ایزرا اوٹینو (آئی ایس ایل افریقہ)
ترجمہ: فرہاد کیانی
26 جولائی کو نائیجر میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے صدر محمد بازوم کا تختہ الٹ کر جنرل عبد الرحمان تیانی ملک کے سربراہ بن چکے ہیں۔ بازوم اور ان کی جماعت ”نائیجر ین پارٹی فار ڈیموکریسی اینڈ سوشلزم“ 2011ء سے اقتدار میں تھے اور انتہائی غیر مقبول ہو چکے تھے۔ جس کی وجوہات میں کرپشن، غربت، احتجاجوں اور اپوزیشن کے خلاف جبر اور فرانسیسی اور امریکی سامراج کی کاسہ لیسی شامل ہیں۔
مغربی افریقی ممالک کی مغرب نواز تنظیم’ایکواس‘ (ECOWAS)، یورپی یونین اور امریکہ کی جانب سے نائیجر کے خلاف پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں اور انہوں نے برطرف صدر محمد بازوم کی فوری بحالی نہ ہونے کی صورت میں فوجی کاروائی کی دھمکی دے رکھی ہے۔ نائیجر فرانس کی ایک سابقہ نو آبادی ہے اور فرانس کی جانب سے کسی ممکنہ فوجی مداخلت کے خلاف فرانسیسی سفارت خانے کے باہر سینکڑوں افراد نے مظاہرہ کیا جس پر فرانسیسی صدر میکرون نے دھمکی دی کہ ”فرانس اور اس کے مفادات کے خلاف کوئی بھی حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔“ مزید کہا گیا کہ ”اگر کوئی فرانسیسی شہریوں، فوج، سفارت کاروں یا فرانسیسی مفادات پر حملہ کرے گا تو اس کا فوری اور سخت جواب دیا جائے گا اور اس متوقع فوجی کاروائی کے تناظر میں نائیجر سے فرانسیسی شہریوں کو ’بہت جلد‘ نکال لیا جائے گا۔“
1960ء تک نائیجر فرانس کی نو آبادی تھی اور ’آزادی‘ کے بعد مغربی ا فریقہ کے دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی فرانسیسی سرمائے کا غلبہ قائم رہا۔ نائیجر دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ یہاں ملنے والے دنیا کے بڑے یورینیم کے ذخائر اور دیگر خام مال پر فرانسیسی کمپنیوں کا کنٹرول ہے۔ یورپ کے حکام نائیجر کو اپنے تسلط میں رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ فرانس اور یورپی یونین کے دیگر ممالک یورینیم کی 15-30 فیصد در آمدات کے لیے نائیجر پر انحصار کرتے ہیں جو کہ یورپ میں ایٹمی توانائی کے لیے بہت اہم ہیں۔ اس کے علاوہ شمالی اور مغربی افریقہ میں نائیجر وہ آخری ملک ہے جہاں دہشت گردی کے خلاف سامراجی جنگ کے بہانے مغربی ممالک کے فوجیوں کی ایک بہت بڑی تعداد اب بھی تعینات ہے۔
مزید براں ملک کے شمال میں اغادیز کے علاقے میں امریکی افواج کی ایک بڑی ڈرون بیس ہے جہاں سے وہ افریقہ میں ساحل کے پورے خطے میں قاتلانہ حملے کرتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ نائیجر کا ”ہاتھ سے نکل جانا“ یورپی اور امریکی سامراجوں کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہو گا۔ کیونکہ گزشتہ تین برس میں وہ مالی اور برکینا فاسو پر کنٹرول کھو چکے ہیں۔
ان تمام عوامل کے مد نظر فرانس، یورپی یونین اور امریکہ نائیجر پر ہر صورت میں کنٹرول رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ نئی حکومت پر دباؤ ڈال کر اپنے پرانے کٹھ پتلی محمد بازوم کو بحال کروانا چاہتے ہیں۔ یا پھر جنرل تیانی کے ساتھ مل کر محمد بازوم کی مغرب نواز پالیسیوں کا تسلسل چاہتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ان کوششوں کی ناکامی کی صورت میں مغربی سامراجی ایک فوجی مداخلت کرنا چاہ رہے ہیں جس میں نائیجیریا کے کلیدی کردار والے ایکواس بلاک کی فوجیں استعمال ہوں گیں (یاد رہے کہ نائیجر اور نائیجریا دو ہمسایہ لیکن الگ ممالک ہیں۔ مترجم)۔
مغربی ممالک کے مطابق نائیجر کے فوجی حکمرانوں کے خلاف ان کے حملے ”جمہوریت“ کی خاطر ہیں۔ اس سے بڑا جھوٹ کیا ہو گا! چند ہفتے قبل ہی یورپی یونین کے حکام نے تیونس کے ساتھ ”مہاجرین کو روکنے کی خاطر“ ایک ارب یورو کا معاہدہ کیا ہے۔ تیونس میں قیس سعید کی آمریت مسلط ہے جس نے جولائی 2001ء میں ایک کُو کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ یورپی یونین اور امریکہ کا ایک اور اہم دوست مصر کا حکمران جنرل السیسی ہے۔ جو 3 جولائی 2013ء میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آیا تھا۔ جس کے بعد اس نے انتہائی بے رحمی اور تشدد سے عوامی مظاہروں کو کچل ڈالا۔ جس کی ایک ہولناک مثال 14 اگست کو ہونے والا رابعہ کا قتل عام تھا جس میں فوج نے ایک دن میں 2600 مظاہرین کو قتل کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ کئی مطلق العنان بادشاہتیں مغربی ممالک کے ”سٹریٹجک اتحادیوں“ کی فہرست میں شامل ہیں۔
فرانس کی پشت پناہی سے ہونے والی متعدد سازشوں اور فوجی بغاوتوں کے بارے میں افریقہ میں سب بخوبی آگاہ ہیں۔ یورپی یونین اور امریکی حکام کی نائیجر کی فوجی جنتا کی مخالفت کی ایک ہی وجہ‘ ملک پر سے اپنا کنٹرول ختم ہو جانے کا خوف ہے۔
ہم ایکواس، یورپی یونین اور امریکی سامراج کی جانب سے پابندیوں اور فوجی دھمکیوں کے خلاف ہیں۔ ایکواس کے جانب سے فوجی مداخلت کی صورت میں (جسے براہ راست یا بالواسطہ مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل ہو گی) ہم نائیجر کے مسلح دفاع اور سامراج نواز حملہ آوروں کی شکست کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم سوشلسٹ‘ نائیجر سے امریکی اور یورپی افواج کے انخلا کا مطالبہ کرتے ہیں۔
سوشلسٹوں کو تمام سامراجی طاقتوں کو مسترد کرنا چاہیے۔ چاہے وہ مغرب کی ہوں یا مشرق کی۔ اسی طرح ایک سرمایہ دارانہ آمرانہ نظام کی جگہ دوسرا سرمایہ دارانہ آمرانہ نظام آگے بڑھنے کا راستہ نہیں ہے۔ نائیجر کے مزدوروں اور محروم کسانوں کو محنت کشوں کی کونسلوں میں منظم ہونا ہو گا۔ یہی عوامی تنظیمیں مزدوروں اور کسانوں کی انتظامیہ کی بنیاد ہوں گی۔ جو ملٹی نیشنل کمپنیوں کو قومی تحویل میں لینے اور زمین کو اس پر محنت کرنے والے کسانوں کے حوالے کرنے کی راہ ہموار کریں گی۔ یہ نو آبادیاتی قبضے کے حقیقی خاتمے کی ابتدا ہو گی۔
بیرونی حملوں کے خلاف ہمارے نائیجر کے دفاع کا مطلب نئی فوجی جنتا کی حمایت نہیں ہے۔ سوشلسٹ اس فوجی بغاوت کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ نائیجر کے حکمران طبقے کے دو رجعتی دھڑوں کے درمیان لڑائی ہے۔ یہ حکمران طبقے کی جانب سے مالی، سوڈان اور برکینا فاسو میں ہونے والی فوجی بغاوتوں کا تسلسل ہے۔ جہاں ہم ہر طرح کی آمریت کو مسترد کرتے ہیں وہیں ہم بازوم حکومت کی حمایت بھی نہیں کرتے۔ چناچہ ہم سوشلسٹ انقلابیوں، ترقی پسندوں اور سیاسی کارکنوں پر اظہار، مظاہروں اور عوامی اجتماعات کی آزادی برقرار رکھنے کی جدوجہد پر زور دیتے ہیں۔ ہم حقیقی سوشلسٹوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنے ملک میں اور بین الاقوامی طور پر ایک سامراج مخالف انقلابی پارٹی میں متحد ہو جائیں۔