عمران کامیانہ

9مئی کے واقعات کے بعد ملکی حالات نے ایک نیا رُخ اختیار کر لیا ہے۔ تحریک انصاف کے خلاف ریاست اور سیاست میں کریک ڈاؤن جاری ہے اور برسر اقتدار ریاستی دھڑا زیادہ جبر سے خود کو مسلط کر رہا ہے۔ قوی امکانات ہیں کہ اس آپریشن کے ذریعے اقتدار سے نکالے جانے کے تقریباً ایک سال بعد تحریک انصاف کی کمر بالآخر توڑ دی جائے گی۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے ایک وقت میں ریاست کی پشت پناہی سے ابھاری جانے والی اس پارٹی کو مکمل طور پر ختم کیا جاتا ہے، جزوی کانٹ چھانٹ کے ذریعے پر پرزے کاٹ کر ایک چھوٹے پریشر گروپ کے طور پر قائم رکھا جاتا ہے یا ’ہائبرنیٹ‘ کر کے مستقبل میں استعمال کے لئے رکھ چھوڑا جاتا ہے۔ اول الذکر صورت میں عمران خان کو گرفتار کر کے سخت نوعیت کے مقدمات میں طویل عرصے کے لئے جیل میں بھی ڈالا جا سکتا ہے اور تحریک انصاف پہ یکسر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ عمران خان کو فارغ کر کے تحریک انصاف کو کسی زیادہ مطیع قیادت میں بھی سامنے لایا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے شاہ محمود قریشی کا نام گردش میں ہے۔ پارٹی چھوڑنے سے ”انکار“ کرنے والے اس جیسے اور بھی لوگ ہیں جنہیں اس مقصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ڈیل ہو جانے کی صورت میں عمران خان کو کچھ مہلت اور سپیس دی جا سکتی ہے۔ تاہم اب تک کے حالات یہی بتا رہے ہیں کہ ریاستی آقا بیک فٹ پر جا چکے عمرا ن خان کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کے موڈ میں نہیں ہیں۔ تحریک انصاف میں سے جہانگیر ترین کی قیادت میں ایک نئی پارٹی نکالنے کا عمل اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ اس کے علاوہ پارٹی سے اڑان بھرنے والے بیشتر موسمی پرندے، جن کی نقل و حرکت یہاں کی ڈیپ سٹیٹ کے اشاروں کی مرہون منت ہوتی ہے، ق لیگ، ن لیگ اور پیپلز پارٹی وغیرہ میں واپس چلے جائیں گے۔ لیکن پارٹی کی شدید ٹوٹ پھوٹ یا یکسر خاتمے کے باوجود عمران خان کی معروضی حمایت اور ووٹ بینک بڑی حد تک برقرار رہے گا۔ بیرونی فنڈنگ سے یہ سوشل میڈیا پر بھی غلاظت بکھیرتے رہیں گے۔

تحریک انصاف کا ابھار مخصوص موضوعی و معروضی حالات کی پیداوار تھا جس میں ایک طرف بڑے پیمانے کی ریاستی پشت پناہی و فنڈنگ کارفرما تھی جبکہ دوسری طرف ملک کی دونوں حاوی سیاسی جماعتوں سے بیزاری و نفرت کا عنصر فیصلہ کن تھا۔ اس سارے عمل میں 2008ء کی پیپلز پارٹی حکومت کے دور میں بدترین مہنگائی، نفسا نفسی، دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ وغیرہ کا کلیدی کردار تھا جس نے سیاسی متبادل کے سوال کو زیادہ شدت سے جنم دیا۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ متبادل کا یہ سوال مخصوص تاریخی وجوہات کی بنا پر محنت کش طبقے نے نہیں اٹھایا تھا۔ بلکہ محنت کش طبقے کے عدم تحرک اور سیاسی بے حسی کے دور میں پیدا ہونے والی گھٹن اور تعفن کے ماحول میں یہ بدبودار سیاسی مظہر سامنے آیا۔ اپنی معروضی بنیادوں کے حوالے سے تحریک انصاف روزِ اول سے شہری وائٹ کالر مڈل کلاس کی پارٹی رہی ہے۔ اس طبقے کا ابھار نیو لبرل سرمایہ داری کے عہد میں 80ء کی دہائی کے بعد سروسز، ٹیلی کمیونی کیشنز اور کمپیوٹنگ وغیرہ جیسے نئے معاشی شعبوں کے ساتھ ہوا۔ بالخصوص مشرف دور میں معیشت کی نئی بنیادوں پر استواری اور بلند معاشی شرح نمو کے ساتھ یہ طبقہ تیزی سے پھیلا۔ جس کی حمایت کی بنیاد پر بھانت بھانت کے نودولتیوں، کیریئراسٹوں، لمپن قسم کے سرمایہ داروں اور ڈیپ سٹیٹ کی سیاسی کٹھ پتلیوں کو جوڑ کر یہ جماعت تشکیل دی گئی اور کارپوریٹ نیوز میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس کو بڑے پیمانے پر پروجیکٹ کیا گیا جس کی مثال ملکی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ملتی۔

کوئی بھی طبقہ اپنے رہنماؤں کا انتخاب اپنی سوچ، نفسیات، دنیا کو دیکھنے کے انداز، سماجی و ثقافتی اقدار اور سیاسی امنگوں کے مطابق ہی کرتا ہے۔ ”سیاسی ٹیوننگ“ کا یہ عمل ریڈیو یا ٹیلی وژن کی ٹیوننگ سے بہت مماثلت رکھتا ہے جس میں ان برقی آلات پر وہی چینل سنائی یا دکھائی دیتا ہے جس کی فریکونسی ان آلات کے داخلی سرکٹ کی فریکونسی سے میل کھاتی ہے۔ لیڈر کی عادات و اطوار، بات چیت اور وضع قطع وغیرہ میں اس کے حمایتی طبقے کے رنگ ہی جھلکتے ہیں۔ لوگ جسے ”آئیڈلائز“ کرتے ہیں بنیادی طور پر اس جیسا بننے کی سعی کر رہے ہوتے ہیں۔ ٹراٹسکی نے جرمنی میں فسطائیت کے ابھار کی وضاحت کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ حالات سے تنگ ہر پیٹی بورژوا ہٹلر نہیں ہے لیکن اس کے اندر تھوڑا سا ہٹلر ضرور موجود ہے۔ بالکل اسی طرح وائٹ کالر مڈل کلاس کے ہر فرد کے اندر تھوڑا سا عمران خان ضرور موجود ہے۔ نیچے یہ تھوڑے تھوڑے عمران خان جب ملتے ہیں تو اپنا اظہار اوپر سٹیج پہ کھڑے عمران خان کی شکل میں کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے عمران خان اس مڈل کلاس کی منافقت، موقع پرستی، دوغلے پن، کنفیوژن، مقابلہ بازی اور غریبوں سے حقارت کی سوچ، جنسی ہیجان اور ظاہریت پسندی وغیرہ پر مبنی خواہشات، امنگوں اور ثقافت کی مجسم اور مجتمع شدہ شکل ہے۔ عمران خان ہی کی طرح انہیں دنیا کی ہر آسائش و عیاشی بھی درکار ہے لیکن مذہبی ٹچ بھی ہر حال میں قائم رہنا چاہئے۔ سائنسی شعبوں میں کام کرنے والے یہ لوگ بلا کے توہم پرست ہوتے ہیں۔ یہ پاکستانیت کے علم بردار بھی ہیں اور ملک سے فرار بھی ان کی پہلی ترجیح ہے۔ اس ”پڑھے لکھے“ طبقے کو اپنے لئے جمہوریت چاہئے جبکہ اسی جمہوریت کا استعمال کر کے یہ باقی ماندہ معاشرے پہ فسطائی آمریت مسلط کرنے کے درپے ہیں۔ یہ حکمرانوں کے ظلم کا رونا بھی روتے ہیں اور غریبوں پر ستم کے پہاڑ توڑنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ یہ بیک وقت احساس برتری و احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ آسمان سے نہیں ٹپکے ہیں بلکہ اسی بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام اور سماج کی پیداوار ہیں۔ جہاں طلبہ یونین پر دہائیوں سے پابندی ہو، ہر تعمیری اور ترقی پسندانہ سوچ اور بحث کو کچلنا ریاست اپنا اولین فریضہ سمجھتی ہو، سیاست کو ایک بیوپار اور کھلواڑ بنا دیا جائے، محنت کش طبقے کی قیادتیں طبقاتی منشور اور پروگرام سے منحرف ہو جائیں، میڈیا اور تعلیمی نصاب‘ رجعت اور مذہبیت کو مسلط کرنے کے اوزار بن جائیں اور کرپشن و بدعنوانی زندگی کا لازم جزو بنا دی جائے وہاں ایسی ہی مخلوق پیدا ہوتی ہے۔ عمران خان کا ایک پاپولر لیڈر بن جانا اس معاشرے کے گہرے زوال اور بحران کی علامت ہے۔

ایک اور حوالے سے دیکھیں تو یہ اس ملک کی دو ”جمہوری“ جماعتوں کی تاریخی ناکامی و نامرادی ہے جو آخر کار تحریک انصاف کے ابھار پر منتج ہوئی۔ بورژوازی کی کلاسیکی پارٹی ن لیگ جہاں ریاست کو تابع کرنے اور صحتمند سرمایہ داری کی استواری میں ناکام رہی وہیں محنت کشوں کی انقلابی تحریک سے ابھرنے والی پیپلز پارٹی اپنے طبقے کے مطالبات اور مزاحمت کے تاثر سے بھی دستبردار ہو کر ریاستی گماشتگی اور بدعنوانی میں غرق ہوتی گئی۔ لیکن اگر غور کریں تو پاکستانی سرمایہ داری میں نہ بڑے پیمانے کی بحالی و ترقی کی سکت ہے نہ اس میں اصلاحات کی کوئی گنجائش موجود رہی ہے۔ چنانچہ نامرادی اس نظام کی حدود و قیود پہ یقین رکھنے والی ہر پارٹی کا مقدر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے اقتدار کے ساڑھے تین سالہ دور میں تحریک انصاف بھی کوئی بہتری لانے سے بالکل قاصر رہی۔ الٹا عوام کی زندگیوں کو مزید اجیرن اور اس نظام کے بحران کو اور زیادہ گہرا کر دیا۔

عمران خان ڈیپ سٹیٹ کے ایک دھڑے کی مدد سے اپنے اقتدار کو دہائیوں تک طوالت دینے کی جو منصوبہ بندی کر رہا تھا وہ ریاست کے سنجیدہ پالیسی سازوں کے لئے بالکل ناقابل قبول تھی۔ جس ضد، انا اور بدتمیزی سے اپنے اختیارات سے مسلسل تجاوز کرتے ہوئے وہ نظام کو مکمل بربادی کی نہج تک لے جا رہا تھا‘ اسے فارغ کرنا ان کی مجبوری بن چکی تھی۔ لیکن اس دوران وہ ریاست کے اندر ایک رجحان‘ بلکہ ایک دھڑا اپنے گرد مجتمع کر چکا تھا۔ جہاں اس دھڑے کے کلیدی افراد کے ذاتی مفادات عمران خان سے وابستہ ہیں وہاں بالخصوص نچلی سطح پر ان میں سے بیشتر لوگ سنجیدگی سے اسے ایک مسیحا اور رہنما کے طور پہ دیکھتے ہیں۔ عمران خان کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد شدت پکڑ لینے والا عدم استحکام اور انتشار بنیادی طور پر ریاست میں موجود اس دھڑے بندی اور داخلی تصادم کا ہی نتیجہ تھا جو 9 مئی کو نئی انتہاؤں پہ پہنچ گیا۔

9 مئی کے واقعات خودرو ہرگز نہیں تھے بلکہ عمران خان کے پشت پنا دھڑے کی جانب اس کی گرفتاری کی صورت میں ان کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی جس کے تحت ملک میں بڑے پیمانے کے جلاؤ گھیراؤ اور انتشار کے ذریعے ریاست کے حاوی دھڑے پر دباؤ بنا کر موجودہ حکومت کو فارغ کرنا اور کلیدی ریاستی عہدوں پر موجود لوگوں کے استعفے حاصل کرنا مقصود تھا۔ انتہائی صورتوں میں یہاں کھلی خانہ جنگی خارج از امکان نہیں تھی۔ اسے اگر ایک ’کوُ‘(Coup) کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ لیکن یہ سازش کامیاب نہیں ہو سکی جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کی توقعات کے برعکس لوگ بہت بڑے پیمانے پر سڑکوں پہ نہیں نکلے۔ اس ناکام کوُ نے بہرحال حاوی ریاستی دھڑے کو ریاست کے اندر اور باہر ایک بڑے آپریشن کا اشتعال اور جواز ضرور دے دیا جو تاحال جاری ہے (اگرچہ ڈیپ سٹیٹ کے اندر کچھ کانٹ چھانٹ پہلے بھی کی جا رہی تھی)۔ تحریک انصاف کم از کم تنظیمی طور پر ہماری نظروں کے سامنے ٹوٹ کے بکھر رہی ہے اور معمولی مزاحمت کرنے سے بھی قاصر دکھائی دیتی ہے۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ فسطائی رجحانات رکھنے والی یہ مڈل کلاس اندر سے کس قدر بزدل اور خصی ہوتی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے تحریک انصاف چھوڑنے سے پتا چلتا ہے کہ انہیں ایک طرف یقین دلایا گیا ہے کہ عمران خان کا اپنا اور اس کے ساتھ ان کا بھی کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے۔ دوسری طرف انہیں بری طرح دھمکایا بھی جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں 9 مئی کے واقعات نے ریاست میں تحریک انصاف کی طرف نرمی یا ہمدردی کا رویہ رکھنے والے بہت سے لوگوں کو بھی پسپائی یا اپنی پوزیشن بدلنے پہ مجبور کر دیا ہے۔ عمران خان کی اکڑ بھی کچھ ٹوٹی ہے اور اس نے مذاکرات کی اپیل کی ہے جسے حکومت کی جانب سے مسترد کر دیا گیا ہے۔ لیکن آنے والے دنوں میں ایسے مذاکرات یا ڈیل خارج از امکان نہیں ہے جس میں عمران خان کو محدود پیمانے پر اپنی جماعت اور سیاست کو قائم رکھنے کی اجازت دے دی جائے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح عمران خان کی ساری سیاست ہی اشتعال انگیزی، بدتمیزی اور بڑھک بازی پہ قائم ہے۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس نظام کے مطابق بھی منطقی یا معقول باتیں کرنے لگے تو اپنے طبقے کی حمایت کھو دے گا۔ دوسرے الفاظ میں عمران خان کا ڈنگ بالفرض نکال دیا جاتا ہے تو اس کی سیاست ختم ہو جائے گی۔ ایک بات یہ بھی قابل غور ہے کہ حکومتی دھڑے نے جہاں عمران خان کی مذاکرات کی پیش کش مسترد کی ہے وہاں اسے تاحال دوبارہ گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ اب بھی خاصے محتاط انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ گرفتاری کے علاوہ عمران خان کو جلا وطن کیے جانے کا امکان بھی پیش کیا جا رہا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ وہاں جا کر یہاں سے زیادہ گند کرے گا۔ اس حقیقت سے ریاستی پالیسی ساز یقینا واقف ہوں گے۔

اس ساری لڑائی میں امریکی سامراج خود ایک تذبذب اور تقسیم کا شکار نظر آیا ہے۔ امریکی حکومت کے نمائندوں نے اگرچہ ایک محتاط رویہ اپنایا ہے اور کھلی جانبداری کا کم از کم اظہار نہیں کیا لیکن زلمے خلیل زاد جیسے لوگ کھل کے عمران خان کی حمایت کر رہے ہیں۔ ماضی میں بش اور ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کا حصہ رہ چکے اور افغانستان اور عراق کی بربادی میں بھرپور حصہ ڈالنے والے اس رجعتی اور ضمیر فروش انسان کے ٹویٹ دیکھیں تو لگتا ہے کہ تحریک انصاف کا کوئی عہدیدار بات کر رہا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ سامراجی اسٹیبلشمنٹ میں بھی عمران خان لابنگ میں مصروف ہے اور وہاں اس کے حمایتی و پشت پناہ موجود ہیں۔ صورتحال کو اس تناظر میں بھی دیکھنا ضروری ہے کہ عمران خان کے دورِ حکومت میں سی پیک کو کم و بیش رول بیک کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح حالیہ عرصے میں ملکی معیشت کے دیوالیے کے دہانے پہ کھڑے ہونے کے باوجود آئی ایم ایف کا پروگرام بحال نہیں کیا گیا ہے۔ الٹا آئی ایم ایف جو مطالبات رکھ رہا ہے وہ ناک سے لکیریں نکلوانے کے مترادف ہیں۔ یہ ایک طرح سے قرض نہ دینے والی ہی بات ہے۔ 30 مئی کو دلچسپ صورتحال تب پیش آئی جب آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر نے شہباز شریف کو کہا کہ موجودہ سیاسی بحران کا ”آئین اور قانون کی حکمرانی کے مطابق پرامن حل نکالا جائے۔“ یاد رہے کہ آئی ایم ایف عام طور پر سیاسی معاملات پر بیان نہیں دیتا۔ اس سے ایک دن قبل اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس کے رویے کو ”شرمناک“ اور ”جانبدار“ قرار دیا تھا۔ امریکہ شاید سی پیک کو بند یا محدود کرنے کی گارنٹی پہ آئی ایم ایف پروگرام بحال کرنا چاہتا ہے جو کہ ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے ایک بڑے حصے کو منظور نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جوابی بلیک میلنگ کے طور پر پچھلے دنوں اسلام آباد میں طالبان، چین اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کا اجلاس کروایا گیا ہے اور پھر ایران سے تجارت کھولنے کے اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔

حکومت کے طرزِ عمل سے یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ اتنی کڑی شرائط پہ یہ خود بھی آئی ایم ایف سے قرض لینے کو تیار نہیں ہے چنانچہ روپے کی قدر کو منڈی پہ چھوڑ نے اور درآمدات پر پابندیوں وغیرہ کے ذریعے وقت حاصل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں جس میں آئی ایم ایف سے نسبتاً آسان ڈیل کی کوشش کی جائے گی۔ تاہم آئی ایم ایف بارے سوالات پر اسحاق ڈار کے آگ بگولہ ہونے کے واقعات سے پتا چلتا ہے کہ معاشی صورتحال کس قدر سنگین ہے اور تناؤ کتنا زیادہ ہے۔ ملک کے جو حالات ہیں انہیں ڈر ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہوتے ہوئے کہیں الیکشن میں نہ جانا پڑ جائے۔ جس سے ان کی مقبولیت مزید کم ہو جائے گی۔ خود حکومتی اعداد و شمار کے مطابق معیشت اس مالی سال 0.5 فیصد سکڑی ہے۔ آبادی میں اضافے کو مد نظر رکھا جائے تو معاشی سکڑاؤ اس سے کہیں زیادہ ہے اور یہ صورتحال پچھلے کئی سالوں سے موجود ہے۔ ڈالروں میں دیکھا جائے تو جاری مالی سال میں معیشت 34 ارب ڈالر (9فیصد) سکڑ چکی ہے جبکہ فی کس آمدن میں 11 فیصد کی کمی آئی ہے۔ دوسری طرف ایس پی آئی باسکٹ کے مطابق مہنگائی 50 فیصد سے تجاوز کر رہی ہے۔ یہ ’سٹیگفلیشن‘ کی انتہائی گھمبیر اور اذیت ناک شکل ہے جو آنے والے کئی سالوں تک جاری رہ سکتی ہے اور جو محنت کش طبقات کی زندگیوں کو مسلسل عذاب بناتی چلی جا رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کی آمدن مسلسل کم ہو رہی ہے، روزگار کے مواقع سکڑ رہے ہیں اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اس معیشت کے ساتھ تحریک انصاف کے مقابلے میں الیکشن لڑنا شکست کے پیشگی اعلان کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی دھڑا انتخابات کو ہر ممکن حد تک موخر کرنے کی کوشش کرے گا جس کے لئے کوئی عبوری سیٹ اپ لایا جا سکتا ہے، کسی قانونی نکتے کو استعمال کر کے دورِ حکومت بڑھایا جا سکتاہے یا ایمرجنسی کے نفاذ جیسے انتہائی اقدامات بھی کیے جا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کی کوشش ہو گی کی انتخابات سے قبل تحریک انصاف کا ہر ممکن حد تک خاتمہ کر دیا جائے جس کی ممکنہ صورتوں کا جائزہ اوپر لیا گیا ہے۔ لیکن تحریک انصاف پر پابندی کو عدلیہ میں بیٹھے اس کے حمایتی الٹ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے کسی اقدام سے پہلے ان لوگوں کو فارغ کرنے یا قابو میں لانے کی کوشش کی جائے گی۔ بظاہر یہی معلوم ہو رہا ہے کہ پی ڈی ایم‘ چیف جسٹس اور صدر مملکت کے جانے اور عمران خان کا کوئی معقول بندوبست ہونے کے بعد ہی الیکشن میں اترنے کا سوچے گی۔ اس سارے ماحول میں عمران خان کے حمایتی دھڑے کی جانب سے مزید کوئی ’مِس ایڈونچر‘ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ ایسے امکانات بہت کم ہیں۔

لیکن ریاستی دھڑو ں کی لڑائی میں جہاں محنت کش طبقات، جو ملکی آبادی کی وسیع اکثریت ہیں، کے سلگتے ہوئے معاشی مسائل کو منظر عام سے غائب کر دیا گیا ہے وہاں تحریک انصاف کے خلاف کاروائی کو جواز بنا کے بچی کھچی جمہوری آزادیوں اور اظہارِ رائے کے حقوق کو بھی غصب کیا جا رہا ہے۔ یہ سارے سیاسی، معاشی و سماجی بحرانات، جو اس ملک کے غریب باسیوں کی زندگیوں کو تاراج کر رہے ہیں، اسی بوسیدہ اور بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہیں۔ لیکن اس نظام کے خلاف جدوجہد کی بات اس ریاست، سیاست اور میڈیا میں کرنا ممنوع ہے۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ حکمرانوں کے یہ تصادم اس استحصالی و جابرانہ نظام کو زیادہ وحشت سے عوام پر مسلط کرنے کا ہی باعث بنتے ہیں۔ سرمائے کے ایوانوں کی یہ لڑائیاں محنت کرنے والوں کی نجات کا ذریعہ کبھی بھی نہیں بن سکتیں۔ محنت کشوں کو اپنی بقا اور نجات کی جنگ خود لڑنا ہو گی۔