کلاس (بالخصوص نوجوانوں) کو خاصا متحرک کیا ہوا ہے۔ یونیورسٹیوں وغیرہ میں اس کے جلسے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ حکومتی اتحاد کے برعکس وہ کامیابی سے کھیل رہا ہے۔ پی ڈی ایم کی شکل میں حکومتی اتحاد بہت مشکلات کا شکار ہے۔ عالمی معاشی بحران اور افراطِ زر ان کے کنٹرول سے باہر ہے۔ جس کی وجہ سے وہ عوام میں اپنی ساکھ بنانے کے لیے کوئی معاشی ریلیف کے اقدامات نہیں کر سکے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاست محض موضوعی مسئلہ نہیں ہے۔ سرمایہ داری کے بحران اور آفات میں معمولی اصلاحات بھی ممکن نہیں ہیں۔ یہ دراصل پہلے سے چلے آئے بحرانات کا ایک معیاری اظہار ہے۔ ایک ہنگامہ خیز کیفیت میں اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد حکمران اتحاد کے شدید معاشی حملے ان کی بے بسی کی غمازی کرتے ہیں۔ جو کنبہ حکومتی اتحاد کی شکل میں تیار کیا گیا ہے وہ دراصل اقتدار کی ہوس، مفادات کے حصول اور طاقت میں شراکت داری کا ایک گھناؤنا کھیل ہے جس کو جمہوریت بحالی اور ریاست بچاؤ کا نقاب پہنایا گیا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس اقتدار کے حصول کے لیے عوامی مسائل کے نعروں کو استعمال کیا گیا اور اقتدار ملتے ہی اسی عوام پر مزید مہنگائی مسلط کر دی گئی۔ ریاست، جمہوریت اور نظام کے بچاؤ اور تحفظ کا مطلب اصل میں اس اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ ہے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے جہاں حکومتی اتحاد والے‘ بالخصوص ن لیگ ووٹ کو عزت دو اور اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانئے سے دستبردار ہوئے ہیں وہاں ریاست بھی اپنا تھوکا ہوا چاٹنے سے عوامی سطح پر بے نقاب ہوئی ہے۔ عوام کی وسیع پرتوں کے سامنے دونوں کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ اس وقت لوگ اس نورا کشی کو دیکھ رہے ہیں اور اپنے لا شعور میں اہم نتائج محفوظ کر رہے ہیں۔ عمران خان کی ایجی ٹیشن اگر زور پکڑتی ہے تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ نواز شریف کو واپس ملک لے آیا جائے۔ ریاستی ادارے پہلے ہی اس تاخیر کا ناقابل تلافی نقصان اٹھا چکے ہیں۔ لیکن معیشت اگر نہیں سنبھلتی تو یہ سب عارضی بندوبست ثابت ہو سکتا ہے۔
موجودہ سیٹ اپ وقت سے پہلے الیکشن کروانے کا قطعی طور پر متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگلے ماہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی اہم مرحلہ ہے۔ ریاست کے کلیدی اداروں میں انتشار اور دھڑے بندی اتنی واضح اور شدید ہو چکی ہے کہ یہ معاملہ بہت نازک شکل اختیار کر چکا ہے۔ معمولی سی غلطی بڑے دھماکوں کا موجب بن سکتی ہے اور اس لڑائی میں خانہ جنگی کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ پاکستان کی مخصوص کیفیت اور پوزیشن کی بدولت اس کے کافی کم امکانات ہیں۔ محنت کش طبقے پر ابھی تک ایک سکوت حاوی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم بات ان کے مسائل کو ایڈریس کرنے والی کسی پارٹی اور قیادت کا فقدان ہے اور مروجہ سیاسی پارٹیوں پر عدم اعتماد اور مکمل بیگانگی بھی اہم عنصر ہے۔ اداروں میں ٹریڈ یونین کی عدم موجودگی اور جہاں ہیں وہاں کی ٹریڈ یونین اشرافیہ کے موقع پرستانہ کردار کی وجہ سے عام مزدوروں کی طرف سے زیادہ تر بے رخی کا رویہ ہے۔ لیکن سطح کے نیچے ایک طوفان پل رہا ہے جو کسی نہ کسی شکل میں اظہار کرتا رہتا ہے۔ نوجوانوں میں شدید بے چینی اور مایوسی موجود ہے۔ مستقبل بارے بے یقینی، مایوسی اور اندھیرا ہے۔ یہ سب طوفانی شکل میں پھٹ سکتا ہے۔ اس بات کے خاصے امکانات ہیں کہ نوجوانوں کی کوئی بڑی تحریک پھٹ پڑے۔ جس کی ابتدائی شکل غیر منظم ہو سکتی ہے۔
یہ سب حکمران طبقے کے لیے ڈراؤنے خواب جیسا ہے۔ کیونکہ اس سے نبردآزما ہونے کے لیے ریاست میں جرات اور رٹ کا شدید فقدان ہے۔ یہ کیفیت سماج میں انار کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے لیکن اس بدنظمی کے بطن سے نئی سیاسی اور تنظیمی اشکال کے برآمد ہونے کے امکانات بھی ساتھ موجود ہیں۔ ایک انقلابی عمل کے آغاز اور اختتام کا درمیانی عرصہ بیش بہا امکانات کا دورانیہ ہوتا ہے۔ دہائیوں میں ہونے والے واقعات روزمرہ کا معمول بن جاتے ہیں۔ کئی پارٹیاں، تنظیمیں اور افراد لمحوں میں مسترد ہو رہے ہوتے ہیں اور نئی قیادتیں سامنے آ رہی ہوتی ہیں۔ ان تحریکوں کے دوران محنت کش عوام اپنی انقلابی جبلت سے مطابقت رکھنے والے انتہائی ریڈیکل انقلابی رحجانات کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اسی لئے آج کے حالات میں انقلابی نظریات کے دفاع کے ساتھ ساتھ محنت کش طبقے اور طلبہ تک اپنی رسائی کو یقینی بنانا انقلابی قوتوں کا بنیادی فریضہ اور امتحان ہے۔