حارث قدیر

ماحولیاتی تباہی کے تدارک کے نام پر عالمی ماحولیاتی کانفرنس ’COP27‘ رواں سال نومبر میں مصر میں منعقد ہو رہی ہے۔ ایک مرتبہ پھر دنیا بھر کے حکمران بیٹھ کر ماحولیاتی آلودگیوں پر ایک بے معنی بحث و تکرار کے بعد کچھ اہداف مقرر کریں گے اور پھر آئندہ کانفرنس کے انعقاد تک چند ایک مستثنیات کے علاوہ صورتحال جوں کی توں رہے گی۔ جو اقدامات ماضی میں کیے جانے تھے یا جو آئندہ اہداف لئے جاتے ہیں وہ محض نمائش سے کچھ زیادہ نہیں ہیں۔ اس کانفرنس میں زیادہ تر بحث و تکرار ماحولیاتی آلودگی کے ذمہ داران کے تعین کے گرد ہی رہتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے طریقہ پیداوار، بڑی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں اور سرمایہ داروں کی لوٹ مار کی ہوس میں کرۂ ارض کو تباہی کے دہانے تک پہنچانے کے اقدامات کی بجائے ماحولیاتی آلودگی میں اضافے میں ملکوں کے حصص پر زیادہ بحث ہوتی ہے۔

ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے یا موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی یہ بحث 1990ء کی دہائی کے اوائل میں شروع ہوئی تھی۔ ملکوں کے درمیان ان مذاکرات کے نتیجے میں کئی معاہدے کیے گئے جن میں 1987ء میں ہونے والا مونٹریال پروٹوکول وہ واحد معاہدہ قرار دیا جاتا ہے، جس پر تقریباً 99 فیصد عملدرآمد کیا گیا۔ اس معاہدہ کے تحت اوزون تہہ کو نقصان پہنچانے والی کلوروفلوروکاربن اور ہائیڈروفلوروکاربن جیسی گیسوں کی پیداوار کم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

بعد ازاں 1992ء میں یو این فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج کے تحت 197 ملکوں نے ایک معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے تحت سالانہ فورم قائم کیا گیا جسے کانفرنس آف دی پارٹیز یا ’COP‘ کہا جاتا ہے۔ اسی فورم کی ملاقاتوں میں 1997ء میں کیو ٹو پروٹوکول اور 2015ء میں پیرس معاہدہ کیا گیا۔ ان معاہدوں کا مقصد یہ تھا کہ عالمی اوسط درجہ حرارت کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھنے سے روکنا اور اسے 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے رکھنے کی کوشش کرنا۔

ہر پانچ سال بعد ملکوں کو عالمی اسٹاک ٹیک سے جانے جاتے ایک عمل کے ذریعے معاہدے پر عملدرآمد کی جانب پیش رفت کا جائزہ لینا تھا۔ کیو ٹو پروٹوکول میں عالمی کاربن کے اخراج کے ذمہ دار ملکوں کو ہی درجہ حرارت کو کم کرنے کیلئے اہداف دیئے گئے تھے۔ تاہم پیرس معاہدہ کے تحت تمام ملکوں کو ان اہداف میں شامل کیا گیا۔ جن ملکوں کا عالمی درجہ حرارت میں اضافے میں کردار 1 فیصد سے بھی کم ہے انہیں بھی درجہ حرارت کو کم رکھنے کیلئے اہداف دیئے گئے۔ تاہم زیادہ تر اہداف شہریوں پر مختلف نوع کی پابندیاں عائد کرنے اور کاسمیٹک طرز کی اصلاحات کے گرد ہی ہیں۔ ان معاہدوں اور عالمی سطح پر ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کا عالمی واویلا کمال مہارت سے تمام انسانوں کو ماحولیاتی آلودگی کا ذمہ دار قرار دیکر اصل ذمہ داروں کے منافعوں اور لوٹ مار کو بچانے میں مصروف نظر آتا ہے۔

مثال کے طور پر جی 20 ممالک نے بیرون ملک کوئلے سے چلنے والے نئے پاور پلانٹس کی مالی اعانت روکنے کا عہد کیا ہے۔ جنگلات کی کٹائی اور زمینی انحطاط کو روکنے کا عہد کیا گیا۔ فاسل فیول استعمال کرنے والی انڈسٹری پر سرمایہ کاری کی مد میں جو پابندیاں عائد کی جاتی ہیں وہ کاربن کا اخراج روکنے سے زیادہ لوگوں کو ماحول کے تحفظ کی تبلیغ کرنے پر صرف کی جا رہی ہیں۔ کچھ اقدامات میں پلاسٹک کی جگہ کاغذ کے لفافے، پیکٹ اور ڈبے وغیرہ بنا کر انہیں پلاسٹک میں ہی ریپ کر کے ایک دوسرے کی آنکھوں میں مٹی ڈالی جاتی ہے۔

تاہم عالمی ماحولیاتی آلودگی ایک ایسی حقیقت ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کا ایک ایسا کارنامہ ہے جو کرۂ ارض سے زندگی کے خاتمے کا موجب بن سکتا ہے۔ جب تک اس لوٹ مار پر مبنی پیداواری ڈھانچے کو ایک منظم ماحول دوست اور انسانی ضروریات کی تکمیل کے پیداواری ڈھانچے سے تبدیل نہیں کیا جاتا تب تک اس ماحولیاتی آلودگی کا تدارک ممکن نہیں ہے۔

آئس کور کے ڈیٹا کے مطابق زمین کا اوسط درجہ حرارت 8 لاکھ سالوں کے مقابلے میں اب زیادہ بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سو سالوں میں سرمایہ دارانہ ترقی اور بے ہنگم پیداور کے دوران کرۂ ارض کے وسائل کا بے دریغ استحصال اس کا موجب بناہے۔ سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر عالمی درجہ حرارت موجودہ رفتار سے بڑھتا رہا تو تباہ کن ماحولیاتی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آئی پی سی سی کے 2021ء کے جائزے کے مطابق زمین کا اوسط درجہ حرارت صنعتی دور کے آغاز کی سطح سے تقریباً 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے۔ عالمی معاہدوں پر 100 فیصد عملدرآمد کے باجود آئندہ دو دہائیوں کے اندر یہ 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جائے گا۔ آئندہ لیے گئے اہداف پر عملدرآمد کی صورت بھی اس صدی کے آخر تک 2.1 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے تک پہنچنے کا امکان ہے۔

موسمی شدت کے سائیکل 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافے پر ہر 10 سال بعد آ رہے ہیں۔ 1.5 تک پہنچنے پر یہ سائیکل ہر پانچ سال بعد آئینگے۔ ہر پانچ سال بعد دنیا کے 14 فیصد لوگوں کو شدید گرمی کی لہروں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خشک سالی اور سیلاب کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار کم اور خوراک کی کمی کا سامنا ہو گا۔ سمندر کی سطح میں بلندی کی وجہ سے دسیوں ملین لوگوں کو آنے والی دہائیوں میں ڈوب جانے کا خطرہ ہے۔ کئی جزیرہ نما ممالک سمندر میں غرق ہو جائینگے۔ سمندر کے اندر کورل ریفز (مرجان کی چٹانیں) کا 90 فیصد تک صفایا ہو جائیگا اور سمندر زیادہ تیزابی ہو جائیں گے۔ آبی حیات پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔ آرکٹک کے پرمافراسٹ کا 40 فیصد حصہ صدی کے آخر تک پگھل جائیگا۔ جانوروں، پرندوں، کیڑے مکوڑوں اور پودوں کی بہت سی انواع معدوم ہوجائیں گی۔

موسمیاتی تبدیلیوں اور شدت کے باعث 2050ء تک 143 ملین افراد کو اپنے ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں ہجرت پر مجبور ہونا پڑیگا۔ اسی طرح 216 ملین افراد اپنے ہی ملکوں کے اندر ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں ہجرت پرمجبور ہونگے۔ 2020ء میں جنوبی ایشیا میں 18 ملین افراد موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ اکتوبر 2021ء تک سب سے زیادہ نقل مکانی دیکھنے والے ملکوں میں چین (1.4ملین سے زیادہ)، ویت نام (6 لاکھ 64 ہزار سے زیادہ) اور فلپائن (3 لاکھ 86 ہزار سے زیادہ) شامل تھے۔ اگر درجہ حرارت میں اضافہ 2 ڈگری تک پہنچ جائے تو اس کے نتائج اور بھی بھیانک ہونگے۔ ہر سال موسمیاتی شدت کے سائیکل کرۂ ارض کو تباہی کے دہانے پر لے جائیں گے۔

دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں سے 800 ملین افراد، جو دنیا کی 11 فیصد آبادی بنتی ہے، براہ راست تباہی کے خطرات سے دوچار ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں سے سالانہ کئی سو ارب ڈالر کے نقصانات ہو رہے ہیں جبکہ دنیا کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے کیلئے سالانہ 300 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہے۔ اس کے برعکس اقوام متحدہ کے مطابق فاسل فیول کی پیداوار پر دنیا بھر میں 11 ملین ڈالر فی منٹ کی سبسڈی دی جا رہی ہے۔

غیر معمولی موسم نے دنیا میں کئی ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ امریکہ اور بحیرۂ روم میں گرمی کی شدت اور جنگلات میں آگ کے باعث 500 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ چین میں سیلاب سے 17.7 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ مغربی یورپ نے جولائی کے وسط میں جرمنی میں 20 ارب ڈالر سے زائد کے معاشی نقصان اور بھاری جانی نقصان کا ریکارڈ قائم کیا۔ خشک سالی کے باعث افریقہ، کینیڈا، مغربی امریکہ، ایران، افغانستان، پاکستان اور ترکی شدید متاثر ہوئے۔ سمندری طوفان کے باعث امریکہ میں 75 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔

قحط سے دوچار ملکوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غذائی قلت کے شکار افراد کی کل تعداد میں نصف سے زائد (418 ملین) ایشیا اور ایک تہائی (282ملین) افریقہ میں رہتے ہیں۔ موسمیاتی بحران کی وجہ سے دنیا کی تقریباً ایک چوتھائی قابل کاشت زمینیں انحطاط کا شکار ہیں۔ یہ بحران 2030ء تک 122 ملین کسانوں کو انتہائی غربت میں دھکیل سکتا ہے۔ پانی کی کمی سے دنیا کی 40 فیصد آبادی متاثر ہو رہی ہے۔ 2050ء تک موسمیاتی تبدیلی خوراک کی قیمتوں میں 29 فیصد مزید اضافے کا باعث بنے گی۔

ان عالمی معاہدوں، بحث و تکرار کے آغاز سے اب تک ہر دہائی مسلسل گرمی بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ 7 سال دنیا کے گرم ترین سال رہے ہیں۔ 1960ء اور 2010ء کے درمیانی عرصے کے مقابلے میں پچھلی دہائی میں سیلابوں کی اوسط تعداد میں 75 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ جنگل کی آگ کا پھیلاؤ دو گنا ہو گیا ہے اور 2010ء کے بعد سے ہر سال خشک سالی کی اوسط مقدار میں 57 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2019ء میں آب و ہوا سے متعلق آفات کی تعداد 237 تھی۔ 1960ء اور 2010ء کے درمیان سالانہ اوسط 146 تھی۔

تاہم اس تباہی اور بربادی کا ذمہ دار جس طرح تمام انسانوں کو قرار دیا جا رہا ہے‘ ایسا نہیں ہے۔ کاربن ڈسکلوژر پراجیکٹ (سی ڈی پی) کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی لاکھوں کارپوریشنوں میں سے صرف 100 کارپوریشنیں ایسی ہیں جو 1998ء سے گلوبل وارمنگ کا سبب بننے والی گرین ہاؤس گیسوں کے 71 فیصد کی ذمہ دار ہیں۔ جبکہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے ان کمپنیوں اور سرمایہ داروں کی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ رپورٹ کے مطابق 1988ء کے بعد سے کاربن کے نصف سے زائد صنعتی اخراج کی ذمہ دار صرف 25 کمپنیاں ہیں۔

اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو توانائی کی پیداوار سے ماحولیاتی آلودگی کا سبب بننے والی دنیا کی 9 بڑی کمپنیوں میں سے 4 امریکہ کی جبکہ برطانیہ، ہالینڈ، ایران، کویت اور سعودی عرب کی ایک ایک کمپنی ہے۔ اسی طرح پلاسٹک ویسٹ کے ذریعے ماحول کو گندا کرنے کی ذمہ دار دنیا کی 9 بڑی کمپنیوں میں تمام مغربی ملکوں کی کمپنیاں ہیں۔

یوں یہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے لیے جانے والے عالمی اہداف کس قدر مصنوعی، جعلی اور بھونڈے ہیں۔ ڈیڑھ سو سال سے زائد کی سرمایہ دارانہ صنعتی پیداوار نے جہاں ترقی دی ہے وہاں اس کرۂ ارض کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ اس بربادی کا ذمہ دار اس نظام کا پیداواری ڈھانچہ اور مقابلہ بازی پر مشتمل وہ منڈی کی نفسیات ہے جس کی بنیاد پر منافع اور لوٹ مار کی ہوس میں چند سرمایہ دار حکمرانوں نے اس کرۂ ارض پر زندگی کی بقا کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ تاہم لوٹ مار اور منافع خوری کا سلسلہ ترک کرنے کی بجائے وسائل اور فطرت کا بے دریغ استحصال جاری رکھا جا رہا ہے۔

محنت کشوں کی محنت کی لوٹ کے ساتھ ساتھ فطرت کے بے دریغ استحصال کا انتقام اس نظام کو تبدیل کر کے ہی لیا جا سکتا ہے۔ اس نظام اور پیداوار کے مقاصد کو یکسر تبدیل کیے بغیر نہ تو اس کرۂ ارض سے بھوک و احتیاج کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کرۂ ارض پر نسل انسان اور زندگی کی بقا کو لاحق خطرات کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔ محنت کش طبقے کے ذرائع پیداوار پر جمہوری قبضہ اور منصوبہ بندی کے ذریعے سے وسائل کو انسانی ضروریات کی تکمیل اور ماحول کی بقا کیلئے خرچ کرتے ہوئے ہی اس کرۂ ارض کو نسل انسانی کیلئے جنت نظیر بنایا جا سکتا ہے۔