انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ

ہفتہ 7 اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر ہزاروں راکٹ داغے اور محاصرے کو توڑتے ہوئے اسرائیلی قصبوں اور شہروں میں داخل ہو گئے۔ لاتعداد مسلح جنگجووں نے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور فوجیوں اور عام شہریوں کو قیدی بنا لیا۔ اس موقع پر سالوں کے نسل کشی پر مبنی جبر سے تنگ آ چکے فلسطینی عوام نے بڑے پیمانے پر متحرک ہوتے ہوئے پرجوش ردِ عمل کا مظاہرہ کیا۔ ہزاروں نوجوان غزہ کو محصور کرنے والی خار دار تاروں اور شرمناک دیواروں پر حملوں میں خودرو انداز سے شامل ہو گئے۔ جبکہ اسرائیل نے ہسپتالوں سمیت غزہ میں سویلین اہداف کو نشانہ بنا کر جوابی کاروائی کی۔ نیتن یاہو نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل حالت جنگ میں ہے اور فلسطینیوں کو پہلے کبھی نہ دیکھے گئے حملے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ صیہونی فوج کے سربراہ نے بڑے پیمانے کی بمباری کا اعلان کیا اور بڑی بے حیائی سے سویلین آبادی کو غزہ چھوڑ دینے کو کہا۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ غزہ میں محصور لاکھوں لوگوں کہیں جا سکتے ہیں نہ ہی اسرائیل کی صیہونی ریاست کی طرف سے مسلط کیے گئے محاصرے کو عبور کر سکتے ہیں۔

1948ء میں آگ اور خون سے جنم لینے کے بعد سے اسرائیل خطے میں ایک نوآبادیاتی و سامراجی ٹھکانے کا کردار ادا کر تا رہا ہے جس نے مسلسل فلسطینی عوام کی نسل کشی اور نسلی تطہیر کا ارتکاب کیا ہے۔ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین چھوڑنے، دوسرے ملکوں میں جلاوطن ہونے، مغربی کنارے میں نسلی تعصب اور تقسیم کے نظام (Apartheid) میں دوسرے درجے کے شہریوں کے طور پر رہنے اور غزہ کہلانے والی وسیع جیل میں قیدیوں کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ اس دوران اسرائیل نے اقوام متحدہ کی ہر قرارداد کو نظر انداز کیا ہے اور فلسطینی علاقوں میں غیرقانونی آبادیوں کے ذریعے اپنی نوآبادیاتی توسیع کو نہ صرف جاری رکھا ہے بلکہ مزید گہرا کیا ہے۔ فلسطینی علاقے سکڑتے چلے گئے ہیں جبکہ فلسطینی عوام کو اشتعال انگیزی، حملوں اور قتل عام کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

حالیہ سالوں میں اسرائیلی ریاست مزید دائیں جانب جھکتی چلی گئی ہے اور اس کے نسل کشی پر مبنی اقدامات میں شدت آئی ہے۔ اس نے نہ صرف فلسطینیوں پر تشدد کو قانونی گنجائش فراہم کی ہے بلکہ نسلی تقسیم کے نظام کو بھی منظم شکل دی ہے۔ ان قوانین کے تحت اسرائیل ایک یہودی ریاست ٹھہرایا گیا ہے، خودارادیت صرف یہودیوں کا حق قرار دیا گیا ہے، عربی کو سرکاری زبان کے طور پر ختم کر دیا گیا ہے، فلسطینی زمینوں پر غیرقانونی آبادکاری کو قومی مفاد گردانا گیا ہے اور یروشلم پر مکمل قبضہ کرتے ہوئے اسے اسرائیل کا دارالحکومت بنا دیا گیا ہے۔ حالانکہ امن معاہدوں کے مطابق یروشلم ایک مشترکہ شہر ہے جہاں نہ تو فلسطینی اور نہ ہی اسرائیل اپنا دارالحکومت قائم کر سکتے ہیں۔

دسمبر 2022ء میں نیتن یاہو کے تیسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد اسرائیلی حملوں میں مزید تیزی آئی ہے۔ جن میں فلسطینی علاقوں پر یہودی آبادیوں کو قانونی حیثیت دی گئی ہے اور دسیوں ہزار نئے گھروں اور کالونیوں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ فلسطینی ”دہشت گردوں“ کے لئے سزائے موت کا اعلان کیا گیا ہے اور دہشت گردی کی اس تعریف میں اسرائیلی ٹینکوں پر پتھر پھینکنے والے بھی آتے ہیں۔ مسلسل بڑھتی ہوئی بمباری میں اس سال 200 فلسطینی شہری اب تک ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بوڑھے، خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ فلسطینیوں کو غم و غصہ اور اشتعال دلانے والی کاروائیوں میں مسجد اقصیٰ پر مسلسل حملے سرفہرست ہیں۔ ایسا آخری حملہ اس سال اپریل میں کیا گیا جس میں اسرائیلی پولیس نے مسجد پر گولی چلائی اور وہاں لوگوں کو اندھا دھند تشدد کا نشانہ بنایا اور گرفتار کیا۔

لہٰذا آج جو کچھ ہوا ہے، جس میں افسوسناک طور پر سینکڑوں عام شہری ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں، اس کی وجوہات ان صیہونی اقدامات میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم عام اسرائیلی شہریوں کی ہلاکتوں پر افسردہ ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پچھلی کئی دہائیوں میں اسرائیل کی صیہونی ریاست کے ہاتھوں عام فلسطینیوں کی ہلاکتیں اس سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ جن پر نام نہاد عالمی کمیونٹی بالخصوص مغربی سامراج نے چپ سادھے رکھی ہے۔ مظلوم اور ظالم کے تشدد کو ایک معیار پر نہیں پرکھا جا سکتا۔ اس صورت میں ظالم اسرائیل ہے جو ایک ایٹمی ریاست ہے جسے امریکی سامراجی نے ہر انتہا تک اسلحے سے لیس کر رکھا ہے۔

ہمیں حماس اور بالعموم اسلامی بنیاد پرستی سے ہمارے ناقابل مصالحت اختلافات جدا کرتے ہیں۔ ہم اسلامی بنیاد پرستی کو ایک یکسر رجعتی نظریہ سمجھتے ہیں جو خود سامراج کی پیداوار ہے۔ لیکن اسرائیل کی جابر، نسل پرست، نسل کش اور نوآبادیاتی ریاست کے خلاف فلسطینی عوام کی مزاحمت کے لئے ہماری حمایت غیرمشروط ہے۔ دنیا کی ہر مظلوم قوم کو اپنا دفاع کرنے اور اپنے سے چھینی گئی چیزوں کو واپس لینے کا حق حاصل ہے۔ اور یہ نہ صرف انقلابی سوشلسٹوں بلکہ اقوام کی آزادی اور حق خود ارادیت سے محبت کرنے والے ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ فلسطینی عوام کی حمایت کرے۔

اسرائیل کو امریکہ اور سارے مغربی سامراج کی کھلی مالی، عسکری اور سفارتی حمایت حاصل ہے۔ چین اور روس جیسی طاقتوں کے ساتھ ساتھ عرب خطے کے حکمران طبقات اور سامراج نواز حکومتوں کی مجرمانہ خاموشی فلسطینیوں کی ذلتوں میں اضافہ ہی کرتی ہے۔ اسی طرح ایران جیسی قوتیں بھی، جو خود اپنے عوام پر جبر کرتی ہیں، فلسطینی عوام کی دوست نہیں ہیں اور اپنے مفادات کی ہی محافظ ہیں۔ نام نہاد فلسطینی اتھارٹی بھی اندر تک کرپٹ ہے اور اسرائیل کی معاونت کا کردار ہی ادا کرتی ہے۔ 70 سال سے زیادہ عرصے پر محیط اس سارے عمل کے اولین متاثرین پھر فلسطینی عوام ہیں۔ لیکن وہ اکیلے نہیں ہیں کیونکہ مشرقِ وسطیٰ اور دنیا بھر کے کروڑوں محنت کشوں اور نوجوانوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔

سالہا سال کے تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے سامراج کی طرف سے مصنوعی طور پر تخلیق کردہ ایک جابر اور دہشت گرد ریاست کے ہاتھوں ایک پوری قوم پر ظلم و جبر کے ہوتے ہوئے کوئی امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ظالم کی شکست اور مشرق وسطیٰ کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کے اندر ایک یکجا، سیکولر، جمہوری اور سوشلسٹ فلسطین کی تعمیر سے ہی امن آئے گا۔

یہ اچانک حملہ کئی دہائیوں میں اسرائیل کی سب بڑی عسکری اور انٹیلی جنس ناکامی کی غمازی کرتا ہے۔ لیکن حواس بحال ہونے کے بعد اسرائیل غزہ اور دوسرے خطوں پر حملوں میں شدت لائے گا اور فلسطینی عوام پر جبر میں اضافہ کرے گا۔ یہ مسلح تصادم، جو فی الوقت نسبتاً محدود ہے، ایک نئی علاقائی جنگ میں بھی بدل سکتا ہے۔ اس تناظر میں نہ صرف عرب خطے بلکہ پوری دنیا میں محنت کش عوام اور انقلابیوں کا فریضہ بنتا ہے کہ اسرائیلی جبر و تسلط کے خلاف سڑکوں، کام کی جگہوں، سوشل میڈیا اور ہر ممکنہ پلیٹ فارم پر ایجی ٹیشن کریں اور سامراجیوں کی بغل بچہ صیہونی ریاست کو پسپائی پر مجبور کریں۔

انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ (آئی ایس ایل) متوقع قتل عام کے خلاف فلسطینی عوام کے دفاع اور ان کیساتھ یکجہتی کے لئے وسیع تر بین الاقوامی موبلائزیشن کی اپیل کرتی ہے جو ان کی تکالیف اور ذلتوں کے خاتمے تک جاری رہے۔