اویس قرنی

گلی سڑی معاشی بنیادوں پر استوار سماج گھٹن، یاس اور انتشار پر ہی منتج ہوتا ہے۔ پاکستان کی دیوالیہ معاشی صورتحال نے معاشرے کا شیرازہ بکھیر کے رکھ دیا ہے۔ ہر نیا سورج سانحات، تشدد اور بد امنی کے دلخراش واقعات کے ساتھ طلوع ہو رہا ہے۔ ریاست خلفشار کا شکار ہے اور حکمرانوں کی سیاست ایک کھلواڑ بن چکی ہے۔ ایک مکمل عدم اطمینان اور بے چینی کی کیفیت نے عوام الناس کو جکڑا ہوا ہے۔ شاہراہیں قتل گاہیں بن گئی ہیں اور سماجی و ریاستی اداروں سے تعفن اٹھ رہا ہے۔ حکمرانوں نے ملک کو آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے اور عدالتیں سرکس بن چکی ہیں۔ ایسی کیفیات سماج کی محکوم پرتوں میں آپسی انتشار، تشدد اور خونریزی کا موجب بھی بنتی ہیں جس کا فائدہ پھر حکمران طبقہ اٹھاتا ہے اور محنت کشوں اور محکوموں پر جبر کی انتہاکر دی جاتی ہے۔بالعموم نوجوانوں اور خاص طور پر طلبہ میں سماجی بحران اور اتھل پتھل کا اظہار زیادہ شدت سے ہوتا ہے۔

قائد اعظم یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی اور بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں حالیہ تشدد کے واقعات کو اسی پیرائے میں دیکھنا چاہیے۔ ہیجانی کیفیات سے جنم لینے والی ذاتی نوعیت کی معمولی چپقلشیں گروہی اور فرقہ وارانہ تضادات پر منتج ہوتی ہیں جس کا بھرپور فائدہ پھر حکمران طبقات اور ریاست اٹھاتے ہیں۔ قائداعظم یونیورسٹی طلبہ حقوق کی جدوجہد کی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ اس کا شمار ان گنے چُنے تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے جہاں ریاست کی تمام تر آشیرباد کے باوجود آج تک جمعیت جیسی رجعتی تنظیمیں اپنی بنیادیں استوار نہیں کر سکیں بلکہ جب بھی اس کی کوشش کی گئی طلبہ کی مشترکہ جدوجہد نے ہمیشہ اس کے راستے روکے۔ جب پورے ملک پر بنیاد پرستانہ رجعت کو حاوی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ قائداعظم یونیورسٹی کے طلبہ ہی ہوتے ہیں جو تہواروں اور رنگوں کے ذریعے یکجہتی، امن و آشتی کا پیغام دے رہے ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ اور ریا ستی مشینری کو ہمیشہ طلبہ نے یکجا ہو کر شکست دی ہے۔ طلبہ کی جڑت ہی ریاست اور رجعتی انتظامیہ کے مذموم مقاصد کے حصول میں سب سے بڑی رکاٹ ثابت ہوئی ہے۔ لیکن حالیہ دلخراش اور پُرتشدد واقعات نے انہی مذموم عزائم کی راہ ہموار کر دی ہے۔ جس کا اندازہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے اس بیان سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے کہ ”تعلیمی اداروں میں سیاست کی اجازت نہیں دی جائے گی۔“ ان پُرتشدد واقعات کی آڑ میں یونیورسٹی میں رینجرز اور پولیس کی تعیناتی وہ رجعتی عمل ہے جس کے لیے ریاست مسلسل کوشاں تھی۔ پہلے ہی بلوچستان یونیورسٹی، جامعہ کراچی، سندھ یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی سمیت ہر بڑے تعلیمی ادارے میں اسی قسم کی وارداتیں ہو چکی ہیں۔ قائداعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تعیناتی کا معاملہ کئی مہینوں سے التوا کا شکار ہے اور یونیورسٹی کا براہ راست چارج ہائر ایجوکیشن کمیشن کے افسران کے پاس ہے۔ اور ایسی کیفیت میں یونیورسٹی میں رینجرز کی ڈائریکٹ تعیناتی یونیورسٹی انتظامیہ سمیت ہائر ایجوکیشن کمیشن کی مکمل نا اہلی کا ثبوت ہے۔

قائداعظم یونیورسٹی میں گزشتہ شب کے پچھلے پہر میں یونیورسٹی کو میدان جنگ بنا دیا گیا۔ طلبہ پر تشدد، گرفتاریاں حتیٰ کہ سیدھی گولیاں برسائی جاتی رہیں۔ درجنوں شدید زخمی حالت میں ہسپتالوں میں داخل ہیں۔ گرفتاریوں اور ہراسانی کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ سینکڑوں طالبات کوہاسٹل سے نکال کر روڈ پر بے آسرا چھوڑ دیا گیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے ایک بیان کے ذریعے ملک کے طول و عرض سے آئے ہزاروں طلبہ کو یونیورسٹی بدر کر دیا گیا۔ ہر طرف وردی میں ملبوس افراد پہرہ زن رہے اورعلم کا گہوارہ ایک سرحدی چھاؤنی کا منظر نامہ بن گیا۔ سکیورٹی اداروں کی موجودگی میں آنے والے دنوں میں اس ادارے کے ماحول کو بھی گھٹن زدہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ طلبہ انجمنوں پر بھی قدغنیں لگیں گی۔ آنے جانے اور اٹھنے بیٹھنے سمیت طلبہ کی ہر سرگرمی کا حساب مانگا جائے گا۔ پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں ہر طرح سے ایک منفرد حیثیت رکھنے والی اس یونیورسٹی کا دم گھوٹنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ ساتھ ہی ملکی سطح پر تعلیمی اداروں کی ’عسکریت کاری‘ اور طلبہ سیاست و طلبہ یونین پر پابندی کو برقرار رکھنے کے جواز گھڑے جائیں گے۔ یہی وہ مذموم مقاصد تھے جو ریاست کو دہائیوں سے درکار تھے۔ مظلوموں کی باہمی چپقلشوں کے ایسے واقعات کی جہاں مذمت اور روک تھام ضروری ہے وہاں ان واقعات کو جواز بنا تے ہوئے تعلیمی اداروں میں ریاست کی تھانے داری کی مذمت اور اس رجعت کے خلاف مزاحمت کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔تعلیمی اداروں میں سیکورٹی اداروں کی موجودگی اور ہراسانی کے خلاف ملک بھر کے طلبہ کو یک جان ہو کر آواز اٹھانا ہو گی۔ اور ساتھ ہی طلبہ کی قومی یا لسانی انجمنوں کے ذمہ داران کو بھی کارکنان کی یکجہتی اور جڑت پر مبنی سیاسی تربیت کرنا ہو گی۔ اسی طرح کا ملتا جلتا واقعہ پنجاب یونیورسٹی میں بھی پیش آیا جس کے بعد مخصوص شناخت کے حامل طلبہ کی مسلسل گرفتاریاں اور ہراسانی کا سلسلہ شروع ہے۔

لیکن ہمیں یہ بھی ادراک رکھنا ہو گا کہ ایسا کیونکر ہو رہا ہے اوراس کے مضمرات کیا ہیں۔ چار دہائیاں قبل ایک آمر کی طرف سے طلبہ یونین پر پابندی عائد کی گئی لیکن اس کے بعد کی تمام تر نام نہاد جمہوری پارٹیوں کی جانب سے نہ صرف اس پابندی کو برقرار رکھا گیا بلکہ مروجہ سیاست کو اپنے قبضہ میں رکھنے کے لیے طلبہ سیاست کی بنیادوں کو ہی مسخ کرنے اور طلبہ کو بد دل کرنے کی منظم کاروائیاں عمل میں لائی گئیں۔ طلبہ کی جڑت کو توڑنے کے لیے انہیں مسلسل تقسیم در تقسیم کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ مشرف آمریت میں ایک منظم انداز میں طلبہ یکجہتی کو لسانی و قومی بنیادوں پر توڑا گیا۔ اور ان کا کردار صرف سالانہ رقص و ثقافتی تقریبات تک محدود کر دیا گیاجبکہ طلبہ مسائل کی سیاست پر پابندی بدستور جاری ہے۔ لیکن معروضی تبدیلیوں سے طلبہ کی یہ انجمنیں بھی ماورا نہیں ہو سکتیں۔ ماضی قریب میں انہی کونسلوں نے کسی نہ کسی شکل میں سیاسی اظہار بھی کیا ہے۔ لیکن آج کی بحران زدہ کیفیات بھی طلبہ پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ ایک دیوالیہ معیشت میں جب حکمران طبقات کی جانب سے پورے سماج کو ہی اپنی بیہودہ اور بکاؤ سیاست کا اکھاڑا بنا دیا جائے تو نوجوانوں میں فرسٹریشن، بددلی اور رجعتی رویوں کا پیدا ہونا ناگزیر عمل ہے۔ قلت، بھوک، مہنگائی، بیروزگاری، بد امنی کی کیفیات سوچوں کو مسخ کر دیتی ہیں۔ جن کی بنیادوں پر رجعت، تعصب اور شاونزم پر مبنی سوچیں استوار ہوتی ہیں۔ منافقت، چڑچڑا پن، دھوکہ دہی اور مقابلہ بازی معاشی و سماجی عدم استحکام کی بنیاد پر ہی پروان چڑھتے ہیں۔ ایسے میں فروعی نوعیت کی انفرادی چپقلشیں گروہی انتشار کا موجب بنتی ہیں جن سے پر تشدد واقعات جنم لیتے ہیں۔ طلبہ کو انفرادی بقا اور مقابلہ بازی کی سوچ سے بلند کر کے اجتماعی مسائل کی جدوجہد میں جوڑ کر ہی خوش آئندمستقبل اور ترقی پسند سیاست کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ آج اگر پاکستان کی بوسیدہ سرمایہ داری تعفن پھیلا رہی ہے تو وہیں محنت کش طبقہ بھی انگڑائیاں لے رہا ہے۔ حالات زندگی تلخ سے تلخ ہوتے جا رہے ہیں۔ محنت کش عوام زیادہ دیر تک یہ کھلواڑ برادشت کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ آئی ایم ایف اور نجکاری کے خلاف بیشتر اداروں کے محنت کش جدوجہد میں ہیں۔ یہ تحرکیں فی الوقت کٹی ہوئی، محدود اور کمزور ضرور ہیں لیکن آنے والے دنوں میں ان میں مزید شدت آئے گی۔ محنت کشوں کو اپنا مقدر اپنے ہاتھوں میں لینا ہی ہو گا۔ ایسے میں نوجوانوں اور خصوصاً طلبہ کا کردار کہیں زیادہ اہمیت کا حامل بن جاتا ہے۔ مختلف ثقافتوں، زبانو ں اور جغرافیائی حالات کے حامل غنچوں کو انقلابی طلبہ سیاست اور طلبہ یونین جیسے گلدستے میں پرو کر ہی اس تعفن زدہ ماحول کو بدلا جا سکتا ہے۔ طلبہ کی شناختیں مختلف سہی لیکن دشمن مشترکہ ہے۔ اور وہ دشمن یہ طبقاتی نظام ہے۔ جس کے خلاف جدوجہد ہر طالبعلم کا انقلابی فریضہ ہے۔ رجعتی نفرتیں سمیٹتے اور طبقاتی محبتیں بکھیر کے آگے بڑھتے ہوئے اس نظام کو پاش پاش کر کے ہی نوجوانوں کے لیے بکاؤ تعلیم، بیروزگاری، بیگانگی و تشدد سے پاک مستقبل کا حامل سوشلسٹ سماج تعمیر کیا جا سکتا ہے۔