اداریہ جدوجہد

انسانی سماجوں کے مقابلے میں انسانوں کی زندگیاں بہت چھوٹی، بہت محدود ہوتی ہیں۔ انسان جہاں جسمانی طور پہ چند دہائیاں ہی جی پاتے ہیں وہاں تاریخ کا سفر سینکڑوں ہزاروں سالوں پہ محیط ہوتا ہے۔ اور یہ تاریخی ارتقا بھی ایک مسلسل یا بتدریج انداز سے سیدھی لکیر میں نہیں ہوتا۔ سماجی نظاموں کے اتار، چڑھاؤ یا جمود کی کیفیات طویل عرصوں پہ محیط ہو سکتی ہیں۔ مخصوص سیاسی و سماجی کردار کے حامل ادوار دہائیوں پہ مبنی ہو سکتے ہیں۔ لیکن کوئی کیفیت جب طویل عرصے تک قائم رہے تو انسانوں کے لئے معمول بن جاتی ہے۔ عامیانہ سوچ اور نفسیات، جو غیر انقلابی حالات میں سماج پہ حاوی ہوتی ہے، کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ دنیا جیسی ہے ویسی ہی تھی اور ویسی ہی رہے گی۔ تاریخ کی پرکھ کا مادی نظریہ ہی جدلیاتی بنیادوں پر انسانیت کے ارتقا کے مختلف مدارج اور ان مدارج میں کسی عہد کے مخصوص کردار کو سمجھ سکتا ہے۔ مستقل تبدیلی پر یقین محکم اور اس تبدیلی کے قوانین کی دریافت کے ذریعے ہی مستقبل کے تناظر تخلیق کیے جا سکتے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ مارکسی سائنس انسان کو تاریخ میں اپنے کردار کا تعین کرنے میں مدد دیتی ہے۔ انسان کی قلیل زندگی کو زندگی سے بڑا مقصد دے کر زندگانی بخشنے والی اس انقلابی طرز فکر سے ہٹ کر ہر مروجہ نظریہ اور سوچ انسان کو اطاعت، حسد، مقابلہ بازی و بیگانگی کا شکار کر کے حیوانیت کے درجوں سے بھی گرا دیتی ہے۔ آج کی دنیا پر اگر نظر دوڑائی جائے تو یہ حیوانیت ہی ہر طرف رقصاں و مسلط نظر آتی ہے۔ سیارہ گلوبل وارمنگ میں بھڑک رہا ہے۔ انسانوں کی وسیع اکثریت کے شب و روز قلت، غربت اور مانگ سے جوجھتے گزر جاتے ہیں۔ بے روزگار‘ روزگار کی تلاش میں در در کی خاک چھاننے پہ مجبور ہیں اور جو باروزگار ہیں ان کے سر پہ بیروزگاری کی تلوار مسلسل لٹک رہی ہے۔ مہنگائی نے دنیا بھر کے محنت کشوں کی زندگیاں اجیرن کر دی ہیں۔ جنگ، بنیاد پرستی و دہشت گردی کے آسیب منڈلا رہے ہیں۔ رنگ و نسل کے رجعتی تعصبات دہائیوں بعد عود کر آ رہے ہیں۔ اس نظام نے ترقی یافتہ ترین خطوں میں بھی زندگی کو بے رنگ کر کے ایک نہ ختم ہونے والی نفسا نفسی، ہیجان اور خلفشار بنا کے رکھ دیا ہے۔ بحرانات اگرچہ پاکستان جیسے پسماندہ خطوں کا معمول رہے ہیں لیکن حالیہ سالوں کے حالات و واقعات پہلے سے کہیں زیادہ گہری کھائی کی طرف پورے سماج کو دھکیل رہے ہیں۔ ریاست خود سے برسرپیکار ہے جس کا اظہار سیاست سے لے کر میڈیا اور عدلیہ تک میں ہو رہا ہے۔ تقریباً 50 فیصد افراطِ زر، جو آنے والے دنوں میں مزید بڑھ سکتا ہے، کا مطلب یہ ہے کہ اجرتیں اسی تناسب سے ہر سال کم ہو رہی ہیں۔ صورتحال اس قدر گھمبیر ہے کہ اپر مڈل کلاس بھی اپنا معیارِ زندگی گرانے پہ مجبور ہے۔ معیشت عملاً سکڑ رہی ہے۔ جس کا مطلب محنت کش عوام کی پہلے سے بدحال زندگیوں میں مزید تنگی، افلاس اور تلخی ہے۔ نظام کے اپنے پالیسی ساز، جو ہمیشہ رجائیت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، خود کہہ رہے ہیں کہ یہ صورتحال آنے والے کئی سالوں تک جاری رہے گی۔ ایسے میں اگر عالمی معیشت ایک مزید گہرے بحران کی کھائی میں جا گرتی ہے تو حالات اس سے کہیں زیادہ کٹھن ہو جائیں گے۔ معیشت کی یہ کیفیت، ریاست کا یہ انتشار اور دنیا کی یہ حالت دیکھیں اور پھر اس دیوالیہ اقتدار میں آنے کے لئے بے تاب متصادم حکمران دھڑوں کی بیہودگی، بدقماشی اور بدمعاشی پہ نظر دوڑائیں تو یہ لوگ ہر انسانی قدر اور فکر و شعور سے عاری مخلوق لگتے ہیں جو ہوس، سنگدلی اور بے حسی کی مجسم شکلیں ہیں۔ لیکن ایوانوں میں یہ دیوانگی بے سبب نہیں ہے۔ انقلاب روس کے قائد لیون ٹراٹسکی نے واضح کیا تھا کہ تاریخی طور پر دیوالیہ اور متروک نظاموں کے حکمران طبقات کبھی حقیقت پسند نہیں ہوتے۔ جس قدر ان کے نظام کا بحران گہرا ہوتا ہے اسی قدر یہ توہمات، تعصبات، منافقت، لالچ اور حرص میں غرق ہوتے جاتے ہیں۔ ان حالات میں ان کا جبر بھی تاریخ کو آگے بڑھانے کی بجائے پیچھے دھکیلنے کی ہی کوشش کرتا ہے۔ جس قدر ان کا نظام دیوالیہ ہوتا ہے اسی قدر ان کی شخصیت، ثقافت، روح اور احساس دیوالیہ ہوتے جاتے ہیں۔ تاریخ شاید ان کے مقدر کا فیصلہ کر چکی ہوتی ہے لیکن یہ مزاحمت میں پورے سماج اور انسانیت کو برباد کرنے پہ تل جاتے ہیں۔ آج ”پڑھی لکھی“ مڈل کلاس اور نودولتیوں کا نمائندہ عمران خان جہاں محنت کش طبقے کی تاریخی پسپائی اور سیاسی بے حسی پر مبنی نیم رجعتی معروض سے اٹھنے والے تعفن کا شخصی اظہار ہے وہاں شہباز شریف پاکستان کے کلاسیکی سرمایہ دار طبقے اور بلاول بھٹو روایتی اصلاح پسندی کی ناکامی و نامرادی کا عکاس ہے۔ یہ لوگ ایک ایسے نظام میں اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں جو اپنے ہر حکمران کو ذلیل و رسوا کرنے پہ تلا ہوا ہے۔ یہیں سے ان کی نفسیات، شعور، نیت اور افکارکا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس رجعتی تصادم نے جو انتشار اور عدم استحکام پورے معاشرے میں پیدا کر دیا اس کا متحمل یہ پہلے سے نحیف اور بحران زدہ نظام زیادہ دیر تک نہیں ہو سکتا۔ اس حقیقت سے کسی حد تک واقف یہ لوگ شاید خود بھی ہیں۔ اسی لئے بیچ بیچ میں مذاکرات اور ڈیل کی خبریں بھی گردش کرنے لگتی ہیں۔ لیکن تاریخ حکمرانوں کو ایسے موڑ پہ بھی لے آتی ہیں جہاں صلح جوئی اور برداشت بھی ان کی موت بن جاتی ہے۔ عمران خان اپنی الزام تراشی اور بڑھکوں کو جس نہج پہ لے گیا ہے وہاں سے پسپائی اس کی سیاسی موت ہو گی۔ دوسری طرف پی ڈی ایم والے اس کرپٹ اقتدار کے اندر اس قدر گندھے ہوئے ہیں کہ زیادہ دیر اس سے باہر نہیں رہ سکے۔ ان میں سے کسی ایک دھڑے کی ہار یا جیت کی صورت میں واقعات یقینا مختلف انداز سے ارتقا پذیر ہوں گے جو تناظر کی تشکیل میں اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن ڈیل، الیکشن یا مجموعی ہار جیت کے سوالات اس حوالے سے بے معنی بن جاتے ہیں کہ نظام میں محنت کش عوام کے لئے کسی آسودگی کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ حالات افراد کے اتنے ہی کنٹرول میں ہوتے تو اس نظام کا معروف منتظم شہباز شریف اور جانا مانا معاشی جگاڑو اسحاق ڈار سب کچھ ٹھیک کر چکے ہوتے۔ اس لئے حالات کا رخ موڑنا ہو گا۔ تاریخ کو نئی سمت میں گامزن کرنا ہو گا۔ پورے سرمایہ دارانہ نظام کو لپیٹنا ہو گا۔ اور یہ تاریخی فریضہ صرف محنت کش طبقہ ہی ادا کر سکتا ہے۔