آصف رشید

عالمی معاشی بحران نے تجارتی و سفارتی تعلقات میں ایک بھونچال برپا کر دیا ہے۔ پرانے تعلقات ٹوٹ رہے ہیں اور نئے روابت استوار ہو رہے ہیں۔ مغربی سرمایہ داری کی زوال پذیری نے ہر چیز کو اپنے الٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔ مشرق وسطیٰ جو حکمرانوں کے حوالے سے ماضی میں امریکی سامراج کا ایک مطیع و فرمابردار خطہ رہا ہے آج چین کے ساتھ تعلقات استوار کر رہا ہے جو امریکہ کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہو رہا ہے۔ امریکہ اس بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے کو ماننے سے انکاری ہے۔ طویل عرصے سے مغرب کی طرف سے اسرائیلی حکومت کو لگام دینے سے انکار نے اب معاملات کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے جہاں صیہونی ریاست اب مغربی سامراج کے لیے کئی طرح کے مسائل کا موجب بن رہی ہے۔

شامی حکومت نے 12 سال کے وقفے کے بعد عرب لیگ میں اپنی پوزیشن دوبارہ بحال کرنا شروع کر دی ہے۔ عرب لیگ ارکان کے درمیان دمشق کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ اس کے بعد شام کو نہ صرف لیگ کے جدہ سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی بلکہ شام کے صدر بشار الاسد کو اس سال کے آخر میں دبئی میں ہونے والے ’COP28‘ اجلاس میں شرکت کی دعوت بھی دی گئی ہے۔ یہ بنیادی طور پر شام میں امریکی شکست کا ایک اظہار ہے۔

شام کے سوال پر یہ ڈرامائی علاقائی تبدیلی اس ماہ کے شروع میں عراقی، اردنی، سعودی اور مصری حکام کے اپنے شامی ہم منصبوں کے ساتھ عمان میں ہونے والی بات چیت کے بعد سامنے آئی ہے۔ یہ سب کچھ بشار الاسد کی حکومت کو الگ تھلگ کرنے کی امریکی پالیسی کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔ یہ خطے میں بڑھتی ہوئی امریکی مخالفت کا ہی تسلسل ہے جس میں حالیہ چینی ثالثی میں سعودیہ اور ایران کے درمیان مفاہمت کی وجہ سے سفارتخانے دوبارہ کھولے گئے۔ جس کے بعد قطر اور بحرین کے درمیان تعلقات کی بحالی بھی ہوئی۔

ان ابھرتے ہوئے کثیر الجہتی عالمی تعلقات نے امریکی سامراج کے تسلط کو انتشار کا شکار کر دیا ہے۔ امریکہ کے لیے یہ ایک بڑی تذویراتی ناکامی کا باعث بن رہا ہے۔ وہ دور ماضی کا حصہ بنتا معلوم ہو رہا ہے جب بہت سی ریاستوں نے امریکی برتری کو تسلیم کیے رکھا اور اس کے ایجنڈوں پر عمل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ چین اور اس کے علاوہ بھارت اور روس جیسے آپشنز اس وقت بہت زیادہ پرکشش لگ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکہ کا اب کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے۔ یہ یقینی طور پر موجودہے لیکن خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں اس کے بہت سے ایجنڈے جو یوکرائن میں جنگ شروع ہونے سے پہلے طے کیے گئے تھے خطرے میں پڑ چکے ہیں۔

سعودی اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانے کا سہرا جو بائیڈن انتظامیہ ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت کے لیے ایک سنگ میل کے طور پر حاصل کرنے کی امید کر رہی تھی۔ جو سعودی ایران امن معاہدے سے منتشر ہو گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے اپنے پہلے دورے میں، جو کہ مقبوضہ فلسطین اور سعودی عرب جانے پر مشتمل تھا، امریکی صدر جو بائیڈن تہران اور اس کے اتحادیوں کے خلاف عرب اسرائیل اتحاد کے قیام کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ سعودی اور صیہونی ریاست کے درمیان سفارتی صلح جوئی کی بنیاد ایرانی حکومت کی مشترکہ مخالفت پر مبنی تھی۔ یہ کیفیت اب موجود نہیں ہے۔ مارچ کے مہینے میں ایک سفارتی زلزلہ آیا۔ ایران کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں شامل ہونے کی بجائے سعودیوں نے تہران کے ساتھ صلح کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسرائیلی اور امریکی نقطہ نظر سے یہ تباہ کن تاریخی میل جول چین کے ذریعے کیا گیا۔ جس کا بڑھتا ہوا بین لاقوامی قد، اعتماد اور طاقت واشنگٹن کے سامراجی منتظمین کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی ہے۔ چین نے پہلے کبھی بھی خطے میں اتنی بڑی سفارتی ثالثی نہیں کی تھی۔ یہ ایک ایسا کردار تھا جس پر ہمیشہ امریکیوں کی اجارہ داری رہی ہے۔

اسرائیل کے سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کو ”اسرائیل کے لیے ایک سنگین اور خطرناک پیش رفت اور ایران کے لیے ایک اہم سفارتی فتح“ قرار دیا۔ ایران سعودی تعلقات میں پیش رفت کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز کو سعودیوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے روانہ کیا۔ لیکن اس اعلیٰ ترین امریکی جاسوس کو واضح طور پر محمد بن سلمان کی طرف سے انکار کا سامنا کرنا پڑا۔ واشنگٹن پوسٹ کے ایک کالم نگار ڈیوڈ اگنٹیئس کے مطابق محمد بن سلمان نے ”کہا ہے کہ امریکہ سعودیہ کا پارٹنر ہے لیکن واحد پارٹنر نہیں۔“ سعودی ولی عہد نے ان اندرونی ذرائع کو بتایا کہ ان کے پیشرو امریکی درخواستوں کو فوری طور پر منظور کر لیا کرتے تھے۔ لیکن اگنٹیئس کے مطابق موجودہ سعودی حکمران نے کہا کہ ”میں نے اس سلسلے کو توڑ دیا کیونکہ مجھے بدلے میں چیزیں چاہیے۔“ دوسری چیزوں کے علاوہ سعودی اب باقاعدگی سے تیل کی پیداوار بڑھانے کی امریکی درخواستوں کو بھی مسترد کر رہے ہیں۔ اگنٹیئس اسے سعودی پیغام سے تعبیر کرتا ہے کہ ”امریکی اب خلیج فارس یا تیل کی منڈی کو کنٹرول نہیں کرتے ہیں۔“

سب سے اہم بات یہ ہے کہ چینی ثالثی میں ہونے والے اس میل جول نے یمن میں جنگ کے خاتمے کے لیے ایک معاہدے کی راہ ہموار کی ہے۔ یہ اس ملک کے لوگوں کے لیے سب سے ٹھوس اور فوری فائدہ ہو گا جہاں امریکہ کی حمایت اور عسکری معاونت سے آٹھ سال کی بمباری، جنگ اور بھوک کے نتیجے میں لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جو موجودہ دنیا کے بدترین سانحات میں سے ایک ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کے تحت 2020 ء میں عرب اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانے کی کی کوششوں کی بنیاد ایران عرب تنازعہ کے تناظر میں رکھی گئی تھی۔ لیکن صیہونی ریاست کی جنونیت میں مسلسل اضافے نے امریکی دم چھلہ عرب حکومتوں میں بھی تشویش کو جنم دیا ہے۔ حتیٰ کہ متحدہ عرب امارات، جو ان تعلقات کو معمول پر لانے کا سب سے زیادہ خواہشمند بن کر ابھرتھا، اس سال اسرائیلی جارحیت کی بارہا مذمت کر چکا ہے۔ اردن، جو طویل عرصے سے اسرائیلیوں اور امریکیوں کا یکساں طور پر مستحکم اتحادی رہا ہے، بھی صیہونی ریاست کے انتہا پسندانہ طرز عمل‘ خاص طور پر مسجد اقصیٰ کے حوالے سے تشویش کا شکار ہے۔ صیہونی انتہا پسندوں، جو حکمران اتحاد کا حصہ ہیں، کی جانب سے بار بار اشتعال انگیزیوں نے علاقائی کشیدگی کے شعلوں کو بھڑکایا ہے۔ اس کا اظہار خود اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی طرف سے کیے جانے والے انتہائی اقدامات سے ہوتاہے۔ جس میں غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کا قتل عام بھی شامل ہے۔ اسرائیلیوں کے اس قدر بڑھتے ہوئے انتہا پسندانہ اورجابرانہ اقدامات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ ان کی پشت پناہی کی ہے۔ خاص طور پر جب بات غیر قانونی بستیوں کی توسیع کی ہو۔ لیکن صیہونی ریاست اپنے بڑھتے ہوئے داخلی بحران کی وجہ سے بھی مزید انتہا پسندی اور قتل و غارت کی طرف مائل ہے۔ اس کیفیت نے امریکہ کو ایک بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ اسرائیلی حکومت میں بیٹھے یہ مذہبی جنونی یہودی‘ تکفیری دہشت گردوں سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ نیتن یاہو نے اس ماہ کے شروع میں غزہ کی پٹی میں بلا اشتعال قاتلانہ حملے شروع کیے جن میں فلسطینی اسلامی جہاد (PIJ) کے سینئر اہلکاروں کو ان کی بیویوں اور بچوں کے ساتھ سوئے ہوئے ہلاک کیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ امریکہ کو اس کاروائی کا پہلے سے علم تھا۔ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے بھی صیہونی جارحیت کی ”اسرائیل کے اپنے عوام کے دفاع کے حق“ کے طور پر مکمل حمایت کی ہے۔ سعودی عرب کے تازہ ترین اقدامات اور امریکہ اور اسرائیل کے لیے ان کے اثرات کو عالمی منظر نامے میں تبدیلیوں کے تناظر میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ یعنی چین کا ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھار، روس کے ساتھ اس کا گہرا اتحاد اور امریکی طاقت کا زوال۔ اگرچہ یہ سارے عوامل ابھی اپنی ابتدائی شکلوں میں ہیں۔ ایسے میں دنیا کے بیشتر ممالک ڈالر کو خیر باد کہہ رہے ہیں اور امریکی ڈالرکی بجائے اپنی کرنسیوں میں تجارت کر رہے ہیں تاکہ واشنگٹن کے اقتصادی پابندیوں کے مہلک ہتھیار سے خود کو بچا سکیں۔ یہ صورتحال اس سے بہت مختلف ہے جہاں امریکہ سرد جنگ کے اختتام پر کھڑا تھا۔ یعنی ایک ایسی فوجی، سفارتی اور اقتصادی طاقت جس کا کوئی حریف نہیں تھا۔

2003ء میں عراق کے خلاف تباہ کن اور مجرمانہ امریکی جارحیت کے باوجود امریکہ عراق میں اپنا دیرپا اثر و رسوخ قائم نہیں کر سکا بلکہ ایران، چین اور روس کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا۔ یہ امریکی کارپوریشنز نہیں بلکہ چینی کمپنیاں ہیں جو بالآخر عراق کی تعمیر نو کر رہی ہیں۔ لیبیا میں اوباما انتظامیہ کی جانب سے حکومت کی تبدیلی کی جنگ نے معمر قذافی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اس ملک کو انسانی سمگلنگ کا گڑھ اور ایک ناکام ریاست بنا دیا۔ شام میں بھی امریکہ کی زیر قیادت حکومت کی تبدیلی کی جنگ جہادی پراکسیوں کی قتل و غارت گری میں بدل گئی جس میں پھر روس کی مداخلت نے بشارالاسد کی حاکمیت کو بچایا۔ یقینا افغانستان میں بھی امریکہ کی شکست نے بہت کچھ واضح کر دیا ہے۔ موجودہ حالات اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ سعودی حکمران واشنگٹن پر اپنے مکمل انحصار کی کیفیت سے نکلنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا تعلق تھا جو 1945ء میں شروع ہوا تھا اور سرد جنگ کے اختتام اور 1990ء کی خلیج جنگ کے بعد امریکہ کے واحد سپر پاور بننے کے ساتھ تقویت اختیار کر گیا تھا۔ لیکن ابھرتی ہوئی کثیر الجہتی دنیا میں سعودیوں کے پاس آپشنز ہیں اور محمد بن سلمان واضح طور پر انہیں استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ واشنگٹن ریاض سے 7000 میل کے فاصلے پر ہے اور اب کوئی قابل اعتبار اتحادی اور آقا نہیں رہا۔ بالخصوص جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل کے بعد محمد بن سلمان کے امریکیوں سے تعلقات میں تلخی چلی آ رہی ہے۔ سعودی عرب اس براعظم میں واقع ہے جہاں روس اور چین موجود ہیں اور ایران اس کا پہلا ہمسایہ ہے۔ چین اب سعودی عرب کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ سعودی حکمران شاید سوچ رہے ہیں کہ ان کی سلامتی کی ضمانت صرف ان لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات سے دی جا سکتی ہے جو اس کے قریب رہتے ہیں اور جن کے ساتھ وہ تجارت کرتا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان ایران کے خلاف اتحاد قائم کروانے اور اپنے تذویراتی مفادات کو آگے بڑھانے میں مسلسل ناکام ہو رہی ہے۔ عام طور پر اسرائیل کے ساتھ ”امن“ میں سعودی عرب نے صرف اس وقت دلچسپی ظاہر کی ہے جب بادشاہت نے خود کو کمزور محسوس کیا اور اسے اپنے تحفظ کے لیے امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کی ضرورت تھی۔ اب جبکہ سعودی بادشاہت کثیر الجہتی تعلقات کی استواری کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے تو اسے اسرائیل کے ساتھ گٹھ جوڑ کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ ویسے بھی سعودی عرب کے پاس تیل کی وسیع دولت کی صورت میں ہمیشہ دوسرے ملکوں کو پیش کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ موجود ہوتا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کے پاس جدید جاسوسی آلات اور دیگر جنگی ہتھیاروں کے علاوہ سعودی عرب کو پیش کرنے کے لیے کچھ خاص نہیں ہے۔ اسرائیل مغرب کا ایک زہریلا منصوبہ ہے جو اپنے داخلی بحران کیساتھ مزید ہولناک اور شدت پسندہوتا جا رہا ہے۔ جیسے جیسے امریکی طاقت علاقائی اور عالمی سطح پر کم ہوتی جا رہی ہے اسی طرح اسرائیل بھی اپنی تمام تر وحشت کے باوجود کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ ماضی کی طرح سعودی حکومت کو اسرائیلی صیہونیت کو گلے لگانے پر کوئی اصولی اعتراض نہیں ہے۔ اس نے پہلے ہی یہ ظاہر کیا ہے کہ اگر یہ سعودی بادشاہت کے مفادات کے مطابق ہو تو وہ ایسا کرنے کے لیے تیار ہے۔ لیکن عرب بادشاہتوں کو اسرائیل کے مسلسل بڑھتے ہوئے جارحانہ رویے کی وجہ سے عوامی دباؤ کا سامنا اور غم و غصے کے پھٹ پڑنے کا خوف بھی ہے۔ ایسے میں سعودی شاید یہ بھی چاہتے ہیں کہ تعلقات کی استواری کی پہل اسرائیل کی طرف سے ہو اور اسرائیل ظاہری اور منافقانہ طور پر ہی سہی اپنے رویوں میں کچھ نرمی پیدا کرے تاکہ سعودی عرب مسلمانوں کے رہنما کے طور پر اسے اپنے کارنامے کے طور پر ظاہر کر سکے۔

مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کے یہ نئے اتحاد سطح کے نیچے پنپتے ہوئے بحرانات اور تضادات کی غمازی کرتے ہیں۔ ماضی میں ان مطلق العنان حکمرانوں نے سامراجی آقاؤں کی کاسہ لیسی کرتے ہوئے اس خطے کو کئی جنگوں کے ذریعے برباد کیے رکھا۔ بیرونی تضادات کو ابھار کر داخلی تضادات کو دبایا جاتا رہا۔ آج اپنے وجود کو لاحق خطرات کے تحت یہ اپنے پرانے آقاؤں سے جان چھڑانے اور نئے آقاؤں کی تلاش میں ہیں۔ سعودی عرب اور ایران خطے میں ایک دوسرے کے خلاف سرگرم اپنی پراکسیوں کو کس حد تک لگام دے پاتے ہیں اور ان کی یہ صلح کس قدر پائیدار ثابت ہوتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن اگر خطے میں جزوی امن و استحکام بھی پیدا ہوتا ہے تو طبقاتی تضادات زیادہ واضح ہو کر اپنا اظہار کر سکتے ہیں۔ خطے کے محکوموں کی یہ جڑت اور طبقاتی کشمکش مستقبل میں پہلے سے بڑی تحریکوں کو جنم دے سکتی ہے۔