اویس قرنی

سوویت یونین کے انہدام کو تین دہائیاں بیت چکی ہیں۔ نومبر 1917ء میں تاریخ میں پہلی مرتبہ اکثریتی محنت کش طبقے نے ایک انقلابی پارٹی کی قیادت میں طاقت پر قبضہ کیا۔ یہ مزدور ریاست بعد کی اپنی تمام تر خامیوں اور کمزرویوں کے باوجود 71 سال تک قائم رہی۔ یہ ایک لحاظ سے نسل انسان کی تاریخ کا اہم ترین اقدام تھا۔ اس کے انہدام کی وجوہات فی الوقت موضوع بحث نہیں لیکن اس انہدام کے بعدمنظم انداز میں سامراجی پروپیگنڈے کے زیر اثر یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ اب تاریخ کا خاتمہ ہو چکا ہے، سرمایہ داری آخری منزل و حتمی نظام ہے اور منڈی کی معیشت ہی آگے کا واحد راستہ ہے۔ لیکن حکمرانوں کا یہ خواب ان کے جشن کے اختتام سے پہلے ہی چکنا چور ہونا شروع ہو گیا جب عالمی سرمائے کو ایک کے بعد دوسرے بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ فوکو یاما تو اپنے ”تاریخ کے خاتمے“ کے تھیسس کو رد چکا ہے لیکن عالمی پیمانے پر بہت سارے بائیں بازو کا لبادہ اوڑھے لبرل‘ فوکویاما کو آج بھی راضی کرنے پر بضد دکھائی دیتے ہیں اور اس کے لیے کئی قسم کی توجیہات گھڑ لاتے ہیں۔ جن میں سب سے بڑا پروپیگنڈا یہ کیا جاتا ہے کہ پرولتاریہ کا وجود ختم ہو چکا ہے۔ خود کو مارکسی باور کرانے والے یہ حضرات سرمائے کی بنیادی بُنت، ساخت اور سائنس کو ہی ماننے سے ہی یکسر انکاری ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ اس کی توجیہات بھی خود مارکس کے تحریروں سے گھڑنے کی سرتوڑ کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ لیکن شعوری یا لاشعوری طورپر سرمائے اور سامراج کی خدمت پر معمور یہ نام نہاد بایاں بازو نئی نسل کے شعورکو الجھانے کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ مارکسزم پر ان تابڑ توڑ حملوں کا جواب انتہائی سادہ لیکن واضح لفظوں میں دیا جائے۔

سب پہلے تو سرمائے کی جان قدر زائد میں ہے۔ یہ قدر زائد جو محنت کی غیر ادا شدہ اجرت ہے۔ یعنی مزدور کی محنت کا وہ حصہ ہے جسے ضبط کر کے منافعوں کا حصول یقینی بنایا جا تا ہے۔ یوں اس منافع خوری کا ایک ہی ماخذ ہے اور وہ ہے انسانی محنت۔ اس لیے جب تک سرمائے کا وجود ہے محنت کا وجود ختم نہیں ہو سکتا۔ اس مفروضے کہ پرولتاریہ کا وجود ختم ہو چکا ہے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ سرمائے کا وجود ختم ہو چکا ہے۔ لیکن زندگی کے تلخ حقائق روز روشن کی طرح عیاں ہیں اور اس مفروضے کے سامنے کھڑے ہو کر ان نام نہاد دانشوروں کا منہ چڑاتے ہیں۔ محنت اور سرمائے کے اس کلاسیکی تعلق پرکارل مارکس کی مختصر اور آسان تحاریر”اجرتی محنت اور سرمایہ“ اور ”قدر، قیمت و منافع“ آج کم و بیش دنیا کی ہر زبان میں باآسانی میسر ہیں۔ جبکہ شہرہ آفاق داس کپیٹل (”سرمایہ“) کی خصوصاً پہلی جلد میں ان موضوعات پر تفصیلی بحث موجود ہے۔

لیکن یہاں یہ سوال زیادہ اہم ہے کہ آج 150 سال بعد بھی مارکس کے کلاسیکی نظریات کو اپنے تئیں مارکسسٹ کہلانے والے کیوں مسخ کرتے دکھائی دیتے ہیں؟ جب یہ حضرات یہ کہتے ہیں کہ پرولتاریہ ختم ہو چکا ہے تو دوسرے لفظوں میں ان کی مراد ہوتی ہے کہ اب سوشلسٹ انقلاب ممکن نہیں۔ اب کشمکش طبقاتی نہیں بلکہ اس کی اور شکلیں موجود ہیں۔ اور کھود کھود کر ظاہری تضادات کو نکالا جاتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ جب ان تمام تر تضادات کی تھوڑی مزید کھدائی کی جائے توان کا مرکزہ پھر طبقاتی ہی نکل آتا ہے۔ جہاں سے یہ حضرات پھر منہ چرانا شروع کر دیتے ہیں۔ شاید سرمائے کے تسلط کا اتنا والہانہ تحفظ خود سرمایہ دار اور ان کے حواری بھی نہیں کر سکتے ہوں گے جتنے بائیں بازو کا لبادہ اوڑھے یہ سرمایہ داری کے معذرت خواہان کرتے ہیں۔

یہ ترمیم پسندی اتنی بے معنی بھی نہیں۔ بلکہ اس کے گہرے سیاسی عزائم ہیں جو موقع پرستی پر مبنی ہوتے ہیں۔ اور انہی عزائم کے لیے مارکسزم کی بنیادوں کو مسخ کرتے ہوئے لینن ازم اور بالشویزم پر تابڑ توڑ حملے کیے جاتے ہیں۔ آج کے پوسٹ ماڈرنسٹ عارضے کے شکار اس پاپولر لیفٹ کے رحجانات عالمی سطح پر نظر آتے ہیں۔ کیونکہ ان کے مفروضوں کے مطابق طبقاتی کشمکش تھم چکی ہے یا کم از کم ابھی اس جنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ جبکہ دوسری طرف عالمگیر سطح پر اکثریتی طبقہ محرومیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں دھنستا چلا جا رہا ہے تو اپنی تسلی و تسکین کے لیے یہ ظاہری تضادات کے خلاف اعلان جنگ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ کینسر کے مریض کی جراحی کرنے کی بجائے اس کے بخار کا علاج کرتے رہیں۔ اس واردات میں بائیں بازو کی چھاپ میں شناختی سیاست کو بنیادیں فراہم کی جاتی ہیں۔ جن میں نوآبادیاتی مسائل، نسل پرستی، زبان کا مسئلہ و قومی سوال اور صنفی سوال سمیت دیگر جمہوری نوعیت کے مسائل کو طبقاتی تضاد سے بالکل مبرا کر کے مجرد بنا نے کی واردات کارفرما ہوتی ہے۔ یہ تمام تر مسائل اپنا وجود بہرحال رکھتے ہیں۔ لیکن یہاں ہم مسائل کی محض نشاندہی پر اکتفا نہیں کر رہے بلکہ ان سنگین مسائل کے یقینی حل کی کھوج کر رہے ہیں۔

آج کا سرمایہ دارانہ سماج سیدھی لکیر میں یہاں تک نہیں پہنچا۔ بقول کارل مارکس انسانی تاریخ کا بیشتر حصہ طبقاتی کشمکش پر مبنی ہے جس میں انقلابات بھی شامل ہیں۔ سرمایہ داری نہ تو پہلا نظام ہے اور نہ ہی آخری۔ اس سے پہلے بھی جاگیردارانہ اور غلام دارانہ طرز کے طبقاتی نظاموں کا وجود رہا ہے۔ بلکہ ان سے بھی قبل انسانیت نے ایک طویل عرصہ غیر طبقاتی معاشرے میں گزارا ہے۔ جسے قدیم اشتراکی نظام کے طور پر جانا جاتا ہے۔ لیکن یہاں یہ سوال اہم ہے کہ یہ نظام بدلے کیوں؟کیا کسی کی ذاتی خواہشات کی بنیاد پر نظام بدلتے رہے ہیں؟ اس سے بھی بڑھ کر ایک نظام ہوتا کیا ہے؟ ایک سماجی نظام مخصوص ذرائع پیداوار اور ان کے گرد انسانی معاشرے کی تشکیل و تنظیم کا نام ہوتا ہے جسے پیداواری رشتوں کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اور کسی بھی نظام کے وجود کا جواز اس وقت تک رہتا ہے جب تک یہ نظام پیدواری قوتوں میں جدت لانے کے قابل ہوتا ہے۔ قدیم اشتراکی معاشرے کی طبقاتی بنیادوں پرتقسیم اس وقت ناگزیر ہوگئی تھی جب فوری ضرورت سے زائد پیداوار یقینی بنی۔ اور ملکیت و وراثت کے سوال نے جنم لیا۔ یہی وہ وقت تھا جس کے بارے میں مارکسی استاد فریڈ رک اینگلز نے لکھا تھا کہ عورت کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انہی وقتوں میں غلام دارانہ عہد کا آغاز ہوا جس میں بعد ازاں فلسفے کو تیز ترقی ملی اورپیدواری قوتیں بھی ارتقا پذیر ہوئیں۔ پھر طویل بغاوتوں کا دور بھی ملتا ہے۔ جس کے بعد جاگیردارانہ عہد میں ٹیکنالوجی میں کئی کرشمے ہوئے۔ لیکن ایک وقت میں آکر یہ نظام بھی سماجی ترقی میں رکاوٹ بنتا گیا۔ جس کے بعد دیوہیکل سرمایہ دارانہ انقلابات برپا ہوئے۔ تاریخی اعتبار سے اپنے مختصر عرصے میں سرمایہ داری نے نسل انسان کا مقدر بدل دیا۔ آلاتِ پیداوار میں دیوہیکل ترقی ہوئی۔ لیکن ماضی کے نظاموں کی طرح آج سرمایہ داری کا کردار اپنی نفی میں بدل چکا ہے اور آج کے سامراجی دور میں نجی ملکیت کے شکنجوں کا یہ نظام خود ذرائع پیداوار کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ ہر مروجہ نظام کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ جو اپنے پیشرو سے مختلف اور بلند ہوتے ہیں۔ اس طرح سے سرمایہ داری کے بھی کچھ تقاضے تھے۔ جہاں کلاسیکی سرمایہ دارانہ انقلابات برپا ہوئے وہاں یہ تقاضے زیادہ احسن طور سے تکمیل کو پہنچے۔ لیکن نوآبادیاتی ممالک میں جہاں سرمایہ داری کسی انقلاب کے شکل میں نہیں بلکہ سامراجی جارحیت اور لوٹ مار کے حصول کے لیے متعارف کرائی گئی وہاں آج تک سرمایہ داری اپنے تاریخی فرائض کی تکمیل نہیں کر سکی۔ آج بھی پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں قومی سوال سلگ رہا ہے، ریاست و سیاست میں مذہب کی آمیزش ہے، شخصی و انفرادی آزادیاں مسلسل سلب ہو رہی ہیں۔ بلکہ آج کی بحران زدہ سرمایہ داری میں ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ سوال پھر سر اٹھا رہے ہیں۔ یورپ میں قومی مسئلے ابھر رہے ہیں۔ نسل پرستانہ پارٹیوں کا ابھار نظر آ رہا ہے۔ عورتوں کے حقوق کی لڑائی پوری دنیا میں ایک اہم ایشو بن چکی ہے۔

اس ضمن میں لیون ٹراٹسکی کا نظریہ مسلسل انقلاب ہی پچھڑے ہوئے ممالک میں انقلاب کے کردار کو واضح کرتا ہے۔ جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ”ایسے ممالک جو سرمایہ دارانہ طرزارتقا میں پیچھے رہ گئے ہیں، بالخصوص نوآبادیاتی اور نیم نو آبادیاتی ممالک، وہاں جمہوریت اور قومی نجات کے فرائض صرف پرولتاری آمریت کے ذریعے ہی ادا کیے جا سکتے ہیں۔ ایسے میں پرولتاریہ محکوم اقوام اور سب سے بڑھ کر کسان عوام کے قائد کا کردار ادا کرے گا۔“ اور انہی نظریات کی توسیع لینن کے اپریل 1917ء کے تھیسس میں ملتی ہے۔ یعنی محنت کشوں کے انقلاب نے سرمایہ دارانہ انقلاب کے فرائض بھی ادا کرنا ہوں گے۔ لیکن یہاں رکنے کی بجائے ایک عبوری پروگرام کے ذریعے سوشلسٹ انقلاب کے فرائض کی بھی تکمیل کرنا ہو گی۔ لیکن لبرل دانشور تحریک اور انقلاب کے کردار کو سرمایہ دارانہ اصلاحات تک ہی محدود کرنے کو مارکسزم بنا کر پیش کرنے کی واردات کرتے ہیں۔ مارکسزم کی سائنس ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ آج کے عہد میں صرف سرمایہ دارانہ تقاضوں کو نصب العین بنا کر بھی ان مسائل کا حل ممکن نہیں۔ صرف اور صرف محنت کشوں کی آمریت ہی ان سلگتے مسائل کو حل کر سکتی ہے۔

آج محنت کش طبقہ اپنی مقدار اور پیداوار میں اپنے معیاری کردار کی وجہ سے تاریخ کا مضبوط ترین طبقہ ہے۔ ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت (AI) اور جدید آلات نے محنت کشوں کو کمزور کرنے کی بجائے کہیں زیادہ مضبوط کیا ہے۔ آج اگر یورپ اور مغرب میں صنعتی مزدور کے ہجم میں کمی آئی ہے تو چین، افریقہ، ایشیا، لاطینی امریکہ اور دیگر تیسری دنیا کے ممالک میں اس سے کہیں زیادہ محنت کشوں کا ہجم بڑھا ہے۔ پچھلی چند دہائیوں میں صنعت کا رخ مغرب سے ان ممالک کی جانب منتقل ہوا ہے۔ لیکن سرمایہ داری کی بنیادی بنتر یا طبقاتی ساخت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ آج بھی نسل انسان کموڈیٹی کی پیداوار میں جکڑی ہوئی ہے۔ آج بھی ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت نے اربوں لوگوں کو آسودگی سے محروم رکھا ہوا ہے۔ آج بھی محنت اور سرمائے کا تضاد اسی طرح وجود رکھتا ہے جتنا پہلے دن رکھتا تھا۔

سرمائے کے اس جبر کو ایک پیشہ ور انقلابی تنظیم کی قیادت کی بنیاد پر ہی شکست دی جا سکتی ہے۔ لیون ٹراٹسکی کے بقول آج تمام تر بحرانات قیادت کے بحران میں سمٹ کر اپنا اظہار کر رہے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ تحریکیں انقلابی تنظیموں کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں میں دیوہیکل تحریکوں نے اس نظام کو بنیادوں سے ہلا کر رکھ دیا۔ آکوپائی وال سٹریٹ کی تحریک سے لے کر عرب بہار تک ہر جگہ طلبہ اور محنت کش طبقات نے علم بغاوت بلند کیا۔ اس کے علاوہ کرہ ارض کے تقریباً ہر خطے میں انقلابی تحریکیں ابھریں۔ لاطینی امریکہ سے لے کر لبنان، سری لنکا اور ایران تک دیوہیکل تحریکیں سماجی عدم اطمینان کا اظہارکر رہی ہیں۔ لیکن درست نظریات کی حامل منظم انقلابی تنظیم کے فقدان میں یہ انقلابات اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچ سکے۔ لیکن انہوں نے اس کیفیت میں بھی قومی حدود کو پھلانگ کر لیون ٹراٹسکی کے نظریہ مسلسل انقلاب پر مہر تصدیق ثبت کی۔ کوئی جتنی بھی آنکھیں موند لے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ امریکہ کی آکو پائی وال سٹریٹ تحریک نے دنیا بھر میں طبقاتی احتجاجوں کو فروغ دیا۔ تیونس سے شروع ہونے والے عرب انقلاب نے پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ حتیٰ کہ فرانس کی پیلی جیکٹوں کی تحریک اور امریکہ کی سیاہ فام تحریک دنیا کے کونے کونے میں اثر پذیر ہوئی۔ آج انقلابات کا کردار اپنی سرشت میں عالمی ہے۔ آج کے پاپولر لیفٹ کا ”قومی خصوصیات کا حامل سوشلزم“ مرحلہ وار انقلاب کے پوسٹ ماڈرنسٹ چربے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ گو کہ چین فی الوقت ہمارا موضوع نہیں اور اس کو ہم آئندہ کے لیے سنبھال رکھتے ہیں لیکن ماؤازم سے مستعار لی گئی ان اصطلاحات کو بھی سیاق و سباق سے کاٹ کر ہر جگہ تھونپ دیا جاتا ہے۔ بالشویزم کے سو سال پرانے ہونے کا طعنے دینے والے اس سے بھی پرانے منشویک نظریات کو جدید لفاظی کی پیکنگ میں پیش کرتے نظر آتے ہیں۔

لیکن جہاں ترمیم پسندی سے مارکسزم کو داغدار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہیں موقع پرستی پر مبنی سیاسی عزائم کے حصول کے لیے لینن ازم اور بالشویزم پر بھی حملے کیے جاتے ہیں۔ جس کی بنیادی قوت محرکہ پھر پیٹی بورژوا بے صبری ہوتی ہے۔ جس کے مطابق تنظیم سازی یا ڈسپلن جبر ہوتا ہے اور کسی ایک بنیادی نظریے پر اتفاق نام نہاد انفرادیت کی نفی ہوتی ہے۔ یہ ایک ہی وقت میں دنیا بھر کے متضاد نظریات کا چربہ پیش کرتے ہوئے اگلے ہی لمحے ان کو رد کرنے میں رتی برابر بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ اور اس ”عملیت پسندی“ کی آڑ میں نظریاتی زوال پذیری کی گہرائیوں میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ یہ شعوری یا لاشعوری انداز میں منڈی کی اس بے رحمی اور بے حسی کی ہی عکاسی ہے جس میں اپنے مفادات کی خاطر سب کچھ روند دیا جاتا ہے۔

ایک انقلابی پارٹی سب سے پہلے ایک انقلابی نظریہ ہوتی ہے۔ جس پر ہم آہنگی انقلابی تنظیم کی بنیادیں استوار کرتی ہے۔ اس شمارے کی پشت پر عبوری پروگرام درج ہے۔ مارکسسٹ اصلاحات کے خلاف نہیں ہوتے۔ بلکہ جہاں ممکن ہو وہاں پر محنت کش مرد و عورت کی مختلف پرتوں کے مسائل کے حل کی جدوجہد میں نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ انہیں منظم بھی کرتے ہیں۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے ان کی نظر کبھی بھی منزل سے اوجھل نہیں ہوتی۔ اصلاحات اور اصلاح پسندی میں فرق ہے۔ اصلاحات کو ہی نصب العین بنالیناانقلابی سوشلزم نہیں ہے۔ محنت کشوں کی روزمرہ کی لڑائیوں کو عبوری پروگرام کے ساتھ جوڑتے ہوئے فیصلہ کن لڑائی کی سمت دینا ہی بالشویزم ہے۔ اور آج بھی نجات کا واحد یہی ایک راستہ ہے۔ انقلابی سوشلزم سرمائے کے جبر و استحصال کی اس بوسیدہ عمارت کو ہی نیست و نابود کرنے کا خواہاں ہے جس کی کال کوٹھڑیوں میں روشن دان بنانے کو پاپولر لیفٹ اپنی منزل قرار دیتا ہے۔