آصف رشید
اسرائیل میں ہونے والے حالیہ احتجاجی مظاہرے عالمی سرمایہ داری کے معاشی و سیاسی بحران کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کا ہی تسلسل ہیں۔ اسرائیلی ریاست اس بحران کے نتیجے میں شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ انتہائی دائیں بازو کے فسطائی رحجانات کے اتحاد پر مشتمل نیتن یاہو کی حکومت اپنی بقا کی لڑائی لڑ رہی ہے جس میں وہ کہیں زیادہ زہریلی ہو گئی ہے۔ بحران اتنا شدید ہے کہ حکمران اشرافیہ کے مختلف دھڑے اور ریاستی ادارے کھلم کھلا ایک لڑائی میں کودے ہوئے ہیں۔ نیتن یاہو اس بحران میں تمام ریاستی طاقت کو اپنے قابو میں کرنے کے لیے عدلیہ پر حملہ آور ہے تاکہ نہ صرف اسرائیلی محنت کش طبقے کو قابو کیا جا سکے بلکہ ایران، شام، لبنان اور فلسطین کے اوپر حملوں کو بھی تیز کر سکے۔ بیرونی تنازعات کے ذریعے داخلی بحران پر قابو پانے کی حکمران طبقے کی یہ پرانی واردات ہے۔
رمضان کے شروع ہوتے ہی مقبوضہ بیت المقدس میں شدید تشدد کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ مسجد اقصیٰ میں سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے اور جبر و تشد کے ذریعے فلسطینیوں کو ان کی عبادت گاہوں میں جانے سے روکا جا رہا ہے۔ ان واقعات کے دوران دو فلسطینی نوجوانوں کی ہلاکت سے پو رے فلسطین اور مقبوضہ علاقوں میں عوامی احتجاج پھوٹ پڑے ہیں۔ گزشتہ ہفتے حماس کی طرف سے راکٹ داغے جانے کے بعد اسرائیل نے شام اور لبنان میں حزب اللہ اور ایرانی فورسز کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ اس ساری واردات کا مقصد عوامی مظاہروں سے توجہ ہٹانا اور عوام میں حب الوطنی کے جعلی جذبات کو ابھارنا ہے۔
پچھلے کئی ہفتوں سے جاری احتجاجی مظاہروں میں سوموار کو اسرائیلی محنت کش طبقے کے وسیع حصوں کی طرف سے مکمل واک آؤٹ کیا گیا۔ ہوائی اڈے، شپنگ، ٹرانسپورٹ، مینوفیکچرنگ، یوٹیلیٹی سٹورز، اسکول، ڈے کیئر سینٹرز، یونیورسٹیاں اور دوسرے تمام سرکاری کام متاثر ہوئے۔ پوری دنیا میں اسرائیلی سفارت خانے بند کر دیے گئے اور نیو یارک شہر میں اسرائیلی قونصل جنرل نے استعفیٰ دے دیا۔ اس سیاسی دھماکے کا فوری محرک نیتن یاہو کا اپنے وزیر دفاع کو برطرف کرنا تھا جس نے گزشتہ ہفتے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ عدلیہ کے خلاف محاذ آرائی کے منصوبے کو ترک کر دے کیونکہ یہ سیاسی تنازعہ اسرائیل کی افواج (IDF) کو تقسیم کر رہا ہے۔ فوج کا بحران اس تنازعے کا صرف ایک اظہار ہے جس نے اسرائیل صیہونیت کے اس بنیادی تصور کو اڑا دیا ہے کہ اسرائیل دنیا بھر کے یہودیوں کے اتحاد کی نمائندگی کرتا ہے۔ درحقیقت اسرائیل اس وقت شدید سماجی، سیاسی اور طبقاتی تنازعات کا شکار ہے۔ نیتن یاہو نے خود اس بات کا اعتراف کیاہے کہ ملک اس وقت ’خانہ جنگی‘ کے دہانے پر کھڑا ہے۔
اس احتجاجی تحریک کے خود ساختہ رہنما زیادہ تر پچھلی حکومت کے عہدیداران ہیں جنہوں نے گزشتہ سال انتخابات کے بعد نیتن یاہو کو راستہ دیا۔ یہ لوگ صیہونی ریاست کے محافظ ہیں جو فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کے مکمل حمایتی اور شریک کار رہے ہیں۔ یہی عدالتی نظام جس کا وہ دفاع کر رہے ہیں وہ بھی صیہونی ریاست کے تمام جرائم میں ہمیشہ شریک رہاہے۔ وہ کسی ’ترقی پسند‘ متبادل کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ نیتن یاہو کے اقدامات پر صرف اس لئے اعتراض کرتے ہیں کہ انہیں ڈر ہے کہ وہ اسرائیلی ریاست کے نام نہاد جمہوری تاثر کو تباہ کر دے گا اور ان کی سیاست کا راستہ روک دے گا۔ بہر حال بڑے عوامی مظاہرے ظاہر کرتے ہیں کہ مسائل بہت ہی گھمبیرہیں۔ طویل عرصے سے دبے ہوئے سماجی تضادات حکمران اشرافیہ کے آپسی تنازعات کے ذریعے کھل کر پھٹ رہے ہیں جو اسرائیلی آبادی کی وسیع اکثریت بالخصوص محنت کش طبقے کو سیاسی میدان میں لا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ تنازعے کا التوا یا حل بھی شاید اس سماجی تحریک کی مزید بڑھوتری کو دبا نہیں سکے گا جو اسرائیل سماج میں موجود شدید معاشی عدم مساوات اور عالمی سرمایہ دارانہ بحران کے اثرات سے پیدا ہوئی ہے۔
اپنی وسعت کے باوجود اس تحریک کی ایک بنیادی کمزوری یہ ہے کہ اس نے ابھی تک فلسطینی عوام کی جدوجہد کی کسی قسم کی حمایت نہیں کی ہے۔ جس پر آنے والے دنوں میں اگر قابو نہ پایا گیا تو یہ تحریک کے لئے مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ تحریک میں اسرائیلی پرچموں کی بھرمار ہے۔ ابھی تک مقبوضہ علاقوں کی فلسطینی آبادی حتیٰ کہ خود اسرائیلی عربوں کی حمایت حاصل کرنے کی ایک بھی کوشش نہیں کی گئی۔ تحریک کی کامیابی کے لیے یہودی محنت کشوں اور نوجوانوں کو صیہونی نظرئیے کے چنگل سے جان چھڑا کر سرمایہ داری کے خلاف مشترکہ جدوجہد میں یہودی اور عرب محنت کشوں کے انقلابی اتحاد پر مبنی حکمت عملی اپنانا ہو گی۔ ایسی تحریک بننے کے تمام معروضی حالات اس وقت موجود ہیں۔ کئی مہینوں سے تل ابیب، یروشلم اور دیگر شہروں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ تاہم اس ہفتے ہونے والے واقعات ایک معیاری جست تھے۔ ایک لاکھ مظاہرین نے تل ابیب کی مرکزی شاہرہ کو بلاک کر دیا اور پولیس کی جانب سے اسے خالی کرنے کی کوششوں کے خلاف شدید مزاحمت کی۔ اسی دن یروشلم میں نیتن یاہو کی سرکاری رہائش گاہ کے سامنے ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا۔ ہڑتالیں اتوار کو شروع ہوئیں اور اس قدر پھیل گئیں کہ سرکاری ٹریڈ یونین فیڈریشن کو ملک گیر عام ہڑتال کی کال دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ فیڈریشن طویل عرصے سے اسرائیلی ریاست کا محنت کش طبقے کے خلاف ایک اہم اوزار رہی ہے۔ تاہم ہڑتال کی طاقت کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے کئی تاجروں نے سوموار کو بندش کا اعلان کیا۔ بن گوریون بین الاقوامی ہوائی اڈے سے تمام پروازیں گراؤنڈ کر دی گئیں اور ملک کی دو اہم بندرگاہیں حیفہ اور اشدود کو بند کر دیا گیا۔
نیتن یاہو کا اپنے عدالتی ’کُو‘سے متعلقہ پارلیمنٹ کی کاروائی کو عارضی طور پر معطل کرنے کا اعلان بظاہر ”مقبول اپوزیشن“ کی طاقت کو تسلیم کرنا تھا۔ نیتن یاہو نے کہا کہ میں اپنی قومی ذمہ داری کے تحت قوم کو تقسیم سے بچانے کے لیے قانون سازی کو معطل کر رہا ہوں۔ اگر مذاکرات کے ذریعے خانہ جنگی کو روکنے کا امکان موجود ہے تو میں مذاکرات کے لیے وقت دینے کو تیار ہوں۔ اگرچہ نیتن یاہو دراصل اپنے ہی انتہائی دائیں بازو کے اتحاد میں موجود فسطائی عناصر کے ساتھ بات چیت کر رہاہے کیونکہ انہوں نے پہلے ہی عوامی تحریک کے سامنے ایک حکمت عملی کے طور پر بھی کسی قسم کی پسپائی کی مخالفت کی تھی۔ انھوں نے التوا کو اس شرط پر قبول کیا کہ حکومت وزارت داخلہ کے کنٹرول میں ایک’نیشنل گارڈ‘ (مسلح ملیشیا) قائم کرے گی، اسے فنڈ دے گی اور مسلح کرے گی۔ جس کی سربراہی مقبوضہ مغربی کنارے میں فسطائی آبادکاروں کے اہم رہنماؤں میں سے ایک اتمار بن گویر کر رہا ہے۔ عدلیہ سے متعلقہ قانون سازی کی معطلی کے دوران ملنے والے وقت کو یہ فسطائی عناصر اور ان کی حکومت نئے سرے سے سیاسی اپوزیشن کے خلاف تشدد کے منظم استعمال کی تیاری کے لیے استعمال کریں گے۔ ان کا مقصد ایک ایسی نیم فوجی فورس بنانا ہے جو فوج کے برعکس سیاسی طور پر صرف انتہائی نسل پرست اور مذہبی صیہونیوں پر مشتمل ہو جسے اسرائیلی محنت کش طبقے اور نوجوانوں کے خلاف اندرونی جبر کے لیے زیادہ آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہو۔ مزید برآں اب جبکہ نیتن یاہو نے اپنے لئے سانس لینے کی مہلت حاصل کر لی ہے وہ اس وقت کو ایران کے خلاف فوجی اشتعال انگیزی شروع کرنے کے لیے استعمال کرے گا اور عسکریت پسندی کی بنیاد پر قومی ’اتحاد‘ پیدا کرنے کی کوشش کر ے گا۔ جس کا آغاز اس نے گزشتہ ہفتے لبنان اور شام میں میزائل حملوں کے ذریعے کر دیا ہے۔ ایسے میں وہ مغربی یورپ اور امریکہ میں اپنے سامراجی سرپرستوں کے راستے پر گامزن ہے۔
نیتن یاہو نے عدالتوں کو کابینہ اور کنیسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) کے براہ راست کنٹرول میں رکھنے کا منصوبہ اس لئے پیش کیا ہے تاکہ خودکو بچا سکے۔ اس کے خلاف بدعنوانی کے متعدد الزامات کے تحت مقدمات چلائے جا رہے ہیں اور اگر جرم ثابت ہو گیا تو عدالتیں اسے نااہل قرار دے سکتی ہیں۔ لیکن مسائل اس سے کہیں زیادہ گھمبیرہیں۔ عدالتی اصلاحات کا اصل مقصد صیہونیوں اوریہودی آباد کاروں کی بے لگام جارحیت کی راہ میں حائل تمام قانونی اور انتظامی رکاوٹوں کو ختم کرنا بھی ہے۔ ایسے عناصر یہودی آبادی کی ایک اقلیت ہیں لیکن سیاسی نظام پر تیزی سے غلبہ حاصل کر رہے ہیں۔
اسرائیل میں ریاستی جبر اور آمریت کی طرف پیش رفت عالمی منظر نامے کاہی حصہ ہے۔ دنیا بھر میں جمہوریت کے سیفٹی سوئچ جل رہے ہیں اور متحارب طبقات ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہو رہے ہیں۔ پچھلے مہینوں کے واقعات اسرائیل میں ایک طویل معمول کے خاتمے کی نشاندہی کرتے ہیں جس میں طبقاتی جدوجہد کو منظم طریقے سے دبا یا جاتا رہا ہے اور صیہونیت کے نظرئیے کو اسرائیلی محنت کشوں پر مسلط کیا جاتا رہا ہے۔ فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے۔ اب فلسطینیوں کے خلاف متحرک قوتوں‘ بالخصوص فسطائی عناصر کو یہودی محنت کشوں اور نوجوانوں کے خلاف بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان حملوں نے ایک عوامی تحریک کو بھڑکا دیا ہے جس نے اسرائیلیوں کی بڑی تعداد کو سڑکوں پر لایا ہے۔ جہاں انہوں نے انتہائی دائیں بازو کے خلاف اپنی طاقت کو آزمانا شروع کیا ہے۔ یہ صورتحال نیتن یاہو کے اقتدار کے خاتمے کی طرف بھی بڑھ سکتی ہے۔ جبکہ تحریک کی پسپائی کی صورت میں نہ صرف داخلی طور پر اسرائیلی محنت کش طبقے پر جبر میں شدید اضافہ ہو گا بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی فوجی جارحیت بھی بڑھے گی۔ جس کے آثار ابھی سے نمودار ہونا شروع ہو چکے ہیں۔
اسرائیل میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ صیہونی ریاست کے اندر گہرے تضادات کا نتیجہ ہے۔ دنیا کے سب سے زیادہ غیر مساوی ممالک میں سے ایک میں محنت کش طبقے اور حکمران اشرافیہ کے درمیان بڑھتی ہوئی تقسیم کی وجہ سے اس کو تقویت ملی ہے۔ صیہونی اسرائیل کو ایک غیر طبقاتی ریاست کے طور پر پیش کرنا جہاں تمام یہودی ایک پرچم تلے متحد ہو سکتے ہیں اور جہاں سماجی تفریق مٹ سکتی ہے‘ ہمیشہ سے ہی ایک جھوٹ تھا۔ اسرائیلی ریاست کی بنیاد فلسطینی عوام کی منظم بے دخلی اور ان پر بدترین تشدد اور دہشت گردی رہی ہے۔ اس کے بعد اسرائیل کے علاقے کو وسعت دینے اور اسے تیل کی دولت سے مالا مال مشرق وسطیٰ میں امریکی سامراج کے لیے ایک طاقتور اور جوہری ہتھیاروں سے لیس دم چھلہ ریاست کے طور پر تعمیر کرنے کے لیے جنگوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ مذہبی شناخت پر مبنی اسرائیل کا قیام فلسطین میں رہنے والے عربوں اور یہودیوں دونوں کے لیے ہمیشہ سے ہی ایک المیہ رہا ہے۔ یہودی سوال کا ’صیہونی حل‘ ایک یوٹوپیائی اور رجعتی اقدام تھا۔ اسرائیل کے محنت کشوں کی نجات صیہونیت سے مکمل دستبرداری، یہودی محنت کشوں کی جدوجہد کو عرب محنت کشوں کی طبقاتی و قومی جدوجہد کے ساتھ ضم کرنے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ سامراجی سرمایہ داری کے خلاف مشترکہ جدوجہد میں مشرق وسطیٰ کے محنت کش یہودیوں، عربوں، کردوں، ترکوں، آرمینیائی عوام اور دیگر قومیتوں کے لوگوں کے یکجا ہونے کا یہ نقطہ نظر آج پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہو چکا ہے۔ یہ سامراج کے قومی و طبقاتی جبر کے خلاف انقلابی جدوجہد کی واحد بنیاد ہے۔ یہودی محنت کشوں اور نوجوانوں کے لیے ان حالات میں اپنے جمہوری حقوق کا دفاع کرنا ناممکن ہے جہاں فلسطینی آبادی اسرائیل کے فسطائی آباد کاروں اور ریاست کے تشدد کی زد میں ہوں۔ مغربی کنارے اور غزہ میں آمریت اور اسرائیل کے اندر جمہوریت نہیں چل سکتی۔ وہ تمام گروہ جو عرب اور یہودی محنت کش طبقے کے مشترکہ جدوجہد میں متحد ہونے کے امکان کو مسترد کرتے ہیں وہ سیاسی طور پر دیوالیہ ہیں اور آخری تجزئیے میں صیہونیت کے نقطہ نظر کی وکالت کرتے ہیں۔ اسرائیل کی صیہونی ریاست کو قبول کرنے کا مطلب ہے کہ آپ عام یہودیوں کو محنت کش طبقہ تسلیم کرنے سے ہی انکاری ہیں۔ اس میں پی ایل او اور حماس کی شکل میں فلسطین کی مصالحت پسندانہ، رجعتی اور بدعنوان قیادتیں بھی شامل ہیں۔ جو اسرائیلی صیہونی حکمران طبقے کے جرائم کے لیے یہودی محنت کش طبقے کو مورد الزام ٹھہراتی ہیں۔ تاہم اسرائیل میں ہونے والے حالیہ واقعات نے اس بات کو غلط ثابت کیا ہے۔ فی الوقت سب سے اہم مسئلہ اسرائیل میں احتجاجی تحریک کی رجعتی قیادت سے جان چھڑانا اور فلسطینی عوام کے حقوق کی مشترکہ جدوجہد میں عرب اور یہودی محنت کشوں کو متحد کرنا ہے۔ یہ صرف بین الاقوامی سوشلزم کے انقلابی پروگرام اور نقطہ نظر کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے۔