صدف گوندل
تین سال پہلے ہم نے نہ صرف ایک عظیم انقلابی لیڈر،شفیق استاد اور رہنما کو الوداع کیا بلکہ ایک بہت ہی پیارے دوست اور کامریڈ سے بچھڑنے کے غم کے المناک المیہ سے بھی گزرے۔کامریڈ لال خان ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے۔یہ وہ عہد ہے جس میں محنت کش طبقے پر کبھی ناامیدی کے گہرے بادل چھاتے رہے اور کبھی وہ امید کی مشعل لے کر اپنے لئے طبقہ ہونے کا شعور اجاگر کرتے ہوئے ہمیں میدان عمل میں نظر آتا ہے۔ وہ سرمایہ داری کے زوال کے تابڑ توڑ حملوں سے بہادری سے لڑتا ہوا اپنے طبقاتی کردار کو نبھاتا بھی نظر آیا ہے۔
پاکستان میں چالیس سالوں پر محیط لال خان کی جدوجہد اس عہد میں ایک روشن ستارے کی طرح جگمگاتی رہی ہے۔ ایک بات جو ڈاکٹر لال خان کی شخصیت کا خاصہ تھی کہ وہ کبھی محنت کش طبقے سے مایوس نہیں ہوئے۔ ذاتی اور سیاسی زندگی میں بھی مایوسی ان کے پاس کبھی بھی‘کہیں بھی نظر نہیں آتی ہے۔ حتیٰ کہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود وہ پرامید اور خوش آئند تھے۔ ان کا محنت کش طبقے کی فتح پر یقین ہمیشہ سے زیادہ ہوگیا تھا۔تنظیمی معاملات میں کبھی مشکل حالات سے گزرنا پڑتا تھا تو وہ تھوڑے فکر مند ضرور ہوتے تھے لیکن ہم نے انہیں کبھی ناامید نہیں دیکھا تھا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ مشکل حالات ایک انقلابی کو اور زیادہ مضبوط بنا دیتے ہیں اور اس کو ایسی شکتی ملتی ہے کہ وہ چٹانوں سے ٹکراتے بھی نہیں گھبراتا۔ وہ خود بھی ایک چٹان کی طرح آخری وقت تک مضبوطی سے کھڑے رہے۔
لال خان نے سب کچھ عمل سے سیکھا۔ ان کا تعلق ایک اپر مڈل کلاس گھرانے سے تھا۔ ان کے والد فوجی آفیسر رہے تھے اور دیگر عزیز واقارب بھی عسکری اداروں میں بڑی پوزیشنوں پر فائز تھے۔ مگر لال خان نے زندگی سے سیکھا اور معروض کو ابتدائی زندگی میں ہی طبقاتی تفریق پر گندھا ہوا پایا۔ ان کی زندگی میں مال دولت، سماجی رتبے اور وسائل کی کہیں کمی نہیں تھی۔ بہت سے انسان ایسی مراعت یافتہ زندگی کے اسیر ہوجاتے ہیں اورکبھی پلٹ کر محرومی، مظلومیت، انسان کی بے توقیری، مزدور کے استحصال اور دہقان کے لٹنے کا گہری نظر سے جائزہ نہیں لیتے۔ مگر لال خان نے زمانہ طالب علمی میں ہی سماج میں موجود گہری طبقاتی تفاوت کو بھانپ لیا۔ پھر فوجی گھرانے سے تعلق ہونے کے باوجود انہوں نے آمریت کے خلاف جدوجہد سے اپنی سیاسی زندگی کے عملی سفر کا آغاز کیا۔ مصائب اور اذیتوں کو جھیلا۔ یوں یہ غیر معمولی آغاز تھا۔ پھولوں کے بستر اور راہوں کو چھوڑ کر کانٹو ں سے بھرے راستوں کے انتخاب نے لال خان کی زندگی کو بڑی چتاونی دی۔ انہوں نے خندہ دلی سے یہ چیلنج قبول کیا۔ نہ صرف نئی زندگی اور انقلابی جدوجہد کا آغاز کیا بلکہ انقلابی نظریات کوسمجھنے کے لئے اپنی تمام توانائیوں کو صرف کر دیا۔
لال خان نے اپنے انقلابی کیریئر کا آغاز انتہائی نامساعد حالات، کم وسائل اور بہت ہی گرے ہوئے معیارز ندگی کو قبول کرکے کیا۔انہوں نے اپنی مراعات یافتہ زندگی کو ترک کرنے پر کبھی بھی ملال کا اظہار نہیں کیا۔لال خان کی زندگی کا اگلا مرحلہ زیادہ کٹھن تھا۔پاکستان کے معروض کے مطابق انقلاب کن اصولوں پر ہوگا؟ مختلف تنازعات اور متنوع موضاعات پر سائنسی سوشلزم کے تحت مارکسی نقطہ نظر وضع کرنا۔ پھر متذکرہ موضوعات کی انقلابی تشریح جس کو ریاست، اصلاح پسند، بورژوا،قوم پرست اور بنیاد پرست قوتوں کے مدمقابل ایک مضبوط متبادل کے طور پر پیش کیا جائے۔اس تمام نصاب و مواد کو فنکارانہ پیرائے میں تشکیل دیا جانا تاکہ اس کو رد کرنا ناممکن ہو۔
لال خان سے پہلے ریاستی بیانیہ تھا یا پھر زیادہ تر مواد مبہم تھا۔ اس میدان میں بھی لال خان نے جانفشانی اور دیانتداری سے وہ کام کیا جس کے نتیجے میں مارکسی تحقیق و تحریر کا ایک سمند ر خلق ہوا۔ انہوں نے ٹراٹسکی ازم کو پاکستان میں متعارف کرایا تو پھر پوری تاریخ کو ازسر نو تشکیل دینے کا فریضہ بھی اپنے سر لیا اور خوبصورتی سے ہرنظریاتی، سیاسی، تاریخی، سماجی، ثقافتی موضوع کو ٹراٹسکی ازم اور انقلاب سے ہم آہنگ کیا۔ آج بھی ہمارا سماج داخلی اور خارجی بحران کا شکار ہے۔ کورونا کے بعد کی دنیا اس سے پہلے کی دنیا سے بہت مختلف اور تکلیف دہ ہے۔ بورژوا طبقہ کورونا کو ڈھال بنا کر محنت کش طبقے پر پے درپے وار کر رہا ہے۔ پاکستان میں حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔کورونا کی تباہ کاری ابھی جاری تھی تو موسماتی تبدیلی کی زد میں آکر سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ پیٹرول،گیس،بجلی اور روزمرہ کی ضروریات ایک عام آدمی کی پہنچ سے میلوں دور ہو گئی ہیں۔ زندگی حقیقت میں ایک عذاب بن چکی ہے۔ سیاسی ہلچل نے اسے دوچند کر دیا ہے۔ایک مسلسل اور نہ ختم ہونے والی بے چینی واضح ہے۔ میں جب بھی ذاتی،نظریاتی یا تنظیمی مشکل میں گرفتار ہوتی ہوں تو صرف یہ سوچتی ہوں کہ لال خان ہوتے تو وہ کیا کرتے۔ ایسے موقعوں پر میری سیاسی اور نظریاتی بصیرت کی راہنمائی لال خان کی سوچ کرتی ہے اور ہمیشہ مجھے ہر بھنور سے نکال لیتی ہے۔بدلتے وقت اور حالات ہم سے متقاضی ہیں کہ اپنی انقلابی توانائیوں کو پھر سے نظریاتی پختگی پر صرف کریں۔ پڑھنے کے رجحان کو ترویج دیں۔ سمجھنے کی تمنا رکھیں اور عمل کے لئے پر عزم رہیں۔ کیوں کہ جب نظریاتی پختگی میں کمی آتی ہے تو ذاتی اور فروعی معاملات کا غلبہ ہوتا ہے۔ معیاری بہتری مقداری وسعتوں کو خلق کرتی ہے۔
آج ہمیں جہاں عددی بڑھوتری اور وسعتوں کی اشد ضرورت ہے وہاں معیار کی اونچائیوں تک رسائی کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے۔ لال خان کی تصنیفات اپنے اندر سمند ر جیسی گہرائیاں سمیٹے ہوئے ہیں۔ ہر معاملے پر مارکسی استادوں کی تعلیمات سے استفادہ حاصل کرنا ایک انقلابی کی خوبی ہوتی ہے۔ ہم اندھی تقلید کے قائل نہیں ہیں مگر اپنے اساتذہ اور انقلابی رہنماؤں کے تجربوں کو جدلیاتی طور پر پرکھتے ہوئے بہتر پیش منظر تیار کر سکتے ہیں۔حقیقی اور سائنسی بنیادوں پر استوار کیے گئے پیش منظر محنت کش طبقے کے لئے مشعل راہ ہوتے ہیں جو انقلابی تحریکوں کو ان کی منزل تک رسائی عطا کرتے ہیں۔ بدترین حالات میں بھی روشنی اور امید کی کرن ہمیشہ جگمگاتی ہے۔ اسے دیکھنے اور پرکھنے والی نظر چاہئے۔ ڈاکٹر لال خان کا جذبہ اور پرکھنے والی نظر کی قسم ہم اپنے راستے میں آنے والے ہر طوفان سے ٹکرانے کی جرات اور ہمت رکھتے ہیں۔چلو کہ اپنے ہر غم کو داستان کرلیں!