عمران کامیانہ
موسم سرما کو پاکستان جیسے گرم ممالک میں بالعموم خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ بالخصوص میدانی علاقوں کے لوگ گرمیوں کے طویل اور سخت موسم کے بعد سردی کے چند مہینوں کو خوشگوار خیال کرتے ہیں۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں سردی بہت شدید نہیں ہوتی اور مختصر وقت کے لئے ہی آتی ہے۔ علاوہ ازیں ان علاقوں میں محکوم اور محنت کش طبقات کے لئے گرمیوں میں خود کو ٹھنڈا رکھنے کی نسبت سردیوں میں خود کو گرم رکھنا آسان ہوتا ہے۔ اس خطے کے ادب میں بھی خزاں اور سردی کے مہینوں کی خاص اہمیت ہے اور ان میں دھند اور پت جھڑ کے ماحول کو رومانوی انداز سے لیا جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے سال کا یہ نسبتاً خوشگوار حصہ بھی اس خطے کے لوگوں کے لئے ایک عذاب بنتا جا رہا ہے جس کی وجہ سموگ (زہریلی دھند) کا بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔ عام تاثر کے برعکس یہ مسئلہ اب صرف لاہور یا دہلی تک محدود نہیں رہا ہے بلکہ پہاڑی اور میدانی علاقوں کے دیہاتوں اور اسلام آباد جیسے فضائی آلودگی سے پاک سمجھے جانے والے شہروں سمیت جنوب ایشیا کے بیشتر علاقے کسی نہ کسی سطح پر اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں ’آئی کیو ایئر‘ کے مطابق دہلی، کلکتہ، ممبئی، ڈھاکہ، لاہور اور کراچی دنیا میں فضائی آلودگی کے حوالے سے بدترین بڑے شہروں میں سرفہرست ہیں جہاں ایئر کوالٹی انڈیکس 150 سے اوپر ہے۔ جبکہ ایک صحت مند زندگی کے لئے اسے 50 سے نیچے ہونا چاہئے۔ لیکن حالیہ سالوں میں لاہور اور دہلی جیسے شہروں میں اس انڈیکس کا 300 سے اوپر چلے جانا بھی معمول بن چکا ہے جو ’انتہائی خطرناک‘کے زمرے میں آتا ہے اور متاثرہ آبادی کی اوسط عمر کو 5 سال تک کم کر سکتا ہے۔ پاکستان میں آبادی کے حوالے سے بڑے شہروں کے علاوہ بات کریں تو بھی صورتحال کچھ بہتر نہیں ہے۔ حتیٰ کہ سلام آباد اور سوات جیسے پرفضا سمجھے جانے والے علاقوں میں بھی ایئر کوالٹی انڈیکس 150 سے اوپر ہی ہے جس سے عمومی صورتحال کا اندازہ لگایا جا سکتاہے۔ نتیجتاً بالخصوص سردیوں کے مہینوں میں ان شہروں میں آنکھوں اور ناک میں جلن اور پانی بہنا، فلو، کھانسی اور سینے کی انفیکشن جیسے مسائل وبائی صورت اختیار کر جاتے ہیں جبکہ لمبے عرصے میں پھیپھڑوں اور دل کے امراض اور کینسر کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ بزرگ یا پہلے سے دائمی امراض میں مبتلا افرادکے لئے یہ آلودگی اور بھی خطرناک اور اذیت ناک ثابت ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ ایسی فضا میں ورزش جیسی مفید جسمانی سرگرمی بھی نہ کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
جنوب ایشیا سے ہٹ کے بھی چین اور مشرق وسطیٰ سمیت دنیا کے بیشتر شہر فضائی آلودگی سے شدید متاثر ہو رہے ہیں جس کا واضح اظہار تو سموگ کی شکل میں ہوتا ہے لیکن جو اس کے بغیر بھی انسانی صحت پر انتہائی مضر اثرات مرتب کرتی ہے۔ لیکن یہ آلودگی یا سموگ کوئی آسمانی آفت نہیں ہے بلکہ سرمایہ داری کے تحت انسانی سرگرمیوں کا ناگزیر نتیجہ ہے جس کی بنیادی وجوہات میں صنعتوں، اینٹوں کے بھٹوں اور کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹوں کا اخراج، سڑکوں اور تعمیراتی جگہوں سے اٹھنے والی دھول، فصلوں کی باقیات کو لگائی جانے والی آگ اور سب سے بڑھ کر ٹریفک کا دھواں شامل ہیں۔ ان میں سے موخرالذکر کو اکثر دانستہ طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے کیونکہ پٹرولیم کی پیداوار سے لے کر گاڑیاں بنانے اور سڑکوں کی تعمیرات کرنے والی مقامی و ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے منافعے اس سے وابستہ ہیں۔ حالانکہ خود حکومت پنجاب کی ایک رپورٹ کے مطابق لاہور میں 83 فیصد فضائی آلودگی کی وجہ ٹرانسپورٹ ہے جس کا بڑا حصہ پھر نجی گاڑیوں پر مبنی ہے جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کیونکہ شہر ایک بے ہنگم اور بیہودہ انداز میں پھیلتے چلے رہے ہیں اور ٹریفک کے خلل، انتشار اور شور نے زندگیاں تلخ کر ڈالی ہیں۔ بڑے شہروں میں پارکنگ کا مسلسل بڑھتا ہوا مسئلہ اس سے ہٹ کے ہے (جو صرف پسماندہ خطوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ گھمبیر ہے)۔ اربن پلاننگ نام کی کوئی چیز یہاں موجود بھی ہے تو منڈی اور منافع خوری کے تابع ہے اور یہ بے لگام منافع خوری پھر رئیل اسٹیٹ کے طفیلی شعبے اور قیمتی زرعی زمینوں کی دشمن قبضہ گیر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی بھرمار سے وابستہ ہے۔ یہ رئیل اسٹیٹ کا شعبہ جہاں لمبے عرصے میں زراعت اور صنعت کے لئے زہر قاتل ہے وہاں اس نے نودولتیوں کی ایک ایسی پرت کو جنم دیا ہے جس کی نمائش، مقابلہ بازی اور دونمبری کی نفسیات نے سارے سماجی شعور کو آلودہ کر کے رکھ دیا ہے۔ چار دیواریوں میں محصور ”محفوظ“ سوسائٹیاں، جو عدم تحفظ اور شدید بیگانگی کے احساس کی غمازی کرتی ہیں، تعمیر ہوتی جا رہی ہیں، ”کوٹھیاں“ بنتی چلی جا رہی ہیں، پلازے سر اٹھا رہے ہیں لیکن ایک صحت بخش اور باعزت رہائش آبادی کی اکثریت کی پہنچ سے کوسوں دور نظر آتی ہے۔ محنت کش طبقے کی اکثریت انتہائی ذلت آمیز حالات میں زندگی گزارنے پر مجبو ر ہے جہاں ایک یا دو کمرے کے ڈربہ نما مکانوں میں نہ تازہ ہوا کا گزر ہوتا ہے نہ صاف پانی کی فراہمی اور نکاس تک کا کوئی انتظام موجود ہے۔ ان حالات میں گھروں کو بوقت ضرورت ٹھنڈا یا گرم رکھنے اور ”پرائیویسی“ جیسے بنیادی انسانی حق کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی ٹھوس اور مربوط نظام موجود ہی نہیں ہے۔ حالیہ سالوں میں بی آر ٹی اور اورنج لائن جیسے منصوبے جو مختلف شہروں میں مکمل ہوئے ہیں یا زیر تعمیر ہیں‘ سراسر ناکافی ہیں اور زیادہ تر سیاسی مفادات کے لئے نمائشی اہمیت کے حامل ہیں جن میں بڑے پیمانے کی کمیشن خوری شامل ہوتی ہے۔ شہروں کی موجودہ کیفیت میں پبلک ٹرانسپورٹ کے سینکڑوں دیوہیکل منصوبے ایک مربوط پلاننگ کے ساتھ درکار ہیں جس کے لئے نہ وسائل موجود ہیں نہ معاشی و سیاسی طور پر بحران زدہ ریاست کی حکومتیں اتنی دوررس منصوبہ بندی کر سکتی ہیں۔ یہی صورتحال انٹرسٹی ٹرانسپورٹ (شہروں کے درمیان آمد و رفت) کی ہے جسے سرمایہ داری کے نیولبرل ماڈل میں مکمل طور پر سڑکوں پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ موٹروے پر موٹروے بنتی چلی جا رہی ہے اور ریل کا نظام ایک باقاعدہ منصوبہ بند ی کے تحت تباہ کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ ان بڑی شاہراہوں کی تعمیر پہ بے دریغ سرمایہ کاری کر کے عام انسانوں کے لئے آلودگی اور حادثات ہی خریدے جا رہے ہیں۔ لیکن سامراجی سرمائے کے دیوہیکل اور مسلسل منافعے ان سے وابستہ ہیں۔ منڈی اور منافع خوری کی نفسیات سے نکل کے دیکھیں تو ان میں سے بیشتر شاہراہیں اس حوالے سے غیر ضروری ہیں کہ ان کی تعمیر اور مسلسل مرمت پر آنے والے اخراجات کے ایک قلیل حصے سے ریلوے کا ایک باعزت، تیز رفتار اور محفوظ نظام تعمیر کیا جا سکتا ہے جو نہ صرف معاشی بلکہ ماحولیاتی حوالے سے بھی کہیں زیادہ موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ اس میں انسانوں اور مال دونوں کی نقل و حمل شامل ہے۔ لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ (چینی سرمایہ کاری سے جڑے تاملات اور تحفظات سے قطع نظر) سی پیک کے باقی تمام منصوبے جاری ہیں لیکن ریلوے کی اپ گریڈیشن کے ’ایم ایل ون‘منصوبے کو طویل عرصے سے سرد خانے میں رکھا جا رہا ہے جس میں ظاہر ہے سڑکوں کی تعمیرات اور ٹرانسپورٹ سے جڑی لابی ملوث ہے۔
یہاں یہ بات بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ سموگ یا فضائی آلودگی کا مسئلہ ماحولیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ سے جڑے کہیں بڑے مسئلے‘ بلکہ تباہ کاری کا محض ایک پہلو ہے۔ سرمایہ داری اس وقت 37 ارب میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ ہر سال فضا میں خارج کر رہی ہے جس میں مسلسل اضافے کا رجحان موجود ہے۔ 1940ء میں یہ مقدار صرف 5 ارب میٹرک ٹن تھی۔ کوئلے، تیل، گیس وغیرہ (فاسل فیولز) کے اس مسلسل استعمال کے نتیجے میں سیارہ گرم ہوتا جا رہا ہے اور اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نتیجتاً 2023ء انسانی تاریخ کا گرم ترین سال رہا ہے جس میں اوسط درجہ حرات صنعتی انقلاب سے پہلے کی نسبت 1.4 ڈگری سنٹی گریڈ زیادہ تھا۔ اس گلوبل وارمنگ سے قطبین کی برف پگھل رہی ہے اور یہ سلسلہ اگر جاری رہتا ہے تو اس برف میں جمی میتھین گیس بڑے پیمانے پر فضا میں خارج ہو کر گلوبل وارمنگ کے عمل کو کہیں زیادہ تیز کر دے گی۔ اس کے علاوہ سمندروں کی سطح بلند ہو کے ایمسٹرڈیم، بصرہ، کلکتہ، بنکاک سمیت درجنوں ساحلی شہروں کو ڈبو دے گی جس سے اربوں انسان متاثر ہوں گے۔ موسموں میں گہری تبدیلی اور شدت آئے گی۔ سیلاب، خشک سالی کے عرصے، طوفان، جنگلوں کی آگ اور شدید گرمی کی لہریں خوفناک حد تک بڑھ جائیں گی۔اسی طرح نئی وبائی امراض انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے کے کورونا سے کہیں زیادہ اموات اور بربادی کا موجب بن سکتی ہیں۔
یہ ہر لحاظ سے ایک خوفناک تناظر ہے لیکن دولت کے اجتماع اور منافع خوری کے پاگل پن پر مبنی یہ نظام اس ہولناک مستقبل کو انسانیت پر مسلط کرنے کے درپے ہیں۔ اس نظام کے سنجیدہ پالیسی ساز ان خطرات سے بخوبی آگاہ ہیں لیکن منڈی کی حدود و قیود میں رہ کر جو حل (کاربن ٹیکس، کاربن کریڈٹ وغیرہ) وہ تجویز کرتے ہیں وہ سراسر ناقابل عمل ہیں۔ پھر حالیہ عرصے میں ڈونلڈ ٹرمپ (امریکہ)، بولسونارو (برازیل)، ہاویئر ملے (ارجنٹینا) وغیرہ ایسے دائیں بازو کے پاپولسٹ رہنماؤں کا ابھار ہو رہا ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے اور اس حوالے سے اقدامات کے مطالبات کا انتہائی بیہودہ طریقے سے مذاق اڑاتے ہیں۔ یہ سارا مظہر دوسری عالمی جنگ کے بعد تشکیل پانے والے لبرل آرڈر کی گہری سیاسی اور معاشی ٹوٹ پھوٹ کا غماز ہے۔ ماحولیاتی تباہی کو روکنے کے حوالے سے سامراجی سرمایہ داری کی سنجیدگی کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے تحت 2023ء کی سالانہ ماحولیاتی کانفرنس (’کوپ 28‘) کا انعقاد دبئی میں کیا گیا جو خود تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ کانفرنس کی صدارت سلطان الجابر کر رہا تھا جو دبئی کی تیل پیدا کرنے والی قومی کمپنی کا سربراہ ہے! اس موقع پر موصوف کا کہنا تھا کہ گلوبل وارمنگ کو روکنے کے لئے فاسل فیولز کا استعمال ترک کرنے کے پیچھے کوئی سائنس نہیں ہے اور ایسا کرنے سے انسان واپس غاروں میں پہنچ جائے گا! کانفرنس کے اعلامیے میں بھی فاسل فیولز کے استعمال کو ”فیز آؤٹ“ کرنے کی بجائے ”فیز ڈاؤن“ کرنے کی پرفریب اصطلاح استعمال کی گئی۔ بعد ازاں یہ حقیقت بھی آشکار ہوئی کہ دبئی کے حکام اس کانفرنس کو اپنے تیل کی فروخت میں اضافے کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ ان حالات و واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سرمایہ داری میں انسانیت کا مستقبل کس قماش کے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ یاد رہے کہ موجودہ مقدار میں کاربن کے اخراج کے ساتھ دنیا کا اوسط درجہ حرارت 2.6 ڈگری سنٹی گریڈ تک بڑھ جانا یقینی ہے جو مذکورہ بالا صورتوں میں بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ ان مضمرات سے بچنے کے لئے کاربن کے اخراج کو 2030ء تک 40 فیصد جبکہ 2035ء تک 60 فیصد تک کم کرنا اشد ضروری ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے کو 2 ڈگری تک روکنے کے لئے بھی سالانہ 4 ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہے جس کا پانچواں حصہ ہی میسر ہو پا رہا ہے۔ لیکن کاربن کا اخراج بھی ماحولیاتی تبدیلی یا تباہی کا ایک عامل ہی ہے۔ پلاسٹک کا بے دریغ استعمال، دریاؤں اور سمندروں میں مائع صنعتی فضلے کا اخراج، جنگلات کی کٹائی، سمندری مخلوق کا بے دریغ شکار وغیرہ بھی ایسے عاملین ہیں جو فطرت کو برباد کرتے جا رہے ہیں۔
یہ واضح ہے کہ دوسرے مسائل کی طرح ماحولیاتی تباہی کا جو مسئلہ سرمایہ داری نے پیدا کیا ہے وہ اسے حل کرنے سے قاصر ہے اور انسانیت ایک بڑی تباہی کے دہانے پہ کھڑی ہے۔ مصنوعی بارش یا سڑکوں پر پانی چھڑکنے کے نمائشی اقدامات سے سموگ کا مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔ نہ ہی ’کوپ‘ جیسی منافقانہ کانفرنسوں سے عالمی سطح پر گلوبل وارمنگ کو روکا جا سکتا ہے۔ اس نظام میں الیکٹرک گاڑیوں جیسے جگاڑ بھی کان کو دوسری طرف سے پکڑنے کے ہی مترادف ہیں۔ یہ تشویشناک صورتحال متقاضی ہے کہ تمام تر پیداوار، ترسیل، کھپت، نقل و حمل، رہائش اور توانائی کے حصول کے طریقوں کو ہنگامی بنیادوں پر ماحول دوست خطوط پر استوار کیا جائے۔ جس کے ذریعے نہ صرف کرہ ارض کے ماحول کی مزید تباہی کو روکا جائے بلکہ جو نقصان پہلے ہو چکا ہے اس کے ازالے کا بھی بندوبست کیا جائے۔ اس سب کے لئے بے شمار وسائل درکار ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں نئی پیش رفتوں کی ضرورت ہے۔ پہلے سے جو ماحول دوست طریقے، ایجادیں اور دریافتیں موجود ہیں انہیں لیبارٹریوں سے نکال کے بڑے پیمانے پر بروئے کار لانا ہو گا۔ دنیا کو دیکھنے، زندگی گزارنے اور فطرت کے ساتھ رابطے کے انداز کو بدلنا ہو گا۔ جس کے لئے پھر سرمائے کے جبر توڑتے ہوئے ذرائع پیداوار کو منڈی اور منافع کی جکڑ سے نکال کے انسانی ضرور ت، بہتری اور فلاح کے تابع کرنا ہو گا۔ تیل اور گیس سے وابستہ اجارہ داریوں کو اشتراکی تحویل میں لئے بغیر فاسل فیولز کو ”فیز آؤٹ“ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح بینکنگ اور فنانس، توانائی کے حصول، صنعتی پیداوار اور سروسز کے کلیدی شعبوں کو اجتماعی ملکیت اور محنت کشوں کے کنٹرول میں دئیے بغیر ”گرین انرجی“ کے استعمال کو عام نہیں کیا جا سکتا۔ سمندر اور زراعت سے خوراک کے حصول اور پراسیسنگ کے دیوہیکل نظام کو بھی تبھی انسانی صحت اور ماحولیاتی تحفظ کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے جب اس میں سے گھر کے باورچی خانے کی طرح منافع کا عنصر نکال دیا جائے۔ لاکھوں کروڑوں گاڑیوں پر مبنی بے ہنگم نجی ٹرانسپورٹ کی جگہ آرام دہ اور سستی پبلک ٹرانسپورٹ لے گی تو شہر بھی اجلے، کھلے اور صاف دکھائی دیں گے۔ انہی سوشلسٹ بنیادوں پر انسان ایک مکمل بربادی سے بچ کے فطرت کو اپنے تابع کر سکتا ہے۔ اور سوشلزم کا انسان جب فطرت کو اپنے تابع کرے گا تو اسے بگاڑنے اور مسخ کرنے کی بجائے اور بھی زیادہ خوبصورت بنائے گا اور انسانیت ایسی فضا میں سانس لے سکے گی جس میں دم نہیں گھٹے گا بلکہ رگ و پے میں نئی زندگی دوڑ جائے گی۔