التمش تصدق
سرمایہ داری کی تاریخی زوال پذیری اور معاشی بحران کے نتیجے میں جنم لینے والی غربت، مہنگائی، بیروزگاری، دہشت گردی، ماحولیاتی آلودگی، سامراجی جنگوں اور خانہ جنگیوں کی صورت میں جاری تباہی اور بربادی نے اس وقت ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ یہ بحران جتنا گہرا ہوتا جا رہا ہے سماجی تضادات اور تعصبات اسی شدت سے اپنا اظہار کر رہے ہیں۔ بحران سماج کی مختلف پرتوں کے شعور پر مختلف اثرات مرتب کر رہا ہے۔ حاوی افق پر انقلابی متبادل کی عدم موجودگی میں مستقبل میں بہتری کے حوالے سے بے یقینی، خوف، ناامیدی اور احساس عدم تحفظ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو محنت کشوں کی پسماندہ اور پچھڑی ہوئی پرتوں اور درمیانے طبقے کے افراد کو ماضی کے تعصبات میں پناہ لینے پر مجبور کر رہا ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال ٹرمپ، عمران خان اور مودی جیسے نسل پرست اور مذہبی بنیاد پرست لیڈروں کی درمیانے طبقے میں حمایت ہے۔ مستقبل کیسا ہونا چاہیے اس بات پر سماج کی مختلف پرتوں کے درمیان اختلافات موجود ہیں لیکن حال پر کوئی بھی خوش نہیں ہے۔
سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران کی وجہ سے حکمران طبقے کے لئے اب پرانے جمہوری طریقوں سے حکمرانی کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ آج وہ تمام سیاسی اور جمہوری حقوق چھینے جا رہے ہیں جو محنت کشوں نے طویل جدوجہد کے بعد حاصل کیے تھے۔ محنت کشوں پر معاشی حملوں کے علاوہ ریاستی سرپرستی میں مذہبی اور نسلی اقلیتوں، خواتین، مظلوم قوموں اور مہاجرین کے خلاف جبر اور تعصب میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے خلاف دنیا کے بہت سے ممالک میں تحریکوں کا جنم بھی ہوا ہے۔
2008ء کے معاشی بحران کے بعد دائیں اور بائیں بازوں کی اعتدال پسند اور اصلاح پسند پارٹیوں کے زوال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جن کی جگہ ایک طرف دائیں بازوں کی فاشسٹ اور دوسری طرف بائیں بازو کا رحجان رکھنے والی نئی پارٹیوں کا ابھار ہوا ہے۔ پرانے بائیں اور دائیں بازوں کے اصلاح پسند سیاسی رحجانات کے خاتمے کی وجہ ان معاشی بنیادوں کا خاتمہ ہے جن پر ان کی حمایت موجود تھی۔ لمبے عرصہ سے ان پارٹیوں نے اصلاحات کے بجائے نیو لبرل معاشی پالیسوں کو انتہائی بے رحمی سے لاگو کیا ہے۔ دائیں اور بائیں بازو کی یہ نظریاتی تقسیم اور پولرائزیشن جو سوویت یونین کے انہدام کے بعد کسی حد تک ختم ہو چکی تھی اس کا دوبارہ اظہار بڑی طبقاتی جنگ سے پہلے ہونے والی ابتدائی صف بندی ہے۔ حالات کی سختیوں اور روزمرہ زندگی کے تجربات سے محنت کش طبقہ اور نوجوان اہم نتائج اخذ کر رہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی غربت، بیروزگاری اور مہنگائی طبقاتی تضاد میں شدت پیدا کر رہی ہے۔ یہ قبل از انقلابی حالات کی طرف کی پیش رفت ہے۔ اس جنگ میں کس کی فتح ہو گی اس کا انحصار موضوعی عنصر یعنی انقلابی پارٹی کی مقداری اور معیاری قوتوں پر ہو گا۔
ملکی اور عالمی سطح پر انقلابی پارٹی کی تعمیر آج کے عہد کا بنیادی فریضہ ہے۔ انقلابی پارٹی کو کیسے تعمیر کیا جائے (یا اس کی ضرورت بھی ہے یا نہیں) اس سوال پر بائیں بازوں کے مختلف رحجانات میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اس سوال پر بحث کو ہم عالمی اور ملکی تناظر اور عہد کے کردار کی بحث سے الگ نہیں کر سکتے۔ سماج میں ہونے والی تبدیلوں کو سمجھتے ہوئے ہی درست حکمت عملی اور طریقہ کار کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ مارکسی اساتذہ نے واضح کیا ہے کہ انسانی شعور قدامت پسند ہوتا ہے۔ بعض اوقات انقلابیوں کا شعور بھی اس قدامت پسندی کا شکار ہو سکتا ہے۔ ملکی اور عالمی سطح پر ہونے والی معاشی اور سیاسی تبدیلیاں حالات کو کس سمت لے جا رہی ہیں اس بات کو سمجھے بغیر ماضی سے چمٹے رہنا اور کام کے پرانے طریقہ کار کو نئے حالات و واقعات کے مطابق نہ ڈھالنا انقلابیوں اور انقلابی تنظیموں کے لئے تاریخی طور پر متروک سیاسی پارٹیوں کے ساتھ دفن ہونے کے مترادف ہے۔ مارکسزم انسان کو ظاہری تبدیلوں کو دیکھنے کی ہی نہیں بلکہ سطح کے نیچے ہونے والی تبدیلوں کو سمجھنے کی بھی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔ جو لوگ اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے والی تبدیلوں سے انکار کرتے ہیں وہ اندھے ہیں۔ جو معروضی حالات میں ہونے والی تبدیلیوں سے انکاری ہیں وہ انقلابی نہیں رجعت پرست ہیں۔ 2008ء کے بحران کے بعد نہ صرف عالمی سطح پر بائیں بازو کی روایتی پارٹیاں زوال پذیر ہوئی ہیں بلکہ دائیں بازو کی روایتی پارٹیاں بھی زوال پذیری کا شکار ہیں۔ بہت سی تحریکوں نے نئی پارٹیوں کو جنم دیا ہے۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ان نئی پارٹیوں کی مقبولیت میں بھی تیزی سے کمی آئی ہے۔ آج سرمایہ داری کا بحران اتنا شدید ہے کہ کیفیات تیزی سے بدل رہی ہیں۔ ایسے میں کام کے طریقہ کار کو بدلے ہوئے معروضی حالات کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ روایتی پارٹیاں کبھی انقلاب کی نہ سہی کم از کم اصلاحات کی بات کرتی تھیں۔ جس کی وجہ سے ان کی لڑاکا انقلابی نوجوانوں اور محنت کشوں میں حمایت موجود تھی۔ آج یہ عمل بڑی حد تک اپنے الٹ میں بدل چکا ہے۔ ان میں سے بیشتر نہ صرف نیو لبرل معاشی پالیسوں کا دفاع کرتی ہیں بلکہ ہر قسم کی جمہوری تحریکوں کے خلاف بھی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی ایسی ہی کیفیت کا شکار ہے۔ سٹالنزم کے نظریاتی دیوالیہ پن اور مصالحت پسندی کی وجہ سے 70ء کی دہائی میں دنیا کے بیشتر ملکوں میں بننے والی پاپولسٹ پارٹیوں کی طرح پاکستان پیپلز پارٹی بھی بائیں بازو کی پاپولسٹ پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آنے کے بعد تحریک کے دباؤ میں آ کر معیشت کے کچھ حصوں کو تو سرکاری ملکیت میں لیا لیکن سرمایہ دارانہ حدود میں رہتے ہوئے۔ ادھورے انقلاب کی وجہ سے حکمران طبقے کو جب سنبھلنے کا موقع ملا تو انہوں نے جوابی حملہ ضیا الحق کے رد انقلاب کی صورت میں کیا۔ ضیا آمریت کے دور میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے بڑی قربانیاں دیں۔ 86ء میں بے نظیر امریکی سامراج کی مداخلت سے پاکستان آئی اور سوشلزم کی بجائے نیو لبرل پالیسیوں کی نمائندہ بن گئی۔ اس کے بعد سے اب تک پیپلز پارٹی مزدور دشمن پالیسوں کو لاگو کرتی رہی ہے۔ ان پالیسوں کے باوجود بھٹو اور اس کے خاندان کے دیگر افراد کے ریاستی قتل کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے آمریت مخالف، مزدور دوست اور جمہوری ہونے کا تاثر قائم رہا۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد زرداری نے سامراج اور ریاست کی خوشنودی کے لئے جو اقدامات کیے انہوں نے پارٹی کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا تاثر بھی بڑی حد تک ختم کر دیا۔ پشتون تحفظ موومنٹ کا ابھار ہوا تو ملائیت کے علاوہ پیپلز پارٹی نے اس کے خلاف احتجاج کیے۔ پارٹی میں سوشلسٹ نظام کی بات کرنا تو دور کی بات ہے جمہوری حقوق پر بات کرنے پر انہوں نے اپنے سینیٹر سے استعفیٰ لے لیا۔ ہر دوسرے دن اساتذہ اور دیگر محنت کشوں پر سندھ حکومت کے ذریعے تشدد کیا جاتا ہے۔ ان بنیادوں پر پیپلز پارٹی کو اقتدار یا اقتدار میں حصہ تو شاید مل جائے لیکن بڑے پیمانے پر محنت کشوں کی حمایت ملنا تقریباً ناممکن ہے۔ پارٹی کی نظریاتی اور تنظیمی اساس کو قیادت نے مسخ اور مجروح کر کے رکھ دیا ہے۔
اس وقت دنیا کے بہت سے ممالک میں نیو لبرل معاشی پالیسوں کے خلاف محنت کشوں کی تحریکوں کے علاوہ جمہوری حقوق کی تحریکیں بھی موجود ہیں۔ ان میں قومی تحریکیں، خواتین کی تحریکیں، بے روزگار نوجوانوں اور طلبہ کی تحریکیں اور مذہبی اور نسلی تعصبات کے خلاف عوامی تحریکیں شامل ہیں۔ پاکستان میں شدید معاشی بحران کے باوجود ملک گیر محنت کشوں کی کوئی بڑی تحریک نظر نہیں آتی لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ سماج میں مکمل جمود کی کیفیت ہے۔ پاکستان میں قومی اداروں میں کام کرنے والے محنت کشوں میں ہمیں گزشتہ چند سالوں سے بڑی تحریک نہ سہی لیکن ایک ہلچل ضرور نظر آتی ہے۔ یہ تحریکیں ابھی فوری نوعیت کے معاشی مطالبات کے گرد ہیں لیکن جس انداز میں حکمران طبقے کی طرف سے محنت کشوں پر مہنگائی اور نجکاری جیسے حملے کیے جا رہے ان تحریکوں کی شدت اور مطالبات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے تمام صوبوں اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں قومی جبر اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کے خلاف وقفے وقفے سے عوامی تحریکوں کا ابھار بھی نظر آتا ہے۔ یہ احتجاجی مظاہرے ہمیں کسی پارٹی کے پلیٹ فارم کی بجائے خودرو تحریکوں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ یہ تحریکیں روایتی پارٹیوں پر عدم اعتماد کا اظہار ہیں۔ پاکستانی زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں آٹے کی سبسڈی، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے اور قیمتوں میں کمی کے لئے چلنے والی تحریکوں نے عوامی ایکشن کمیٹیوں کے پلیٹ فارم سے اپنا اظہار کیا ہے۔ پختونخواہ میں قومی جبر اور دہشت گردی کے خلاف تحریک نے اپنا اظہار پختونخواہ کی قومی روایت عوامی نیشنل پارٹی کے بجائے پشتون تحفظ مومنٹ کے پلیٹ فارم سے کیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف حالیہ اولسی پاسون نامی تحریک نے بھی کسی روایتی پارٹی کی طرف رخ نہیں کیا۔ یہی صورتحال ہمیں بلوچستان میں ’حق دو تحریک‘ کی صورت میں نظر آتی ہے جہاں تحریک نے روایتی قوم پرست پارٹیوں کے بجائے ایک شخصیت کے گرد اپنا اظہار کیا ہے (جس کا اپنا کردار مشکوک یقینا ہو سکتا ہے)۔ پاکستان میں لمبے عرصے بعد طلبہ تحریک نے جو ابتدائی اظہار کیا وہ وہ بھی سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹیوں کی صورت میں کیا۔ اس کے علاوہ خواتین کے سیاست کی طرف رحجان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان تحریکوں کی اگرچہ اپنی نظریاتی اور تنظیمی کمزوریاں ہیں لیکن انقلابیوں کے لئے ان تحریکوں سے سیکھنے کے بے شمار اسباق موجود ہیں۔ ہر طرح کے جمہوری حقوق کا دفاع کرنا سوشلسٹوں کا بنیادی فریضہ ہے۔ جمہوری و سیاسی حقوق کی جدوجہد سوشلسٹ انقلاب کیساتھ جڑی ہے۔ انقلابی پارٹی کے لئے مواد بھی انہی تحریکوں سے حاصل ہو سکتا ہے۔ ان تحریکوں میں مداخلت کے لئے آزادانہ عوامی کام کی ضرورت ہے۔ آزادانہ کام کے ذریعے نہ صرف ان تحریکوں میں مداخلت کی جا سکتی ہے بلکہ ان تحریکوں میں شامل متحرک کارکنوں کو سوشلسٹ پروگرام پر جیتا جا سکتا ہے۔ اس طرح دیگر بائیں بازوں کے رحجانات سے مل کر محنت کشوں اور نوجوانوں کے مسائل پر یوناٹیڈ فرنٹ کے ذریعے عوامی احتجاج کو منظم کیا جا سکتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان تحریکوں میں مداخلت کے ذریعے فوراً محنت کش اور نوجوان لاکھوں کی تعداد میں ہماری طرف آئیں گے لیکن ان تحریکوں میں درست پروگرام اور حکمت عملی کی بنیاد پر مداخلت اور مستقل مزاجی کے ذریعے کیا جانے والے کام مستقبل میں بڑی تعداد میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی حمایت حاصل کرنے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ کشمیر میں ’پیپلز ریولوشنری فرنٹ‘ کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
حکمت عملی کے سوالوں کو اصول اور نظریے کے طور پر پیش نہیں کیا جانا چاہئے۔ محنت کش طبقہ روایتی پارٹیاں بنا سکتا ہے تو انہیں رد بھی کر سکتا ہے۔ انقلابی جہاں محنت کشوں کو سکھاتے ہیں وہاں وہ محنت کشوں سے بہت کچھ سیکھتے بھی ہیں۔ مارکس نے پیرس کمیون کے تجربے سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ ضرورت کے مطابق آزادانہ کام فرقہ پرستی نہیں بلکہ فرقہ پرستی کا مطلب تحریکوں کے حوالے سے فرقہ وارانہ رویہ اپنانا ہے۔ اگر انقلابی تنظیم نئے وقت کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنے کی بجائے تحریکوں میں موجود محنت کشوں، طلبہ اور مظلوم قوموں سے کٹ جائے تو یہ فرقہ وارانہ رویہ ہے۔ انقلابی کام کسی روایتی پارٹی میں ہو یا اس سے ہٹ کر‘ ریاست اس کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی جب کسی حد تک محنت کشوں کی نمائندگی کرتی تھی اس وقت ہزاروں کی تعداد میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو جبر و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ مہم جوئی سے یقینا گریز کرنا چاہئے لیکن ریاستی جبر سے بچنے کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ جبر کا مقابلہ کرنے کا واحد ذریعہ تنظیم کی مقدار میں مسلسل اضافہ اور محنت کشوں اور نوجوانوں کی لڑاکا پرتوں کی تنظیم میں مسلسل شمولیت ہے جو ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہوں۔ انقلابی تنظیم ہر قسم کے ریاستی جبر سے ٹکرا کر ہی محنت کشوں کی نمائندہ پارٹی بن سکتی ہے جس میں استحصالی نظام کو شکست دینے کی صلاحیت موجود ہو۔ ایسی انقلابی پارٹی مہم جوئی، مصالحت اور مفاد پرستی کے خلاف مسلسل جنگ کے ذریعے ہی تعمیر کی جا سکتی ہے۔