اداریہ جدوجہد

غزہ پر اسرائیلی صیہونی ریاست کی تازہ سامراجی یلغار میں ساڑھے چار ہزار بچوں سمیت 11 ہزار سے زائد افراد اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ 7 اکتوبر کو حماس، ایک رجعتی بنیاد پرست تنظیم جسے خود اسرائیل نے فلسطینی تحریک آزادی کے ترقی پسندانہ رجحانات کے خلاف پروان چڑھایا تھا، کی کاروائی کے بعد شروع ہونے والا معصوم انسانوں کا یہ قتل عام تاحال جاری ہے۔ غزہ، جو پہلے دنیا کی سب بڑی جیل کا درجہ رکھتا تھا، کو اب ملبے کے ایک ڈھیر اور قبرستان میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ فلسطینیوں کو صرف بارود سے ہی نہیں بلکہ خوراک، بجلی، پانی اور ادویات و علاج معالجے کی عدم فراہمی سے بھی مارا جا رہا ہے۔ نام نہاد مہذب مغربی دنیا کی ریاستیں اس ساری بربریت کی مالی، سیاسی اور عسکری پشت پناہی کر رہی ہیں۔ جبکہ عرب خطے سمیت مسلمان ممالک کے حکمرانوں کا کردار بھی مجرمانہ خاموشی، جنگ بندی کی اپیلوں یا خصی قسم کی مذمتوں کی منافقت تک ہی محدود ہے۔ کچھ اسی قسم کا کردار چین اور روس جیسی طاقتوں کا ہے جن کے بارے میں امریکی سامراج سے تضادات یا مخاصمت کا تاثر پایا جاتا ہے اور جو فی الوقت امریکہ کے مقابلے کی نہ سہی لیکن سامراجی عزائم کی حامل ضرور ہیں۔ لیکن دنیا بھر کے ان حکمرانوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ یہ فلسطین کے تنازعے کے دو ریاستی حل پہ یقین رکھتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ مغربی سرمایہ داری کی اس سامراجی پالیسی سے متفق ہیں جس کی ناگزیر پیداوار اسرائیل کی صیہونی ریاست اور گزشتہ سات دہائیوں سے خطے میں جاری اس کی جبر و بربریت ہے۔ حتیٰ کہ اسرائیل کو رسمی طور پر تسلیم نہ کرنے والی ریاستیں بھی، جن میں کیوبا، وینزویلا اور شمالی کوریا کو چھوڑ کر باقی سب مسلمان آبادی والے ممالک ہیں، اس تنازعے کا کوئی انقلابی حل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ علاوہ ازیں ان میں سے بیشتر کے اسرائیل کیساتھ غیر اعلانیہ تعلقات، مذاکرات یا ”انڈرسٹینڈنگ“ موجود رہی ہے اور خود اپنے عوام کے لئے ان کا کردار انتہائی رجعتی، استحصالی اور جابرانہ رہا ہے۔ ان میں ایرانی ریاست بھی شامل ہے جو اپنے علاقائی سامراجی عزائم کے تحت فلسطینیوں کی حمایتی تو بنتی ہے لیکن جس کا داخلی اور خارجی کردار بالکل ردِ انقلابی ہے اور جو خود ایرانی عوام کی زندگیاں اجیرن کیے ہوئے ہے۔ ایسے میں حالات و واقعات نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ اس کرہ ارض پر فلسطینیوں کا کوئی حقیقی ساتھی اور ہمدرد موجود ہے تو وہ پھر دنیا بھر کے محکوم اور محنت کش عوام ہی ہیں جو مشرق سے مغرب تک دہشت گرد صیہونی ریاست اور اس کے پشت پناہ سامراجیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ حتیٰ کہ حکمران طبقات کی جانب سے فلسطینیوں کے حق میں کوئی جزوی مطالبات رکھے جاتے ہیں یا نرم رویہ اپنایا جاتا ہے تو وہ اسی عوامی دباؤ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے اس قہر نے ایک بار پھر اس سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کے انسانی حقوق، جمہوریت، ”عالمی کمیونٹی“ اور اقوام متحدہ جیسے پر فریب اداروں، اصطلاحات اور اقدار کے مکروہ کردار کو بے نقاب کیا ہے۔ جوں جوں اس نظام کا بحران بڑھتا جا رہا ہے اس کا جبر دنیا بھر میں زیادہ کھلا اور واشگاف ہوتا جا رہا ہے۔ امریکی سامراج کی تاریخی زوال پذیری نے عالمی سطح پر سامراجی تضادات کو ماند کرنے کی بجائے شدید تر کر دیا ہے اور روس اور چین کا اپنے علاقائی حلقہ اثر سے نکل کر دنیا کے دوسرے خطوں میں مداخلت کا رجحان بڑھا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی مرتبہ یورپ میں ایک کھلی جنگ لڑی جا رہی ہے جس میں دو سامراجی طاقتوں کے متصادم عزائم اور مخاصمت کی بھینٹ عام انسان چڑھ رہے ہیں اور شہر کے شہر برباد ہو رہے ہیں۔ اب تک تقریباً دو لاکھ یوکرائنی اور روسی فوجی اس جنگ میں ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بیشتر غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان ہی ہیں۔ اس سے کئی گنا زیادہ جنگ میں بری طرح گھائل یا زندگی بھر کے لئے اپاہج ہو جانے والے ہیں۔ ایک طرف دنیا میں اپنے معاشی وزن کی کمی کا ازالہ کرنے کے لئے نیٹو کے پھیلاؤ کی روش تو دوسری طرف پیوٹن کے تحت روسی مافیا سرمایہ داری کا یوکرائن کو اپنی ایک کالونی کے طور پر برقرار رکھنے یا اپنے اندر ضم کرنے پر اصرار اس تنازعے کے بنیادی محرکات ہیں۔ لیکن ان حالات میں جہاں مغربی سامراجیوں کی جانب سے فلسطین اور یوکرائن کی طرف متضاد رویے اپنانے کی منافقت کو بے نقاب کرنا ضروری ہے وہاں یوکرائنی عوام کے حق دفاع اور حق خود ارادیت سے انکار کھلی رجعت پسندی ہے۔ لیکن یہ بڑھتے ہوئے سامراجی تضادات آنے والے دنوں میں افغانستان، عراق، شام، لیبیا، یمن وغیرہ جیسی نئی جنگوں اور پراکسی جنگوں کو بھی جنم دے سکتے ہیں اور یہ تنازعات پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ، خونریز اور تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ دنیامیں ہزاروں ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کو مدنظر رکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انسانیت ایک مکمل بربادی سے دوچار ہو سکتی ہے۔ بالخصوص مشرق وسطیٰ، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں یہ عمل مختلف سطحوں پر پہلے سے جاری ہے۔ یہ سامراجی تضادات ان خطوں میں بچھی بارودی سرنگوں کی مانند ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہے۔ ان حالات میں انقلابیوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ سامراجی طاقتوں اور ان کے پروردہ پراکسی گروہوں کے مجموعی رجعتی کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹھوس طبقاتی موقف اختیار کریں جو متاثرہ عوام اور اقوام کے دفاع اور خودمختیاری کی حمایت پر مبنی ہو۔ اسی طرح ریاستوں اور ان میں بسنے والے عوام کے درمیان فرق کو ہمیشہ ملحوظ رکھا جائے۔ قومی یا طبقاتی نجات کی جدوجہد اور انقلابی جنگوں میں سامراجی طاقتوں کے آپسی تضادات کا فائدہ اٹھانا ایک چیز ہے جس میں تذویراتی حوالے سے یہ بات بھی مدنظر رکھنی پڑتی ہے کہ کب کس کے خلاف لڑائی کھولی جائے۔ لیکن حجم، جارحیت یا قوت وغیرہ کے وقتی فرق کی وجہ سے انہیں ایک دوسرے پہ فوقیت دینا، کمتر برائی کے حوالے سے ان کی درجہ بندی کرنا یا ان میں سے کسی کو مظلوم یا ”سامراج مخالف“ گمان کرنے لگنا ایک بالکل مختلف روش ہے جس کی کوئی گنجائش مارکسی تجزئیے اور لائحہ عمل میں نہیں بنتی۔ یہ مارکسی سائنس ہی ہے جس نے واضح کیا کہ سامراجیت سرمایہ داری کی ناگزیر پیداوار ہے۔ جب تک سرمایہ دارانہ نظام رہے گا‘ سامراج بھی رہیں گے اور ان کی جارحیتیں، جنگیں اور خونریزیاں بھی رہیں گی۔ اسرائیلی ریاست کی موجودگی میں فلسطینی کبھی سکھ کا سانس نہیں لے سکتے۔ یہی بات بالعموم پوری انسانیت کے لئے بھی درست ہے جسے سامراجی ریاستوں اور ان کی ذیلی قوتوں کے ہوتے امن اور سکون نصیب نہیں ہو سکتا۔ سامراجیت سے نجات سرمایہ داری کے خاتمے کی متقاضی ہے جو دنیا بھر کے محنت کش طبقاتی یکجہتی اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی کر سکتے ہیں۔