الیاس خان
دعویٰ کروں گا حشر میں موسیٰ پہ خون کا
کیوں اس نے آب دی میرے قاتل کی تیغ کو
معروف مارکسی انقلابی و دانشور ٹیڈگرانٹ نے کہا تھا ”ماضی کے بغیر کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔“ وقت مسلسل رواں دواں رہتا ہے۔ اس دوران بے شمار واقعات رونما ہوتے ہیں مگر چند واقعات تاریخ میں سبق آموز نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 5 جولائی 1977ء نہایت اہمیت کا حامل دن ہے۔ اس دن پیپلز پارٹی کی منتخب حکومت و قومی اسمبلی کو فوج کے سربراہ جنرل ضیا الحق نے توڑ کے اور 1973ء کے متفقہ آئین کو معطل کر کے پاکستان میں مارشل لا مسلط کر دیا اور عوام کے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کر لیا گیا۔ جنہیں بعد ازاں ایک جھوٹے قتل کے مقدمہ میں پھانسی دے کر شہید کر دیا گیا۔ 30 نومبر 1967ء جس روز پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی، 5 جولائی 1977ء جب اقتدار پر شب خون مارا گیا اور 4 اپریل 1979ء جب بھٹو کو قتل کر دیا گیا… یہ پاکستانی سیاسی تاریخ کے وہ مراحل ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں۔ ان ادوار کے پس منظر اور سیاق و سباق کا جدلیاتی اور سائنسی تجزیہ کیے بغیر نہ تو 5 جولائی 1977ء کی ہولناکی زیر بحث لائی جا سکتی ہے اور نہ ہی مستقبل کا تناظر بنایا جا سکتا ہے۔ یوں تو پیپلز پارٹی کے جنم، ساخت اور 5 جولائی 1977ء کے واقعے کے رو نما ہونے پر بیشمار سیاستدانوں، دانشوروں اور صحافیوں نے اپنے اپنے تجزیے پیش کیے اور لکھ لکھ کر تحریروں کے انبار لگا دئے مگر یہ تمام عمل کوئی ٹھوس اور سائنسی تجزیہ کرنے سے قاصر و معذور ہی رہا۔ ماسوائے ان مارکسی دانشوروں کے جنہوں نے جدلیاتی اور سائنسی بنیادوں پر محض جزوی نہیں بلکہ کلی طور پر سماجی عوامل کا تجزیہ کر کے 5 جولائی 1977ء کے وقوع ہونے کی حقیقی وجوہات کی نشاندہی کی اور مستقبل کا تناظر پیش کیا۔
پیپلز پارٹی کے جنم اور انتہائی قلیل مدت میں ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن جانے کا بنیادی سبب پیپلز پارٹی کی قیادت کا وہ سوشلسٹ جمہوری پروگرام تھا جسے انقلابی تحریک میں اترے محنت کش عوام یعنی مزدوروں، کسانوں اور دیگر کچلی ہوئی سماجی پرتوں میں برق رفتاری سے پذیرائی ملی اور استحصال زدہ عوام نے ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی کو اپنے دکھوں اور مسائل کا نجات دھندہ سمجھا۔ یوں محنت کش عوام کے ووٹوں اور حمایت کا حجم پیپلز پارٹی کی بڑھوتری کا باعث بنا اور 1970ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئی۔ 1971ء میں سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہوا۔ مغربی پاکستان میں بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آ گئی اور پارٹی کا امتحان شروع ہو گیا۔ پاکستان کا محنت کش طبقہ سوشلسٹ انقلاب چاہتا تھا اور سوشلزم کا واضح مطلب انسانی محنت کے استحصال کا مکمل خاتمہ، ذرائع پیداوار اور معیشت پر محنت کشوں کا جمہوری کنٹرول، امارت اور غربت کی تفریق کا مٹایا جانا اور سرمائے کے جبر کو ہمیشہ کے لئے ملیا میٹ کرنا ہے۔ بھٹو نے محنت کش عوام کے ساتھ سوشلزم کے نفاذ کا عہد کیا تھا مگر حصول اقتدار کے بعد ماسوائے اصلاحات کے سوشلسٹ انقلاب کا برپا نہ ہونا اپنے پیچھے کئی اہم سوالات چھوڑ گیا۔ انقلابی ابھار کو ایک سازش کے ذریعے جمہوری رد انقلاب کے ہتھیار سے زائل کر دیا گیا اور محنت کشوں کو اصلاحات کے ذریعے مطمئن کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ جو ان کے ساتھ ایک کھلواڑ سے کم نہ تھا۔ کیونکہ انقلاب ادھورا یا جزوی نہیں ہوتا۔ اس میں کمی بیشی رد انقلاب کو دعوت دیتی ہے۔ انقلاب فرانس کے اہم سیاسی و عسکری رہنما لوئی سینٹ جسٹ نے کہا تھا کہ ادھورا انقلاب برپا کرنیوالے ہمیشہ اپنی قبریں خود کھودتے ہیں۔
ہمیں دیکھنا ہو گا کہ سماج میں انقلابی تبدیلی کی جنگ میں کن عوامل کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ معروض میں تمام تر انقلابی کیفیات کی موجودگی موضوعی عنصر کے فقدان کی وجہ سے حتمی انقلابی اہداف حاصل نہیں کر سکتیں۔ موضوعی عنصر یا انقلابی پارٹی کی تعمیر و تشکیل انقلابی ابھار سے قبل عمل میں لائی جاتی ہے اور یہی طریقہ کار لینن اسٹ یا بالشویک ہے۔ جس نے روس میں کرۂ ارض پر پہلا سوشلسٹ انقلاب برپا کرتے ہوئے پوری دنیا کے محنت کشوں کے لئے انقلابی طریقہ وضع کر کے منزل کی سمت کا تعین کر دیا۔
5 جولائی 1977ء کا المیہ پاکستان کے محنت کشوں، طلبہ اور غریب عوام کو دعوت دیتا ہے کہ وہ عمیق نظروں اور انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لیں کہ کیا پیپلز پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو واقعتا ملک میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے۔ پھر اس کے باوجود کہ محنت کشوں کی وسیع پرتیں ذوالفقار علی بھٹو کی ایک آواز پر لبیک کہنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی تھیں‘ سوشلسٹ انقلاب برپا نہ ہو سکا۔ جس کی وجہ سے آج تک پورا پاکستانی سماج اذیت ناک اور ناموافق حالات کا سامنا کر رہا ہے۔ در اصل کسی انقلابی مارکسی طریقہ کار اور لائحہ عمل کے بغیر پیپلز پارٹی ایک بے ہنگم ہجوم بنتی چلی گئی اور ہجوم ہمیشہ منتشر افراد کا مجموعہ ہوتا ہے۔ پارٹی کے اندر نظام کی حدود میں اقتدار پر براجمانی کی نفسیات اور ذاتی مفادات و مالی منفعت کے حصول کی دوڑ نے 1968-69ء کے سوشلسٹ انقلاب کی لہروں میں ایسی دراڑیں پیدا کیں کہ پاکستانی اشرافیہ نے جنرل ضیا الحق کی سربراہی میں 5 جولائی 1977ء کی سیاہ رات برپا کر دی۔ جس کا خمیازہ تمام محنت کش عوام تاحال بھگت رہے ہیں۔ اگر محنت کشوں اور طلبہ کو سائنسی سوشلزم کے نظریات سے لیس کر کے بالشویک طریقہ کار کے تحت دیانتدارانہ اور مخلصانہ کاوشوں کے ساتھ سوشلسٹ تعمیر کا آغاز کیا جاتا تو نہ صرف ملک میں مہنگائی، بیروزگاری، لاعلاجی، محرومی، جہالت اور دیگر دکھوں کا مداوا ہو جاتا اور یہ ایک خوشحال معاشرہ ہوتا بلکہ خطے کے اہم ممالک ہندوستان، بنگلہ دیش، ایران اور افغانستان وغیرہ بھی اس سوشلسٹ انقلاب کے اثرات قبول کیے بغیر نہ رہتے۔ لیکن نظام اور ریاست کے ساتھ مصالحت کی روش نہ صرف انقلابی تحریک بلکہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی مسلسل زوال پذیری کا موجب بنتی گئی اور موقع ملتے ہی حکمران طبقات اور سامراج نے اپنا انتقام لے لیا۔ یہی 5 جولائی کے ردِ انقلابی شب خون کا بنیادی سبق ہے۔