عمر عبداللہ
دنیا میں اس وقت 281 ملین لوگ یعنی دنیا کی آبادی کا ساڑھے تین فیصد حصہ ایسا ہے جو اپنے آبائی وطن کی بجائے کسی دوسرے ملک میں رہ رہا ہے۔ یوں تو انسانی ہجرت کا عمل زمانہ قدیم سے بھی پہلے سے جاری ہے لیکن جدید سائنسی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ انسانوں کی موجودہ شکل ’ہوموسیپینز‘ کی جنم بھومی افریقہ ہے۔ جہاں سے ہجرت کے اس عمل کا آغاز ہوا اور آج انسان دنیا کے کونے کونے میں پایا جاتا ہے۔ لیکن سرمایہ داری کے تحت ہجرت ایک بالکل مختلف عمل ہے جو اس نظام کے پیدا کردہ مخصوص حالات اور تضادات سے جنم لیتا ہے۔ جدیدعہد کے ان مہاجرین کو عمومی طور پر تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ قانونی امیگرنٹس جو باقاعدہ کسی ملک کی شہریت یا اجازت حاصل کر کے ہجرت کرتے ہیں۔ غیر قانونی امیگرنٹس جو چھپ چھپا کر بارڈر کراسنگ کے ذریعے کسی ملک میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اور ایسے مہاجرین جو جنگ یا کسی قدرتی آفت کے نتیجے میں کسی دوسرے ملک میں پناہ لیتے ہیں۔ اگرچہ یہ اپنی ساخت میں تو تین مختلف عمل ہیں لیکن اپنی بنیاد میں یہ تمام تر نقل مکانی بالعموم سامراجیت اور اس سے جڑے عوامل کے نتیجے میں جنم لیتی ہے۔
سامراجیت کی بقا ایک ناہموار دنیامیں ہے جہاں اس سیارے پر چند مراکز میں بھرپور معاشی ترقی ہو اور اس ترقی کے لیے وافر مقدار میں خام مال اور سستی انسانی محنت کی رسد بلا تعطل جاری رہے۔ جس کے لیے پھر ضروری ہے کہ باقی تمام دنیا معاشی، سیاسی و عسکری طور پر مطیع اور ثقافتی طور پر پسماندہ رہے۔ اس ناہمواری سے پسماندہ ممالک سے ترقی یافتہ ممالک یا جنگ زدہ علاقوں سے نسبتاً مستحکم اور پر امن ممالک کی طرف مہاجرین کاایک زبردست بہاؤ پیدا ہوتا ہے جسے امیگریشن پالیسیوں کے ذریعے مختلف بند باندھ کر قابو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ ہجرت ایک طرف تو سامراجی ممالک میں بیروزگاروں کی ایک فوج پیدا کر دیتی ہے جس کو مقامی آبادی کی نسبت انتہائی کم اجرتوں پر گزارا کرنا پڑتا ہے جس سے سامراجی سرمایہ داری کے منافعوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف حکمران طبقات مقامی اور غیر مقامی محنت کشوں کے درمیان اختلاف کو سیاسی، سماجی اور ثقافتی طور پر استعمال کرتے ہوئے اس میں نسل پرستی، قوم پرستی اور مذہبی تفریق کا زہر ملا کر محنت کشوں کو آمنے سامنے کھڑا کر دیتے ہیں تاکہ ان کی توجہ ان حکمرانوں کی سامراجی لوٹ مار اور محنت کشوں کے بدترین استحصال سے ہٹی رہے اور یہ کبھی اپنے مشترکہ اور حقیقی دشمن کے خلاف یکجا نہ ہو سکیں۔ لیکن ہجرت کا یہ عمل خود سامراجیوں کے لیے بھی تضادات کو جنم دیتا ہے اور وہ اس کو لامتناہی اور بے قابو طریقے سے جاری نہیں رکھ سکتے۔ علاوہ ازیں سامراج کو اپنی لوٹ اور اپنی سلطنت کی دور دراز سرحدوں کے تحفظ اور انتظام کے لیے بھی انسانی محنت کا استحصال درکار ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ گاہے بگاہے‘ خاص طور پر معاشی بحرانات کے دوران امیگریشن پالیسیوں میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں جو سیاسی افق پر بھی اپنا اظہار کرتی ہیں۔
سرمایہ دارانہ انقلاب کے بعد جب قومی ریاست وجود میں آئی تو خام مال اور وسائل کی تلاش نے نوآبادیاتی نظام، جو سامراجیت کی ابتدائی شکل تھی، کو جنم دیا اور مختلف سامرجی ممالک میں ان کی نوآبادیات سے لوگوں کی ہجرت کا آغاز ہو ا جو اب تک جاری ہے۔ امیگریشن میں دوسری بڑی جست دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کی تعمیر نو اور صنعتی ترقی کے لیے بڑے پیمانے پر ہنرمند اورغیر ہنرمند لیبر کی ضرورت نے دی۔ اس دوران سامراجی ممالک میں امیگریشن کے لیے پالیسیوں کو نرم کیا گیا اور امیگریشن کی حمایت میں سیاسی ماحول بنا رہا۔ لیکن بعد ازاں 70ء کی دہائی کے بحران میں تمام تر مسائل کی جڑ ان مہاجر محنت کشوں کوقرار دے کر ایک بار پھر تعصب کی سیاست کو فروغ دیا گیا جو 2008ء کے بحران کے بعد شدت اختیار کر چکی ہے۔ دوسری طرف اس دوران پسماندہ خطوں میں سرمایہ داری کی پھیلائی معاشی بدحالی اور جنگی تباہی نے ترقی یافتہ مغرب کی طرف قانونی و غیرقانونی ہجرت کے رجحان میں بھی کئی گنا اضافہ کیا ہے۔ چنانچہ یورپ اور امریکہ میں مقبول ہوتے ’فار رائٹ‘ (انتہائی دائیں بازو) کے تمام مظاہر کے پیچھے امیگریشن مخالفت کی زہریلی نسل پرستانہ سیاست کارفرما ہے۔ جو مقامی محنت کشوں کو امیگرنٹس کے خلاف بھڑکا کر اقدار کی راہیں تو ہموار کرتے ہیں لیکن امیگریشن اس نظام کی بقا کے لیے اتنی ضروری بھی ہے کہ اسے یکسر روکنا ناممکن ہے۔ ٹرمپ پورے چار سال میکسیکو کے بارڈر پر دیوار بنانے کا ڈھول تو پیٹتا رہا لیکن عملاً اس دیوار کی ایک اینٹ تک رکھنے میں ناکام رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ عرب ممالک میں تیل کی دریافت کے بعد ہونے والی ترقی کو بھی بڑے پیمانے پر محنت کش درکار تھے جس کی ایک بڑی تعداد جنوب ایشیا کے مزدوروں نے پوری کی۔ یہ امیگریشن یورپ سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ یورپ میں ترقی پسند ٹریڈ یونیوں اور امیگریشن کے حامی بائیں بازو کی جدوجہد کی بدولت غیر ملکی محنت کشوں کو ناکافی ہی سہی لیکن کچھ سیاسی حقوق حاصل ہیں جبکہ عرب ممالک میں ان محنت کشوں کو بدترین معاشی اور سیاسی جبر سے گزرنا پڑتا ہے۔
مہاجرین کے اس بہاؤ میں ایک اور طغیانی تب پیدا ہونا شروع ہوئی جب امریکی سامراج، نیٹو اور ان کی حامی و مخالف علاقائی سامراجی ریاستوں نے اپنی لوٹ مار کی خاطر مختلف خطوں پر براہِ راست حملے کیے یا وہاں اپنے مفادات کی خاطر پراکسی جنگوں کو شدت دی۔ جس کے نتیجے میں لاطینی امریکہ سے لے کر مشرق وسطیٰ اور پاکستان اور افغانستان سے لے کر افریقہ اور اب یوکرائن تک پورے پورے سماجوں کو تاراج کر کے رکھ دیا گیا۔ پاکستان میں افغان مہاجرین بھی اسی سلسلے کی ایک دردناک کہانی ہیں۔
پاکستان کے اندر اب افغان مہاجرین کی تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے جو سامراجی جنگوں کے نتیجے میں اپنے وطن سے دربدر ہو کر زندگی کی تلاش میں یہاں آ کر بسنے پر مجبور ہوئی ہے۔ پہلے ثور انقلاب کو ناکام بنانے کے لیے امریکی سامراج نے سعودی عرب اور پاکستان کی مدد سے افغانستان کو برباد کیا اور وہاں پہلی بار طالبان کو مسلط کیا گیا۔ دوسری دفعہ اپنے ہی بنائے ہوئے ان درندوں کے خلاف نام نہاد’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر ایک بار پھر پاکستانی ریاست کے ساتھ مل کر افغانستان پر جنگ مسلط رکھی گئی۔ اب حالیہ طالبان اور امریکہ کے درمیان ڈیل کے نتیجے میں طالبان کی واپسی کے بعد افغانوں نے دوبارہ پاکستان کی طرف ہجرت کی ہے۔ اگرچہ ان قانونی و غیرقانونی افغان مہاجرین کی 95 فیصد تعداد پاکستان میں بستی ہے لیکن ملکی آبادی میں یہ اب بھی آدھ فیصد سے بھی کم ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پورے ملک میں چالیس لاکھ افغان مہاجرین رہتے ہیں جن میں سے 17 سے 20 لاکھ غیر قانونی قرار دیے گئے ہیں اور باقیوں کے پاس کوئی قانونی حیثیت ہے۔ ان کی سب سے بڑی تعداد پختونخواہ میں 55 فیصد، بلوچستان میں 25 فیصد، پنجاب میں 15 فیصد، سندھ میں 5 فیصد اور اسلام آباد میں تقریبا3 فیصد ہے۔ یہ لوگ پاکستانی معیشت میں چھوٹے موٹے کاروباروں سے لے کر دیہاڑی دار مزدوری تک مختلف شکلوں میں ایک متحرک کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن اب پاکستانی ریاست ان مہاجرین کو داخلی بحران سے توجہ ہٹانے اور طالبان حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ ان کے بارے میں معیشت پر دباؤ اور سمگلنگ جیسے بیہودہ بیانیے بنائے جا رہے ہیں۔
افغانستان کی کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ میں پاکستان کے خلاف میچ جیت کر اپنی جیت ان افغان مہاجرین کے نام کی ہے جن کو اس وقت اس ملک سے نکالا جا رہا ہے۔ افغانستان کی پہلی ٹیم پاکستان میں ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے والے افغان کھلاڑیوں پر مشتمل تھی جو آج ایک ابھرتی ہوئی ٹیم بن چکی ہے۔ پاکستان کے محنت کشوں کا افغان بہن بھائیوں کے ساتھ یہ رشتہ کئی دہائیوں پر محیط ہے اور پاکستانی ریاست کی جو بھی پالیسی ہو یہاں کے مقامی لوگوں نے ماضی میں بھی افغان مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھولے تھے اور آج جب انہیں نکالا جا رہا ہے تو بھی یہاں لاکھوں کروڑوں محنت کش ان دربدر لوگوں کے دکھ کو محسوس کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ خود معاشی بوجھ اور سیاسی جبر تلے اس قدر دبے ہوئے ہیں کہ فی الوقت کھل کر اپنے ان بہن بھائیوں کی مدد کو نہیں آ سکتے۔ دوسری طرف یہاں کا حکمران طبقہ‘ مڈل کلاس اور محکوم قوموں کے تنگ نظر قوم پرستوں سے مل کر ان مہاجرین کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کے خلاف نفرت کو ابھارا جا رہا ہے، ان کی تذلیل کی جا رہی ہے، انہیں معیشت پر بوجھ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس سارے عمل میں حکمران طبقہ اپنی تمام تر ناکامیوں اور ماضی میں افغانستان کے خلاف اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ مزدور، مہاجر، بے یار و مددگار لوگ جو اس ملک کی معیشت میں اپنی محنت اور خون شامل کرتے ہیں وہ معیشت پر بوجھ نہیں ہیں بلکہ بوجھ تو وہ حکمران اشرافیہ ہے جو طفیلیوں کی طرح ہم پر مسلط ہے۔ جو کوئی محنت نہیں کرتی اور سارے وسائل پر قابض ہے۔ ہمارا مقامی محنت کش طبقے اور ان مہاجرین کو یہی پیغام ہے کہ ہر قسم کے تعصب اور تفریق سے بالا تر ہو کر اپنے اس مشترکہ حقیقی دشمن جو یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے کے خلاف مل کر جدجہد کرنا ہو گی۔ یہی نظام ہمارے بدترین حالات کا ذمہ دار ہے اور اس کی شکست میں ہی افغانستان سے پاکستان اور پوری دنیا کے محنت کشوں کی نجات پنہاں ہے۔