غفران احد

ہندوستان اپنی قدرتی آب و ہوا، جغرافیے اور قدرتی وسائل کی وجہ سے تاریخ میں سونے کی چڑیا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مختلف ادوار میں مختلف حملہ آوروں نے اس سونے کی چڑیا پر قبضہ کرنے کے لئے کئی حملے کیے۔ یورپی سامراجوں نے سمندر کا راستہ جبکہ شمال کے جانب سے حملہ آوروں نے زمینی راستہ استعمال کیا۔ افغانستان اور پختونخوا کے درمیان درہ خیبر کو صدیوں سے ہندوستان پر غلبے کے لئے بطور گیٹ وے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اس غلبے کوقائم و دائم رکھنے اور کسی دوسری ممکنہ یلغارسے بچاؤ کے لیے ہندوستان پر قابض قوتوں نے افغانستان پر ہمیشہ خصوصی نظر رکھی۔ ہر دور میں اقتدار کی ہوس میں بدمست ان مقامی و سامراجی حکمرانوں کی باہمی چپقلشیں افغانستان اور پختونخوا کو روندتی چلی آ رہی ہیں جنہوں نے اپنے مفادات اور مذموم مقاصد کے لئے اس خطے کے تہذیب و تمدن کو تاراج کیا ہے۔

برطانوی سامراج نے پہلی اینگلو افغان جنگ (1839-1842ء) میں زار روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لئے افغانستان پر حملہ کیا۔ افغان حکمران دوست محمد خان کو شکست ہوئی اور برطانوی سامراج نے احمد شاہ ابدالی کے پوتے شاہ شجاع کو تخت کابل پر بٹھایا۔ دوسری اینگلو افغان جنگ (1878-1882ء) میں برطانوی وزیراعظم بنجمن ڈیزریلی نے ہندوستان کے لئے نئے وائسرائے لارڈ لٹن کا تقرر کیا اور اس کو ہندوستان بھیجنے سے پہلے زار روس کے افغانستان میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر کڑی نظر رکھنے کی ہدایت کی۔ ہندوستان آکر لارڈ لٹن نے افغانستان کے حوالے سے خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے لارڈ نیویلے چیمبرلین کی قیادت میں ایک خصوصی وفد افغانستان بھیجا اور اسی دوران زار روس کی جانب سے بھی ایک خصوصی مشن کو جس کی قیادت جرنل سٹیویٹوف کر رہے تھے افغانستان روانہ کیا گیا۔ امیر افغانستان شیر علی خان نے برطانوی مشن کو افغانستان کی سرحد سے ہی واپس بھیج دیا جبکہ زار روس کے وفد کو کابل آنے کی اجازت دے دی۔ جس کی وجہ سے وائسرائے ہند لارڈ لٹن آگ بگولہ ہوا اور افغانستان کو ”دو دھاتی برتنوں کے درمیان مٹی کابرتن“(An earthen pipkin between two metals pots) قرار دیتے ہوئے سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ شکست دینے کے بعد برطانوی سامراج نے امیر شیر علی خان کومعاہدہ گندامک پر مجبور کیا اور امیر افغانستان نے برطانوی سامراج کے کابل میں سفارت خانہ کھولنے اور قریبی ہمسایہ ممالک سے برطانوی حکومت کی پیشگی رضامندی سے تعلقات استوار کرنے کے تحریری معاہدے پر دستخط کیے۔ برطانیہ نے موجودہ افغانستان کی روس اور برٹش انڈیا کے ساتھ سرحدات متعین کیں اور بعدا زاں چترال سے لے کر سپین بولدک بلوچستان تک تقریباً 2400 کلومیٹر سرحد متعین کی گئی جس کو ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے۔

پہلی عالمی جنگ (1914-18ء) کے دوران امیرافغانستان حبیب اللہ نے غیر جانب دار انہ پالیسی پر عمل پیرا ہوکر نسبتاً آزادی بر قرار کھی۔ اس کے قتل کے بعد اس کا بیٹا امان اللہ خان تخت نشین ہوا تو رسم تاج پوشی کے خطاب میں اپنی کلی خود مختاری کا اعلان کیا جو برطانوی سامراج کو ناگوار گزرا اور افغانستان پر تیسری جنگ مسلط کی گئی۔ آخر کار افغان حکمران اور برطانوی سامراج کے مابین 8 اگست 1919ء کو راولپنڈی میں معاہدہ طے ہوا اور ڈیورنڈ لائن کو باقاعدہ تسلیم کیا گیا۔

اپریل 1978ء میں افغانستان میں ثور انقلاب کے بعد پہلے امریکی سی آئی اے نے جہادیوں کو پروان چڑھانے اور مسلط کرنے کا آغاز کیا۔ پھر دسمبر 1979ء میں سوویت فوجیں دریا آمو کو پار کر کے افغانستان میں داخل ہوئیں اور اس خطہ میں دو عالمی طاقتوں کے درمیان افغانستان اور ڈیورنڈ لائن کے ساتھ ملحقہ علاقے میدان جنگ بنے۔ اور دو نو ں عالمی طاقتوں کے درمیان اس جنگ کی تپش اور بربادی افغانستان اور پختونخوا کے پہاڑوں، کھیت کھلیانوں، دیہاتوں اور شہروں میں بنیاد پرستی، کالے دھن، جہادی گروہوں، بارود اور انسانی لوتھڑوں کی صورت پھیل گئی۔

سوویت فوجوں کے افغانستان میں داخل ہونے سے قبل اس وقت کی سوویت کمیونسٹ پارٹی کے پولٹ بیورو میں کافی مشاورت کی گئی تھی اور پاکستان میں بھی دوستوں سے مشاورت کی گئی تھی۔ بقول ایک معتمد ساتھی کے میر غوث بخش بزنجو صاحب کو بھی پولٹ بیورو میں طلب کر کے اس حوالے سے رائے لی گئی تو میر صاحب نے افغانستان میں فوج کشی کو خودکشی کے مترادف قرار دیا۔ مزید برآں انہوں نے واضح کیا کہ فوج کشی کی صورت میں ڈیورنڈ لائن سے لے کر دریائے سندھ (اٹک) تک کا علاقہ سوویت روس کے خلاف بطور لانچنگ پیڈ استعمال کیا جائے گا۔ اس پیش بینی کے عین مطابق یہ علاقہ بعد ازاں پیٹرو ڈالر جہاد کے لئے جہادی سرگرمیوں، ٹریننگ کیمپوں، لاجسٹک سپورٹ اور جہادی پروپیگنڈا میں بھر پور استعمال ہوا۔ وزیرستان سے لے کر دیر باجوڑ تک ڈیورنڈ لائن کے آر پار کا علاقہ جہادی سرگرمیوں کا مرکز رہا۔ امریکی سامراج نے اپنے خلیجی اتحادیوں کیساتھ مل کے مقامی ریاست کے ذریعے بیش بہا ڈالر پھینکے۔ گاؤں گاؤں مدرسے وجود میں آگئے جہاں جہادی لٹریچر تقسیم ہوتا رہا۔ جہاد کے لئے ریکروٹمنٹ ہوتی رہی۔ جس کے لئے جدید ذرائع ابلاغ استعمال کیے گئے۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد اور ان کے دیگررفقا کی مشترکہ پروڈکشن ”بارود کا تحفہ“ نامی فلم اور امریکی میڈیا و ہالی ووڈ کے بیشتر پراجیکٹ اس سلسلے کی کڑیاں ہے جس میں اس نام نہاد جہاد کے لئے دنیا بھر میں لوگوں کی ذہن سازی کی گئی۔ جنگی جنون اور خونریزی پر مبنی باقاعدہ درسی کتابیں چھپوا کر مدرسوں اور افغان پناہ گزین کیمپوں میں بچوں کو پڑھائی گئیں۔

افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا کے کچھ سال بعد ڈاکٹر نجیب کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ کابل ایک بار پھر مجاہدین کے مابین میدان جنگ اور کھنڈر بن گیا۔ متحارب مجاہدین گروہوں کے مابین پاکستان سمیت سامراجی ریاستیں کئی بار صلح کرواتی رہیں۔ حتیٰ کہ ایک بار تو حرم پاک میں باقاعدہ مجاہدین قیادت کے مابین صلح کرائی گئی۔ لیکن جب ان کے آپسی جھگڑے ختم نہیں ہوئے اور ان میں بہت سے گروہ دوسری سامراجی ریاستوں کے ایما پر کنٹرول سے باہر ہونے لگے تو پاکستانی ریاست نے بھی ان کو وائسرائے ہند لارڈ لٹن کی طرح سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ کابل میں بر سر اقتدار مجاہدین کو اس وقت دھچکا لگا جب درہ سالانگ میں فوجی کانوائے پر مدرسوں کے طالب علم (”طالبان“) حملہ آور ہوئے اور کانوائے کو لوٹ کرقندھار اور کابل پر چڑھائی شروع کی۔ پاکستان کے ریٹائرڈ جرنل نصیراللہ بابر، جو بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں وفاقی وزیر داخلہ تھے، اعتراف کرتے ہیں کہ طالبان اس کے بچے ہیں اور مجاہدین کو راہ راست پر لانے کے لئے طالبان کو میدان میں لے کر آئے ہیں۔ اسی طرح ابتدائی سالوں میں طالبان کو امریکہ کی درپردہ سپورٹ بھی حاصل تھی۔

طالبان کا ظہور بھی اچانک نہیں ہواہے۔ دارالعلوم اکوڑہ خٹک نوشہرہ، جو مولاناسمیع الحق کے نگرانی میں تھا، اور دارالعلوم پنج پیر صوابی، جو آپریشن مڈ نائٹ جیکل کے اہم کردار میجر عامر کے بڑے بھائی مولانا طیب کی زیر نگرانی ہے، کی شکل میں کئی دہائیوں سے اس پراجیکٹ پر کام جاری تھا۔ اس خطے میں بنیاد پرستی، مذہبی انتہا پسندی اوردہشت گردی کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی جس میں امریکی سامراج پوری طرح ملوث تھا۔ ان دونوں مدرسوں سے فارغ طالبعلموں میں سے ہر ایک نے وزیرستان سے لے کر دیر، باجوڑ اور سوات تک اپنے مدرسے کھول رکھے ہیں۔ جو جہاد ی سرگرمیوں کے لئے ابتدائی مرحلے میں بطور نرسری کا کردار ادا کرتے آئے ہیں۔

بہرحال 9/11 کے واقعات کے بعد امریکی سامراج کے حملے سے افغانستان میں طالبان حکومت کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی براہ راست افغانستان اور دنیا بھر پر ایک نئی سامراجی جنگ ”وار آن ٹیرر“ مسلط کرتے ہیں۔ تاریخ کے پنوں میں یہاں سے افغانستا ن میں سامراجی بربریت کے نئے باب کا آغاز ہوتا ہے۔

پاکستانی ریاست نے افغانستان کے حوالے سے اپنی ”سٹریٹیجک ڈیپتھ“ (تذویراتی گہرائی) کی پالیسی کو کئی دہائیوں تک ریاست کے طاقتور اداروں کی مرضی و منشا کے مطابق سامراجی مفادات کے اردگرد تشکیل دے کر جہادی گروہوں کو بطور پراکسی استعمال کرنے کی حکمت عملی اپنائی تھی۔ ڈیپ سٹیٹ کے داخلی تضادات نے بھی ان پراکسیوں کو موقع فراہم کیا تھا کہ وہ اس خطے میں اپنی جہادی سرگرمیوں کے لئے کالے دھن کی معاشی بنیادیں تلاش کرکے مستحکم ہوں۔ یہ کالا دھن اب سٹریٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی کا ایک اہم عنصر ہے۔ اچھے اور برے طالبان کی تقسیم بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس کالے دھن نے ریاست کے اندر کافی حد تک سرایت کی جس کے تباہ کن اثرات آج پورے پاکستان میں بالعموم اور سابقہ قبائلی علاقوں میں بالخصوص نظر آ رہے ہیں۔ بولنے اور لکھنے کی برائے نام جمہوری آزادیوں کی گنجائش بھی مسلسل سکڑ رہی ہے جس کا ایک اظہار مسلسل بڑھتی ہوئی گمشدگیاں ہیں جو اعلیٰ عدلیہ اور آئین و قانون کامنہ چڑا رہی ہیں۔ لیکن یہ بڑھتا ہوا جبر ریاست کی طاقت سے زیادہ اس کی بوکھلاہٹ اور بحران کی غمازی کرتا ہے۔ اس تناظر میں چند سال قبل ”پشتون تحفظ موومنٹ“ کے ابھار نے ثابت کیا ہے کہ جبر جتنا بھی زیادہ ہو اس کا ایک انت ہوتا ہے اور ہر عمل کا ردِ عمل آ کے رہتا ہے۔ قومی کردار کی حامل ہونے کے باوجود یہ تحریک بالکل جائز مطالبات اور دہشت گردی اور فوجی آپریشنوں سے بدحال قبائلی علاقہ جات کے عوام کے سلگتے ہوئے مسائل کے حل کی سعی پر مبنی تھی اور کم از کم اپنی شروعات اور اٹھان کے وقتوں میں کوئی تنگ نظر، قوم پرستانہ یا متعصبانہ تحریک نہیں تھی۔ اگر چہ بالائی پرتوں میں ایسے رجعتی عناصر اور رجحانات موجود تھے جنہوں نے دوسری قو میتوں کے خلاف زہریلی لفاظی سے تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور ایسے ہی رجعتی اور تنگ نظر عناصر اس وقت اس تحریک کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں کے درمیان پولرائزیشن کی ایک وجہ ایسے رجحانات بھی ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے قائدین نے ابتد ہی سے اس تحریک کی مخالفت کی تھی لیکن پارٹی کے بہت سے سچے کارکنان نے قیادت کی ہدایات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس تحریک کے جلسوں اور مظاہروں میں نہ صرف شمولیت کی بلکہ کئی مواقع پر کلیدی کرداربھی ادا کیا۔ پختونخوا کا قومی سوال ماضی میں کبھی بھی بلوچستان کے قومی سوال کی طرح ریڈیکل یا شارپ نہیں رہا ہے۔ تاہم یہ بلوچستان یا کشمیر سے کہیں زیادہ پیچیدہ ضرور ہے۔ پختون قوم پرست جماعتوں نے ماضی میں کئی بار پاکستان کی روایتی حکمران طبقے کی پارٹی مسلم لیگ سے اتحاد کیا اور قومی سوال، قومی زبان اور ڈیورنڈ لائن پر سودے بازی کی۔ عوامی نیشنل پارٹی نے کبھی بھی قومی خودمختاری کا نعرہ نہیں لگایا بلکہ ان کا مطالبہ صوبائی خودمختاری تک ہی محدود رہا۔ صوبائی خودمختاری کا مطالبہ 1973ء کے آئین میں اندراج کے بعد اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں ایک بار پھر کم از کم رسمی طور پر تسلیم کیا گیا۔ 1973ء کے متفقہ آ ئین کی منظوری میں اس وقت کے اپوزیشن لیڈر خان عبدالولی خان کی منظوری شامل تھی۔ اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے اور آج کے خیبر پختونخوا میں سوات سے لے کر چترال تک کے قبائلی علاقہ جات شامل نہیں تھے اور 1973ء کے آئین میں قبائلی علاقہ جات کو وائسرائے ہند لارڈ لٹن کے بقول ”دو دھاتی برتنوں کے درمیان مٹی کے برتن“ کے طور پر برقرار رکھ کر بفر زون قائم کیا گیا۔ پختون قوم پرستوں کے درمیان پختونخوا وطن کے جغرافیائی حدودات کے بارے میں بھی بڑا ابہام موجود ہے۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے موقف کے مطابق بولان سے چترال تک پختونخوا وطن ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی ایک طرف لر اور بر افغان کا نعرہ لگاتی ہے اور دوسری طرف ان کی نظر میں صوبائی خودمختاری کی شکل میں ڈی آئی خان سے لے سوات تک ہی پختون وطن ہے۔ بعض قوم پرست گریٹر افغانستان کی بات کرتے ہیں اور بعض پاکستان کے اندر گریٹر پختونستان کی بات کرتے ہیں۔ بہر حال موجودہ وقت میں تمام قوم پرست پارٹیاں اور گروہ 1973ء کے آئین کی حدود و قیود سے باہر نہیں نکلتے اور آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ قوم پرست قیادتوں کے پاس کوئی انقلابی نظریہ نہیں ہے اور محض وہ اصلاحات کے ایجنڈے تک محدود ہیں۔ ان کا معاشی پروگرام سرمایہ داری پر ہی مبنی ہے جس سے ان کی نظریاتی متروکیت کا پتا چلتا ہے۔ باوجود اس کے کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اصلاحات کی کوئی خاص گنجائش باقی نہیں بچی۔ شاید انہیں ادراک نہیں کہ سکاٹ لینڈ سے لے کر کاتالونیا اور کردستان سے لے کر فلسطین تک کے قومی مسائل سرمایہ داری کے اندر دہائیاں اور صدیاں گزرنے کے باوجود حل نہیں ہوئے ہیں۔ ایسے میں 18 اگست 2023ء کو اسلام آباد میں پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے منظور پشتین نے ایک متذبذب، غیر واضح اور کسی حد تک مہم جوآنہ پوزیشن لی کہ اگر 1973ء کے آئین کے تحت ہمیں حقوق نہیں دئیے گئے تو اگلی بار ہم آزادی کے لئے نکلیں گے۔ یہ پوزیشن کسی ٹھوس حکمت عملی اور پروگرام پر مبنی معلوم نہیں ہوتی ہے۔ پی ٹی ایم کے قائد نے اس سے ہٹ کر بھی ایسے جملے بولے جو نہ صرف اس مرحلہ پر ناگزیر نہیں تھے بلکہ ریاست کو غیر ضروری طور پر مشتعل کرنے اور جبر کا جواز فراہم کرنے کے مترادف تھے۔ پاکستانی سول سوسائٹی کی ایک ابھرتی ہوئی لبرل سٹار نے بھی اس جلسے کو اپنی لانچنگ کے لئے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہ جملے اور نعرے نہ صرف زماں و مکاں سے ماورا تھے بلکہ ریاستی اداروں کے اندر موجود طبقاتی تقسیم کو بھی یکسر مسترد کر کے تحریک کو آگے بڑھانے کی بجائے الٹا نقصان پہنچانے کا موجب بنتے رہے ہیں۔ عام طور پر جوش خطابت میں جو ایسی لفاظی کی جاتی ہے اس کا خمیازہ پھر محکوموں اور مظلوموں کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ ایسے سول سوسائٹی کے خواتین و حضرات کے گرد ریاستی گھیرا کبھی تنگ بھی ہوتا ہے تو انہیں چند روز کی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد نکال دیا جاتا ہے۔ پیچھے پھر علی وزیر جیسے قائدین اور کارکنان ہی بچتے ہیں جنہیں اس ”جمہوریت“ میں بات کرنے پر بھی تشدد اور طویل قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔

پی ٹی ایم کی قیادت کی جانب سے نظریاتی و سیاسی تذبذب کی روش کوئی نئی نہیں ہے۔ ماضی میں قیادت کے ایک حصے کی جانب سے اتنی جاندار، وسیع اور ریڈیکل تحریک کو ”غیرسیاسی“ قرار دے کر پارلیمانی جدوجہد کو ہی یکسر مسترد کیا جاتا رہا ہے اور یوں ایک پرانی قوم پرست جماعت کے لئے انتخابی میدان خالی چھوڑنے کی کوشش کی گئی۔ تحریک کے طریقہ کار پر یہ تقسیم اور کنفیوژن اب تک موجود ہے۔ ایسے میں تحریک کے ایک رہنما کی جانب سے ایک لبرل طرز کی پارٹی تشکیل دے کر مصالحت اور مفاہمت کی کم و بیش وہی روش اختیار کی گئی ہے جس پر اے این پی گامزن ہے۔ جبکہ مرکزی رہنما ”غیر سیاسی“ تحریک کو بالکل متضاد سمت میں دوسری انتہا تک لے جاتا دکھائی دیتا ہے۔ ایسے انتہائی عوامل کے سنجیدہ اثرات پھر پوری تحریکوں کو بھگتنے پڑتے ہیں۔

مارکس وادی‘ سامراج اور ریاست کی جانب سے پختون عوام پر جنگیں، خونریزیاں، بنیاد پرستی، بیروزگاری اور غربت مسلط کرنے کے خلاف نہ صرف آواز بلند کرتے ہیں، نہ صرف ان بربادیوں کے خلاف ایک انقلابی پروگرام پیش کرتے ہیں‘ بلکہ اس پروگرام کو عملی جامہ پہنانے اور عوام میں مقبول بنانے کے لئے دل و جان سے جدوجہد بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح مارکسیوں کے لئے قومی حق خود ارادیت کا سوال ہے جسے وہ ہر محکوم قوم کو حاصل ہونے کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن آج کے عہد میں اور اس خطے کے مخصوص تباہ کن حالات میں کیا قومی بنیادوں پر قومی آزادی و خودمختیاری کا حصول ممکن ہے جبکہ قوم کے حکمران طبقات خود قومی جبر اور محکومی کے آلہ کار ہوں؟ بالفرض ہے بھی تو پاکستان اور افغانستان جیسے قومی طور پر متنوع اور پیچیدہ سماجوں میں اس کا طریقہ کار کیا ہو گا؟ ایک سامراجی ریاست سے آزادی کیا سامراج اور سامراجی نظام سے آزادی دلا سکتی ہے؟ ایسے میں دوسری قوموں کے خطوں میں نسل در نسل آباد پختونوں کا کیا مستقبل ہو گا جبکہ پختونوں کا پشاور سے بڑا شہر کراچی بن چکا ہے اور بلوچستان کی آبادی کا بھی ایک قابل ذکر حصہ پشتونوں پر مشتمل ہے؟ کیا یہ نعرہ لگانے والے پختون قوم پرست یہی حق افغانستان کی تمام اقوام کو بھی دینے کو تیار ہیں؟ ان سوالات کے جوابات قوم پرست قیادتوں کے پاس یقینا نہیں ہیں۔ کیوں کہ قوم پرستانہ بنیادوں پر ایک طبقاتی سماج کا تجزیہ ہمیشہ ادھورا اور ناقص ہوتا ہے۔ ویسے بھی پختون قوم پرست رجحانات خود پانچ واضح دھڑوں میں منقسم ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت اور پشتون تحفظ مومنٹ کے درمیان مخاصمت اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ جس کا اظہار اے این پی قیادت کی جانب سے پی ٹی ایم کا موازنہ کبھی تحریک انصاف تو کبھی تحریک طالبان کیساتھ کر کے کیا جاتا ہے۔ جو یقینا قابل مذمت فعل ہے اور اے این پی پر براجمان لوگوں کی اپنی سیاسی زوال پذیری کی عکاسی کرتا ہے۔ بلکہ روایتی قوم پرست قیادتوں کا یہ سیاسی دیوالیہ پن ایک نئی تحریک کے طور پر پی ٹی ایم کے ابھار کی اہم وجہ تھی۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک سنگین المیہ ہے کہ امریکی سامراج، جس نے ثور انقلاب کے بعد نہ صرف افغانستان اور پختونخوا بلکہ اس پورے خطے کو برباد اور تاراج کرنے والی قوتوں کے سرغنہ کا کردار ادا کیا ہے، کی طرف بیشتر قوم پرست قیادتوں میں ایک مصالحت یا کاسہ لیسی کا رویہ پایا جاتا ہے۔ دشمن کے دشمن کے دوست ہونے والی یہ بیہودہ اور موقع پرستانہ سوچ پی ٹی ایم کے اندر بھی ایک رجحان کے طور پر موجود ہے جس کے خلاف ناقابل مصالحت جدوجہد کی جانی چاہئے۔ اسی طرح حالیہ ایک ڈیڑھ دہائی کے دوران چین کی مداخلت افغانستان اور سی پیک کے ذریعے پختون علاقوں سمیت پورے پاکستان میں تیزی سے بڑھی ہے۔ سب سے پہلے اس قسم کے منصوبوں کی شرائط اور کھاتہ جات کو عام کرنے کا مطالبہ کیا جانا چاہئے تاکہ اس حوالے سے مقامی آبادیوں کے مفادات کو مقدم رکھنے کے مزید مطالبات وضع کیے جا سکیں۔

مارکس وادی جہاں قوموں کے حق خودارادیت بشمول حق علیحدگی کی حمایت کرتے ہیں وہاں وہ علیحدگی کی وکالت سے بالعموم اجتناب کرتے ہیں۔ کیونکہ طبقاتی آزادی و نجات کے پروگرام کے بغیر کوئی حقیقی قومی آزادی ممکن نہیں ہوتی اور ایسے میں علیحدگی عام طور پر قوموں کو پہلے سے بڑے عذابوں میں مبتلا کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ یہ درست ہے کہ عالمی سامراجی و ریاستی دہشت گردی کے پختونخوا وطن پر مسلط کیے جانے اور قومی محرومی کی دوسری شکلوں کی وجہ سے پختون قومی سوال تیز ہوا ہے لیکن قومی سوال آخری تجزئیے میں حکمران طبقات کے لئے ملکیت کا سوال ہے اور پرولتاریہ کے لئے روٹی کا۔ جب تک قومی سوال کو طبقاتی سوال سے نہ جوڑا جائے تو وہ آزادی رسمی ہی رہتی ہے۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہے کہ یہ علیحدگی تو ہوسکتی ہے آزادی نہیں۔ بنگلہ دیش کی جس ترقی کا لبرل حلقوں کی طرف ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے وہ وہاں کے حکمران طبقات کی ترقی ہے۔ امارت اور غربت کی ایک خوفناک خلیج ہے جس سے بدحال بنگالی محنت کش خلیجی ممالک میں آج بھی سب سے کم اجرتوں پر اپنی مزدوری بیچنے پر مجبور ہیں۔

آج پشتون تحفظ موومنٹ مظلوم، استحصال زدہ اور محکوم پشتونوں کی نمائندگی کرتے ہوئے جو بنیادی مطالبات پیش کر رہی ہے کوئی ذی شعور اور باضمیر انسان ان کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ جنگ مظلوم پشتون اکیلے نہیں لڑ سکتے۔ علاوہ ازیں بیشتر صورتوں میں ان مطالبات کا حصول پورے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کو لازم بنا دیتا ہے۔ یہ لڑائی دیگر قوموں کے محنت کش طبقات کے ساتھ صف آرا ہو کر ہی لڑی جا سکتی ہے۔ یہ ایکتا بنانا مشکل ضرور ہے لیکن پھر قیادت اسی وقت اپنے منصب سے انصاف کرتی ہے جب جدوجہد کا وسیع تر تناظر تشکیل دے اور شارٹ کٹ ڈھونڈنے کی بجائے کٹھن راہوں میں تحریکوں کی رہنمائی کرے۔ المیہ یہ ہے کہ قیادت کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ سعی نظر نہیں آتی ہے۔ بلکہ کئی صورتوں میں اس کے متضاد لائحہ عمل اپنایا گیا ہے۔ محض لفاظی اور نعرہ بازی سے عوامی تحریکوں کو طویل عرصہ تک ابھار کی حالت میں نہیں رکھا جا سکتا۔ انہیں ٹھوس سیاسی شکل دینے کے لئے ایسے ترقی پسندانہ سماجی و معاشی پروگرام درکار ہوتے ہیں جو عوام کے روز مرہ کے سلگتے ہوئے مسائل کا حل پیش کر سکیں۔ لیکن یہاں بیروزگاری، مہنگائی، نجکاری اور تعلیم، علاج، رہائش، صاف پانی و نکاس وغیرہ کی مشکلات جیسے انتہائی سنجیدہ مسائل، جو تمام قوموں کے غریبوں اور محنت کشوں کے لئے مشترک ہیں، پر ایک خاموشی اختیار کی گئی ہے جس نے تحریک کو محدودیت کے خول میں بند کر دیا ہے اور اس پر ریاستی جبر و تشدد کو مزید آسان کر دیا ہے۔ تاریخ کا یہی سبق ہے کہ قومی نجات کی جدوجہد کو طبقاتی آزادی کے پروگرام کے ساتھ جوڑ کر ہی سامراجی ریاستوں کیخلاف قابل عمل بنایا جا سکتا ہے۔ قومی تنگ نظری اور تعصب انسانوں کو تقسیم در تقسیم کر کے مزید خونریزیوں اور بربادیوں کا موجب ہی بن سکتے ہیں۔ تاریخ کے اس نازک ترین موڑ پر ہمارے پاس صرف دو ہی راستے ہیں: سوشلزم یا بربریت۔