آصف رشید
ایک سرمایہ دارانہ سماج میں غربت، محرومی، مشکلات، بے معانی نوکری اور عدم اطمینان کا ذمہ دار ہمیشہ ایک فرد کو قرار دیا جاتا ہے۔ یہ آپ کا قصور ہے۔ دوسرے لوگوں کو دیکھیں وہ کیسے ایک ”کامیاب“ زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر آپ زیادہ محنت کریں، اچھی پڑھائی کریں، وقت کی زیادہ قربانی دیں تو آپ بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔
ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ جو بھی سخت محنت کرتا ہے تو وہ ایک کامیاب آدمی بن جاتا ہے۔ جو پیسوں کی بچت کرتا ہے وہ ایک دن خود مالک بن کر لوگوں کو کام پر رکھ سکتا ہے۔لیکن کوئی ایک فرد یا کچھ افراد تو ایسا کر سکتے ہیں تاہم ہر کوئی ایسا نہیں کر سکتا۔ یہ ایک بنیادی مغالطہ ہے کہ اگر کوئی ایک یہ کر سکتا ہے تو پھر ہر کوئی کر سکتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ اگر ایک تھیٹر میں ایک بندہ کھڑا ہو جائے تو وہ بہتر دیکھ سکتا ہے لیکن اگر سارے ہی کھڑے ہو جائیں تو پھر کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا۔ جہاز میں آخری سیٹ صرف ایک ہی بندے کو مل سکتی ہے۔ اسی طرح اگر ایک ملک اپنی پیداواری لاگت کم کر کے مارکیٹ میں سبقت لے جاتا ہے توہر ملک ضروری نہیں کہ لاگت کم کر کے ایساکر سکے۔مقابلے بازی میں ”کامیابی“ چند افراد، ممالک یا کمپنیوں کو ہی مل سکتی ہے‘ سب کو نہیں۔ ایک کی جیت دوسروں کی ہار بن جاتی ہے۔
یہ ساری واردات آپ کو بتاتی ہے کہ آپ خود اپنے سب سے بڑے دشمن ہیں لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کو یہ بتایا جائے کہ یہ دوسرے لوگوں کی وجہ سے ہے جو کمتر ہیں، دوسرے علاقوں سے آئے ہیں اور کم اجرت پر کام کر رہے ہیں جس کی وجہ سے آپ کو نوکری نہیں مل رہی۔ وہ آپ کے دشمن ہیں اور آپ کا ان کے ساتھ مقابلہ ہے۔ آپ کی بیروزگاری یا کم اجرت کی وجہ آپ ہی کے جیسے دوسرے لوگ ہیں۔
فرض کریں دو لوگ کسی جرم میں گرفتار ہو جائیں اور دونوں کو الگ الگ بٹھا کر یہ کہا جائے کہ اگر تم جرم قبول کر لو تو تمہیں کم سزا ملے گی لیکن اگر تم نہیں کرتے اور دوسرا کر لیتا ہے تو تمہیں لمبی سزا ہو گی۔ تو دونوں کو الگ الگ جرم قبول کرنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا۔ اسی طرح مزدور کا بھی یہی المیہ ہے کہ میں کم اجرت پر نوکری کر لوں یا بیروزگار رہوں؟ ہر چیز کو اگر الگ تھلگ کر دیا جائے، انفرادی بارگینگ و مسابقت پر اگر کنٹرول نہ رکھا جائے تو یہ تمام دولت پیدا کرنے والوں کو فاقہ کش بنا دے۔ یقینا اگر قیدی تعاون کرتے ہیں تو یہ ان کے لئے بہت اچھا ہو گا اور اسی طرح مزدوروں کے لئے بھی۔
غیر ملکی و دوسری قومیتوں کے لوگ اور دوسرے علاقوں کے مزدور آپ کے پیدائشی دشمن نہیں ہیں۔ جو چیز ہمیں دوسرے مزدوروں کو اپنا دشمن بنا کر پیش کرتی ہے وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس میں آج ہم سب زندہ ہیں۔ ہمارا حقیقی دشمن سرمایہ دارانہ نظام ہے۔
سرمایہ داری میں جس طرح مزدوروں کو علاقہ، قومیت، زبان، صنف، مذہب اور ملک کے نام پر تقسیم کیا جاتا ہے یہ کوئی حادثاتی امر نہیں ہے۔ سرمایہ دارای کا تاریخی طور پر جو جنم ہو اہے وہ غلامی، مقامی پرانی تہذیبوں کی تباہی اور پدرشاہانہ رشتوں کے اندر سے ہوا۔ اسی لئے سرمایہ دار ہمیشہ مزدوروں کو متحد ہونے اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے سے روکنے کے لئے ماضی کے تعصبات اور طریقوں کی تلاش میں ہوتا ہے۔ اس سے بہتر واردات اور کیا ہو سکتی ہے کہ نسلی، علاقائی، قومی، صنفی اور دیگر تعصبات کو ہوا دے کر ان کو تضادات میں تبدیل کیا جائے۔ مارکس بخوبی سمجھتا تھا کہ سرمایہ کیسے محنت کش طبقے کو تقسیم کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ سرمایہ دارانہ حاکمیت انگلینڈ میں آئرش اور انگلش مزدور کے درمیان تضادات کو ابھارتی ہے اور یہ انگلش مزدور کی کمزوری کا راز ہے اور یہی سرمایہ دار طبقے کی سب سے بڑی طاقت ہے اور سرمایہ دار اس سے بخوبی واقف بھی ہے۔ اسی طرح امریکہ میں کالے اور گورے کا تضاد، تیسری دنیاکے بیشتر ممالک میں علاقے، زبان، قومیت، مذہب اور فرقے کے تضاد کو استعمال کیا جاتا ہے۔ محنت کش طبقے کو اس واردات کا ادراک بہت ضروری ہے جس کے بغیر اس کی جڑت اور نجات ممکن نہیں۔
اس بات کو سمجھنے کے لئے کہ مزدوروں کو تقسیم کرنا سرمایہ دار کے لئے اتنااہم کیوں ہے؟ ہمیں سرمایہ داری کی خصوصیات کو سمجھنا ضروری ہے۔ تمام پیداوار اور دولت کا ماخذ فطرت اور انسان ہے۔ پیداوار ایسا عمل ہے جس میں ذرائع پیداوار کو استعمال میں لاتے ہوئے ایک نئی شے کو بنانا مقصود ہو تا ہے۔ لیکن سرمایہ داری کے تحت پیداوار کی مخصوص خصوصیات ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ایک طرف سرمایہ دار ہیں جو کہ تمام دولت اور مادی ذرائع پیداوار کے مالک ہیں۔ ان کا مقصد اپنی دولت میں اضافہ کرنا ہے۔ سرمایہ دار پیسے کی شکل میں خاص قدر کے سرمائے سے آغاز کرتا ہے۔ اس سے کچھ مزید چیزیں خریدتا ہے تاکہ اور پیسہ بنایا جا سکے اور قدر اور قدر زائد بٹوری جا سکے۔ سرمایہ دار کے لئے جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ سرمائے کی بڑھوتری اور شرح منافع کی بڑھوتری ہے۔
دوسری طرف مزدور ہے جس کے پاس ذرائع پیداوار کے نہ ہونے کے باعث صرف کا م یا محنت کرنے کی صلاحیت ہے جسے وہ منڈی میں بیچ سکتا ہے۔ مزدور اس حد تک تو آزاد ہے کہ وہ جس کو چاہے اپنی قوت محنت فرو خت کر ے لیکن اگر اس نے زندہ رہنا ہے تو اس کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ مختصراً مزدور کو اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات خریدنے کے لئے پیسے چاہئیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرمایہ دار کو مزدور کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ کیونکہ ایساکر کے وہ کام کی جگہ پر مزدور کی محنت کی صلاحیت پر کنٹرول حاصل کرتا ہے۔ مارکس کہتا ہے کہ جب مزدور سرمایہ دار کو اپنی قوت محنت فروخت کرنے پر راضی ہو جا تا ہے تو وہ جو پہلے پیسے کا مالک تھا اب اس کے سامنے ایک سرمایہ دار بن جاتا ہے اور قوت محنت کا مالک مزدور بن جاتا ہے۔ مزدور کے اوپر ا س بالا دستی کے باعث سرمایہ دار کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مزدور کی اس سے زیادہ محنت نچوڑے جتنی کہ وہ اس کو اجرت دیتاہے۔ یا دوسرے لفظوں میں وہ مزدور سے اس سے زیادہ قدر وصول کرے جتنی وہ اس کو اجرت دیتا ہے۔ یہ زبردستی کا ایک ایسارشتہ بن جاتا ہے جس میں سرمایہ دار حاکم اور مزدور محکوم بن جاتا ہے اور یہی سرمائے کا استحصال ہے جس کے ذریعے سے زائد محنت اور قدر زائد نچوڑی جاتی ہے۔
جب سے سرمائے کا وجود ہے تب سے وہ اس مقصد کے حصول کے لئے نئے نئے طریقے دریافت کرتا رہتا ہے۔ سرمایہ دار اوقات کار بڑھا کر، اجرت کم کر کے، کام کی شدت میں اضافہ کر کے استحصال میں اضافہ کرتا ہے۔ جب بھی مزدور بریک کرتا ہے، باتھ روم جاتا ہے، آرام کرتا ہے وہ سرمائے کے لئے کا م نہیں کر رہا ہوتا اور یہ چیز سرمایہ دار کے لئے بہت تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔ مارکس نے کہا تھا، ”سرمایہ دار اجرت کو کم سے کم کر نے اور اوقات کار کو آخری حد تک بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ جبکہ محنت کش مسلسل اس کے مخالف جدوجد جاری رکھتا ہے۔“ دوسرے لفظوں میں سرمایہ دارانہ رشتے کی حدود میں سرمایہ دار اوقات کار اور کام کی شدت میں اضافے اور مزدور اوقات کار کم کرنے اور اجرت بڑھانے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ سرمایہ دار اور مزدور کے درمیان یہ کشمکش مسلسل جاری رہتی ہے۔ مزدور ایسا کیوں کرتا ہے؟ جیسا کہ مارکس کہتا ہے کہ مزدور کو انسان کی اپنی بڑھوتری کے لئے وقت چاہیے۔ ایک آدمی جس کے پاس اپنے لئے وقت نہیں بچتا اس کی ساری زندگی صرف کام کرنے، سونے اور کھانے پینے اور سرمایہ دار کے لئے محنت کرنے میں گزرتی ہے۔ وہ محض ایک گوشت کا لوتھڑا بن کر رہ جاتا ہے۔
مزدور اجرت میں اضافے کی جدوجہد کیو ں کرتا ہے؟ کیونکہ مزدور کو بنیادی ضروریات کے علاوہ بھی بہت کچھ درکار ہوتاہے۔ اس کی سماجی و ثقافتی ضروریات، اپنی تعلیم و تربیت، اپنے حقوق کی جدوجہد اور بچوں کی تعلیم وغیرہ کے لئے بھی وسائل درکار ہوتے ہیں۔ ہماری سماجی ضروریات جس سماج اور وقت میں ہم رہ رہے ہوتے ہیں اس کے مطابق بدلتی رہتی ہیں۔ ان ضروریات کی تکمیل کے لئے اجرت میں اضافے کی جدوجہد ضروری ہے۔ سرمایہ دار اس جدوجہد کی مزاحمت کرتا ہے کیونکہ اجرت میں اضافے کا مطلب ہے منافع میں کمی۔
سرمایہ دار اور مزدور کے درمیان یہ جدوجہد جاری رہتی ہے اور مزدوروں کی آپسی تقسیم اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ فتح یاب کون ہو گا۔ جتنا مزدور آپس میں تقسیم ہوں گے اوقات کار اتنے طویل، اجرتیں کم اور بیروزگاری زیادہ ہو گی اور لوگوں کو زندہ رہنے کے لئے پارٹ ٹائم اور غیر یقینی روزگار اختیار کرنا پڑے گا۔
سرمائے پر فتح پانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ مزدور آپسی مسابقت اور تقسیم کو ختم کرتے ہوئے جدوجہد کو منظم کریں اور یہ جدوجہد اپنی ابتدائی شکل میں ٹریڈ یونین کو مضبوط کر کے سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کی صورت میں کرنی چاہیے۔
جب محنت کش منظم ہو کر سرمایہ دار کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں تو سرمایہ دار سب سے پہلے ٹریڈ یونین کو کمزور کرنے اور خریدنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ نسلی، صنفی، قومی اور علاقائی تعصبات کو ابھار کر مزدوروں کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسرے ملکوں اور دیہی علاقوں سے مزدور بلا کر اجرت کم کی جاتی ہے۔ ٹھیکیداری اور آوٹ سورسنگ کے ذریعے منظم مزدورں کو نکالا جاتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ریاستی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں جس میں یونین سازی پر پابندی، احتجاج اور اکھٹا ہونے کے حقوق سلب کیے جاتے ہیں۔ کاروبار ایک خطے یا ملک سے ختم کر کے ان جگہوں پر منتقل کیا جاتا ہے جہاں زیادہ غربت ہے اور یونین پر پابندی ہے۔ بعض صورتوں میں کاروبار بند کرنے کی دھمکیاں دے کر مزدور کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ تلخ حالات میں کام کرنے پر راضی ہو جائے۔ یہ سارے حربے سرمایہ دار کے لئے منطقی اور جائز ہیں۔ سرمائے کی منطق یہ ہے کہ وہ ہر جائز و ناجائز کام کرتا ہے جس سے مزدور کو تقسیم اور زیر کیا جا سکے کیونکہ استحصال کو بڑھانا ہی سرمایہ دار کا حتمی مقصد ہے۔
آج پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام محنت کش طبقے کو ایک کم تر معیار زندگی قبول کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ اس کی جدوجہد کو توڑنے کے لئے جہاں ملکی اور علاقائی تعصبات کو استعمال کیا جاتا ہے وہاں ریاستی جبر اور سامراجی اداروں کی پالیسیوں کوبزور طاقت نافذ کیا جا رہا ہے۔ محنت کش طبقے کی ملکیت کے رشتوں اور نظام کے سارے اداروں کے خلاف بغاوت کے ذریعے ہی اس استحصال کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اس شعور کو اجاگر کرنا آج کے عہد کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے جو ایک انقلابی سوشلزم کے نظریات سے مسلح پارٹی ہی کر سکتی ہے۔