انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ

28 سے 31 اگست 2023ء کے دوران انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ (ISL) کی کامیاب بین الافریقی کانگریس نیروبی (کینیا) میں منعقد ہوئی۔ اس کا اہتمام کینیا کی ’ریولوشنری سوشلسٹ لیگ‘ نے کیا تھا۔ کانگریس کے بھرپور مباحثوں کا نچوڑ ایک منشور اور مختلف قراردادوں کی شکل میں قلم بند کیا گیا ہے۔

کانگریس میں افریقہ کے مختلف ممالک سے وفود نے شرکت کی۔ میزبانوں کے علاوہ کانگو، گھانا، گنی، ملاوی، نائیجیریا، مغربی صحارا، سینیگال، ایسواتینی، تنزانیہ، ٹوگو، زیمبیا اور زمبابوے کے ساتھی کانگریس میں شریک تھے۔ جنوبی افریقہ کے دوست ویزا حاصل نہ کر پانے کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے۔ ہیٹی سے انقلابی خواہشات کا پیغام موصول ہوا اور برازیل کے دو ساتھیوں نے بھی شرکت کی۔ تقریب کی صدارت کینیا کے ایزرا اوٹینو، پاکستان کے عمران کامیانہ اور ارجنٹائن کے الیہیندرو بودارٹ نے کی۔

پہلا دن سرمایہ دارانہ نظام کے بگڑتے ہوئے بحران اور امریکہ اور چین کے درمیان سامراجی تسلط کے تنازعہ کی وجہ سے جنم لینے والی بین الاقوامی صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے وقف تھا۔ اس موقع پر نیٹو اور روس کے سامراجی کردار کی مذمت کے ساتھ یوکرائنی عوام کے حق دفاع اور خودارادیت کی حمایت کو یکجا کرنے کی ضرورت کا اعادہ کیا گیا۔ بہت سے کامریڈز نے ایک بین الاقوامی تنظیم کی تعمیر میں آگے بڑھنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ آئی ایس ایل نے ایک سامراجی تقسیم اور پولرائزیشن کا شکار دنیا کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کا واحد راستہ عالمی انقلابی تنظیم کی تعمیر کو تجویز کیا ہے۔

دوسرے دن کامریڈز نے پیٹی بورژوازی کی طبقاتی جدوجہد سے عاری بین الافریقیت (Pan Africanism) کے مقابلے میں مارکسزم کی سائنسی تعلیمات پر مبنی انقلابی بین الافریقیت کو فروغ دینے کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا۔ جس میں انہوں نے واضح کیا کہ ہمارا مقصد ایک آزاد، متحد اور سوشلسٹ افریقہ ہے۔

سہ پہر میں کامریڈز نے خطے میں فرانسیسی سامراج کے خلاف جاری عمل کی انقلابی اہمیت کا تجزیہ کیا جو پورے افریقہ کو ہلا کے رکھ رہا ہے اور نائیجر میں سامراج کی کٹھ پتلی حکومت کا تختہ الٹنا اس کا سب سے بڑا اظہار ہے۔ ساتھیوں کا کہنا تھا کہ اس سے سامراج کے خلاف جدوجہد میں عوام کی بھرپور حمایت کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔ ہم کسی بھی قسم کی سامراجی مداخلت کے خلاف اپنی حمایت دینے کا عزم کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ واضح کرتے ہیں کہ نئی فوجی جنتا ہماری حکومت نہیں ہے اور نہ ہی اس کے پاس سرمایہ داری سے تعلق توڑنے کا کوئی پروگرام ہے۔ حال ہی میں گیبون میں حکومت کا تختہ الٹے جانے نے اس جاری عمل کے براعظم گیر کردار کی تصدیق کی اور پہلے مالی اور برکینا فاسو میں اسی طرح کی فوجی بغاوتیں برپا ہو چکی ہیں۔

تیسرے دن کامریڈز نے بھوک کے خلاف مہم کو فروغ دینے اور باقی افریقہ تک پھیلانے کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا۔ اس مہم کو فی الوقت کینیا کے کامریڈز آگے بڑھا رہے ہیں۔ اسے زمین کی جدوجہد اور سماجی و ماحولیاتی تباہی کے خلاف لڑائی سے جوڑنا ہے۔ یہ تباہی انسانی آبادیوں اور ان کی معیشت کو تباہ کر رہی ہے۔

قراردادوں کی طرف بڑھنے سے پہلے کامریڈز نے افریقی خواتین کے مسائل اور آئی ایس ایل انٹرنیشنل ویمن اینڈ ایل جی بی ٹی کمیشن میں مختلف افریقی ممالک کے ساتھیوں کو شامل کرنے کی ضرورت کے بارے میں مفصل بحث کی تاکہ ان کے حقوق کے متعلق بیداری کی مہمات چلائی جا سکیں اور ان کے لیے لڑا جا سکے۔

کانگریس نے متفقہ طور پر ایک اعلامیے اور مختلف قرار دادوں کی منظوری دی جنہیں ہم ذیل میں نقل کر رہے ہیں۔ یہ کانگریس خوشی اور بھائی چارے کے ماحول میں اختتام پذیر ہوئی اور آخر میں براعظم افریقہ کا انقلابی گیت اور محنت کش طبقے کا بین الاقوامی ترانہ گایا گیا۔

یہ کانگریس افریقہ میں انقلابیوں کی تنظیم میں ایک نیا اور انتہائی اہم قدم ہے۔ اس پیشرفت کو مستحکم کرنے اور اسے براعظم افریقہ کے مزید ممالک تک پھیلانے کا چیلنج ہمارے سامنے ہے۔

آئی ایس ایل کی پہلی بین الافریقی کانگریس کا اعلامیہ

افریقہ دنیا کے امیر ترین براعظموں میں سے ایک ہے۔ پھر بھی غربت اور عدم مساوات کی انتہائیں یہاں موجود ہیں۔ نو آبادیاتی اور سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے ہماری زمینوں کی لوٹ مار اور ہمارے لوگوں کی نسل کشی پچھلی صدی میں حاصل ہونے والی رسمی آزادی کے ساتھ ختم نہیں ہوئی۔ ملٹی نیشنل کارپوریشنیں اور مٹھی بھر مقامی سرمایہ دار (گماشتہ اور کمیشن ایجنٹ بورژوازی) ہماری بہترین زمینوں کے مالک ہیں، ہمارے قد ر تی وسائل نکالتے ہیں، ہمارے محنت کش عوام کا استحصال کرتے ہیں اور ہمارے لوگوں کو غربت اور بھوک میں ڈبو دیتے ہیں۔ افریقی حکومتیں اس لوٹ مار میں شراکت دار ہیں۔ وہ ہمارے وسائل اور قوتِ محنت کی چوری میں سامراجیوں کی مددگار ہیں۔ وہ ایسی پالیسیاں نافذ کرتی ہیں جو اس چوری اور لوٹ مار میں سہولت فراہم کرتی ہیں۔ وہ ہمارے لوگوں کو مظلوم اور استحصال زدہ رکھنے کے لیے جبر کا استعمال کرتی ہیں۔

سامراجی ریاستیں اور ان کی بین الاقوامی تنظیمیں ہماری معیشتوں کو کنٹرول کرتی ہیں، فوجی بغاوتوں اور خانہ جنگیوں کی حوصلہ افزائی اور مدد کرتی ہیں اور یہاں تک کہ اپنی لوٹ مار کو یقینی بنانے کے لیے ہم پر براہ راست حملے اور قتل عام تک کرتی ہیں۔ جب بہت سے افریقی ان پالیسیوں کے ناقابل برداشت بوجھ سے تنگ آ کر ہجرت کے ذریعے یہاں سے نکلنے کا راستہ تلاش کرتے ہیں تو انہیں امتیازی سلوک، جبر اور تشدد کا سامنا ہوتا ہے۔ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی تلاش میں ہزاروں جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔

بیسویں صدی کے وسط میں نو آبادیاتی طاقتوں سے باضابطہ آزادی حاصل کرنے کے باوجود بہت سے افریقی ممالک کو مکمل خود مختیاری اور خود ارادیت کے حصول میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر نے چند دہائیاں قبل اپنی ”آزادی“ حاصل کی تھی اور وہ اب بھی اپنے سابق استعماری آقاؤں کے شکنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ کینیا، جنوبی افریقہ، زمبابوے اور دیگر ممالک نے مسلح جدوجہد کی جس میں بہت کم یا کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ زیادہ تر افریقی ریاستوں نے سودے بازی اور مصالحت کے ذریعے اپنی آزادی حاصل کی جس کے نتیجے میں یہ سب لوٹ مار جاری ہے۔

نئے نو آبادیاتی نظام کے ہتھیاروں اور مظہروں میں اقتصادی استحصال، سیاسی مداخلت اور ثقافتی تسلط پیش پیش ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں، جن میں سے اکثر سابق نو آبادیاتی ممالک سے تعلق رکھتی ہیں، افریقی معیشتوں پر زبردست غلبہ رکھتی ہیں۔ یہ قدرتی وسائل، منڈیوں اور قوت محنت کا استحصال کرتی ہیں اور معاشی انحصار پیدا کرتی ہیں۔ مزید برآں مقامی لیڈروں اور ان کی پالیسیوں کی پشت پناہی، کنٹرول یا ان پر اثر و رسوخ کے ذریعے بیرونی ممالک سیاسی تسلط برقرار رکھتے ہیں۔ اس طرح وہ افریقی ممالک کے قومی ارتقا کے راستے کا تعین کرتے ہیں۔

تمام سامراجیوں کے سامنے کھڑے ہوئے بغیر اس نو آبادیاتی ذلت کے خاتمے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ چاہے وہ فرانس، برطانیہ یا امریکہ جیسی پرانی مغربی طاقتیں ہوں یا روس، چین اور افریقہ سے تعلق رکھنے والی نئی طاقتیں ہوں۔ ہمیں تمام سامراجی آقاؤں کے تسلط کو ختم کرنے کے لیے لڑنا چاہیے۔ نہ کہ ایک سامراج کی جگہ دوسرے آقا کی بالادستی کی خاطر۔

سامراج اور نو آبادکاری کے خلاف جدوجہد کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے صحراوی ساتھیوں کے ساتھ ہمارے براعظم کی آخری کالونی مغربی صحارا کو یورپی سامراج کے ساتھی مراکش کی بادشاہت سے آزاد کرانے کی جدوجہد میں شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

اسی طرح ہم کچھ ایسی افریقی حکومتوں کے سازشی رویے کے خلاف ہیٹی کے بہادر عوام کے ساتھ یکجہتی میں کھڑے ہیں جو مغربی سامراج کے کھیل میں شامل ہو کر اس کی خدمت میں فوجی مداخلت کی پیشکش کرتی ہیں۔

ہم فرانسیسی سامراج کے خلاف نائیجر میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور اگر استعمار کی طرف سے حملے کی دھمکیاں سامنے آئیں تو ہم ان (نائیجر کے عوام) کا ہر طرح سے دفاع کریں گے۔ ساتھ ہی ہم واضح طور پر اس امر کا اعادہ کرتے ہیں کہ نئی حکومت ہماری حکومت نہیں ہے۔ نائیجر، پورے افریقہ اور دنیا بھر میں ہم نہ صرف سامراج کے خلاف لڑ رہے ہیں بلکہ سرمایہ داری کو شکست دینے اور جمہوری طور پر منتخب کونسلوں کے ذریعے محنت کشوں کی حکومت کے لیے بھی لڑ رہے ہیں۔

افریقہ کی آزادی کا واحد راستہ افریقی عوام کا اتحاد ہے۔ جنہیں سرمایہ دارانہ سامراج اور مقامی معاون بورژوا حکومتوں نے مصنوعی طور پر تقسیم کر رکھا ہے۔ اس وجہ سے ہم اپنی نسلی یا قومی شناخت سے نہیں بلکہ سماجی طبقے کی بنیاد پر متحد ہیں۔ افریقہ کے استحصال زدہ اور مظلوم مزدوروں اور کسانوں کا سامراج کے ساتھی امیر افریقیوں کے ساتھ کوئی مشترکہ مفاد نہیں ہے۔ ہم (ان استحصالی افریقیوں کی نسبت) باقی دنیا کے مزدوروں کے ساتھ زیادہ مشترک ہیں۔ سامراج کے مقامی سہولت کاروں کے ساتھ مل کر افریقہ کی آزادی حاصل نہیں ہو گی۔ یہ افریقی عوام کے طبقاتی خطوط پر اتحاد اور پوری دنیا کے محنت کشوں کی حمایت سے ہی حاصل کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایک سوشلسٹ دنیا کے ڈھانچے میں ایک متحد سوشلسٹ افریقہ کے لیے انقلابی بین الافریقیت کے تناظر میں استعمار مخالف، سامراج مخالف تحریک کی تعمیر کر رہے ہیں۔

ہماری تحریک طبقاتی ہے کیونکہ مزدور دنیا کی تمام دولت پیدا کرتے ہیں اور اس طرح پیداوار کو روکنے اور اسے اپنے جمہوری کنٹرول میں دوبارہ منظم کرنے کی صلاحیت اور سماجی قوت رکھتے ہیں۔ ہم انقلاب کے موضوعی عنصر کو بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یعنی ایسی سماجی قوت جو بنیادی تبدیلی کی جدوجہد میں دنیا کے تمام مظلوموں کی رہنمائی کرنے کے قابل ہو۔

ہماری تحریک بین الاقوامی ہے کیونکہ دنیا بھر کے محنت کشوں کے مفادات یکساں ہیں اور ہمیں ہر جگہ ایک جیسے ہی دشمنوں کا سامنا ہے جو ہمارا استحصال اور ہم پر ظلم کرتے ہیں۔ بورژوازی کے پاس ایسے ادارے موجود ہیں جو پوری دنیا میں اس کے مفادات کا دفاع کرتے ہیں۔ جیسے کہ مختلف سامراجی بلاک اور اقوام متحدہ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک۔ یوں پوری دنیا کے محنت کشوں کی متحد تحریک ہی سامراجی بورژوازی کا کامیابی سے مقابلہ کر سکتی ہے۔

ہماری تحریک سرمایہ داری مخالف ہے کیونکہ اس زوال پذیر، بحران زدہ سرمایہ داری کے پاس انسانیت کو استحصال، جبر، بھوک، جنگ اور ماحولیاتی تباہی کے سوا دینے کو کچھ نہیں بچا۔ یہ نظام اپنے بحران اور جمود پر قابو پانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ محنت کشوں کے طبقاتی، سماجی اور جمہوری حقوق پر حملہ کرتا ہے۔ خونی آمریتیں مسلط کرتا ہے۔ نسلی اور مذہبی قتل عام اور مسلح مداخلتوں کو ہوا دیتا ہے اور اپنے منافعوں کو یقینی بنانے کے لیے کرہ ارض کی تباہی کو شدید تر کرتا چلا جاتا ہے۔ اس نظام کے تحت کوئی حقیقی جمہوریت نہیں ہو سکتی ہے۔ محنت کش طبقے اور اس کے اپنے اداروں سے ہی جمہوریت ممکن ہو گی۔ اس لیے ہم اس نظام کی تباہی اور عالمی سوشلزم کی تعمیر کے لیے لڑ رہے ہیں۔

ہماری تحریک انقلابی ہے کیونکہ سرمایہ داری کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ ہراول محنت کش طبقے اور انقلابی قیادت کے ساتھ متحرک عوام ہی اس کا تختہ الٹ سکتے ہیں۔ پوری دنیا میں عوام بار بار بغاوت اور انقلاب کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ لیکن ہر بار اصلاح پسند لیڈرا ور ایسی پارٹیوں کی بیوروکریسی ان کے راستے کی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ یہی وجہ سے انسانیت کا تاریخی بحران انقلابی قیادت کے بحران میں سمٹ چکا ہے۔

آج انقلابی سوشلسٹوں کا مرکزی کام سرمایہ دارانہ حکومتوں کو شکست دینے، بورژوا نظام کے خاتمے کی جدوجہد کرنے اور دنیا بھر میں محنت کشوں کی حکومتوں اور سوشلزم کے قیام کے لیے بڑے پیمانے پر اثر و رسوخ والی انقلابی پارٹیاں اور انٹر نیشنل تعمیر کرناہے۔

ہماری لڑائی تمام بڑے سرمائے کی ضبطی کے لیے ہے‘چاہے وہ غیر ملکی ہو یا مقامی۔ ہماری لڑائی زمین کو اس پر محنت کرنے والے لوگوں میں تقسیم کرنے اور جدید تکنیک کے ساتھ اجتماعی زراعت کو فروغ دینے کے لیے ہے۔ ہماری لڑائی تمام مظلوم قومیتوں کے حق خود ارادیت کے لیے ہے۔ ہماری لڑائی پیداوار اور تجارت پر مزدوروں کے جمہوری کنٹرول کے لیے ہے۔ ہماری لڑائی چند لوگوں کے منافعوں کے بجائے سب کی ضروریات اور فائدے کے لیے وسائل کی منصوبہ بند تقسیم کے لیے ہے۔ ہماری لڑائی معاشرے کے ہر فرد کے حق کے طور پر معقول روزگار، خوراک، صحت کی سہولیات، تعلیم اور رہائش کے حصول کے لیے ہے۔ ہماری لڑائی افریقہ اور دنیا کے دیگر حصوں میں قائم تمام سامراجی فوجی اڈوں کے خاتمے کے لیے ہے۔ ہماری لڑائی خواتین کے مساوی حقوق اور ہر قسم کے جنسی تشدد اور امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے ہے۔ ہماری لڑائی تمام غیر ملکی سرمایہ کاری کی مکمل شفافیت اور اسے محنت کشوں کی جمہوری حکومت کی اجازت اور نگرانی کے ساتھ مشروط کرنے کے لیے ہے۔ ہماری لڑائی محنت کش عوام کے لیے تمام ویزا اور سفری پابندیوں کے خاتمے کے لیے ہے۔ ہم طبقاتی اور قومی استحصال، جبر، بے روزگاری اور محرومی سے پاک دنیا کے علمبردار ہیں۔

یہ ہمارے تاریخی مقاصد اور تذویراتی فرائض ہیں۔ ماضی کے تمام افسرشاہانہ اور تسلط پر مبنی تجربات کے برعکس ہم تمام بورژوا قوتوں سے مکمل سیاسی آزادی کے ساتھ مذکورہ بالا سیاسی، نظریاتی اور عملی اصولوں کی بنیاد پر متحد ہیں۔ لیکن طبقاتی جدوجہد کے حقیقی عمل سے جڑنے کے لیے لچک دار حکمت عملی کے ساتھ اور برادرانہ بحث و مباحثے اور مشترک عمل کے ماحول میں۔ ہم عالمی طبقاتی جدوجہد میں ٹھوس مداخلت، بین الاقوامی مہمات اور جدوجہد کے اوزاروں کی تعمیر میں باہمی تعاون کے لیے ایک بین الاقوامی تنظیم بنا رہے ہیں۔ ہم ایسا ایک صحت مند جمہوری مرکزیت کے طریقہ کار کے ساتھ کر رہے ہیں تاکہ تمام معاملات کو سب کے درمیان بات چیت سے حل کیا جا سکے اور طبقاتی جدوجہد میں ایک مٹھی بن کے متحرک ہوا جائے۔

یہ وہ نصب العین ہے جس کے حصول کی جدوجہد انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ کر رہی ہے۔ ہم پانچ براعظموں میں درجنوں تنظیموں اور ہزاروں انقلابی سیاسی کارکنوں کو اکٹھا کر کے قومی، نسلی یا شناختی تقسیم سے بالا تر ہو کر دنیا بھر کے انقلابیوں کو متحد کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ تا کہ محنت کش طبقے کو عالمی سوشلزم کی جدوجہد میں انقلابی قیادت فراہم کی جا سکے۔ انقلابی سوشلسٹ لیگ ان اصولوں کو مجسم کرتی ہے اور اس نے اس کانگریس کی میزبانی کی ہے۔

یہ وہ نصب العین ہے جسے یہ کانگریس افریقہ بھر میں پھیلانا چاہتی ہے۔ ہم ان تنظیموں اور افراد سے اپیل کرتے ہیں جو افریقہ کے اس نئے انقلابی ڈھانچے کی تعمیر میں شامل ہونا چاہتے ہیں کہ وہ مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کریں اور سوشلسٹ مستقبل کے لیے لڑیں۔ یہ پورے افریقی براعظم میں آئی ایس ایل کی تعمیر اور توسیع کا ایک اہم موقع ہے۔

تمام افریقہ کے طبقاتی بھائیو اور بہنو ایک ہو جاؤ! ہمارے پاس کھونے کو صرف زنجیریں ہیں اور جیتنے کو ایک براعظم اور ایک دنیا ہے!

متحد افریقہ، آزاد افریقہ، سوشلسٹ افریقہ

نیروبی۔ 30 اگست 2023ء

آئی ایس ایل کی پہلی بین الافریقی کانگریس: نائیجر پر قرارداد

نائیجر میں 26 جولائی کو ایک فوجی بغاوت کے ذریعے صدر بازوم کو معزول کر دیا گیا اور جنرل عبدالرحمان تیانی کو ملک کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ بازوم اپنی انتظامیہ کی بدعنوانی، غربت سے نمٹنے میں ناکامی، مظاہروں اور مخالفوں پر ظالمانہ جبر اور فرانسیسی اور امریکی سامراج کی کاسہ لیسی کی وجہ سے انتہائی غیر مقبول ہو گیا تھا۔

مالی اور برکینا فاسو میں بے دخلی کے بعد فرانس اور امریکہ کا نائیجر میں اپنے فوجی اڈوں پر انحصار مزید بڑھ چکا تھا۔ ان میں شمالی صوبے اغادیز میں ایک بڑے ڈرون اسٹیشن اور 2600 فوجی اہلکاروں کی موجودگی کا مقصد دنیا کے سب سے بڑے یورینیم کے ذخائر میں سے ایک پر اپنے کنٹرول کا دفاع کرنا تھا۔

مغربی طاقتیں اور ان کے مقامی اتحادی‘خاص طور پر نائیجیریا میں صدر ٹینوبو کی حکومت جو ایکواس (ECOWAS) اتحاد کی قیادت کرتی ہے‘ اس بات پر فکر مند ہیں کہ اگر وہ نائیجر میں نئی فوجی جنتا کا خاتمہ نہیں کرتے تو دوسرے ممالک بھی اس کی پیروی کر سکتے ہیں۔

سوشلسٹوں کے پاس مالی، برکینا فاسو، نائیجر اور ممکنہ طور پر گیبون کی نئی فوجی جنتاؤں کی تعریف کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ یہ نہ تو ترقی پسند ہیں اور نہ ہی سوشلسٹ حکومتیں ہیں۔ عام طور پر ان میں وہ فوجی اہلکار شامل ہیں جنہوں نے حالیہ برسوں میں فرانس اور امریکہ کی طرف سے شروع کی گئی ”انسداد دہشت گردی“ کارروائیوں میں حصہ لیا ہے۔

جنتا کے رہنماؤں کے پاس مزدوروں اور غریب کسانوں کے کنٹرول میں سماج کے قیام، غیر ملکی فرموں کو ضبط کرنے اور سامراج سے تعلق توڑنے کا کوئی سوشلسٹ ایجنڈا موجود نہیں ہے۔ وہ روس اور چین جیسی دیگر سامراجی قوتوں کے ساتھ شراکت داری کی خواہاں ایک سرمایہ دارانہ حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔

ہم نے یہ مالی میں دیکھا جب فوجی جنتا نے بنیادی طور پر فرانسیسی افواج کی جگہ (روسی) ویگنر کے کرائے کے فوجیوں کو رکھ لیا۔ حالیہ روس افریقہ سربراہی اجلاس میں برکینا فاسو کے حکمران کیپٹن ابراہیم ٹراورے نے پوٹن اور روسی سامراج کے لیے برکینا فاسو کی بھرپور حمایت کا اظہار کیا ہے۔

تاہم، گیبون، نائیجر، مالی اور برکینا فاسو میں حالیہ فوجی بغاوتیں مغربی افریقہ میں پنپتی ہوئی ایک حقیقی سامراج مخالف عوامی تحریک کا اظہار ہیں۔ جس سے مغربی سامراج کے مفادات کو حقیقی خطرہ محسوس ہو رہا ہے اور وہ اس کیخلاف رد عمل دے رہے ہیں۔

ایکواس نے یورپی یونین اور امریکہ کے ساتھ مل کر نائیجر پر پابندیاں عائد کر دی ہیں اور ملک کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔

ہم ایکواس، یورپی یونین اور امریکی سامراج کی پابندیوں اور فوجی دھمکیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ پابندیاں فوری طور پر ہٹائی جائیں۔

ایکواس کی فوجی مداخلت کی صورت میں (جس کی براہ راست یا بالواسطہ مغربی طاقتیں پشت پناہی کر رہی ہوں گی) ہم نائیجر کے مسلح دفاع اور سامراج نواز حملہ آوروں کی شکست کا مطالبہ کریں گے۔ ہم نائیجر کے عوام کے حق خود ارادیت کے دفاع میں یکجہتی کی بین الاقوامی مہم چلائیں گے اور اس کی قیادت کریں گے۔

لہٰذا ہم حقیقی سوشلسٹوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ نائیجر میں مغربی سامراج کے خلاف لڑنے میں ہمارا ساتھ دیں۔ لیکن نائیجر کی حکومت اور ان سامراجی طاقتوں سے مکمل طور غیر متعلق ہو کر جو مغربی افریقہ میں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانا چاہتی ہیں۔ سوشلسٹوں کو تمام سامراجی طاقتوں کو مسترد کرنا چاہیے خواہ وہ مشرق سے ہوں یا مغرب سے۔ ہمیں تمام سامراجی اور سرمایہ دارانہ استحصال سے نجات حاصل کرنے اور ایک سوشلسٹ معاشرے کی تعمیر کے لیے ملکی اور عالمی سطح پر ایک انقلابی پارٹی تعمیر کرنی چاہیے۔ یہی آزادی کا واحد راستہ ہے۔

آئی ایس ایل کی پہلی بین الافریقی کانگریس: ہیٹی پر قرارداد

ہیٹی پر مختلف ممالک، جن میں کچھ افریقی ممالک بھی شامل ہیں، کے فوجیوں کے استعمال کے بھیس میں سامراجی حملے اور قبضے کے خطرات کے خلاف آئی ایس ایل بین الافریقی کانگریس ہیٹی کے لوگوں کے ساتھ اپنی یکجہتی اور کسی بھی حملے یا مداخلت کو مسترد کرنے کا اعلان کرتی ہے۔

ہم ہیٹی کے عوام کے حق خود ارادیت کا دفاع کرتے ہیں۔ ہم ان کی خود مختیاری کی کسی بھی خلاف ورزی کو مسترد کرتے ہیں اور ہم ان کی سرزمین پر سامراجی مداخلت کی کوشش کے خلاف بین الاقوامی سطح پر لڑیں گے۔

آئی ایس ایل کی پہلی بین الافریقی کانگریس: خواتین پر قرارداد

افریقہ میں خواتین کے حالات انتہائی برے اور پیچیدہ ہیں۔ کچھ وحشیانہ مسائل جن پر دنیا کے دوسرے حصوں نے قابو پالیا ہے‘ اب بھی افریقہ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ ان مسائل پر جامع بحث کی جائے اور افریقہ میں خواتین کو متاثر کرنے والے مسائل کے حل تلاش کیے جائیں۔

ان میں سے چند مسائل درج ذیل ہیں:

٭ خواتین کے خلاف تشدد
٭ بچپن کی شادی
٭ مغربی صحارا، نائیجر اور دیگر جنگ زدہ علاقوں میں خواتین پر جنگ کے اثرات
٭ خواتین کے جنسی اعضا کو قطع کرنے کا رواج
٭ غربت
٭ تعلیم میں تفریق
٭ روزگار میں تفریق
٭ صحت، رہائش، خوراک اور بنیادی سماجی سہولیات تک رسائی کا فقدان
٭ سیاسی قیادت میں کم نمائندگی اور شرکت کا فقدان
٭ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک

ہم ایسے وقت میں ہیں جب فسطائی رجحانات بڑھ رہے ہیں۔ جب دہشت گرد کسی پراکسی کو مزید استعمال نہیں کر سکتے تو وہ خود سیاسی اقتدار حاصل کر رہے ہیں۔ جب یہ واضح ہے کہ ہم زندگی کی بقا کے لیے ضروری ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچانا جاری نہیں رکھ سکتے۔ لیکن کچھ افراد پھر بھی ناقابل واپسی اثرات کے بارے میں سوچے بغیر کرہ ارض کو آگ میں جھونک رہے ہیں۔ جس سے تمام جانداروں کی ممکنہ معدومیت کا خطرہ ایک حقیقت بن چکا ہے۔ جب محنت کش خواتین کا عالمی دن ایسی عورتوں کی تعظیم کے لیے ہائی جیک کیا جا چکا ہے جو جنگیں چھیڑتی اور بم گراتی ہیں۔ جب کہ ان کی ساتھی خواتین اور بچے ان کا نشانہ بنتے ہیں۔ جب محنت کش طبقے کے مرد ایسی جنگوں کا ایندھن بنائے جا رہے ہیں جن کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے۔

پہلا قدم یہ ہو گا کہ ہم مہم چلائیں اور معلوماتی پروگرام منعقد کریں جہاں ہم ان تمام مسائل کو اجاگر کریں۔ ہمیں اپنی خواتین میں بیداری پیدا کرنے اور دنیا کو سامراج کے مضمرات اور عورتوں کی آزادی، استحکام اور ترقی پر اس کے منفی اثرات کو دکھانے کے لیے تمام ضروری طریقہ ہائے کار استعمال کرنے چاہیں۔ ہم اس بات پر زور دینا چاہتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ معاشرے نے خواتین کی تعلیم اور شعور کو محدود کرنے میں کردار ادا کیا ہے جس سے خواتین کے لیے اپنے حقوق اور ذہنی آسودگی کے لیے لڑنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس لیے ہم بین الافریقی انقلابی تحریکوں سے تمام خواتین کو ذہنی، جسمانی اور معاشی بہبود کی جنگ میں باشعور بنانے کے لیے مسلسل مہم چلانے کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ ہم برابری حاصل کر سکیں۔

ہم آئی ایس ایل جینڈر کمیشن اور مختلف انقلابی تحریکوں میں خواتین کے کمیشنوں سے مطالبہ کرنا چاہتے ہیں کہ افریقہ اور پوری دنیا میں خواتین کی آزادی کی لڑائی کی قیادت کریں۔ اس کے حصول کے لیے گراس روٹ موبلائزیشن اور اجتماعی عمل ضروری ہے۔

ہم ان تمام رسومات اور رواجوں کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں جو خواتین کی آزادی اور اس آزادی سے لطف اندوز ہونے میں رکاوٹ ہیں۔

خواتین زندہ باد!

آئی ایس ایل جینڈر کمیشن زندہ باد!