اسلام آباد (عمر عبداللہ) 13 اگست کی شام ’ایشین مارکسسٹ ریویو‘ کے زیر اہتمام برصغیر کے خونی بٹوارے کے 76 سال کی مناسبت سے ایک آن لائن سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ (آئی ایس ایل) کے رہنما الہیندرو بودارٹ نے ارجنٹینا، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ)کے رہنما یوسف تاریگامی نے سرینگر اور ورکرز انٹرنیشنل نیٹ ورک (WIN)کے رہنما راجر سلور مین نے برطانیہ سے شرکت کی۔ دنیا بھر سے بڑی تعداد میں ناظرین نے اس بحث کو براہِ راست سنا۔ دیگر مقررین میں پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کے مرکزی سینئر نائب صدر غفران احد نے مالاکنڈ، پی ٹی یوڈی سی کے انٹرنیشنل سیکرٹری عمران کامیانہ نے لاہور، پیپلز ریولوشنری فرنٹ کے سینئر رہنما حارث قدیر نے راولاکوٹ، مزدور رہنما اور پائلر کے ڈائریکٹر کرامت علی نے کراچی اور عوامی ورکرز پارٹی کی مرکزی ویمن سیکرٹری ڈاکٹر فرزانہ باری نے اسلام آباد سے شرکت کی۔ اس نشست کے ماڈریٹر ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ کے مرکزی آرگنائزر اویس قرنی تھے۔
بحث کا آغاز آئی ایس ایل کے الہیندرو بودارٹ نے کیا جنہوں نے حال ہی میں کامریڈ لال خان کی شہرہ آفاق کتاب ”Partition: Can it be undone“ کا ہسپانوی زبان میں ترجمہ کروانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بودارت نے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرمایہ داری کے بحران نے پوری دنیا‘ خاص طور پر پسماندہ خطوں میں قومی و طبقاتی جبر و محرومی کو شدید تر کر دیا ہے۔نہ صرف برصغیر بلکہ مشرق وسطیٰ، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں بھی سامراج کی کھینچی ہوئی خونی لکیروں کو مٹانے کے لئے محنت کشوں کی طبقاتی یکجہتی اور جڑت لازم ہے۔ جس کے لئے ایک انٹرنیشنل انقلابی تنظیم کی تعمیر ناگزیر ہے۔ محنت کشوں کی نجات سرمائے اور سامراج کی جکڑبندیوں کے اندر نئے ملک بنانے میں نہیں بلکہ تمام قوموں کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن میں ہے۔ لیکن یہ صرف تب ممکن ہے جب ہم قوموں کے حق خودارادیت بشمول حق علیحدگی کی مکمل حمایت کریں اور انقلابی سوشلسٹ منشور پیش کریں۔
ورکرز انٹرنیشنل نیٹ ورک کے راجر سلور مین نے بٹوارے کی تاریخ پر تفصیلی اور سیر حاصل گفتگو رکھی کہ کیسے انگریز سرکار کے خلاف مقامی محنت کش طبقے اور کسانوں کی بغاوتوں اور برطانیہ کے محنت کش طبقے کے دباؤ نے یہاں سے سامراجیوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا اور کیسے یہاں کی اشرافیہ کے نام نہاد لیڈروں اور حکمران طبقات نے سامراجی کاسہ لیسی کرتے ہوئے ان تحریکوں کو زائل کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ انہوں نے اس تناظر میں سٹالنسٹ کمیونسٹ پارٹی کے منفی کردار اور نظریاتی جرائم پر بھی روشنی ڈالی۔
سی پی آئی ایم کے یوسف تاریگامی نے گفتگو کرتے ہوئے ماضی سے زیادہ حال پر توجہ دینے پر زور دیا۔انہوں نے دونوں ملکوں اور کشمیر کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج اس پورے خطے کے غریب عوام مہنگائی،بیروزگاری، خوراک کی قلت اور ریاستی فسطائیت کے ایک جیسے جبر کا شکار ہیں۔ اس لئے اس جبر کے خلاف ہماری مشرکہ جدوجہد بھی سیاسی یکجہتی کے ذریعے جاری رہنی چاہیے۔ تاریخ کو بدلنے کا اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
پی ٹی یو ڈی سی کے سینئر نائب صدر غفران احد نے بحث میں ریڈ کلف لائن کے ساتھ ڈیورنڈ لائن اور افغانستان کے تناظر میں اضافہ کیا کہ کیسے سامراجی جنگوں اور مداخلت نے افغانستان کو تاراج کرکے رکھ دیا ہے اور آج وہاں پلنے والی وحشت کیسے اس پورے خطے کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ مزید یہ کہ افغانستان کے محنت کش طبقے کی نجات کا راستہ باقی خطے کے محنت کشوں کے ساتھ براہ راست جڑا ہوا ہے۔
اس کے بعد کراچی سے سینئر مزدور رہنما کرامت علی نے گفتگو میں 1947ء کی تقسیم کے خوفناک واقعات ساتھ ساتھ 1971ء میں مشرقی بنگال میں بدترین ریاستی جبر پر بھی روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ تاریخ میں یہ خطہ ایک بار نہیں بلکہ دو بار دردناک اور خونی تقسیم سے گزرا ہے۔اور یہ ایسے زخم ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ بھرنے والے نہیں۔ اس موقع پر انہوں نے سارک کو فعال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
حارث قدیر نے بٹوارے کے تناظر میں کشمیر کے مسئلہ پر تفصیلی روشنی ڈالی اور خطے میں جاری مہنگائی اور ٹیکسوں میں بھاری اضافے کے خلاف حالیہ تحریک کی کیفیت پر روشنی ڈالی۔
فرزانہ باری نے بٹوارے کے دوران ہونے والے ہولناک سماجی جرائم اور خاص طور پر خواتین پر ڈھائے جانے والے مظالم پر تفصیلی بات رکھی اور کہا کہ اس تقسیم کا واحد حل ڈاکٹر لال خان کی کتاب اور تحریروں میں موجود ہے جو برصغیر کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کا تناظر دیتی ہیں۔
انٹرنیشنل سیکرٹری پی ٹی یو ڈی سی عمران کامیانہ نے پروگرام کو سم اپ کرتے ہوئے کہا کہ انقلاب صرف اقتدار کی تبدیلی کا نام نہیں بلکہ انقلابات انسانوں کی سوچ، جذبات، کلچر، آرٹ اور جغرافیے تک بدلتے ہیں۔ برصغیر کے خونی بٹوارے کو آج 76 برس ہونے کو ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پورے خطے میں ڈھاکہ سے دہلی اور کراچی سے سری نگر تک محنت کش طبقات اور محکوم اقوام کی زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں آ سکی۔ آج بھی جنوب ایشیا میں دنیا کی سب سے بڑی غربت پلتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام یہاں ایک خوشحال اور ترقی یافتہ سماج تعمیر کرنے میں یکسر ناکام ہو چکا ہے۔ پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہے۔ برصغیر کی تقسیم نے مذہبی بنیاد پرستی اور فسطائیت کے جو بیج بوئے تھے ان کی خونی فصل نئی نسلیں کاٹ رہی ہیں۔ اگر ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ان وحشتوں کو نہ اکھاڑ پھینکا گیا تو بربریت ہی انسانیت کا مقدر ہو گی۔ سامراج کی کھینچی خونی لکیروں کو مارکسزم اور انقلابی سوشلزم کا پروگرام ہی مٹا سکتا ہے اور جنوب ایشیا کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کے ساتھ ہی یہاں موجود ایک چوتھائی انسانیت کی زندگیوں کو سہل اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے۔