عمران کامیانہ

تقریباً چار سال کے عرصے کے بعد میاں نواز شریف کی پاکستان واپسی ملک کے سیاسی منظر نامے میں گہری تبدیلی کی غماز ہے۔ بالخصوص ایسے وقت میں جب اسٹیبلشمنٹ کا پراجیکٹ عمران خان بری طرح ناکامی سے دوچار ہو کے ملک کے معاشی و اقتصادی بحران کو شدید تر کرنے کے بعد بڑی حد تک رول بیک ہونے کے مرحلے میں ہے اور مستقبل قریب میں انتخابات کے ذریعے نیا حکومتی سیٹ اپ لانے کی تیاریاں جاری ہیں۔ ان حالات میں مختلف کیسوں میں سزایافتہ یا مطلوب ہونے کے باوجود ظاہر ہے نواز شریف قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے یا پیشیاں بھگتنے پاکستان نہیں آیا ہے۔ لیکن وطن واپسی پر میاں صاحب کو میڈیا اور ریاستی مشینری کی جانب سے جو پروٹوکول دیا گیا ہے اور جس طرح مسیحا بنا کے پیش کیا جا رہا ہے وہ مزید واضح کرتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں مستقبل کے سیاسی اقتدار میں کلیدی حصہ دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ قبل ازیں موصوف کا ایسا ہی استقبال سعودی عرب اور دبئی میں بھی کیا گیا جہاں اطلاعات ہیں کہ انہوں نے مذکورہ خلیجی ممالک کے حکام کے ساتھ اہم ملاقاتیں بھی کیں۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ خلیجی آقاؤں کی آشیر آباد اس نئے اقتدار کی منصوبہ بندی کو حاصل ہے۔ نواز شریف بارے تمام تر تحفظات کے باوجود ریاستی پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں ملک کو گہرے بحران سے نکالنے کے لئے اسے اقتدار دینا ضروری ہے جس کی وجہ اس کی انتظامی صلاحیتیں، تجربہ اور سب سے بڑھ کر خود ایک بڑا سرمایہ دار ہونے کے ناطے مقامی و بیرونی سرمایہ کاروں میں اس کی مسلمہ ساکھ ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ پچھلے دورِ حکومت میں بھی نواز شریف کو ایسے ہی حالات میں اقتدار ملا تھا جس کے بعد اس نے بڑی حد تک چیزوں کو سنبھال لیا تھا۔ لیکن یہ 2013ء کا نہیں بلکہ 2023ء کا پاکستان ہے جہاں مسائل کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں اور بحران کہیں زیادہ گہرا ہو چکا ہے۔ صرف قرض کے اشارئیے کو ہی دیکھیں تو 2013ء میں ملکی قرضے اور واجبات جی ڈی پی کا 70 فیصد تھے‘ جو آج 91 فیصد سے تجاویز کر چکے ہیں۔ جون 2026ء تک پاکستان کو 77 ارب ڈالر صرف بیرونی قرضے کی مد میں ادا کرنے ہیں۔ ایک 350 ارب ڈالر کی منجمد معیشت اتنا پیسہ کہاں سے لائے گی‘ کسی کو نہیں پتا۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کسی کی بھی ہو پاکستان کو مسلسل آئی ایم ایف کے پروگراموں میں رہنا پڑے گا اور نجکاری، مہنگائی اور بیروزگاری کی پالیسیاں لاگو کرنی پڑیں گی۔ دوسری طرف عالمی سرمایہ داری کی اپنی حالت پہلے سے زیادہ نازک ہوتی جا رہی ہے۔

پاکستان میں نواز شریف کا استقبال کرنے کے لئے ن لیگ نے مریم نواز کی قیادت میں اقبال پارک (مینارِ پاکستان) میں جو جلسہ منعقدکیا وہ بڑا ضرور تھا لیکن غیر معمولی نہیں تھا۔ علاوہ ازیں یہ کوئی ایسا سیاسی اکٹھ نہیں تھا جس میں لوگ خود رو انداز میں جوک در جوک شامل ہوں۔ بلکہ آج کل کی کمرشل سیاست کے طریقوں کے مطابق بیشتر حاضرین وہاں لائے گئے تھے۔ سوشل میڈیا پہ کیے جانے والے یہ تبصرے بالکل بجا ہیں کہ اس جلسے کا 1986ء میں بینظیر بھٹو کے اسی شہر میں ہونے والے والہانہ استقبال سے کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ لیکن یہاں یہ حقیقت بھی ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے کہ آج کی پیپلز پارٹی اپنی قیادت کے کرتوتوں سے جس نہج کو پہنچ چکی ہے وہاں اس کا ایک چوتھائی جلسہ بھی لاہور میں کرنے سے قاصر ہے۔

بورژوا نقطہ نظر سے بھی دیکھیں تو استقبالی جلسے میں نواز شریف کی تقریر اوسط درجے کی ہی تھی جس میں انہوں نے ایٹمی دھماکوں کو اپنا کارنامہ گنوایا اور موٹروے جیسے بڑے منصوبوں کا ذکر کیا۔ جو موصوف ماضی میں بھی اکثر کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ تقریر کئی اہم اشاروں کی حامل تھی جن کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ مثلاً نواز شریف نے اس گالم گلوچ اور گھٹیا پن سے اجتناب کیا جو عمران خان کی سیاست اور خطابت کا خاصہ ہے۔ یہ بنیادی طور پر اس ثقافتی فرق کی غمازی کرتا ہے جو یہاں کے حکمران طبقے کے ان دو حصوں کے درمیان موجود ہے جن میں سے ایک کی ترجمان نواز شریف کی جماعت ہے جبکہ دوسرے کی نمائندگی تحریک انصاف کرتی ہے۔ پرانی صنعتی بورژوازی جتنی بھی ظالم اور بدعنوان ہو‘ کم از کم نمائشی تہذیب و تمیز کا مظاہرہ ضرور کرتی تھی۔ دوسری طرف نیولبرل سرمایہ داری سے جنم لینے والی اپ سٹارٹ بورژوازی بدعنوان بھی ہے اور بدتہذیب بھی۔ یہ کیفیت نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں نظر آتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں وقت کے ساتھ سرمایہ داری کی بدتمیزیوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ نواز شریف نے 2017ء کے بعد اپنے اور اپنی بیٹی پر ڈھائے جانے والے ظلم کی داستان بھی بیان کی۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ہے کہ ملکی سیاست اور ریاست کا ایک اہم سٹیک ہولڈر اور تین بار وزیر اعظم رہ چکنے والا شخص یہ نہ جانتا ہو کہ اس سے کہیں زیادہ ہولناک ستم یہاں کے محروم طبقات اور محکوم قوموں کے لوگوں پر ہر روز ڈھائے جاتے ہیں۔ جس میں اس کا اپنا طبقہ اور حکومتیں پوری طرح ملوث اور ذمہ دار ہیں۔ بہرحال میاں صاحب نے ساتھ ہی عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی واضح کر دیا کہ وہ کسی قسم کا انتقام نہیں چاہتے۔ شاید انتقام لینے کی کوئی خاص آپشن بھی ان کے پاس نہیں ہے۔ وہ جتنے بھی بڑے سرمایہ دار اور سیاستدان ہوں‘اس ریاست کے آقاؤں پہ ان کا بس نہیں چل سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اقتدار سے اپنی مسلسل بے دخلیوں کا شکوہ تو کیا لیکن کسی کو موردِ الزام ٹھہرانے کی جرات نہیں کی۔ بلکہ ترقیاتی منصوبوں کو ہی اپنا بیانیہ قرار دیا۔ نواز شریف نے اپنے دورِ حکومت اور آج کے بجلی کے بلوں کا موازنہ بھی کیا جو غلط نہیں تو معاشی حوالے سے ادھورا ضرور ہے۔ علاوہ ازیں آئی پی پیز کے ساتھ انتہائی عوام دشمن اور استحصالی شرائط پر جو معاہدے کیے گئے ہیں ان میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے ساتھ میاں صاحب کے ادوارِ حکومت بھی شامل رہے ہیں۔ جن کا خمیازہ آج عوام بھگت رہے ہیں۔ تقریر میں مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کا ذکر بار بار موجود تھا لیکن ان ذلتوں سے نجات کے کسی ٹھوس لائحہ عمل کا یکسر فقدان تھا۔ ایک اور اہم نکتہ ہمسایوں کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کے حوالے سے تھا جسے میاں صاحب نے ملکی ترقی کے لئے ناگزیر قرار دیا۔ تاہم انہوں نے ہندوستان کا نام لینے سے اجتناب برتا۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ جنہوں نے انہیں وطن واپس بلوایا ہے اور اقتدار دینے کی تیاری کر رہے ہیں وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ کس حد تک اور کب تک تعلقات استوار کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ تقریر کا آخری حصہ وعظ و تبلیغ کے لئے وقف تھا جس میں میاں صاحب نے عوام سے عبادت اور دعا کرنے کی اپیل کی۔ شاید وہ خود بھی حالات کی سنگینی سے واقف ہیں۔

مجموعی طور پر نواز شریف کی ٹون بالکل مصالحانہ تھی جس میں کچھ سال پہلے کی ایجی ٹیشن اور ”ووٹ کو عزت دو“ جیسے نعروں کا شائبہ تک نہیں تھا۔ لیکن یہ مصالحت دو طرفہ ہے جس میں ڈیپ سٹیٹ کو بھی اپنے ماضی قریب کے منصوبوں کی بری طرح ناکامی کے بعد جزوی پسپائی اختیار کرنی پڑی ہے۔ یوں اسٹیبلشمنٹ کے بغیر نہ میاں صاحب کا گزارہ ہے‘ نہ میاں صاحب کے بغیر اسٹیبلشمنٹ کا۔ ایسے میں اگر وہ اقتدار میں آتے ہیں تو امکانات ہیں کہ انہیں کم از کم وقتی طور پر حکومتی امور اور پالیسی سازی میں کچھ سپیس دی جائے گی۔ لیکن یہ ان کے لئے پہلے سے زیادہ کڑا امتحان ہی ثابت ہو گا۔ اس سارے پراجیکٹ میں انتخابات سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا بھی ایک پیچیدہ عمل ہو گا۔ عمران خان کو اندر کر دینے اور اس کی پارٹی کو تنظیمی طور پر توڑ پھوڑ دینے کے باوجود تحریک انصاف کی وسیع سماجی حمایت تاحال موجود ہے۔ شہباز شریف کی پی ڈی ایم حکومت کے سولہ ماہ کے دوران مہنگائی اور بیروزگاری جن نئی انتہاؤں تک گئی ہے اس نے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہی کیا ہے۔ اس کی مظلومیت کے ناٹک کو مزید پذیرائی ملی ہے۔ اس جن کو بوتل میں واپس بند کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ بڑے پیمانے پر ”الیکشن مینجمنٹ“ کے اُلٹ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ انتشار بھی پھیل سکتا ہے اور اس صورت میں نئی حکومت کسی خاطر خواہ ساکھ سے عاری ہو گی جس کے ہر طرح کے اپنے سیاسی اور معاشی مضمرات ہیں۔ آثار یہی نظر آ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کو ایک کنٹرولڈ انداز سے ہی سہی لیکن الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے گی۔ نواز شریف کی واپسی کے ساتھ پیپلز پارٹی کے رونے دھونے کی شدت میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ بالعموم ایم کیو ایم کا طریقہ کار رہا ہے کہ ہر اقتدار کی ہر واردات میں شریک رہنے کے ساتھ چیخ و پکار بھی جاری رکھی جائے۔ پیپلز پارٹی قیادت کو جلد اور شفاف انتخابات کی جلدی تو ایسے ہے جیسے لوگ انہیں ووٹ ڈالنے کے لئے بے تاب پھر رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ ٹولہ، جو کچھ عرصہ پہلے بلاول بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے خواب دیکھ رہا تھا، اب اقتدار میں شراکت کے حوالے سے شدید عدم تحفظ کا شکار ہو چکا ہے۔ یہ بعید نہیں ہے کہ آئندہ انتخابات میں سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کے لئے سیاسی گنجائش کم کر دی جائے۔ لیکن جب آپ عوام کو دھتکار کے ریاستی گماشتگی کی سیاست شروع کر دیتے ہیں تو ریاست کے ہی رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔

پاکستانی ریاست اپنی سامراجی تخلیق کے مخصوص تاریخی پس منظر اور مقامی حکمران طبقے کی تکنیکی و مالیاتی پسماندگی اور تاخیرزدگی کی وجہ سے روز اول سے معاشی بحرانات اور سیاسی عدم استحکام کا شکار رہی ہے۔ ان حالات میں جہاں سرمایہ داری اپنے دوسرے تاریخی فرائض اس خطے میں ادا نہ کر سکی وہیں کسی صحت مند پارلیمانی جمہوریت کی استواری بھی ایک خواب ہی رہی۔ یہاں کا بدعنوان اور نحیف حکمران طبقہ جہاں ریاست کو اپنے کنٹرول میں لانے کی بجائے اس کا مطیع و فرمانبردار رہا وہیں سیاست میں ریاست کی ناگزیر مداخلت مارشل لاؤں کے ذریعے براہِ راست فوجی آمریتوں کو جنم دیتی رہی۔ لیکن اس دوران یہاں جو جمہوری حکومتیں بھی آئیں وہ بھی برائے نام اختیارات کی مالک اور مفلوج ہی رہیں۔ جس کی وجہ پھر یہاں کی سیاسی اشرافیہ کا سامراجی و ریاستی گماشتگی پر مبنی تاریخی کردار ہے۔ ان جمہوری حکومتوں نے جونہی اپنے مقررہ دائرہ اختیار سے تجاوز کی کوشش کی‘ انہیں چلتا کیا گیا۔ یہ سارا عمل ریاست اور حکمران طبقات کی سیاست کے مابین ان مسلسل تضادات کی بھی غمازی کرتا ہے جو آج تلک موجود ہیں۔ لیکن ڈیپ سٹیٹ کے ساتھ وقتاً فوقتاً بھڑک جانے والے ان تنازعات کے باوجود حکمران سیاست اسے پچھاڑنے میں ناکام ہی رہی ہے۔ آخر کار اس سیاسی اشرافیہ کو پرانی تنخواہ پہ ہی کام کرنا پڑتا ہے۔ لیکن چونکہ پاکستانی سرمایہ داری روزِ اول سے اس سماج کو دوررس بنیادوں پر کوئی ٹھوس ترقی و خوشحالی دینے سے قاصر تھی لہٰذا نظام کو چلانے کے جمہوری یا آمرانہ یا ”ہائبرڈ“ طریقہ کار سے قطع نظر لمبے عرصے میں ملک کا بحران گہرا ہوتا چلا گیا ہے۔ یہاں کے محنت کش عوام کو جمہوری حکومتوں میں کوئی آسودگی میسر آسکی نہ آمریتوں میں۔ گزشتہ کچھ دہائیوں کے دوران بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے اور ریاست کی اپنی داخلی کمزوریوں اور تضادات کے پیش نظر یہاں براہِ راست مارشل لاؤں کا امکان تو کم ہوتا گیا ہے لیکن ڈیپ سٹیٹ کی ریاست اور سیاست میں مداخلت نے نئی شکلیں اور طریقے اختیار کیے ہیں جو بیشتر صورتوں میں براہِ راست آمریتوں سے بھی زیادہ جابرانہ اور جارہانہ ہیں۔ اس سارے عمل میں ملک کی نازک سیکورٹی صورتحال (جو انہی ریاستی و سیاسی حکمرانوں کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے) اور فوج کی معیشت میں بڑے پیمانے پر کاروباری مداخلت اہم عناصر ہیں۔

2011ء کے بعد تحریک انصاف کے ابھار کی معروضی وجوہات موجود تھیں جن میں پیپلز پارٹی کا انتہائی اذیت ناک دورِ حکومت اور بالعموم دونوں حاوی پارٹیوں سے عوام کی بددلی شامل تھی۔ لیکن اس میں ڈیپ سٹیٹ کی سیاسی انجینئرنگ بھی کلیدی کردار کی حامل تھی جس کے ذریعے یہاں کے حقیقی پالیسی ساز کرپٹ سیاسی قیادتوں کے مقابلے میں ایک ”شفاف“ سیاسی متبادل تخلیق کرنا چاہتے تھے جو ان کی مکمل اطاعت کے ساتھ ساتھ ملک کو بحران سے نکالنے کا فریضہ انجام دے۔ اس کے لئے پھر عمران خان کے گلیمر میں لپٹی زہریلی قدامت پرستی، مذہبیت اور رجعت کو استعمال کیا گیا جسے یہاں کی پڑھی لکھی پروفیشنل مڈل کلاس میں خاصی مقبولیت ملی۔ 2017ء میں نوا ز شریف کی اقتدار سے بے دخلی بھی اس کے ڈیپ سٹیٹ کے ساتھ گہرے تصادم کا نتیجہ تھی۔ اس تضاد اور تصادم کی بنیادی وجہ یہاں کی پرانی صنعتی و مالیاتی بورژوازی کا مستند نمائندہ ہونے کی حیثیت سے نواز شریف کی جانب سے پاکستانی ریاست کی داخلہ و خارجہ پالیسی کو ایسی لبرل سمت دینے کی سعی تھی جو اس کے طبقاتی مفادات سے تو میل کھاتی تھی لیکن ڈیپ سٹیٹ کے مقاصد و مفادات سے یکسر متصادم تھی۔ اس سے قبل ماضی میں بھی نواز شریف کی دو حکومتیں ایسے ہی تصادموں کی نذر ہو چکی تھیں۔ اب اسے ایک بار پھر حکومت دینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ لیکن جن تضادات نے حالات کو اس نہج تک پہنچایا ہے ان میں سے ایک بھی حل نہیں ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ یا ڈیپ سٹیٹ کے ساتھ نواز شریف کا رشتہ جتنا ناپائیدار پہلے تھا اتنا ہی آج ہے۔ لیکن پاکستان کے حکمران طبقات اور پالیسی سازوں کے پاس اتنی گہرائی میں سوچنے کی نہ سکت ہے نہ وقت۔ لہٰذا وہ گھوم پھر کے پھر اسی تجربے کو دہرانے جا رہے ہیں جو ماضی میں کئی بار فیل ہو چکا ہے۔ شاید وہ اس کے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ تاریخی طور پر ناکام نظاموں کے نمائندے دوررس دیکھنے اور سوچنے کی صلاحیتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ چہرے جتنے بھی تبدیل ہوتے رہیں‘ حکومتیں آتی جاتی رہیں‘ محنت کش عوام کے لئے ایسے نظاموں میں ذلت اور بربادی کے سوا کچھ مضمر نہیں ہوتا۔ جب تک انہیں اکھاڑا نہ جائے‘ معاشرے ترقی اور آسودگی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتے۔