آصف رشید

امسال 1917ء کے عظیم بالشویک انقلاب کو 106 سال ہو جائیں گے۔ یہ محنت کش طبقے کی جدوجہد کی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ تھا جس نے ایک انقلابی پارٹی کی قیادت میں روس کے سرمایہ دارانہ نظام کو ایک فیصلہ کن شکست سے دوچار کیا۔ آج سامراجی جنگیں، معاشی بحران، دہشت گردی، سماجی انتشار اور ماحولیاتی تباہی نسل انسانی کو برباد کر رہے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں انتہائی رجعتی فاشسٹ رحجانات کا ابھارہو رہا ہے۔ لبرل دایاں بازو اور اصلاح پسند قیادتیں سرمایہ داری کو چلانے میں مکمل ناکام نظر آتی ہیں۔ کٹوتیاں، قرضے اور ریاستی جبر آج کے عہد کا خاصہ ہیں۔ تیسری دنیا کا محنت کش طبقہ سامراجی مالیاتی ادروں کے قرضوں کا سود چکا رہاہے اور سامراجی جنگوں کی وحشت کا شکار ہے۔ ایسے میں محنت کش طبقے کی نجات کا راستہ آج بھی بالشویک انقلاب کا راستہ ہے۔

آج عالمی سرمایہ دارانہ بحران نے جس انتشار و بدامنی، بے چینی، اضطراب اور معاشی و سماجی زوال کو جنم دیا ہے اس سے کرہ ارض پر بسنے والی نسل انسان انتہائی کرب اور اذیتوں سے دو چار ہے۔ دنیا کا کوئی ملک، کوئی خطہ ایسا نہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے اس بحران کا شکار نہ ہوا ہو اور محنت کش طبقات پر مزید استحصال اور کٹوتیوں کی شکل میں اس نظام کی نیم مردہ لاش کا بوجھ نہ ڈال دیا گیا ہو۔ سامراجی تضادات اور یلغاریں یوکرائن اور فلسطین سمیت دنیا کے بیشتر پسماندہ خطوں میں انسانوں کو بارود سے برباد کرنے کے در پے ہیں۔ جہاں اتنا سماجی خلفشار اور ہل چل ہے وہاں ہمیں گزشتہ چند برسوں کے دوران دنیا بھر میں انقلابی تحریکوں کی ایک نئی لہر کا آغاز بھی ملتا ہے۔ فرانس، برطانیہ اور یورپ کے دوسرے حصوں میں نیو لبرل پالیسیوں کے خلاف محنت کش طبقے کے احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں ہوئی ہیں۔ ایران میں ہمیں وحشی ملاں حکومت کے خلاف خواتین کی شاندار تحریک بھی نظر آتی ہے۔ افریقہ میں اس وقت مغربی سامراجی ممالک کے خلاف بغاوتیں ہو رہی ہیں۔ لاطینی امریکہ میں بھی مسلسل تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ خود ہمارے خطے میں پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں نیولبرل معاشی حملوں کے خلاف عوام کی شاندار جدوجہد جاری ہے۔ ہمیں وقتی پسپائیاں اور پیچیدگیاں بھی نظر آ رہی ہیں۔ لیکن یہ سامراجی نظام کے خلاف فیصلہ کن لڑائی کے آغاز کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی۔ ہمیشہ کی طرح ان تحریکوں کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ایک انقلابی پارٹی کا فقدان ہے۔ انقلاب محنت کش طبقے کی تاریخ کے میدان میں براہ راست مداخلت کا نام ہے۔ عام حالت میں محنت کش طبقہ بقائے زندگی کی جدوجہد میں مشغول ہوتا ہے۔ مخصوص تاریخی حالات ہی محنت کش طبقے کو بغاوت پر مجبور کرتے ہیں۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے حالات دنیا میں تیزی سے پیدا ہو رہے ہیں۔

نئے کیلنڈر کے مطابق 7 نومبر 1917ء کو لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں برپا ہونے والے بالشویک انقلاب نے انتہائی پسماندہ روس کو بہت ہی مختصر عرصے میں دنیا کی جدید سرمایہ دارانہ طاقتوں کے مقابل لا کھڑا کیا۔ انقلاب سے قبل روس ایک پسماندہ اور پچھڑا ہو ا نیم نو آبادیاتی ملک تھا۔ معاشی اور تکنیکی لحاظ سے تاخیر زدہ اور پسماندہ ہونے کی وجہ سے روس کا زیادہ انحصار مغربی یورپ کے سرمائے پر تھا۔ لیکن مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا میں اس کا کردار سامراجی تھا۔ یہ ایک ناہموار ترقی اور معاشرت کی مجسم شکل تھی۔ زار شاہی کی بادشاہت اور مغربی سامراجیوں کے مالیاتی سرمائے کے جبر کے زیر اثر روسی سماج انتہائی بے ہنگم پیداواری اور سماجی تعلقات کا حامل تھا۔ صنعتی مزدوروں کی تعداد بہت ہی کم تھی اور اکثریتی آبادی کسانوں اور کھیت مزدوروں پر مشتمل تھی۔ جو انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ قحط اور فاقے سماجی معمول بن چکے تھے۔ سماج کے نچلے طبقات میں بے یقینی اور عدم تحفظ کا احساس اپنی انتہاؤں پر پہنچ چکا تھا۔ رہی سہی کسر سامراجی جنگ (پہلی عالمی جنگ) نے پوری کر دی۔ یہ جنگ جہاں روس کے عوام کے لئے بربادی اور تباہی لے کر آئی وہی بینکاروں، ساہوکاروں اور سرمایہ داروں کی دولت اور منافعوں میں کئی گناہ اضافہ ہوا۔ جنگ نے سماجی تضادات کو انتہاؤں تک پہنچا دیا۔ سماج کا شیرازہ بکھرنے کو تھا۔ ایک نئی سماجی تشکیل کی اشد ضرورت تھی۔ ایک انقلابی جراحی کے ذریعے سماج کی تشکیل نو کی ذمہ داری کا فریضہ کونسا طبقہ ادا کرتا۔ لیون ٹراٹسکی کے تناظر کے عین مطابق یہ فریضہ روسی پرولتاریہ نے ادا کیا جس کے پیچھے کسانوں کی بڑی تعداد متحرک ہو گئی۔

بالشویک پارٹی کی قیادت میں محنت کش طبقے نے نجی ملکیت اور بورژوا ریاست کو پاش پاش کر دیا اور انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے منصوبہ بند معیشت کی تشکیل کی۔ انسانی تاریخ نے شاید ہی اس سے پہلے ترقی اور انسانی نجات کی کوئی ایسی مثال دیکھی ہو۔ انقلاب نے دو عالمی جنگوں، بیرونی جارحیت و پابندیوں، خانہ جنگی اور دوسری بربادیوں کے باوجود روس کو چند دہائیوں میں ایک ترقی یافتہ سماج میں بدل دیا۔ دیوہیکل صنعتی بنیاد، اعلیٰ ثقافتی معیار اور امریکہ، یورپ اور جاپان میں سائنسدانوں کی کل تعداد سے زیادہ سائنسدان روس میں تھے۔ اوسط عمر میں دو گنا اضافہ ہوا اور بچوں کی شرح اموات میں نو گنا کمی ہوئی۔ انقلاب نے جنسی برابری اور زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنایا۔ سرمایہ دارانہ ملکیت کا خاتمہ کر کے عورت کی پدر شاہانہ غلامی کی بنیادوں کو مٹا دیا گیا۔ حکومت سکولوں میں مفت کھانا، بچوں کے لئے دودھ، حاملہ خواتین اور زچہ بچہ کے لئے طبی مراکز، نرسریاں اور پرورش خانے مہیا کرتی تھی۔ عورت کو گھریلو مشقت سے آزادی دلا کر حقیقی معاشرتی زندگی میں اس کی شمولیت کو یقینی بنایا گیا۔ تعلیم اور علاج کو مفت قرار دیا گیا اور 6 سال سے 50 سال تک کی عمر کے تمام افراد کی تعلیم کا بندوبست کیا گیا۔ رہائش کا مسئلہ حل کرنے کے لیے 5 کروڑ سے زائد فلیٹ تعمیر کیے گئے۔ جن میں بجلی، پانی اور گیس کی سہولت تقریباً مفت مہیا کی گئی۔ روزگار کی ضمانت ریاست دیتی تھی اور بیروزگاری کو جرم قرار دیا گیا تھا۔ یوں منڈی کی معیشت پر منصوبہ بند معیشت کی برتری جدلیات کی زبان میں نہیں بلکہ ٹھوس مادی اور ثقافتی ترقی کی شکل میں ثابت کی گئی۔

لیکن پہلی عالمی جنگ کے بعد یورپ میں انقلابات کی ناکامی سے انقلابِ روس کی تکنیکی و ثقافتی طور پر ایک پسماندہ ملک میں محدودیت کے زیر اثر جنم لینے والی سٹالنسٹ افسر شاہی نے محنت کش طبقے سے فیصلہ سازی چھین کر رفتہ رفتہ اپنے ہاتھ میں مرتکز کر لی۔ بین الاقوامی انقلاب کے نظرئیے کی جگہ سٹالن کے ”ایک ملک میں سوشلزم“ کے رجعتی اور ناقابلِ عمل نظرئیے نے لے لی۔ 1925ء کے بعد یہ عمل تیز ہوتا گیا۔ اس ردِ انقلابی افسر شاہی نے لینن اور ٹراٹسکی کی مزدور جمہوریت، محکوم قوموں، خواتین اور معیشت وغیرہ کی طرف بیشتر پالیسیوں کو اُلٹ دیا۔ 1938ء تک بالشویک پارٹی کے بیشتر پرانے کارکنان، جو مزدور جمہوریت اور بین الاقوامی انقلاب کی روایات کا پرچم بلند کیے ہوئے تھے، کو قتل کروا دیا گیا تھا۔ تاہم اس سیاسی ردِ انقلاب کے باوجود مخصوص تاریخی وجوہات کی بنا پر روس میں منصوبہ بند معیشت قائم رہی۔ اگرچہ یہ معیشت انتہائی بیوروکریٹک طریقے سے چلائی جا رہی تھی اور اس میں سٹالنسٹ افسر شاہی کی بڑی مراعات اور عیاشیاں بڑے ضیاع کا موجب بن رہی تھیں۔ اس کے باوجود منڈی اور منافعے کی بجائے وسائل کے منصوبہ بندی سے اجتماعی مفاد کے لئے استعمال کی وجہ سے سوویت یونین میں تیز معاشی اور سماجی ترقی ہوئی۔ لیکن یہ بیوروکریٹک منصوبہ بند معیشت جوں جوں پھیلتی گئی، زیادہ پیچیدہ ہوتی گئی۔ چند ہزار اشیا پیدا کرنے والی معیشت کا انتظام اور منصوبہ بندی چند سو افراد کر سکتے ہیں لیکن لاکھوں اشیا کی پیداوار کی منصوبہ بندی بیوروکریٹک طریقوں سے نہیں کی جا سکتی۔ اتنے بڑے حجم کی معیشت کی منصوبہ بندی لاکھوں کروڑوں محنت کشوں کی منصوبہ بندی میں شمولیت کے بغیر نہیں کی جا سکتی تھی۔

1960ء تک روسی معیشت ایک دیو ہیکل حجم حاصل کر چکی تھی۔ یہ امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت تھی جو کپڑوں اور جوتوں سے لے کر ہوائی جہاز اور راکٹ تک پیدا کرتی تھی۔ بیوروکریسی کی بدانتظامی، کرپشن، عیاشیوں اور بے پناہ ضیاع تلے منصوبہ بند معیشت کا دم گھٹ رہا تھا۔ بالآخر معاشی نمو بہت گراوٹ کا شکار ہو گئی۔ دوسری طرف افسر شاہی کی ہوس اس قدر بڑھ چکی تھی کہ وہ اب اپنی ان مراعات کو اپنے بچوں کو منتقل کر نا چاہتے تھے۔ باالفاظ دیگر افسر شاہی ذرائع پیداوار کو اپنی نجی ملکیت میں لے کر ایک طفیلی پرت سے ایک حکمران طبقے میں تبدیل ہونا چاہتی تھی۔ اس سارے عرصے کے دوران سٹالنسٹ افسر شاہی کا ایک انتہائی بھیانک کردار یہ بھی رہا کہ یہ نہ صرف مشرقی یورپ میں اپنے جبر کے خلاف محنت کشوں کی بغاوتوں کو بری طرح کچلتی رہی بلکہ پوری دنیا میں انقلابات کو زائل کرواتی رہی جس میں ”مرحلہ وار انقلاب“ کا بوسیدہ اور رجعتی نظریہ اس کا سب سے بڑا اوزار تھا۔ بہرحال انقلاب کی تنہائی، سوشلزم کی مسخ شدہ قومی شکل اور مزدور جمہوریت کی عدم موجودگی میں معاشی بد انتظامی آخر کار سوویت یونین کے انہدام پر منتج ہوئی۔ سوویت یونین میں سوشلزم نہیں بلکہ اس کی مسخ شدہ شکل‘ یعنی سٹالنزم ناکام ہوا۔ لیکن اس کے باوجود عالمی مزدور تحریک اور محنت کش طبقے کے شعور پر سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں سرمایہ داری کی بحالی کے گہرے اثرات مرتب ہوئے تھے۔ خصوصی طور پر نو آبادیاتی یا تیسری دنیا کے ممالک میں نوجوانوں اور محنت کشوں کی نفسیات زیادہ مایوس کن طور پر مجروح ہوئی۔ اس کے بعد کے 35 سالوں میں ہر طرف سے ایک ہی سوال سامنے آتا ہے۔ آپ کس سوشلزم کی بات کرتے ہیں؟ وہ جو روس میں ناکام ہو گیا تھا؟ تاہم مارکسسٹوں کے لیے سوویت یونین کا ٹوٹنا اور دیوار برلین کا گرنا کوئی حیرانگی کا باعث نہیں تھا۔ مارکسزم تناظر تخلیق کرنے کی سائنس ہے۔ واقعات کے جنم لینے سے پہلے ان کا ادراک رکھنا اور ایک درست تناظر و لائحہ عمل تخلیق کرنا ہی مارکسی سائنس کا کلیدی فن ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ بالشویک انقلاب کے قائد ولادیمیر لینن نے 1921ء میں یہ پیش گوئی کر دی تھی کہ اگر جرمنی اور یورپ میں انقلاب فتح مند نہیں ہوتا تو سوویت یونین ٹوٹ جائے گا۔ لیون ٹراٹسکی نے 1936ء میں اپنی عظیم کتاب ’انقلاب سے غداری‘ لکھی تھی جس میں بہت ہی تفصیل سے انقلاب کی زوال پذیری اور سوویت یونین کے ممکنہ انہدام کی وجوہات اور کیفیات کا آدھی صدی پہلے تناظر پیش کر دیا تھا۔ ٹراٹسکی نے نہ صرف انقلاب روس کی قیادت کی تھی، سرخ فوج کے قائد کی حیثیت سے اس کے خلاف 21 ممالک کی سامراجی جارحیت کو 1918ء تا 1920ء کے انتہائی خونی خانہ جنگی کے عرصے میں شکست دی تھی بلکہ اس نے طاقت اور اقتدار کی اونچائیوں میں ہوتے ہوئے بھی انقلاب کی زوال پذیری کے خلاف ایک نا قابل مصالحت اور جرات مندانہ جدوجہد کی تھی۔ اس نے سٹالنزم کے ابھار اور اس کے کردار کو سائنسی طور پر ایک عالیشان تجزئیے میں پیش کیا تھا اور سوشلزم اور سٹالنزم کے معاشی، سیاسی اور سماجی فرق کو واضح کیا تھا۔ لینن نے 1922ء کے بعد اس زوال پذیری کے خلاف جو جدو جہد شروع کی، ٹراٹسکی نے اسے لینن کی 1924ء میں وفات کے بعد جاری رکھا۔ اس جدو جہد کی پاداش میں ٹراٹسکی کو سٹالن نے 20 اگست 1940ء کو میکسیکو میں قتل کروا دیا لیکن انسانوں کو جسمانی طور پر مار دینے سے ان کے نظریات نہیں مرتے۔ سچے نظریات تاریخ کی کسوٹی پر پرکھے جانے کے بعد درست ثابت ہو کر سرفراز ہو جاتے ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد انقلابات کی ناکامی اور پسپائی کے بعد ایک جانب امریکی سامراج کی قیادت میں ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ دارانہ عروج ایک طویل عرصے تک چلا تو دوسری طرف منصوبہ بند معیشت کی بنیاد پر سوویت یونین، مشرقی یورپ اور چین میں بھی سٹالنزم تیز سماجی و صنعتی ترقی کی وجہ سے ایک بڑی قوت بن کر ابھرا۔ ایسے دور میں حقیقی مارکسزم کے سائنسی نظریات اور اصولوں پر قائم رہ کر انقلابی سوشلزم کی جدوجہد کرنا بہت ہی کٹھن فریضہ تھا جس کو کامریڈ ٹیڈ گرانٹ اور ان کے بیشتر ساتھیوں نے نبھایا اور ان حالات میں مارکسزم کوتخلیق و ترویج کے ذریعے مزید ٹھوس، جامع اور فعال بنایا۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد کی دہائیوں میں چین کے علاوہ شام، کیوبا، ویت نام، افغانستان اور دوسرے کئی ممالک میں انقلابات تو ہوئے اور سرمایہ داری اور جاگیرداری کا خاتمہ بھی ہوا لیکن طاقت اور اقتدار محنت کش طبقے کو حاصل نہیں ہوا۔ سٹالنسٹ سوویت یونین کی پیروکاری کرتے ہوئے تمام تر سیاسی طاقت بیورو کریسی یا فوجی جنتا کی قلیل پرت کے ہاتھوں میں مرتکز رہی۔ ان حالات میں کامریڈ ٹیڈ گرانٹ نے مسخ شدہ مزدور ریاستوں کے خیال کے تحت اس نئی انقلابی کیفیت کا ایک سائنسی تجزیہ پیش کیا۔ اسی طرح انہوں نے عالمی سرمایہ داری کے سب سے بڑے معاشی ابھار کے عہد میں سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کا تناظر پیش کیا جسے تاریخ نے سچ ثابت کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ٹراٹسکی کے تجزئیے کو آگے بڑھاتے ہوئے سوویت یونین کی ممکنہ ٹوٹ پھوٹ کی وضاحت بھی پیش کی کہ چونکہ مزدور جمہوریت سے عاری بیورو کریٹک جبر کی حاکمیت ایک قومیائی ہوئی منصوبہ بند معیشت سے متضاد ہوتی ہے اس لئے ان کا ٹکراؤ نا گزیر تھا۔ 1974ء میں ٹیڈ نے اس صورت حال کو واضح کیا: بیوروکریسی اب وہ معاشی ترقی بھی حاصل نہیں کر رہی جو مغرب میں سرمایہ داری کر رہی ہے۔

سٹالنزم کے انہدام نے عالمی طور پر سرمایہ داروں اور مزدور تحریک میں ان کے گماشتوں کو رجعتی حملوں کے بہت سے مواقع فراہم کیے۔ انہوں نے کبھی نہ دیکھے گئے نظریاتی جارحیت پرمبنی پراپیگنڈے کا آغاز کر دیا۔ سوشلزم، کمیونزم اور مارکسزم کے خلاف یہ یلغار اتنی شدید تھی کہ اس نے ایک پوری نسل کے ذہنوں کو شل کر کے رکھ دیا۔ سامراجیوں کے اس نظریاتی حملے میں بہت سے سابقہ ”کمیونسٹ“ بھی حکمرانوں کے حواری بن گئے۔ ایک ایسی صورت حال پیدا ہو چکی تھی کہ بہت سی معروضی اور موضوعی کیفیتوں کی وجہ سے دنیا بھر میں انقلابی تحریکوں کو دھچکا لگا اور وہ پسپائی میں گئیں۔ حقیقی مارکسزم کی قوتیں بہت چھوٹی اور محدود ہو کر رہ گئیں۔ بائیں بازو کے کارکنان کی اس نسل کے بہت کم افراد ایسے بچے جو انقلابی مارکسزم سے منحرف ہو کر طبقاتی جنگ سے فرار نہیں ہوئے۔ لیکن اس سیاہ عہد میں بھی کچھ انقلابیوں نے دنیا بھر میں انقلابی مارکسزم کا پرچم سر بلند رکھا اور جد و جہد جاری رہی۔ باطل حکمرانوں اور رجعتی قوتوں کا پراپیگنڈا کتناہی زہریلا ہو، ان کی یلغار کتنی ہی ہولنا ک کیوں نہ ہو، سچ کو محنت کش طبقے تک پہنچانا مارکسٹوں کا فریضہ ہوتا ہے۔ آج پھر ہمیں ہی یہ جواب دینا پڑ رہا ہے کہ سوویت یونین میں اگر سوشلزم نہیں تھا تو کیا تھا اور اس کا انہدام کیونکر ہوا؟ لیکن سوویت یونین کے انہدام کے بعد ایک نسل جوان ہو چکی ہے۔ اس نے سرمایہ داری کی بربادیوں اور ظلم کو نہ صرف محسوس کیا ہے بلکہ برداشت بھی کر رہی ہے۔ یہ نظام آج گہرے بحران سے گزر رہا ہے۔ ہر ذی شعور انسان کے دماغ میں اس سے چھٹکارے اور سماج کی یکسر اور مکمل تبدیلی کی خواہش اور آرزو موجود ہے۔ مارکسزم کی سچائی کو اب بہت سے بورژوا معیشت دان بھی براہ راست نہ سہی بالواسطہ طور پر تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ روس میں جو کچھ ہوا وہ سٹالنزم کے جرائم تھے لیکن مجرم مارکسزم، کمیونزم اور سوشلزم کو قرار دیا گیا۔ موت کسی کی تھی اور ماتم کسی اور کا کیا گیا۔ لیکن ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے انقلاب اور انقلابیوں کے راستے نہیں رو کے جا سکتے۔ آج انقلابیوں کا یہ فریضہ ہے کہ بالشویک انقلاب کی میراث کو زندہ کرتے ہوئے محنت کش طبقے کو سرمایہ داری کے خلاف منظم کرنے کا عمل تیز تر کریں۔

لینن نے سوویت انقلاب کے بعد چھپنے والی کتاب ’مارکسزم کے تین بنیادی اجزا‘ کے پیش لفظ میں لکھا تھا: مارکسزم اتنا مضبوط اور نا قابل شکست اس لئے ہے کیونکہ وہ سچ ہے۔ آج بھی مارکسزم سے بہتر، سچا اور درست فلسفہ یا سماجی سائنس موجود نہیں ہے۔ وکٹر ہیوگو نے لکھا تھا کہ ”صرف ایک شے دنیا کی تمام فوجوں سے زیادہ طاقت ور ہوتی ہے۔ وہ نظریہ کہ جس کا وقت آ گیا ہو۔“ آج نسل انسانی کی بقا اور تہذیب و تمدن کے احیا کا سوائے سوشلسٹ انقلاب کے کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔ مارکسزم کے نظریات کا وقت بہت قریب آن پہنچا ہے۔