قمر الزماں خاں
ایسا ہی سماں تھا۔ بالکل چپ تھی۔ استحصال عروج پر تھا۔ جیسے آج ہے۔ مزدوروں کے ڈیوٹی پر جانے کا ٹائم مقرر تھا مگر وہ فیکٹری سے واپس کب آئیں گے اس کا انہیں بھی علم نہیں ہوتا تھا۔ بارہ سے اٹھارہ گھنٹے کام کرنے کے بعد مزدور کو پھر اگلے دن کام پر جانا پڑتا تھا۔ نہ آرام کا وقت ملتا تھا نہ ہی اپنے خاندان کے ساتھ گزارنے کے لئے درکار لمحات میسر تھے۔ ظلم، جبر اور مزدور دشمن قوانین اسی طرح تھے جیسے آج پاکستان میں رائج ہیں۔ اس کیفیت میں جب زندگی بے کیف مشقت پر مبنی ہو تو پھر اس کے خلاف جدوجہد کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ مزدور کے طویل اوقات کار اجرتی غلامی کی شدید شکل تھی جس کے خلاف 19ویں صدی کے مزدوروں نے قریب پون صدی جدوجہد کی تھی۔ اس جدوجہد کا ایک مرحلہ اس واقعے پر تمام ہوا جس کی یاد میں یوم مئی کا دن منایا جاتا ہے۔
صنعتی انقلاب سرمایہ داری نظام میں وہ پہلا باب تھا جس نے ایک طرف دنیا کے ایک حصے میں ماضی کے جاگیرداری نظام اور بہت سے دوسرے پسماندہ طرز ہائے پیداوار کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ صرف زراعت پر انحصار والی دنیا اب بدل چکی تھی۔ دنیا آہنی مشینوں کی گڑگڑاہت سے آشنا ہوتی جا رہی تھی۔ مشینوں کے ذریعے پیداوار نے ہاتھ سے بنائی جانے والی اشیا کے تصور کو بے معنی کر دیا تھا۔ پیداوار کی استعداد کئی گنا بلکہ کئی سو گنا بڑھ چکی تھی۔ پیداوار میں مسلسل اضافے کے لئے مشینوں کو تیز اور جدید بنانے کا ایک مقابلہ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ مشینوں کی تیزی نے مزدوروں پر کئی طرح کے اثرات مرتب کیے۔ ان میں سے سب سے قابل غور معاملہ مزدوروں سے محدود وقت میں زیادہ سے زیادہ پیدوار لینے کے عمل میں ان کی قوت محنت کو استعمال کیا جانا تھا۔ سرمایہ داری کا بنیادی مقصد پیدوار نہیں بلکہ منافع کمانا تھا اور ہے۔ چنانچہ شرح منافع کی حرص میں جہاں ایک طرف مزدور کی محنت زیادہ نچوڑی جا رہی تھی وہیں ان کی اجرتیں دراصل بڑھنے کی بجائے کم ہوتی جا رہی تھیں۔ ساتھ ہی ان کے کام کے اوقات کار کم ہونے کی بجائے بڑھتے جاتے تھے۔ چنانچہ کام کے دورانئے میں کمی کی جدوجہد نے تیزی پکڑنا شروع کی۔ یہ تحریک تب بہت ہی نمایاں اور تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑنے والی بن گئی جب امریکی ریاست شکاگو میں مزدوروں کے جلسوں میں ریاستی ایجنٹوں کی تخریب کاری سے خونی کھیل کھیلا گیا۔ 4 مئی 1886ء کو ہئے مارکیٹ چوک میں مزدوروں کے جلسے میں نامعلوم لوگوں کی جانب سے پولیس پر بم پھینکا گیا جس کے رد عمل میں مزدورو ں پر حملہ کر دیا گیا۔ اس حملے میں بہت سے مزدوروں کو شہید کر دیا گیا۔ ستم یہ ہے کہ مزدوروں کے قتل کا مقدمہ بھی مزدور رہنماؤں پر چلایا گیا اور ان میں سے چار کو پھانسی پہ چڑھا دیا گیا جبکہ باقیوں کو طویل قید کی سزائیں ہوئیں۔ تین سال بعد مزدوروں کی دوسری عالمی تنظیم کے اجلاس میں کارل مارکس کے ساتھی فریڈرک اینگلز نے مزدوروں کے 8 گھنٹے کام کے مطالبے کی اس تحریک کے خونی سنگ میل کی یاد میں اس دن کو مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منانے کی تجویز پیش کی۔ اسی جدوجہد کے نتیجے میں امریکہ اور دنیا کے بیشتر دوسرے خطوں میں مزدوروں کے اوقات کار کم ہونا شروع ہوئے۔ یہ مزدوروں کی بہت بڑی جیت تھی۔ اس جیت نے دنیا بھر میں محنت کش طبقے کی اجتماعی جدوجہد کی اہمیت کو بہت اجاگر کر دیا۔ مزدوروں نے خون کی قربانی دے کر جو جیت حاصل کی تھی وہ ایک سبق تھا کہ لڑنے، جدوجہد کرنے اور مستقل مزاجی سے اپنے مطالبات کو عملی جامہ پہچانے کی کوششوں سے اپنے سے طاقتور سرمایہ داروں اور ان کی ریاستوں کو شکست دی جا سکتی ہے۔ 1917ء میں روس میں مزدوروں نے سوشلسٹ انقلاب برپا کر کے ثابت کر دیا کہ مزدور کہنہ اور طاقتور ریاستوں کی مشینری کو شکست دے سکتے ہیں اور حکمرانی بھی کر سکتے ہیں۔ 1917ء کے بالشویک انقلاب کے بعد یکم مئی کو سرکاری طور پر مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا آغاز کیا گیا۔ پھر اگلے سالوں اور دہائیوں میں پوری دنیا میں یہ دن منایا جانے لگا۔
لیکن شکاگو میں مزدوروں کے جانی قربانی دے کر اوقات کار کو آٹھ گھنٹے کرانے کے 137 سال بعد پھر سے دنیا بھر میں مزدوروں کے حالات تاریخی طور پر ناسازگار ہوتے جا رہے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے واقعہ نے عالمی مزدور تحریک کو بڑا دھچکا دیا اور سرمایہ دار طبقہ جو سوویت یونین کے قیام کے بعد مزدوروں کے بہت سے مطالبات منظور کر چکا تھا پھر سے واپس 19ویں صدی کی ڈگر پر آ چکا ہے۔ اگرچہ ایک طرف خود سرمایہ دارانہ نظام کا گہرا زوال اور گراوٹ اور نتیجتاً جارحیت اور وحشت ایک اہم مظہر ہے لیکن دوسری طرف مزدور تحریک کو نظریاتی دھچکوں اور سیاسی پسپائی نے تنظیمی اور تحریکی بنیادوں پر کمزور کر دیا ہے۔ سوویت یونین کے عہد میں دنیا بھر میں مزدور تحریکیں، تنظیمیں، ٹریڈ یونینیں اور متعلقہ انجمنیں بڑی حد تک نظریاتی ساکھ کی حامل ہو ا کرتی تھیں۔ ان کے طریقہ کار یا نظریاتی کج رویوں پر اختلاف ممکن ہے مگر محنت کشوں کی متذکرہ تنظیموں کے لئے ممکن نہیں تھا کہ وہ خود کو نظریات یا سیاست سے الگ تھلگ کر کے ”غیر جانبدار“ حیثیت میں پیش کر سکیں۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جناح جیسے دائیں بازو کے رہنما کو بھی ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں شامل ہونا پڑا تھا۔ وہ 1925ء میں آل انڈیا پوسٹل سٹاف یونین کے منتخب صدر رہے۔ لیکن آج مزدور تحریک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ بڑے بڑے مزدور رہنما خود کو غیر سیاسی قرار دینے کے جتن میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ان میں سے قابل ذکر رہنما اب ہر اقتدار کے ساتھ ہم قدم نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس نظریاتی پسپائی کے سبب پاکستان میں مزدور کے کام کے اوقات کار 8 گھنٹے سے کہیں بڑھ چکے ہیں۔ بطور خاص نجی کارخانوں اور اداروں میں 12 گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ کام عام سی بات ہے۔ مزدور سیاست کے پیچھے ہٹنے کے باعث پچھلے تیس سالوں میں تیز ترین نجکاری ممکن ہوئی اور سینکڑوں ادارے پبلک سیکٹر سے نجی شعبے کو منتقل کیے جا چکے ہیں جس سے مزدور اور محنت کش عوام بدحال ہی ہوئے ہیں۔ اس نظریاتی گراوٹ نے سب سے زیادہ اور بری طرح ماضی میں مزدوروں کی حامی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو متاثر کیا ہے۔ جو دائیں بازو کی جانب جھک کر مزدور حمایت کے سوشلسٹ پروگرام سے دستبردار ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کی اس زوال پذیری نے بھی پاکستان میں مزدور تحریک پر کاری ضرب لگائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تاریخ کی بد ترین مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی حملوں کے باوجود مزدور تحریک اس بڑے پیمانے پر ردعمل دینے میں ناکام ہے جس کی اس عہد کو اشد ضرورت ہے۔ آج کی مزدور قیادت مفاہمت اور مصالحت کا سبق سیاسی قیادتوں سے سیکھ کر خود کو سرمایہ داری کے حملوں کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ مزدور کی کم سے کم اجرت کو ایک تولہ سونے کے برابر کرنے کی تاریخی ڈیمانڈ کو ریاست اور حکمرانوں سے زیادہ یہ مزدور قیادتیں تمسخرانہ انداز میں مسترد کرتی ہیں۔ وہ یہ سمجھنے یا بتانے سے قاصر ہیں کہ جو اجرت ماضی میں عملی طور پر سونے کے ایک تولے کے برابر تھی اب کیونکر اس سطح تک نہیں بڑھ سکتی۔
اس یوم مئی پر لازم بات یہ ہے کہ مزدور تحریک کو واپس سوشلسٹ نظریات کی طرف رجوع کروانے کی سعی جاری رکھی جائے۔ صرف مارکسزم کے انقلابی نظریات سے ہی عہد حاضر کے تمام مزدور دشمن حملوں اور ریاستی اقدامات کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ ان نظریات کے بغیر مزدور قیادت کے پاس حکمرانوں کے اقدامات کے ہم نوا بننے کے علاوہ کوئی راہ نہیں بچتی۔ جدوجہد کے لئے درکار دلیلیں اور نظریاتی بنیادیں صرف اشتراکی اور طبقاتی جدوجہد کے نظریات سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ آج کے حالات میں کروڑوں‘ بلکہ اربوں محنت کش دنیا بھر میں مہنگائی، بیروزگاری، غربت، نجکاری، طویل اوقات کار اور تنگی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ان کی نجات کے لئے مزدور تنظیموں کو مفاہمت، مصالحت اور شکست خوردگی کی بجائے جدوجہد کے پروگرام اپنانے ہوں گے۔ ایک ایسی طبقاتی و انقلابی سانجھ بنانے کی ضرورت ہے جو محنت کش طبقے کو تمام رجعتی تعصبات اور پسماندگیوں سے نکال کر ایسی وحدت عطا کرے جو سامراجی سرمایہ دارانہ نظام سے ٹکرا کر اس کو پاش پاش کر دینے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ محنت کش طبقے کے پاس طبقاتی جدوجہد کے علاوہ نجات اور آسودگی تک کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ اس کو جینا ہے تو لڑنا ہو گا۔