حارث قدیر
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں نو آبادیاتی جبر اور سرمایہ داری کی نیو لبرل پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کی ایک نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ 6 ماہ قبل 09 مئی سے شروع ہونے والی ’عوامی حقوق تحریک‘ ریاستی جبر، نو آبادیاتی نظام حکومت اورآئی ایم ایف جیسے سامراجی اداروں کی نیو لبرل پالیسیوں کو مسترد کرنے کے ساتھ ساتھ اس خطے کے مظلوم و محکوم عوام کیلئے ایک مشعل راہ بنتی جا رہی ہے۔
ان 6 مہینوں میں عوامی تحریک اور جدوجہد کی نئی داستان رقم کی گئی ہے۔ محنت کش عوام وسیع پیمانے پر متحرک ہو رہے ہیں۔ لاکھوں عوام نے سڑکوں پر احتجاجی مارچ کیے ہیں، شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتالیں کی گئی ہیں، طلبہ نے احتجاجی مظاہرے کیے ہیں اور سب سے بڑھ کر ہزاروں خواتین نے ایک ہی روز درجنوں شہروں میں احتجاجی مظاہرے، جلسے اور احتجاجی تقریبات منعقد کر کے ایک نئی مثال قائم کر دی ہے۔ 3 ماہ سے بجلی کے بلوں کے بائیکاٹ کا سلسلہ جاری ہے اور ایک منظم مہم کے تحت 75 سے 80 فیصد تک بجلی بلوں کا بائیکاٹ کیاگیا ہے۔ جو اس نظام حکومت اور حکمرانوں کی پالیسیوں کے خلاف ایک عوامی ریفرنڈم ہے۔
معاشرہ جب مجموعی طور پر متحرک ہوتا ہے تو ایک نئی اور اجتماعی ثقافت جنم لیتی ہے۔ سماج پر چھائے حکمران طبقے کی نفسیات اور ثقافت کے غلاف کو پھاڑ کر حقیقی انسانی رشتے اور تعلقات عود کر سامنے آتے ہیں۔ انسان اپنی اساس کی طرف لوٹتا ہے۔ باہمی تعاون اور یکجہتی کی نئی مثالیں قائم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ سماج خود رو انداز میں منظم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ دہائیوں کے جبر کو سہتے سہتے جب معاشرہ اجتماعی طور پر جبر سہنے سے انکار کرتا ہے تو یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔ بظاہر دھوکہ دہی، لالچ، حسد، بغض اور دوسرے کو فتح کر دینے والی نفسیات، جسے انسانی فطرت قرار دیا جاتا ہے، مکمل طور پر تبدیل ہو جاتی ہے۔ اجتماعی احساسات تمام تر رجعتی تعصبات کی جگہ لے لیتے ہیں۔
یہ تجربات آج جموں کشمیر کے پاکستانی زیر انتظام حصے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ لوگ دیہاتوں کی سطح پر خود رو انداز میں منظم ہو تے جا رہے ہیں۔ عوامی کمیٹیاں بن رہی ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور یکجہتی کی نئی مثالیں قائم ہو رہی ہیں۔ بظاہر نو آبادیاتی نظام کو تسلیم کرتے ہوئے مروجہ نظام حکمرانی کے کل پرزے نظر آنے والے انسانوں کے اندر سے اس نظام کے خلاف حقارت اور نفرت نت نئے رنگوں میں اپنا اظہار کر رہی ہے۔ کہیں حکومت کی جانب سے ارسال کیے گئے بجلی کے بلوں کو جلا کر اس نظام سے نفرت کا اظہار کیا جا رہا ہے تو کہیں ان بلوں کی کشتیاں بنا کر دریاؤں میں بہائی جا رہی ہیں۔ دریاؤں پر تعمیر کیے گئے ڈیموں کے نو آبادیاتی کردار سے نفرت کے اظہار کیلئے ان ڈیموں سے پیدا ہونے والی بجلی کے بھاری بلوں کو انہی ڈیموں کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ ان بلوں کے تابوت بنا کر ان کی تدفین کرتے ہوئے ظالمانہ نظام کو دفن کرنے سے تشبیہ دینے کے عمل کے علاوہ غباروں کے ساتھ بجلی کے بلوں کو آسمان میں اڑا کر ظلم کی ہر ریت کو ہوا میں اڑانے کی رسم بنایا جا رہا ہے۔
نو آبادیاتی نظام کا جوہر مفتوحہ علاقوں کے وسائل کی لوٹ مار اور افرادی قوت کا استحصال ہی ہوتا ہے۔ نو آبادیاتی نظام کے خلاف نفرت اور حقارت کا پہلا اظہار وسائل پر اختیار کی مانگ کے ذریعے سے کیا جاتا ہے۔ یہی اظہار جموں کشمیر کی سڑکوں، گلیوں اور محلوں میں ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کی صورت میں مسلط ہونے والی سامراجی نیو لبرل پالیسیوں کو مسترد کرنے کے ساتھ ساتھ وسائل کے عوامی تصرف میں دیئے جانے کے مطالبات ایک ہی وقت میں نو آبادیاتی جبر اور سرمایہ دارانہ نظام پر گہری چوٹ کر رہے ہیں۔
8 دہائیوں بعد سامراجی جبر اور مقامی حکمران اشرافیہ کے خلاف اٹھنے والے اس عوامی ابھار نے یہ واضح کیا ہے کہ عوام کے اشتراکی اظہار کے دوران اپنائے جانے والے اقدامات اجتماعی لاشعور میں نسلوں تک محفوظ رہتے ہیں۔ اس سے قبل اس خطے کے محنت کش عوام کی برطانوی سامراج کے پروردہ شخصی راج کے خلاف بغاوت مسلح شکل اختیار کر گئی تھی۔ تاہم اس کی ابتدا بھی مہاراجہ حکومت کی طرف سے نافذ العمل بے تحاشہ ٹیکسوں کے خلاف ہی ہوئی تھی اور ابتدائی طور پر ٹیکس (مالیہ)دینے سے انکار کیا گیا تھا۔ آج 8 دہائیوں بعد ایک بار پھر نو آبادیاتی نظام کی نئی شکل اور سامراجی غلامی کے خلاف ابھرنے والی حالیہ تحریک بھی ظالمانہ ٹیکسوں کے خلاف ہی شروع ہوئی اور ٹیکسوں کی بھرمار پر مشتمل بجلی کے بلوں کی ادائیگی روکنے کا عمل زور و شور سے جاری ہے۔
اس تحریک کے پاکستان کے محنت کشوں اور عام عوام پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور ابتدائی طور پر پاکستان بھر میں احتجاجی مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہوا دکھائی دیا ہے۔ گو کہ یہ احتجاجی مظاہرے کسی بڑی تحریک کی شکل اختیار نہیں کر سکے ہیں لیکن پاکستان کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں جموں کشمیر کی تحریک سے سیکھتے ہوئے آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی اداروں کی ایما پر مسلط کردہ مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمار کے خلاف جدوجہد کو استوار کرنے کیلئے ابتدائی کوششیں ضرور شروع ہو چکی ہیں۔
عوامی حقوق تحریک نے ابتدائی طو رپر بے شمار کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ حکمران اشرافیہ اور ریاست کو گہرے دباؤ کا شکار کیا ہے۔ پر امن احتجاجی تحریک کو توڑنے کیلئے حکمرانوں کے تمام تر حربے ناکام اور نامراد ٹھہرے ہیں۔ ماضی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے حکمران اشرافیہ اور محنت کش عوام کے مابین ایک طبقاتی لکیر کھینچی جا چکی ہے۔ حکمران اشرافیہ کے نمائندوں کی جانب سے اس تحریک کو بیرونی ایجنڈے پر کاروائی قرار دینے کے علاوہ ریاستی جبر کے ذریعے سے تحریک کو کچلنے کا ابھی تک کا ہر حربہ بری طرح ناکام ہوا ہے۔ ریاست نے ابتدائی طور پر آٹے کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ روک کر تحریک کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ ریاست کی پاکٹ تاجر یونینوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے سے تحریک کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے بعد وزیر اعظم نے بجلی کی قیمتوں میں جولائی میں کیا جانے والا اضافہ واپس لینے کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ پھر بجلی کے کنکشن کاٹنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ یہ تمام حربے ناکام ہونے کے بعد ریاست نے بجلی کے بل جلانے اور دریاؤں میں بہانے کو غداری، بغاوت اور دہشتگردی قرار دے کر درجنوں مقدمات درج کیے۔ درجنوں مقامات پر قائم احتجاجی دھرنوں کو اکھاڑ کر 50 سے زائد شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔ گرفتار کارکنوں کو دور دراز پولیس تھانوں میں قید رکھا گیا اور انہیں کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ تاہم تحریک میں شامل مظاہرین نے ریاست کے ہر ظلم کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا اور جھکنے سے انکار کر دیا۔ ریاست کے اعصاب کو اس قدر کمزور کر دیا گیا کہ ریاست جبر کا اہم اوزار پولیس بھی ریاستی احکامات بجا لانے میں سنجیدگی دکھانے سے کترانے لگا۔
عوام کی اجتماعی طاقت ریاست کو ہوا میں معلق کر دیتی ہے۔ تمام تر جاہ و جلال اور رعونت خاک میں مل جاتی ہے۔ جموں کشمیر میں ریاست عملی طور پر گزشتہ 6 ماہ سے مفلوج ہے۔ تمام تر اقتدار پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم کیمپ آفس (کشمیر ہاؤس) تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ حکمران اشرافیہ کے نمائندگان بالخصوص وزرا اور مشیران سرکاری گاڑیوں پر اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں جانے سے کترا رہے ہیں۔ محض ایک اعلان کے ذریعے سے ریاستی اقتدار اور ڈھانچے کو مکمل طو رپر بے دخل کیا جا سکتا ہے۔ تاہم مخصوص جغرافیائی اور سیاسی محدودیت کی وجہ سے یہ اقدام اس خطے میں سامراجی بربریت کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ مخصوص معروضی حالات کی وجہ سے معاشرے کی دو تہائی اکثریت کی تحریک میں متحرک شرکت کے باوجود اس تحریک کو ایک انقلاب میں تبدیل کرنے اور ایک بڑی سماجی تبدیلی کیلئے پاکستان میں موجود تمام قوموں کے محنت کشوں کی عملی شرکت ناگزیر ہے۔
تحریک نے جہاں بے شمار کامیابیاں سمیٹی ہیں وہاں مطالبات کی مکمل منظوری ریاست کیلئے مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مطالبات کو درست تسلیم کرنے کے باوجود مقامی حکمران اشرافیہ اور پاکستان کے حکمران طبقات کی جانب سے مطالبات کو منظور کرنے کی بجائے تحریک کو پاکستان مخالف بنا کر پیش کرنے کا عمل زور و شور سے جاری ہے۔ اس خطے سے پیدا ہونے والی 3 ہزار میگا واٹ سے زائد بجلی سے 355 میگا واٹ بجلی ٹیکسوں کے بغیر پیداواری لاگت پر شہریوں کو فراہم کرنے، گندم پر سبسڈی فراہم کرنے اور حکمران اشرافیہ کی مراعات ختم کرنے جیسے مطالبات کی منظوری پاکستان میں تحریکوں کے ایک سلسلے کا آغاز کر سکتی ہے۔ ساتھ ہی جموں کشمیر بھر میں عوامی حقوق کی اس تحریک کی فتح محنت کش عوام کو نئی لڑائی اور نئے مطالبات کے ساتھ دوبارہ منظم ہونے کیلئے آکسیجن مہیا کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کی ہر ممکن کوشش اس تحریک کو سبوتاژ کرنے پر مرکوز ہے۔
مزاحمتی تحریکوں کا طبقاتی کردار واضح کرنا جہاں ناگزیر ہوتا ہے وہیں یہ واحد اقدام تحریکوں کی کامیابی کا ضامن نہیں ہوتا۔ نہ ہی انقلابیوں کو پہلے مرحلے میں تحریکوں کی قیادت پلیٹ میں رکھ کر دی جاتی ہے۔ محنت کش طبقے کی پسماندہ پرتوں، درمیانے طبقے کے موقع پرست سیاسی کارکنوں اور ریاستی ایجنٹوں کا ایک وسیع نیٹ ورک سماج کی نچلی پرتوں میں متحرک ہوتا ہے۔ عوامی تحریکوں میں اس ملغوبے کے درمیان کھینچا تانی اور انقلابی قوتوں سمیت تربیت یافتہ سیاسی کارکنوں کے خلاف ان کا اتحاد بھی ایک ایسی بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آتا ہے کہ جس کو توڑنے کیلئے محنت کشوں کی اکثریت کا تجربات سے گزرنا ناگزیر ہوتا ہے۔ درمیانے طبقے کی موقع پرست قیادتوں کی خود نمائی اور عوامی تحریکوں کو استعمال کر کے حکمران اشرافیہ کی صفوں میں جگہ بنانے کی خواہش کے علاوہ چاپلوسی اور خوش آمد کا دلدادہ ہو کر تحریک دشمن عناصر تک سے ہاتھ ملا کر انقلابی قوتوں کے خلاف سازشوں کے پہاڑ کھڑے کرنے کا سلسلہ بھی پنپنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس تمام تر غلاظت کے درمیان رہتے ہوئے محنت کشوں کے مفادات کی ترجمانی اور تحریک کو کامیابی کی طرف گامزن کرنا انقلابی کارکنوں کیلئے ایک امتحان بن جاتا ہے۔ بے شمار کامیابیوں کے ساتھ جموں کشمیر میں جاری عوامی حقوق تحریک کو ان تمام تر مسائل کا سامنا بھی ہے۔
مصالحتی قوتوں، موقع پرست قیادتوں، درمیانے طبقے کی خود نمائی، جلد بازی اور مہم جوئی سمیت ریاست اور حکمران اشرافیہ کی سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہنا اور محنت کش عوام کی درست سمت میں رہنمائی کرتے رہنا ایک مسلسل، تھکا دینے والی اور ناقابل مصالحت لڑائی پر مشتمل ایک ایسی کسوٹی ہے جو انقلابی قوتوں کو وسیع تر عوامی پرتوں کی حمایت جیتنے میں کامیاب کر سکتی ہے۔
6 ماہ کے تجربات نے جموں کشمیر کے محنت کش عوام، نوجوانوں، طالبعلموں اور خواتین کو بہت کچھ سکھایا ہے۔ جہاں حکمران مذاکرات کے ذریعے سے تحریک کی طوالت اور تھکان سے فائدہ اٹھانے کی خواہش اور امنگ لیے ہوئے ہیں وہیں تحریک کے اگلے مراحل کیلئے پیش بندی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اگلے مرحلے میں مزید ٹیکسوں کے بائیکاٹ اور حکومتی اوقات کار کا بائیکاٹ کرنے جیسی حکمت عملی اپنانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ مطالبات کی عدم منظوری کی صورت میں اگلے مرحلے میں حکومتی اوقات کار کے دوران صبح 5 بجے سے دن 2 بجے تک ہر طرح کی ٹرانسپورٹ اور تجارت سمیت عوامی نقل و حمل کو مکمل طور پر روک دینے کا سلسلہ شروع کیا جا سکتا ہے۔ یہ سلسلہ مطالبات کی منظوری تک جاری رکھنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ اس خطہ میں یہ اقدام اگر اٹھایا جاتا ہے تو عملی طور پر ریاست اور اس کے ہر ادارے کا عوامی سطح پر بائیکاٹ ہی نہیں بلکہ اس نظام کو عوامی سطح پر دھتکار دیا جائے گا۔
جموں کشمیر میں ہونے والے تجربات اگر انقلاب نہیں ہیں تو ہمالیہ سے اٹھنے والی وہ انقلاب کی چنگاریاں ضرور ہیں جنہیں شعلہ بنتے ہوئے زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ پاکستان بھر میں سماجی خلفشار اور معاشی بحران کے ساتھ ساتھ ریاستی بحران اس قدر گہرا ہو چکا ہے کہ کوئی ایک بھی واقعہ یا حادثہ سماجی طوفانوں کا موجب بن سکتا ہے۔ جموں کشمیر کے تجربات نے قیادت کے بحران کو پہلے سے زیادہ عیاں کر دیا ہے۔ انقلابی قیادت کی موجودگی اور درست حکمت عملی اگر ان سماجی طوفانوں کو میسر آ گئی تو اس خطے سے سرمایہ داری نظام کے خاتمے اور نئے دور کے آغاز کو دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکے گی۔