اویس قرنی
پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں ہر کچھ سال بعد کئی زندگیاں سیلابی ریلوں کی نظر ہو جاتی ہیں۔ کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔ لاکھوں ایکڑ کی اراضی تباہ حال ہو جاتی ہے اور ان گنت مویشی لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں نے اس ملک کے انفراسٹرکچر کی زبوں حالی کی قلعی پھر سے کھول دی ہے۔ پاکستان جیسے بحران زدہ اور پسماندہ سرمایہ دارانہ ممالک میں اس نظام کی پیداکردہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے آنے والی آفات سے نمٹنے کے وسائل سرے سے موجود ہی نہیں۔ حالیہ آفت سے کروڑوں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ عالمی اداروں کے اعدادو شمار کے مطابق ساڑھے تین کروڑ لوگ اس سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ جو کہ 15 فیصد آبادی بنتی ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 2000 سے زائد لوگ زندگی کی بازی ہار چکے ہیں حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ 5 ماہ ہونے کو ہیں اور تاحال لاکھوں لوگ کھلے آسمان تلے بے یار و مدد گار پڑے ہیں۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایسی کئی دلخراش تصاویر سامنے آ جاتی ہیں کہ آج اکیسویں صدی کی دیوہیکل ترقی کے باوجود انسانیت لاچار اور بے بس محسوس ہوتی ہے۔ کہیں معصوم بچوں کی آہ پکار ہے تو کہیں اپنوں کے بہہ جانے پر ماتم۔ تو کہیں سیلابی ریلوں کے ساتھ آئی مٹی میں دبی لاشوں کے صرف ہاتھ باہر ہیں۔ سابقہ وزیراعظم عمران خان کے بقول یہ سیلابی ریلے زرخیز ی کا باعث بنیں گے۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ یہ نام نہاد زرخیزی انسانی لاشوں کو کھاد بنا رہی ہے۔کئی بستیاں ٹنوں مٹی کے نیچے دب گئیں ہیں۔ دو منزلہ گھر ایک منزل بن گئے ہیں باقی سارے کھیت اور آبادیاں 8 فٹ مٹی کے ملبے نیچے دفن ہو چکی ہیں۔ کچی کنال کے علاقے موضع کوچا کاکری میں 20 گاؤں اور تا حد نگاہ پھیلی چاول کی کاشت کا اب کوئی نام و نشاں نہیں ہے۔ کوہ سلیمان کا سیلابی ریلا تو یہاں سے گزر گیا لیکن اب پیچھے 6 سے 8 فٹ کی مٹی اور ریت کے ٹیلے ہیں جن کے نیچے کئی گاؤں اور دیہات زمین بُرد ہو چکے ہیں۔
حالیہ سیلابی تباہ کاریوں کی بنیادی وجہ عالمی پیمانے پر ہونیوالی ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں کے کئی علاقوں میں معمول سے پانچ اور آٹھ گنا زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔ جس کی وجہ سے کئی گاؤں دیہات برباد ہو گئے ہیں۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق ملک کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ زیر آب ہے۔ یہ علاقہ ملکہ وکٹوریہ کی ریاست سے بھی زیادہ ہے۔ 5500 سکوائر کلومیٹر سے زیادہ رقبہ سیلاب کی زد میں ہے جو کہ کوسٹاریکا کے رقبے برابر ہے۔ناسا کے مطابق 150 پل تباہ ہوچکے ہیں۔ یہ پل جو مختلف دیہاتوں، قصبوں، شہروں اور صوبوں میں باہمی ربط کا ذریعہ تھے‘ اب نہیں رہے۔ 3500 کلومیٹر روڈ متاثر ہے۔ 7 لاکھ سے زائد مویشی اور لاکھوں ایکڑ(25 لاکھ ایکڑ)پر محیط فصلیں اور باغ اجڑ چکے ہیں۔ 10 لاکھ گھر تباہ ہو چکے ہیں اور کئی لوگ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ اس سیلابی پانی کو سنبھالنے کے لیے یہاں کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں تھا۔ کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ کوئی ہنگامی امداد نہیں تھی۔سڑکوں کے اطراف میں خیمہ زن لوگوں کی دل دہلا دینے والی کہانیاں ہیں۔ اہل خانہ کے علاوہ کچھ کے ساتھ بچ جانے والے مویشی بھی ہیں جن کے چارے کا سنگین بحران ہے۔ ان تمام علاقوں میں ان کے پاس کوئی سہولت یا بحالی کا عمل دستیاب نہیں ہے۔ سندھ کے کے این شاہ سے بلوچستان کے ہرنائی تک اور وہاں سے لے کر خیبر پختونخواہ کے سوات اور مٹہ تک ہر جگہ ایسی ہی صورتحال ہے۔ پنجاب اور بلوچستان کو منقسم کرنے والے سلیمان رینج کے قبائل ان سیلابوں سے مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔
لیکن یہ آفات جتنی قدرتی دکھائی اور بتائی جاتی ہیں اتنی ہیں نہیں۔ حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں میں ایک بڑا عنصر انفراسٹرکچر کی بدحالی ہے۔ جہاں جاگیر داروں نے جاگیریں بچانے کے لیے پانی کا رُخ موڑا وہیں غیر معمولی بارشوں کے پانی کو ٹھکانے لگانے کا کوئی منظم طریقہ کار ہی سرے سے موجود نہیں۔ یہاں ایک شہر یا آبادی کو بچاتے ہیں تو کسی اور شہر یا آبادی کو ڈبونا پڑے گا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نقصان کا مجموعی تخمینہ 10 ارب لگایا جا رہا ہے۔ پچھلے 25 سے 30 سالوں میں بننے والا انفراسٹرکچر آج تباہ ہو چکا ہے۔
فصلوں کی تباہی کے سبب آنے والے میں دنوں بھوک اور قحط کی بھی تشویش ہے۔ بدترین 47 فیصد افراط زر کی موجودہ کیفیت میں یہ صورتحال بدترین شکل اختیار کر سکتی ہے۔ سیلابی علاقوں میں اشیائے خورد و نوش کی شدید قلت ہے اور ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔ سرائیکی وسیب، بلوچستان اور سندھ کے اندرون اور دوردراز کے علاقہ جات سیلاب کے سبب مکمل طور پر کٹ چکے ہیں۔ یہاں لوگ دالیں ابال کر کھاتے رہے اور بعدازاں گندم کے دانے تک ابالتے رہے۔ ان دورافتادہ علاقوں میں عام حالات میں بھی زندگی صدیوں پیچھے چل رہی تھی۔ لیکن اس ہنگامی کیفیت میں یہاں کے باسی سنگین مسائل کا شکار ہیں جہاں تاحال کوئی خاطر خواہ حکومتی امداد نہیں پہنچ سکی۔
ان سیلاب متاثرہ پسماندہ علاقوں میں غربت کی اتھاہ گہرائیاں ہیں اور ان سے ملحقہ چھوٹے قصباتی شہر بنیادی طور پر زراعت پر مبنی اور چھوٹے کاروباری شہر ہیں۔ جن کی سیاسی معاشیات کا دارو مدار فصلوں سے جڑا ہوا ہے۔ یہاں کوئی انڈسٹری نہیں ہے اور نہ ہی بڑے پیمانے روزگار کے مواقع ہیں۔ ایسے میں سیلاب کی نظر ہو جانے والی فصلوں اور اراضی کے دو ررس اثرات آنا ابھی باقی ہیں۔ جو قصبے اور شہر بچ بھی گئے ان کی معاشیات تباہ ہو چکی ہے۔
دوسرا بڑا مسئلہ بیماریوں کا تیز ترین پھیلاؤ ہے۔ سیلابی پانی کے سبب شہروں میں تعفن کی فضا ہے۔ ملیریا، ڈائیریا اور جلد کے امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ بچوں اور خواتین کی حالت زار زیادہ تکلیف دہ ہے۔ بی بی سی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق شاہراہوں کے اطراف میں خیمہ زن آبادیوں میں خواتین کھانے اور پینے میں نہایت ہی محتاط ہیں اور جسمانی ضروریات کے مطابق نہ پانی پی رہی اور نہ کھانا کھا رہی ہیں۔ کیونکہ ان کو جیسے تیسے سر ڈھانپنے کا موقع تو مل گیا ہے لیکن رفع حاجت کا کوئی بندوبست نہیں۔ اسی طرح بچوں میں تیزی سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ حالیہ آفت میں بھی سب سے زیادہ متاثر یہاں کے محنت کش اور غریب عوام ہیں۔ امیروں کے اگر محل ڈوبے بھی تو ان کے لیے دوبارہ بنانا مسئلہ نہیں۔ لیکن جس کی ساری زندگی ایک کچے مکان کو گھر بنانے میں نکل گئی وہ اب دوبارہ شاید ان سے نہ بن سکے۔
ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حالیہ سیلابی تباہ کاریوں کی بنیادی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔ ان عالمی سطح کی ماحولیاتی تبدیلیوں نے اس کرہ ارض پر نسل انسانی کی بقا پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ایمازون اور آسٹریلیا میں آتشزدگیاں ہیں۔ برطانیہ جیسے ملک میں ہیٹ ویوز سے لوگ مر رہے ہیں۔ اور پاکستان میں سیلابی تباہ کاریاں ہیں۔ یہاں پر کچھ مہینے پہلے موسم گرما کے آغاز میں ہی ریکارڈ درجہ حرارت دیکھا گیا۔ حتیٰ کہ دادو میں پارہ 54 ڈگری تک جا پہنچا اور یہ دادو ہے جس کے اطراف اب پانی میں ڈوب چکے ہیں۔ عالمی رپورٹس کے مطابق پاکستان ماحولیاتی آلودگی سے متاثر ہونے والے پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ جبکہ عالمی کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ 1 فیصد سے بھی کم ہے۔ سامراج اور ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کی منافع کی ہوس کا خمیازہ پاکستان جیسے پسماندہ ملکوں کے غریبوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں 7000 سے زائد گلیشیر ہیں جو پولر ریجن سے باہر شاید کسی ایک ملک میں سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ موسمی شدت کے باعث یہ گلیشیر پگھل رہے ہیں جن کا پانی بے ہنگم مون سون بارشوں کے ساتھ مل کر تباہی مچا رہا ہے۔ شمالی علاقہ جات کے خوفناک سیلاب کی یہ ایک بنیادی وجہ ہے۔ جس کے بعد یہی پانی نشیبی علاقوں کو ڈبوتا چلا جاتا ہے۔ اس ماحولیاتی بگاڑ کی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ ہوس ہے اور یہ نظام ان تمام تر تباہیوں کا ذمہ دار ہے۔ اور پاکستان جیسے ملکوں میں تو انفراسٹرکچر بھی تباہ ہے۔ جہاں معمول سے تھوڑی زیادہ بارشیں کراچی جیسے سے بڑے اور نسبتاً ترقی یافتہ شہر کو ہی معذور کر دیتی ہیں۔ پھر سندھ اور بلوچستان کی معمول سے 5 سے 8 گنا زائد بارشیں گاؤں اور دیہاتوں کے زبوں حال انفراسٹرکچر کا کیا حال کرتی ہوں گی اس کا اندازہ لگانامشکل نہیں۔ یہاں کا موجود ہ انفراسٹرکچر گوروں کا بنایا ہوا صدیوں پرانا ہے جو بوسیدہ ہو چکا ہے۔ مقامی دلال حکمران اس میں بہتری کیا لاتے یہ تو اس کو قائم رکھنے میں ہی ناکام ہیں۔ انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے دیوہیکل ریاستی سرمایہ کاری درکار ہے۔ صرف نکاس کو بہتر بنانے کے لیے یہاں شہر کے شہر اکھاڑنے پڑیں گے۔ لاہور کی کیفیت ہمارے سامنے ہے۔ لیکن ریاست کے پاس تو سرکاری ملازموں کو تنخواہیں دینے کی فرصت نہیں ہے۔ یہاں کے دلال حکمرانوں کو ہر کچھ سال بعد آئی ایم ایف جیسے عالمی سامراجی اداروں کی چوکھٹ پر حاضریاں لگانی پڑتی ہیں۔ اور سخت ترین شرائط پر ادھار لیے جاتے ہیں جس میں نسلوں تک کو گروی رکھا گیا ہے۔ ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی ہو گی کہ پاکستان کی معیشت کا وسیع حصہ کالے دھن پر محیط ہے۔ حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں پر ایک بار پھر سے عالمی پیمانے پر امداد اکٹھی کی گئی ہے۔ غریب عوام کی زخموں بیچ کر پھر سے تجوریاں بھری جائیں گی۔ وہی جو 2010ء کے سیلاب اور2005ء کے زلزلے کے وقت کیا گیا تھا۔ یہی امداد کا غبن کالی معیشت کے سنگ سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال ہوگا۔ اسی کالی معیشت پر یہ پوری تعفن زدہ سیاست کھڑی ہو ئی ہے۔ اپنی بے حسی میں حکمران طبقے کی جماعتیں عوام کے زخموں پر نمک چھڑک رہی ہیں۔
لیکن عوام اتنے بھی بیوقوف نہیں جتنے عام حالات میں سمجھے جاتے ہیں۔ وہ نتائج بھی اخذ کرتے ہیں۔ انہیں نظر آرہا ہے کہ کون فوٹو سیشن کے لیے آ رہا ہے اور کون ان ہنگامی حالات میں بھی اقتدار کے حصول کے لیے جلسے کر رہا ہے۔ اس سیلابی آفت میں کوئی ممبر اسمبلی کسی حلقے میں منہ دیکھانے کے قابل نہیں۔ جن سیاسی شخصیات نے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کیے انہیں بھی منہ کی کھانا پڑی۔ فاضلپور میں وزیر خزانہ پنجاب کو کشتی تک سے نہیں اترنے دیا گیا۔ یہی کچھ سندھ میں بھی دیکھا جا سکتا ہے اور خیبر پختونخواہ میں بھی۔ ریاست بذات خود اپنے ساتھ برسرپیکار ہے۔ ہر ادارے میں تقسیم ہے اور ہر دوسرے ادارے کے ساتھ دست و گریباں ہے۔ آفات اجتماعی شعور پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔ اس آفت نے بھی اجتماعی سوچ کو فروغ دیا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے ہمدرد بنے ہیں۔ جہاں ریاست اور حکمران سیاست غائب تھی لوگوں نے فلاحی اور امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما۔ یہ اجتماعی شعور آنے والے واقعات میں فیصلہ کن ہو سکتا ہے۔ اپنے تئیں بننے والی کمیٹیوں نے ریاست کے متبادل بنیادی یونٹ کا کردار اداکیا۔ یہ نظام اب متروک ہوچکا ہے اور آفتوں، جنگوں اور بے یقینی پر پلنے والے اس نظام کا خاتمہ ہی نسل انسانی کی بقا کی ضمانت ہے۔
”انقلابی امدادی و احتجاجی کمپئین“
اس ہنگامی صورتحال میں ”انقلابی امدادی و احتجاجی کمپئین“ کو ملک گیر سطح پر منظم کیا گیا تاکہ اپنے طبقے ساتھ یکجہتی کی بنیادیں استوار کیا جا سکیں اور انقلابی کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔کیونکہ سرمایہ دار، جاگیر دار، این جی اوز اور حکمران طبقہ صرف وسائل لوٹنے پر یقین رکھتا ہے۔ وہ تبھی میدان میں آتے ہیں جب ان کو سیاسی فائدہ ہو یا تعمیر نو کے فنڈز سے اپنے منافعوں کو بڑھانا ہو۔اس وقت یہ فریضہ محنت کش طبقے، طلبہ، نوجوانوں، سیاسی و سماجی کارکنوں کو ادا کرنا ہوگا۔ کیونکہ ایک غریب اور مظلوم کے دکھ کو محنت کش طبقہ ہی سمجھ سکتا ہے۔
اس کمپئین کے سلسلے میں فاضلپور، حاجی پور، خیرپور تھن شاہ، حیدرآباد،قاسم آباد، کراچی، گلشن حدید، جامشورو، مانجھند، محبت خان جلبانی، دادو، ہڑند، جوہی، منچھر جھیل، بھان سید آباد، سہون شریف، میرپورخاص، عمرکوٹ، تونسہ، داجل،چک سرائی، چک احمدانی،، سونواہ، بستی چانگ، نورپور، ملتان،سیالکوٹ، پشاور،سوات، مٹہ، کوئٹہ، مستونگ، راولاکوٹ، کھائیگلہ، مظفرآباد،لاہور، راولپنڈی، اسلام آباداور کے مضافاتی متاثرہ علاقوں میں امدادی و احتجاجی کاروائیاں سرانجام دی گئیں جبکہ محفوظ شہروں میں متاثرہ علاقوں کے عوام سے یکجہتی کی سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا جس میں امدای کمیپ، احتجاج اور مارچ منعقد کیے گئے۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اسی کمپئین میں عالمی پیمانے پر جنگ زدہ یوکرائن کے محنت کشوں سمیت MSTارجنٹینا، برطانیہ اور سپین کے کامریڈز نے بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا اور انٹرنیشنل سوشلسٹ کی ماحولیاتی تبدیلیوں اور تباہ کاریوں کے سلسلے ایک عالمگیر کانفرنس کا بھی انعقاد کیا گیا جس میں 30سے زائد ممالک سے ہزاروں نوجوانوں اور محنت کشوں نے شرکت کی۔