حارث قدیر

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں بنیادی خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے اور دیگر عوامی مسائل کے خلاف مزاحمتی تحریک کے ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ 3 اگست 2023ء کو پونچھ اور میرپور ڈویژن میں ہزاروں افراد نے سڑکوں پر آ کر نہ صرف اس نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کیا بلکہ پر امن احتجاجی تحریک کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔

تحریکوں کیلئے شہرت رکھنے والے ضلع پونچھ سے شروع ہونے والی یہ تحریک اب دو ڈویژنوں کے 6 اضلاع تک پھیل چکی ہے۔ مظفر آباد ڈویژن میں گو کہ بڑے پیمانے پر احتجاج نہیں کیے گئے لیکن 3 اگست کو مظفر آباد کے شہریوں نے بھی احتجاجی مظاہرہ منعقد کر کے وہ بنیاد ضرور رکھ دی ہے کہ آنے والے دنوں میں مظفر آباد ڈویژن بھر میں بھی یہ احتجاج پوری طرح پھیل سکتا ہے۔

3 اگست کو راولاکوٹ میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکلے، ضلع باغ کے صدر مقام کے علاوہ تحصیل ہیڈ کوارٹروں میں بھی احتجاجی مظاہروں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ ضلع سدھنوتی کے صدر مقام پلندری میں سینکڑوں افراد احتجاج کے بعد دھرنا دے چکے ہیں۔ میر پور ڈویژن میں ضلع کوٹلی اور میر پور میں بڑے احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ میر پور ڈویژن کے تحصیل ہیڈ کوارٹروں ڈڈیال، چکسواری، نکیال، چڑھوئی اور سہنسہ میں بھی سینکڑوں افراد نے احتجاجی مظاہرے اور شٹر ڈاؤن ہڑتالیں کیں۔ کوٹلی شہر کے آبشار چوک میں بھی احتجاجی دھرنا دے دیا گیا ہے۔ یوں مجموعی طور پر راولاکوٹ میں دو مقامات پر احتجاجی دھرنے جاری ہیں۔ پلندری میں ضلعی دفاتر کے سامنے احتجاجی دھرنا جاری ہے۔ کوٹلی شہر میں بھی احتجاجی دھرنا جاری ہے۔

احتجاج کا یہ سلسلہ 9 مئی کو آٹے کی قیمتوں میں یکمشت 600 روپے فی من تک اضافہ کیے جانے کے وقت شروع کیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر راولاکوٹ سپلائی بازار میں انجمن تاجران اور سول سوسائٹی کے زیر اہتمام آٹا گودام کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا گیا تھا۔ چند روز بعد سرحدی تحصیل ہجیرہ میں عوامی ایکشن کمیٹی قائم کرتے ہوئے احتجاجی دھرنا دیا گیا۔ تحصیل صدر مقام تھوراڑ کے علاوہ پونچھ کو پاکستان کے ضلع راولپنڈی سے ملانے والی سرحد پر موجود علاقے مجید گلہ میں بھی احتجاجی دھرنا دے دیا گیا تھا۔ بعد ازاں باغ، دھیرکوٹ، قلعاں اور دیگر مقامات پر بھی احتجاجی دھرنے دیئے گئے۔

3 ماہ تک پر امن احتجاجی دھرنوں کے علاوہ دو مرتبہ پونچھ ڈویژن بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔ ایک بار پہیہ جام ہڑتال کی گئی۔ اس کے علاوہ مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری رکھا گیا۔ اس تحریک کے دوران ہزاروں افراد سڑکوں پر نکلتے رہے ہیں۔ تاہم ریاست کے ساتھ ٹکراؤ اور تشدد سے ہر ممکن گریز کیا گیا اور احتجاج کو ہر ممکن حد تک پر امن رکھا گیا ہے۔ یہاں تک کہ راولاکوٹ میں جاری احتجاجی دھرنے کے شرکا کو رات گئے گرفتار کر کے دھرنا اکھاڑا گیا، دھیر کوٹ میں ایک نوجوان کی گرفتاری کی گئی، قلعاں میں گرفتاریاں ہوئیں۔ لیکن احتجاج کی قیادت نے امن کے راستے کو تبدیل کرنے سے انکار کیا۔ بھرپور احتجاج کرتے ہوئے دوبارہ راولاکوٹ میں دھرنا قائم کیا گیا۔ ریاست کی جانب سے تشدد پر اکسانے کے باوجود مظاہرین پرامن رہے۔

ماضی میں بھی اس خطے میں احتجاجی تحریکوں کی ایک لمبی تاریخ رہی ہے۔ تاہم ہر احتجاج فیصلہ کن مرحلے میں پہنچ کر پرتشدد صورت اختیار کرتا رہا ہے۔ یا پھر قیادت کی جلد بازی کے باعث حکمرانوں کی دھوکہ دہی کی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھتا رہا ہے۔ تاہم موجودہ احتجاج میں صبر اور تحمل کے ساتھ قربانیوں کی ایک تاریخ رقم کی جا رہی ہے۔ 3 ماہ سے مظاہرین پر امن طور پر احتجاجی دھرنوں میں بیٹھے ہیں اور احتجاج کا ہر پرامن طریقہ اپناتے ہوئے جلد بازی سے ہر ممکن گریز کر رہے ہیں۔

مطالبات کیا ہیں؟

احتجاجی تحریک کا آغاز آٹے کی قیمتوں میں کمی کے مطالبہ پرہوا تھا۔ تاہم فوری طور پر قیادت نے چارٹر آف ڈیمانڈ مرتب کرتے ہوئے دیگر مطالبات بھی شامل کیے ہیں۔ یوں اس تحریک کے مطالبات میں گندم پر سبسڈی کی فراہمی اور آٹے کی قیمتیں گلگت بلتستان اور سرینگر کی طرز پر مقرر کرنے، بجلی کی قیمتوں میں کمی اور ظالمانہ ٹیکسوں کا خاتمہ اور حکمران اشرافیہ کی مراعات میں کمی جیسے تین مرکزی مطالبات شامل ہیں۔

گندم پر سبسڈی اس خطہ میں پاکستان کی وفاقی حکومت اور مقامی حکومت کی طرف سے فراہم کی جاتی رہی ہے۔ پاکستانی حکومت گندم کی قیمتوں پر سبسڈی فراہم کرتی تھی جبکہ مقامی حکومت اس گندم کو پاکستان سے حاصل کر کے پسائی کے بعد شہریوں تک پہنچانے کے اخراجات کی مد میں سبسڈی فراہم کرتی ہے۔ تاہم پاکستان کی وفاقی حکومت کی طرف سے سبسڈی 2008ء میں ختم کر دی گئی تھی۔ گلگت بلتستان کو فراہم کی جانے والی سبسڈی بھی دو مرتبہ ختم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن مقامی شہریوں کے طویل احتجاج کی وجہ سے وہ سبسڈی تاحال ختم نہیں کی جا سکی ہے۔

مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ گلگت بلتستان اور سرینگر کی طرز پر اس خطہ کو بھی سبسڈی فراہم کی جائے کیونکہ یہ تینوں خطے متنازعہ ریاست جموں کشمیر کے علاقوں پر مشتمل ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی حکومتیں ان خطوں کو اشیائے خوردونوش پر سبسڈی فراہم کرنے کی پابند ہیں۔ بھارتی حکومت کچھ اشیا خوردونوش پر سبسڈی فراہم کر رہی ہے جبکہ پاکستانی حکومت کی جانب سے صرف گندم پر سبسڈی فراہم کی جا رہی تھی۔

بجلی کے حوالے سے بھی صورتحال اسی نوعیت کی ہے۔ اس خطے سے 3300 میگا واٹ سے زائد بجلی پیدا ہو رہی ہے جبکہ 5 ہزار میگا واٹ سے زائد کے منصوبہ جات زیر کار ہیں۔ مجموعی طور پر اس خطے میں 9 ہزار میگا واٹ سے زائد بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ 2003ء میں منگلا ڈیم اپ ریزنگ منصوبہ کے وقت مقامی حکومت سے معاہدہ کیا گیا تھا کہ 2.59 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی اس خطے کے شہریوں کو فراہم کی جائے گی۔ اس معاہدہ پر عملدرآمد تو کیا جا رہا ہے۔ تاہم اس خطے سے پیدا ہونے والی بجلی سے اس خطے کے ضرورت کے مطابق بجلی اسی خطے میں گرڈ تعمیر کر کے اس میں محفوظ کرنے کے بعد باقی ماندہ پاکستان کے نیشنل گرڈ میں ارسال کرنے کی بجائے ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ذریعے پاکستان سے بجلی یہاں فراہم کی جا رہی ہے۔

اس عمل کے تحت اسی خطے سے پیدا ہونے والی بجلی 2.59 روپے میں فراہم کرنے کیلئے اربوں روپے ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو سبسڈی کے نام پر فراہم کیے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف جموں کشمیر کے شہریوں کو بجلی بھی اسی ٹیرف پر مہیا کی جاتی ہے جس پر پاکستان کے دیگر شہروں میں مہیا کی جا رہی ہے۔

اسی طرح آٹے پر فراہم کی جانے والی سبسڈی بھی مل مالکان، ٹرانسپورٹ کنٹریکٹرز اور محکمہ خوراک کے افسران غبن کر جاتے ہیں اور پوری آبادی کو سستا آٹا فراہم بھی نہیں کیا جاتا۔ حکمران طبقات اگر عوامی رد عمل کی وجہ سے سبسڈی یا سہولیات فراہم کرنے پر مجبور ہو بھی جائیں تو اس عمل کو اس قدر پیچیدہ بنایا جاتا ہے کہ بتدریج اس عوامی خرچ سے دستبرداری اختیار کرنے کی راہ ہموار کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ سبسڈی کا ڈیزائن اس طرح سے ترتیب دیا جاتا ہے کہ اس میں سے بیوروکریسی کی کرپشن اور کارپوریٹ سیکٹر کے مفادات اور منافعوں کی راہ ہموار ہو سکے۔ عوام کو سبسڈی دینے کے نام پر فنڈز حاصل تو کیے جائیں لیکن ان سے عام عوام مستفید نہ ہو سکیں۔

تحریک کا کردار اور مستقبل

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں طویل عرصہ قومی سوال کے گرد چلنے والی تحریکوں کی بجائے طبقاتی مسائل کیخلاف مزاحمت کا سلسلہ 5 اگست 2019ء کے بھارتی اقدامات کے بعد زور پکڑنا شروع ہوا ہے۔ ماضی میں ریاست کی جانب سے ایک منظم انداز میں شہریوں کے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر فتح کرنے کی طرف توجہ مرکوز کیے رکھی گئی ہے۔ اس خطے کی مزاحمتی قوتیں بھی بالعموم عوام کے بنیادی طبقاتی مسائل کو اجاگر کرنے کی بجائے حتمی ہدف کے حصول کی کوششوں میں سرگرداں رہی ہیں۔ تاہم 5 اگست کے بعد رونما ہونے والے واقعات نے جہاں اس خطے کے عمومی شعور کو جھنجوڑ کر رکھ دیا‘ وہیں مزاحمتی قوتوں کو بھی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس خطے کی مزاحمتی تحریک ایک نئے دور میں داخل ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ بتدریج اس تحریک نے اپنے طبقاتی کردار کو بھی واضح کرنا شروع کر دیا ہے۔ حکمران اشرافیہ کی نمائندہ تمام قوتیں اس تحریک سے خوفزدہ ہو کر کنارہ کش ہونا شروع ہو چکی ہیں۔ یوں رفتہ رفتہ قومی و طبقاتی محرومیوں کے گرد ابھرنے والی تحریک محنت کش اور محکوم طبقے کی تحریک میں تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ مستقل مزاجی کے ساتھ پھیلاؤ کے عمل سے گزر رہی ہے۔

3 اگست کو تحریک کی قیادت کی جانب سے حکمرانوں کو مطالبات منظور کرنے کیلئے 10 اگست تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔ بجلی کے بل جمع نہ کروا کر سول نافرمانی کی تحریک منظم کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ 7 اگست کو ہونے والے اجلاس میں 11 اگست سے تحریک کے فیصلہ کن مرحلے کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔

ابھی تک فیصلہ کن مرحلے کے حوالے سے قیادت میں بھی ابہام موجود ہے۔ تحریک میں شامل مختلف عناصر کی جانب سے بھی مختلف آرا موجود ہیں۔ مستقبل میں ماضی سے ہٹ کر حکمت عملی اپنانا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ ماضی میں فیصلہ کن مرحلے میں ریاست کے ساتھ ٹکراؤ، لانگ مارچ اور گھیراؤ وغیرہ جیسے اقدامات کیے جاتے رہے ہیں۔ موجودہ وقت میں بھی کنٹرول لائن کی جانب، اسلام آباد یا مظفر آباد کی جانب لانگ مارچ اور گھیراؤ کی تجاویز پیش کی جا رہی ہیں۔ تاہم قیادت کی جانب سے ان تجاویز کو زیر غور لانے کی بجائے خود کو وقت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

عوامی طاقت کی بنیاد پر ایوانوں پر قبضے اور گھیراؤ جیسے اقدامات کے ذریعے مطالبات منظور کروانے کی کچھ مثالیں ضرور موجود ہیں۔ لیکن اکثریتی مثالیں ریاست سے ٹکراؤ کے نتیجے میں تحریک کے کچلے جانے کی ہی رہی ہیں۔ جن تحریکوں میں گھیراؤ، لانگ مارچ اور ٹکراؤ جیسے اقدامات کی وجہ سے فتح حاصل بھی ہوئی ہے وہاں محنت کش طبقے‘ بالخصوص سرکاری ملازمین کی تحریک میں شرکت نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ معاشرے کی اکثریتی محکموم پرتوں کی احتجاج میں شمولیت اور وسیع جغرافیائی حدود تک اس کے پھیلاؤ کے بغیر فتح ممکن نہیں رہتی۔ فیکٹریوں، کارخانوں اور سرکاری محکمہ جات کے محنت کشوں، نوجوانوں، طالبعلموں اور خواتین کی تحریکوں میں شمولیت‘ بغیر کسی تشدد کے ریاست کو مفلوج کرنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتی ہے۔ ریاست کو تحلیل کرنے کی طاقت اور اہلیت محنت کش طبقے کے پاس ہی ہوتی ہے۔ محنت کش طبقے کے اندر اس طاقت کے احساس کو پیدا کرنے کیلئے عوامی تحریکوں کا طبقاتی کردار فیصلہ کن ہو سکتا ہے۔

جموں کشمیر کے مخصوص جغرافیائی اور معاشی معروض کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس خطے میں انڈسٹری موجود نہیں ہے۔ ایک کنزیومر سوسائٹی میں تاجروں اور ٹرانسپورٹ مالکان پر مشتمل یونین کا تصور ہی حتمی ٹھہر جاتا ہے۔ بیرون ملک محنت کی فروخت سے حاصل ہونے والی دولت مقامی کرنسی میں تبدیل ہو کر پیٹی بورژوا نفسیات کے حامل نوجوانوں اور خوردہ فروشوں پر مبنی سیاسی قیادتوں اور کارکنوں کو جنم دیتی ہے۔ یہی نفسیات جلد بازی، موقع پرستی اور ایڈونچر جیسے اقدامات کے بنیادی محرک کا باعث بنتی ہے۔ جسے توڑنے میں موجودہ تحریک نے ایک لمبے عرصہ بعد اور بہت صبر و تحمل سے کسی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ گو کہ جلد باز اور موقع پرست عناصر اب بھی اس تحریک میں ایک مخصوص حد تک شامل ہیں۔

جہاں جموں کشمیر کے 10 اضلاع میں اس تحریک کو پھیلایا جانا ضروری ہے وہیں طلبہ اور خواتین کے علاوہ سرکاری محکموں کے محنت کشوں کی اس تحریک میں شمولیت بھی ناگزیر ہے۔ شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کے ساتھ اگر سرکاری محکموں کے محنت کشوں کی شمولیت ممکن ہوتی ہے تو ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح سے موجودہ مطالبات تو شاید حل پورے کیے جا سکیں لیکن ریاست پھر کچھ عرصہ بعد مزید سخت معاشی حملے کرنے سے گریز نہیں کرے گی۔ یوں اس تحریک کی حتمی کامیابی کا انحصار پھر پاکستان کے مختلف شہروں اور قومیتوں کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی شمولیت اور اس سارے نظامِ حکمرانی کو تبدیل کرنے پر ہی ہو گا۔ جموں کشمیر میں مستقل مزاجی سے چلنے والی یہ تحریک جہاں بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں اپنے اثرات مرتب کر رہی ہے وہیں پاکستان بھر میں اس تحریک کے اثرات پہنچتے دیر نہیں لگے گی۔ طبقاتی یکجہتی اور جڑت کا یہ سلسلہ اگر تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتا ہے تو نئی قیادتوں کو تراشتے ہوئے اس خطے میں ایک حقیقی انقلابی تبدیلی کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔