لیون ٹراٹسکی (1937ء)
تلخیص و ترجمہ: عمران کامیانہ
سوشلسٹ اپیل (امریکہ) کے مدیران کے نام
پچھلے کچھ مہینوں کے دوران مجھے انقلابی پارٹی کے مروجہ داخلی طریقہ کار /نظام (Regime) کے حوالے سے بہت سے نوجوان کامریڈوں کے خطوط موصول ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ خطوط میں آپ کی تنظیم میں ”جمہوریت کے فقدان“ اور ”لیڈران“ کے تحکمانہ رویے وغیرہ کی شکایت کی گئی ہے۔ انفرادی کامریڈ مجھ سے ”جمہوری مرکزیت کا بالکل واضح اور قطعی فارمولا“ پوچھ رہے ہیں جو اس حوالے سے ساری غلط تشریحات کا راستہ روک سکے۔ ان خطوط کا جواب دینا آسان نہیں ہے۔ مجھے خط لکھنے والوں میں سے کسی ایک نے بھی حقیقی مثالوں کے ذریعے واضح اور ٹھوس انداز میں بتانے کی کوشش نہیں کی ہے کہ جمہوریت کی خلاف ورزی کہاں ہوئی ہے۔
ایک بیرونی شاہد کے طور پر میں آپ کے پرچوں سے اندازہ لگا سکتا ہوں کہ آپ کی تنظیم میں مکمل آزادی سے بحث کی جا رہی ہے۔ آپ کے پرچے زیادہ تر ایک بہت چھوٹی سی اقلیت کے نمائندگان کی تحریروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ تبادلہ خیال کے لئے کیے جانے والے تنظیمی اجلاسوں کی بھی یہی کیفیت ہے۔ ابھی فیصلے نہیں ہوئے ہیں۔ بظاہر فیصلے بھی ایک آزادانہ طور پر منتخب کانفرنس کے ذریعے کیے جائیں گے۔ پھر جمہوریت کی خلاف ورزی کہاں ہوئی ہے؟ میرے لئے یہ سمجھنا مشکل ہے۔
بعض اوقات خطوط کے لہجوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شکایت کرنے والے اس بات سے مطمئن نہیں ہیں کہ تنظیم میں جمہوریت ہونے کے باوجود بھی وہ اقلیت میں ہیں۔ میں اپنے تجربے سے بتا سکتا ہوں کہ یہ ایک ناخوشگوار کیفیت ہوتی ہے۔ لیکن جمہوریت کی خلاف ورزی کہاں ہوئی ہے؟
نہ ہی میرا خیال ہے کہ میں کوئی ایسا فارمولا پیش کر سکتا ہوں جو ”ہمیشہ ہمیشہ کے لئے“ غلط فہمیوں اور غلط تشریحات کا خاتمہ کر سکے۔ پارٹی ایک زندہ جسم ہوتی ہے۔ یہ بیرونی رکاوٹوں کے خلاف جدوجہد اور داخلی تضادات کیساتھ ہی آگے بڑھتی ہے۔
سامراجی عہد کے شدید حالات میں دوسری اور تیسری انٹرنیشنل کی مسلسل زوال پذیری نے چوتھی انٹرنیشنل کے لئے بے نظیر مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ لیکن ان پر کسی جادوئی فارمولے سے قابو نہیں پایا جا سکتا۔ پارٹی کا طریقہ کار آسمان سے بنا بنایا نازل نہیں ہوتا بلکہ جدوجہد میں بتدریج تشکیل پاتا ہے۔ سیاسی موقف اور حکمت عملی‘ مروجہ تنظیمی طریقہ کار پر حاوی اور غالب ہوتی ہے۔ طریقہ کار کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ سب سے پہلے انہیں واضح کیا جائے۔ تنظیمی اشکال کی حکمت عملی اور طریقہ کار سے مطابقت ہونی چاہئے۔
ایک درست حکمت عملی ہی پارٹی کے صحتمندانہ طریقہ کار اور انتظام کی ضمانت دے سکتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ جمہوری مرکزیت ناگزیر طور پر مختلف ممالک کی پارٹیوں اور ایک ہی پارٹی کے ارتقا کے مختلف مراحل کے دوران اپنا اظہار مختلف طریقوں سے کرتی ہے۔
(جمہوری مرکزیت میں) جمہوریت اور مرکزیت کا تناسب مستقل بالکل نہیں ہوتا ہے۔ ہر چیز کا انحصار ٹھوس حالات، ملک کی سیاسی صورتحال، پارٹی کی قوت اور تجربے، اس کے ارکان کے معیار اور قیادت کی اتھارٹی پہ ہوتا ہے۔ جب سیاسی حکمت عملی کی تشکیل کا سوال ہوتا ہے تو جمہوریت‘ مرکزیت پہ غالب ہوتی ہے۔ لیکن جب سیاسی عمل کا سوال آتا ہے تو مرکزیت‘ جمہوریت کو اپنے تابع کر لیتی ہے۔ جب پارٹی کو اپنے عمل کا تنقیدہ جائزہ لینے کی ضرورت پیش آتی ہے تو ایک بار پھر جمہوریت خود کو حاوی کر لیتی ہے۔ جمہوریت اور مرکزیت کا توازن حقیقی جدوجہد کے بیچ ہی قائم ہوتا ہے۔ کبھی یہ بگڑتا ہے اور کبھی پھر خود کو قائم کر لیتا ہے۔ پارٹی کے ہر رکن کی بلوغت کا اظہار بالخصوص اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ وہ پارٹی سے اس سے زیادہ کا مطالبہ نہ کرے جتنا وہ اسے دے رہا ہے۔ تنظیم کی طرف اپنے رویے کا تعین انفرادی ہیجانوں کی بنیاد پر کرنے والا انسان ایک مفلس انقلابی ہوتا ہے۔
قیادت کی ہر انفرادی غلطی اور ہر ناانصافی وغیرہ کے خلاف لڑنا ضروری ہے۔ لیکن ان ”غلطیوں“ اور ”ناانصافیوں“ کا تعین ان کو الگ تھلگ دیکھ کے نہیں بلکہ ان کے قومی اور بین الاقوامی سطح پر پارٹی کے عمومی ارتقا کے ساتھ تعلق میں ہی کرنا چاہئے۔
سیاست میں حس تناسب انتہائی اہم چیز ہوتی ہے۔ جس انسان میں رائی کا پہاڑ بنا لینے کے رجحانات ہوں وہ اپنا اور پارٹی کا ٹھیک ٹھاک نقصان کر سکتا ہے۔
آج کل شکستوں سے تھکے ماندے اور مشکلات سے ڈرنے والے نیم انقلابیوں کی کمی نہیں ہے۔ ایسے نوجوان بوڑھے بھی بہت ہیں جو جدوجہد کے عزم سے زیادہ شبہات اور تصنع و بناوٹ کا شکار ہیں۔ سیاسی سوالوں کی اساس کا سنجیدہ تجزیہ کرنے کی بجائے ایسے افراد ہر مسئلے کے حل کے کسی آفاقی فارمولے کی تلاش میں ہوتے ہیں، ہر مرحلے پر ”مروجہ تنظیمی طریقہ کار“ کی شکایت کرتے ہیں، قیادت سے معجزوں کا مطالبہ کرتے ہیں یا اپنی داخلی شک پرستی کو بائیں بازو کی انتہا پسندانہ لفاظی میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔
پارٹی کے مروجہ طریقہ کار کی غلطیوں کی فہرست بنانے والے ہر سچے انقلابی کو سب سے پہلے خود سے کہنا چاہئے: ”ہمیں پارٹی میں ایک درجن نئے مزدور لانا ہوں گے!“ یہ نوجوان مزدور‘ شک پرست صاحبان، ہر وقت شکوے شکایتوں کی آہ و بکا کرنے والوں اور مایوسی سے دوچار لوگوں کو خاموش کروا دیں گے۔ صرف اسی طرح سے چوتھی انٹرنیشنل کے سیکشنوں میں ایک صحت مندانہ اور مضبوط تنظیمی طریقہ کار قائم کیا جا سکتا ہے۔