سارنگ جام
برصغیر میں مختلف رنگ و نسل، اقوام اور مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ قومی یا لسانی شناخت کے حوالے سے مختلف ہونے کے باوجود بھی یہاں کے لوگوں کے درمیان سماجی ہم آہنگی اپنے آپ میں ایک مثال سمجھی جاتی ہے۔ تاریخی طور پر ایک خوشحال معاشرہ ہونے کی بنا پر یہاں کے لوگ ثقافتی بنیادوں پر نہ صرف ترقی یافتہ سمجھے جاتے تھے بلکہ اس وقت عالمی تجارت میں اس خطے کا حصہ موجودہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے کم نہ تھا۔ مذہبی تفریق یہاں لوگوں کا کبھی سرے سے مسئلہ نہ رہا۔ نہ ہی انگریز سامراج کے یہاں داخل ہونے سے قبل کوئی بھی ایسا ناخوشگوار واقعہ (مذہبی فساد وغیرہ) تاریخ کے اوراق میں کہیں درج ملتا ہے۔ یہی سبب تھا کہ برطانوی سامراج کے خلاف پلنے والی نفرت کا اظہار جس طبقاتی جڑت کے ساتھ یہاں کیا جا رہا تھا وہ دیکھ کر سامراج کے پیر کانپنے لگے تھے اور بالآخر اپنے مفادات کی خاطر اس خطے کے لوگوں کو 1947ء میں ایک ایسے بٹوارے کی بھینٹ چڑھا دیا گیا جس نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی خون ریزی اور ہجرت پر یہاں کے لوگوں کو مجبور کر دیا۔ ہزاروں سالوں کی خوشحال تاریخ کو خونی تاریخ میں بدل کر رکھ دیا گیا۔ بٹوارے کے 75 سالوں کے باوجود بھی اس خونریز تقسیم کے دھبے اب تک خشک نہیں ہو سکے ہیں۔ بلکہ ڈاکٹر لال خان کے الفاظ میں ”یہ وہ زخم ہیں جووقتاً فوقتاً دونوں ملکوں میں بسنے والوں کو تکلیف دیتے رہتے ہیں۔“
برصغیر کی اس خونی تقسیم کے بعد مخصوص حالات اور سامراجی مفادات میں پاکستان محض ایک نیشنل سکیورٹی اسٹیٹ بنا۔ یہی سبب تھا کہ ترقی پسند قوتوں اور انقلابیوں کو اس ملک کی ابتدا ہی سے شدید مشکلات اور ریاستی جبر کا سامنا رہا۔ یہ کسی المیے سے کم نہیں تھا کہ یہاں بننے والی زیادہ تر ترقی پسند پارٹیاں بھی اپنے خمیر میں نیو نیشنلسٹ رجحان کا شکار رہیں۔ اسٹالنزم کی مرحلہ واریت کی تھیوری کے سبب یہاں کمیونسٹوں کی سیاست زیادہ تذبذب کاشکار رہی۔ وحشت اور دہشت کے بادل چھائے رہے اور بار بار مارشل لا یہاں عوامی مقدر بنتا رہا۔
ایسے میں بدترین مشکلات یہاں انقلابیوں کو جیسے وراثت میں ملیں مگر پھر بھی پاکستان میں کمیونسٹ سیاست کئی بے باک، جرات مند اور دیانتدار رہنماؤں و کارکنان کو سامنے لائی۔ انہی میں سے ایک ایسے نام نے جنم لیا جس نے انقلابیوں کی بند کمروں کی سیاست کو چوراہوں پر عام کر دیا۔ آج شاید انہی کی کاوششوں اور انتھک محنت کی وجہ سے اس ملک میں ’کامریڈ‘ لفظ کا محض ایک مطلب ہے اور وہ ہے ایک سچا انقلابی۔ یا یہ کہنا بہتر رہے گا کہ جب جب یہاں لفظ کامریڈ پڑھا اور لکھا جاتا ہے لوگوں کے ذہن میں ایک لفظ ناگزیر طور پر گردش کرنے لگتا ہے اور وہ ہے ”کامریڈ جام ساقی“۔
ویسے تو کامریڈ جام ساقی کی پیدائش سندھ کے ایک ایسے پسماندہ ضلع تھرپارکر میں ہوئی جہاں آج بھی لوگ پانی کو ترسنے کے ساتھ ساتھ ہر سال قحط کی وجہ سے اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں۔ اس وقت شاید حالات آج سے بھی بدتر ہوں۔ نہ ہی بجلی موجود تھی نہ ہی پانی۔ کامریڈ جام ساقی 1962ء سے اپنے اسکول کے زمانے ہی سے ایک ریٹائرڈ استاد کی معارفت نظریاتی لوگوں سے رابطے میں آ گئے جو کہ مختلف کتابوں اور خطوط کے ذریعے انہیں روشن خیال نظریات سے آشنا کرتے رہے۔
وہ اپنی اس نو عمری میں ہی عوام کے دکھوں اور دردوں کو محسوس کرنے لگے اور بخوبی یہ جان چکے تھے کہ انسان کی آزادی صرف سوشلزم اور ایک غیر طبقاتی معاشرے کے قیام سے ہی ممکن ہے۔ انہی نظریات سے لیس جب وہ 1964ء میں تعلیم کے سلسلے میں حیدر آباد آئے تو انہوں نے حیدر آباد اسٹوڈنٹس فیڈریشن (HSF) کی بنیاد رکھی۔ کامریڈ جام کے اس وقت ایچ ایس ایف کی بنیاد رکھنے کے عمل پر سینئر پروفیسر جمال نقوی نے کامریڈ جام کے متعلق لکھا کہ ”یہ کھرا سونا ہے اور اس میں لیڈرشپ کی تمام خوبیاں موجود ہیں۔“ نہ صرف جمال نقوی بلکہ اس دور کے بیشتر افراد کا یہی ماننا تھا کہ کامریڈ جام ساقی نوجوانوں کے لیے مارکسزم کے نظریات کی بنیاد پر ایک ایسا حوصلہ لے کر آگے بڑھ رہے ہیں جو اس نظام کی بنیادوں کو ہلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی زمانے میں کامریڈ جام ساقی نے تعلیمی اداروں میں ایک یونٹ سے آغاز کیا جبکہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ 81 یونٹ قائم کر چکے تھے۔ نوجوانوں کی اس قدر آمد نے حیدر آباد اسٹوڈنٹس فیڈریشن کو ایک مضبوط تنظیم میں تبدیل کردیا جبکہ آگے چل کر تعلیمی مسائل کے ساتھ ساتھ کیڈر بلڈنگ کے کام میں بھی اس تنظیم نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ کچھ ہی عرصے بعد حیدر آباد اسٹوڈنٹ فیڈریشن اپنے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے سندھ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن میں تبدیل ہو گئی اور وسیع پیمانے پر نوجوانوں کی آواز بن گئی۔ یہ پاکستان میں طلبہ تحریک کے عروج کا زمانہ تھا جس نے ایوب آمریت جیسی ظالم حکومت کو بھی پاش پاش کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔
اسی دوران مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) جو پاکستان کا ایک بہت بڑا حصہ تھا میں ایک خونی آپریشن کا آغاز کیا گیا۔ چونکہ مرکزی اشرافیہ با علم تھی کہ بنگال کی مزاحمت کے ہوتے ہوئے وہ اپنی لوٹ کھسوٹ جاری نہیں رکھ سکتے لہٰذا وہاں بدترین خونی جبر اور وحشت کا آغاز کر دیا گیا۔ کامریڈ جام ساقی نے مشرقی پاکستان میں اس خونی آپریشن کی بھرپور مخالفت کی۔ اسی حوالے سے انہوں نے ریڈیو اور بی بی سی لندن پر نشر ہوئے اپنے مفصل انٹرویوز میں اس آپریشن کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس آپریشن کے خلاف انہوں نے نواب شاہ اور حیدر آباد میں ریلیاں منظم کیں۔ کامریڈ جام ساقی بائیں بازو کے ان گنے چنے رہنماؤں میں شامل تھے جو بھارتی اور پاکستانی ریاستوں کے مسلط کردہ قومی شاؤنزم کو یکسر مسترد کرتے تھے۔ ریاست کے پالیسی ساز ان عوامی تحریکوں سے خوفزدہ ہو گئے جو اس وقت برصغیر میں پھیل رہی تھیں اور سامراجی پشت پناہی سے طبقاتی جدوجہد کو کچلنے کے لئے جنگ کا راستہ اختیار کیا گیا۔ نتیجتاً کامریڈ جام ساقی پر ریاستی جبر کا آغاز ہوا۔ جس کے بعد کامریڈ جام کو اپنی زیادہ تر سرگرمیاں روپوشی میں ہی کرنی پڑیں۔ روپوشی میں ہونے کے باوجود بھی کامریڈ جام ساقی کی آواز کو دبایا نہیں جا سکا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب پہلی بار یہ نعرہ مقبول ہو کر پاکستان کے کونے کونے میں عام تھا، ”تیرا ساتھی میرا ساتھی، جام ساقی جام ساقی۔“
1977ء میں بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا کر جب جنرل ضیا نے اقتدار سنبھالا تو کامریڈ جام بھی گرفتار ہوئے۔ جس کے بعد انہیں مختلف طریقوں سے بدترین تشدد اور اذیت (جسمانی و ذہنی) پہنچائی جاتی رہی۔ جسمانی طور پر ہونے والا تشدد اس قدر بھیانک تھا کہ ان کا جسم آخری سانس تک اس کی شہادت دے سکتا تھا۔ اس دوران نہ صرف کامریڈ جام بدترین تشدد کی زد میں تھے بلکہ انہیں ایک طویل قید کا سامنا بھی کرنا پڑا جو ایشیا میں کاٹی گئی طویل سیاسی قیدوں میں سے ایک ہے۔ کامریڈ جام ساقی کی زندگی کی سب سے طویل عرصہ جیل جو کہ تقریباً دس سال تھی وہ اسی دوران گزری جس میں ان کو ذہنی اور جسمانی اذیتیں دی گئیں اور اسی قید کے دوران انہوں نے اپنی بیوی کی خودکشی کی خبر سنی۔ ان کی بیوی نے اس افواہ کہ جام ساقی کو حراست میں مار دیا گیا ہے کے ردِ عمل میں خود کشی کی تھی۔ مگر ان تمام تر واقعات کے باوجود کامریڈ جام نے نہ کبھی کسی طرح کے دکھ کا اظہار کیا اور نہ کبھی اس کو اپنے مقصد اور نظریات کے درمیان آنے دیا۔ جس کے بعد ’جام ساقی کیس‘ منظر عام پر آتا ہے جس کی کچھ تفصیل غور طلب ہے۔
صحیح معنوں میں جام ساقی کیس پاکستان کی تاریخ کا اپنی نوعیت کا ایک انوکھا کیس ہے۔ اس کیس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ملزمان (جام ساقی و دیگر) دوسرے ممالک کے ایجنٹ ہیں اور نظریہ پاکستان کے مخالف ہیں جبکہ کامریڈ جام اور ان کے ساتھیوں نے اپنے عدالتی بیانات میں یہ ثابت کیا کہ موجودہ حکومت سرمایہ داروں کی محافظ ہے اور امریکہ کے مفادات میں کام کرتی ہے۔ کامریڈ جام کے ان عدالتی بیانات میں یہ بات واضح تھی کہ ایک ملک میں سوشلزم نہیں چل سکتا جب تک ہمسایہ ملکوں میں انقلابی تبدیلیاں رونما نہ ہوں۔
اس کیس کی نوعیت یہ تھی کہ ماس پارٹیوں کے اہم لیڈروں کو اس کیس میں بحیثیت گواہ آنا پڑا جن میں محترمہ بینظیر بھٹو، ولی خان، معراج محمد خان، مولانا شاہ محمد امروٹی وغیرہ شامل تھے۔ اس کیس نے نہ صرف مظلوموں پہ ہونے والا استحصال واضح کیا بلکہ سامراجی ملکوں کی لوٹ مار کو بھی ننگا کیا۔ یہاں تک کہ بھٹو کی پھانسی کے بعد جو خاموشی تھی اسے بھی توڑنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ اس کے بعد ایم آر ڈی تحریک (موومنٹ فار رسٹوریشن آف ڈیموکریسی) نے پورے خطے کو ایک بار پھر انقلابی واقعات سے گرما دیا۔
پاکستان میں مارشل لا کا زور ٹوٹا اور سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو 10 دسمبر 1986ء کو کراچی جیل سے کامریڈ جام ساقی کو رہا کر دیا گیا۔ پورے ملک میں ان کا شاندار استقبال کیا گیا جس میں کراچی اور لاہور کے جلسے تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں کامریڈ کا اکثر مؤقف یہی ہوتا کہ اداروں کو سرکاری تحویل میں لیا جائے، ملک میں جمہوریت بحال کی جائے اور سوشلزم کے علاوہ کوئی بھی نظام انسانی آزادی کا محافظ نہیں۔ وہ اکثر اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ سوشلزم کے مقصد میں اپنی جان بہت چھوٹی چیز ہوتی ہے اور انقلابی ہر وقت یہ سوچتا ہے کہ کاش اس سے بھی کوئی بڑی چیز ہوتی جو قربان کی جا سکتی۔
1990ء میں کامریڈ جام کو سوویت یونین بطور مہمان بلایا گیا جہاں پر ان کی ملاقات کئی اہم لیڈروں اور عسکری قائدین سے ہوئی جہاں پر انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہو گیا کہ سوویت یونین جو ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں اور وہ جو پریکٹیکل میں دیکھتے ہیں اس میں بہت فرق ہے اور حقیقتاً سوویت یونین ایک سوشلسٹ ریاست نہیں بلکہ سٹالنسٹ ریاست تھی۔
پاکستان واپسی کے بعد کامریڈ کے سامنے تصویر واضح ہو گئی جس کے بعد انہوں نے تمام مختلف سوشلسٹ خیال لوگوں سے رابطے کیے جس کے بعد کامریڈ نے اپنے ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ آگے کی حکمت عملی پہ غور کرنا شروع کیا۔ اسی دور میں پارٹی کی تنظیمی کانگریس میں کامریڈ جام کا موقف تھا کہ اب پارٹی کو انڈر گراؤنڈ کام کرنے کے بجائے منظر عام پر آکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری تھے۔
اس دوران سٹالنزم کی حقیقت آشکار ہونے اور قیادت کی موقع پرستانہ روش کے پیش نظر کامریڈ جام ساقی نے کمیونسٹ پارٹی سے اپنی راہیں جدا کر لیں اور ایک جمہوری تحریک کا قیام عمل میں لائے جس کا مقصد محنت کش عوام میں ہم آہنگی پیدا کرنا تھا۔ آگے چل کر اس تحریک کو پیپلز پارٹی میں ضم کر دیا گیا چونکہ کامریڈ جام سمجھتے تھے کہ کم از کم اس وقت اپنے جوہر میں پیپلز پارٹی کے ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی ہونے کی بنا پر انہیں وہ موقع میسر آسکتا ہے جس کی بدولت وہ عوام کی وسیع قوتوں تک انقلاب کے پیغام کو عام کر سکتے ہیں۔ چند ہی سالوں بعد کامریڈ جام ساقی کی ملاقات ٹراٹسکائیٹ رجحان سے تعلق رکھنے والی تنظیم ’طبقاتی جدوجہد‘ کے بانی کامریڈ لال خان سے ہوئی۔ کامریڈ جام ساقی پر لکھے اپنے ایک مضمون میں کامریڈ لال خان نے اس حوالے سے لکھا کہ ”1990ء کی دہائی کے اواخر میں کامریڈ جام ساقی ’طبقاتی جدوجہد‘ کے کامریڈوں کے ساتھ رابطے میں آئے جنہوں نے نہ صرف سوویت یونین کے انہدام سے پہلے مارکسی تناظر میں اس کی ٹوٹ پھوٹ کی پیش گوئی کی تھی بلکہ سندھ اور پورے پاکستان میں سرگرم بھی تھے۔ کامریڈ جام ساقی نے ’طبقاتی جدوجہد‘ میں شمولیت اختیار کی اور ایک مرتبہ پھر مارکسزم کے نظریات کی ترویج اور انقلابی پارٹی کی تعمیر کے عمل میں سرگرم ہو گئے۔ بڑھاپے کے باوجود وہ ہمیشہ چست نظر آتے تھے اور انقلابی سیاست میں مگن رہتے تھے۔ تمام تر شہرت اور سیاسی ساکھ کے باجود وہ انتہائی عاجز انسان تھے۔ اپنے کامریڈوں کی طرف ان کا خلوص اور محبت اس بات سے واضح ہے کہ جب بھی وہ دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے ساتھیوں سے ملتے تو انہیں گرمجوشی سے گلے لگاتے اور بوسہ دیتے۔“ کامریڈ لال خان سے طویل بحث مباحثوں کا سلسلہ جاری رہا۔ کامریڈ لال خان انہیں اکثر پیار سے کہا کرتے کہ ”آپ شروع سے ہی ٹراٹسکائیٹ تھے لیکن آپ کو اس دور میں نہ ہی وہ ساتھی مل سکے نہ اس لٹریچر تک رسائی حاصل ہو سکی۔“
کامریڈ لال خان اور طبقاتی جدوجہد سے ان کا ساتھ اس قدر پختہ اور نظریاتی ہم آہنگی سے بھرپور تھا کہ اپنی طویل علالت اور شدید بیماری کے باجود بھی وہ 26 نومبر 2017ء کو ’انقلاب روس کی تاریخ‘ کی تقریب رونمائی میں شریک ہوئے۔ جہاں انہوں نے اپنی جسمانی زندگی کی آخری تقریر کرتے ہوئے کہا ”تاریخ کے دھارے کو تبدیل کرنے میں کمیونسٹوں نے ہمیشہ ایک فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے اور کرتے رہیں گے۔ جب کبھی بھی میں کامریڈوں سے ملتا ہوں تو میری ساری تھکن اور درد ختم ہو جاتی ہے۔ مزدوروں اور کسانوں کی طبقاتی جدوجہد کی فتح سے ہی اس استحصال اور جبر کا خاتمہ ہو گا۔“ کامریڈ جام ساقی کے یہ آخری الفاظ درحقیقت ان کی زندگی کا نچوڑ ہیں۔ مارکسزم کے نظریات پر چٹان کی طرح ڈٹے رہنا اور ان کے پرچار میں اپنی زندگی وقف کر دینا کسی بھی انقلابی کے لیے کوئی تھکاوٹ یا تکلیف کی بات نہیں ہوتی بلکہ اس سے بڑی کوئی خوش نصیبی کسی انقلابی کو میسر ہو ہی نہیں سکتی کہ اسے محنت کش طبقے کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کا موقع ملے۔ کامریڈ جام ساقی کی پوری زندگی انقلابیوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ انقلابی سوشلزم کے لیے آگے بڑھ کر کی جانی والی ہر جدوجہد ہی درحقیقت کامریڈ جام ساقی کی حقیقی میراث ہے۔