اداریہ جدوجہد
سرمایہ دارانہ نقطہ نظر سے ہی سہی لیکن ملکی میڈیا پر معیشت کی بات زیادہ تر بجٹ کے دنوں میں ہی ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اگلا پورا سال معیشت اس بجٹ کے مطابق ہی چلے گی۔ جسے اسمبلی سے پاس کروا کے ایک طرح کی جمہوری رسم بھی ادا کی جاتی ہے۔ اسمبلی میں بجٹ پر بحث کے دوران اپوزیشن کی جانب سے منافقانہ قسم کا شور شرابہ بھی کیا جاتا ہے جس کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جمہوری ایوانوں میں بیٹھے یہ لوگ عوام کے نمائندے ہیں جنہیں ان کے حالاتِ زندگی کی بہت فکر ہے۔ اسی تناظر میں گزشتہ کچھ دنوں سے بلاول بھٹو بھی حکومت میں ہوتے ہوئے اپوزیشن کا مصنوعی کردار ادا کرنے کی بھونڈی کوشش کرتا نظر آیا ہے۔ لیکن اگر غور کریں تو دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔ ایک تو اس معیشت کے بنیادی فیصلے کسی نام نہاد جمہوری طریقے سے نہیں بلکہ اس نظام کے استحصالی تقاضوں کے مطابق انتہائی غیر جمہوری طریقے سے ہوتے ہیں۔ جن میں پھر سب سے پہلے سامراجی آقاؤں اور اس کے بعد مقامی حکمران طبقات و ریاستی اسٹیبلشمنٹ کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ جوں جوں پاکستانی معیشت کا بحران اور عدم استحکام بڑھتا گیا ہے‘ یہ ریاستی و حکومتی کنٹرول سے ماورا ہوتی گئی ہے۔ مجموعی معیشت کا بڑا حصہ، جسے سیاہ یا غیر دستاویزی معیشت کہتے ہیں، ویسے ہی سرکاری لکھت پڑھت سے باہر ہے۔ اس سیاہ معیشت کا ہجم کتنا ہے‘ بالکل درست طور پر کسی کو معلوم نہیں ہے۔ لیکن خود حکومتی اندازوں کے مطابق 70 فیصد یا اس سے بھی زیادہ روزگار اس غیر دستاویزی معیشت سے وابستہ ہے۔ لیکن اگر دستاویزی معیشت کی بات بھی کریں تو اس وقت ملک کے جو حالات ہیں ان میں ایک سال تو دور کی بات چند ہفتوں یا مہینوں کی پیش بینی اور پلاننگ بھی ممکن نہیں ہے۔ جس کا ایک پہلو تقریباً 50 فیصد افراطِ زر بھی ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران کوئی ایک بھی بنیادی حکومتی ہدف حاصل نہیں ہو پایا ہے۔ معیشت پھیلنے کی بجائے عملاً سکڑنے کی طرف گئی ہے۔ بلند افراطِ زر اور کم یا منفی شرح نمو کی یہ صورتحال آنے والے سالوں میں بھی جاری رہے گی۔ محنت کش طبقے کے لئے معیشت کی اس مشکل زبان کا آسان مطلب مزید تنگی، محرومی، مہنگائی و بیروزگاری ہی ہے۔ عام لوگوں کی زندگیوں میں ذلالت اور اذیت کی رہی سہی کسر دوبارہ سے شدت پکڑتی لوڈ شیڈنگ پوری کر دے گی۔ اس ملک میں زندگی اس قدر تلخ ہو چکی ہے کہ نوجوان سمندروں میں ڈوب مر جانے کو یہاں جینے پر فوقیت دینے لگے ہیں۔
ان حالات میں معاشی جگاڑ میں کمال مہارت رکھنے والے اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کی اجازت کے بغیر اپنی پارٹی کے شاہانہ مزاج کے عین مطابق خاصا بڑا بجٹ پیش کیا ہے۔ تقریباً 14 ہزار ارب روپے کا یہ بجٹ پچھلے سال سے 50 فیصد زیادہ ہے۔ لیکن ہر سال کی طرح اس بجٹ کا دو تہائی یا شاید اس سے بھی کہیں زیادہ صرف دو مدوں پر خرچ ہو جائے گا: پرانے قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات۔ سود کی ادائیگیوں کی مد میں 7 ہزار ارب روپے سے زائد کی ریکارڈ رقم مختص کی گئی ہے جو حکومتی آمدن سے بھی زیادہ ہے۔ جبکہ ”دفاع“ کے لئے 1800 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بہت سے غیر اعلانیہ عسکری اخراجات اس کے علاوہ ہوتے ہیں۔ جبکہ ان کا ایک حصہ سویلین کھاتوں میں بھی ڈال دیا جاتا ہے۔
قرضوں اور عسکری اخراجات کے بعد پیچھے صرف خسارہ بچتا ہے جو عوام کے حصے میں آتا ہے اور جو اس سال تقریباً 8 ہزار ارب روپے تک جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب قرضوں میں مزید اضافہ ہے۔ تقریباً 7 ہزار ارب روپے کی حکومتی آمدن کا ہدف حاصل کرنے کے لئے عوام پر مزید ٹیکس لگائے جائیں گے جن سے بجلی، گیس اور پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ بیرونی قرضوں اور خسارے کی بات کریں تو آئی ایم ایف سے ان کے معاملات ابھی تک طے نہیں پائے ہیں۔ صورتحال اس قدر گھمبیر ہے کہ اسحاق ڈار سامراجی آقاؤں کی تمام تر تعظیم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آئی ایم ایف کو تقریباً گالیاں نکال رہا ہے۔ اس ساری کیفیت کے پیچھے امریکی سامراج کے ایک دھڑے کی جانب سے عمران خان کی پشت پناہی کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست کے تنازعات بھی کارفرما ہیں جس میں بڑھتی ہوئی چین امریکہ چپقلش کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آئی ایم ایف اگر اپنا پروگرام جاری نہیں کرتا تو ملک کا دیوالیہ نکل جانا خارج از امکان نہیں ہے۔ لیکن بالفرض یہ آئی ایم ایف کے بغیر مانگ تانگ کے معیشت کو گھسیٹتے رہتے ہیں تو بھی عوام کے لئے کوئی آسانی و آسودگی نہیں ہے۔ عالمی سرمایہ داری خود ایک گہرے بحران کا شکار ہے جس نے پاکستان جیسی پسماندہ معیشتوں کے بحران کو شدید تر کر دیا ہے۔
اگر غور کریں تو طرزِ حکمرانی، حکومتیں اور افراد بدلنے کے باوجود سرمایہ داری کے ان (وفاقی و صوبائی) بجٹوں کی اساس وہی رہتی ہے۔ اس معاشرے کو انسانوں کے رہنے کے قابل بنانے کے لئے تعلیم، علاج اور ترقیاتی منصوبوں پر جو دیوہیکل اخراجات درکار ہیں ان کا عشرِ عشیر بھی یہ نظام مہیا کرنے سے اب قاصر ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت کی طرف سے جی ڈی پی کا بمشکل 3 سے 4 فیصد ہی ان بنیادی انسانی ضروریات پہ خرچ ہوتا ہے۔ جبکہ یہاں ایک نسبتاً صحتمند، پڑھا لکھا اور مہذب معاشرہ قائم کرنے کے لئے اس سے کم از کم دس گنا زیادہ وسائل درکار ہیں۔ جس کے بارے میں اس نظام کی حدود و قیود میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ ایسے میں سرمایہ داری کا قیام اور دوام محنت کش عوام کے لئے سراسر گھاٹے اور خسارے کا سودا ہے۔ معیشت کو نجی ملکیت، منڈی اور منافع کی جکڑ سے آزاد کروا کے ہی انسانی ضروریات اور سماجی فلاح و بہبود کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔ اور اس تاریخی فریضے کی ادائیگی سرمایہ داری کے انقلابی خاتمے کی متقاضی ہے۔