اویس قرنی

23 جنوری کو بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے تقریباً ایک ماہ سے جاری دھرنے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے تحریک کے پانچویں مرحلے کا اعلان کیا ہے۔ جس میں اسلام آباد میں جاری دھرنے کے اختتام اور کوئٹہ میں 27 جنوری کو تاریخ ساز جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ ’’اس خطے کی تمام محکوم و مظلوم عوام کو متحرک کر کے اس اتحاد کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ ہر جابر کے خلاف مشترکہ طور پر جدوجہد کریں گے۔‘‘

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا حالیہ احتجاج، مارچ اور دھرنا یقینی طور پر یہاں کی محکوم قوموں کی مزاحمتی تحریک پر انمٹ نقوش چھوڑ گیا ہے۔ نہ صرف بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں میں بسنے والوں بلکہ اس خطے کے وسیع تر عوام کے لیے اس نے جدوجہد کے نئے انداز متعارف کرائے اور انہیں اعتماد اور شکتی فراہم کی۔ تربت سے شروع ہونیوالے اس احتجاجی مارچ کو بلوچستان کے عوام کے ساتھ ساتھ پورے پاکستان کے سیاسی طور پر باشعور لوگوں نے بڑی باریکی سے دیکھا اور اس سے یکجہتی بھی کرتے رہے۔ اسی طرح ریاست بھی مسلسل اس مارچ کو سبوتاژ کرنے کے لیے روایتی جبر و تشدد کے حربے استعمال کرتی رہی۔ نیشنل پریس کلب کے سامنے اس میدانی احاطے نے کئی احتجاجی مظاہرے اور دھرنے دیکھے لیکن بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دھرنا کئی حوالوں سے اپنی مثال آپ تھا۔ بااعتماد، جفاکش اور نوجوان خواتین کی قیادت میں سینکڑوں بزرگ خواتین، مردوں اور بچوں پر مشتمل اس پرامن احتجاجی دھرنے کو صرف سچی مزاحمت کی تپش و حدت ہی ان ٹھٹھرتی سردیوں میں استقامت و مستقل مزاجی بخش سکتی تھی۔ ریاست نے تو نیشنل پریس کلب کے سامنے اس احاطے کو خاردار تاروں، پولیس و ریاستی اہلکاروں کے مسلسل گشت، دھمکیوں اور ہراسانی میں ایک چھوٹا بلوچستان ہی بنا دیاتھا۔ لیکن ان تمام حربوں سے ان مظلوموں کے حوصلے توڑنا کیسے ممکن تھا کہ جنہوں نے آنکھ کھولنے سے ہی ساری زندگی یہ سب برداشت کیا ہو۔

اسلام آباد میں اس احتجاج کا سواگت ہی لاٹھی چارج اور جما دینے والی سردیوں میں پانی کے چھڑکاؤ سے کیا گیا۔ جس کے بعد گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ خواتین سمیت مظاہرین کو حوالات سے ہی سیدھا کوئٹہ ڈی پورٹ کرنے کی شرمناک کوشش بھی کی گئی جیسے وہ کسی اور ملک کے باسی ہوں۔ ہر طرح سے ڈرایا اور دھمکایا گیا ۔ لیکن قیادت ڈٹی رہی۔ اپنے والد کا پتہ جاننے آئی 11 سالہ بچی کا یہ بیان کہ ’’میں پہلی دفعہ جیل گئی‘‘ ان حکمرانوں کے منہ پر تمانچہ ہے۔ دھرنے کے دوران ایک صحافی کے روایتی سوال کے جواب میں ایک سات سالہ معصوم بچی کاکہنا کہ ’’بڑی ہو کر ماہ رنگ کی طرح کامریڈ بنوں گی‘‘ یقینی طور پر جذبات سے سرشار کر دینے والے لمحوں میں سے ایک تھا۔ سمی دین اور ماہ رنگ بھی تو اسی عمر سے اپنے والدین اور بھائیوں کا پتہ مانگتی مانگتی آج اس تحریک کی آواز اور قیادت بنی ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو ’’گودی‘‘ جیسے براہوی زبان کے معتبر القابات سے پکارا جانے لگا ہے۔ جس کی ایک آواز پر پورا بلوچستان بند ہوتا رہا۔ تونسہ اور کراچی میں یکجہتی کے عظیم الشان احتجاج بھی دیکھنے کو ملے۔ ہر دردمند کی آواز ڈاکٹر ماہ رنگ کی آواز میں شامل ہو کر اس کو مزید کاٹ دار اور بے باک کرتی گئی۔ دھرنا کیمپ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کے الفاظ سے کہیں زیادہ ان کی آنکھیں اور ان کے چہرے بولتے تھے۔ ادھوری اردو میں بھی تکلیف و درد کی مکمل عکاسی ہوتی تھی جو سننے والوں کو اندر سے کسی ابلتے سیسے کی طرح چیرتی جاتی تھی۔ کمبلوں اور کھانے کے سامان کی فراہمی پر بندشوں اور دھرنا کیمپ میں لوگوں کو شرکت سے روکنے میں سرگرم پولیس کے ساتھ الجھتی یہ نوجوان خواتین وردی میں کھڑی اس دیوقامت ریاست کو جھڑکتی رہیں۔ دھرنے کے شرکا کی اس بے باکی اور دلیری نے ریاست کے اخلاقی دیوالیہ پن کو ایک بار پھر عیاں کر دیا۔

لیکن ریاست کے لیے دردِ سر بن جانے والا یہ دھرنا تھا کیا؟ یہاں سارا دن تقاریر میں لواحقین کی روداد بیان ہوتی۔ اور ایسی ہر روداد ریاستی جبر و تشدد کی وحشت کی داستان تھی۔ ہر ماں کی اپنے لخت جگر کی بازیابی کے لیے آہیں لوگوں کو جھنجوڑتی رہیں۔ مائیں اپنے بچوں کی تمام برائیوں کی پردہ دار ہوتی ہیں۔ بالعموم سارا زمانہ خراب ہو سکتا ہے لیکن ان کے چشم و چراغ نہیں۔ لیکن یہاں وہ دل پر پتھر رکھ کر کہہ رہی تھیں کہ کچھ غلط کیا ہے تو عدالتوں میں لاؤ، ساری زندگی جیل خانوں میں ڈالو لیکن کچھ پتہ تو بتا دو۔ خستہ حال دھندلے چشمے کے ساتھ بزرگ باپ سارا دن اپنے بچے کی تصویر لے کر اس امید پر بیٹھا رہتا کہ شاید مقتدرہ اس پر ترس ہی کھا کر اس کے ناکردہ گناہ کو بخش دے۔ مختلف خاندانوں کے بچے بچیاں ماؤں کی گود میں اپنے قد سے بڑے اپنے والدوں کے تصویری فریم لے کربیٹھے رہتے۔ ان معصوموں کو تو معلوم ہی نہیں باپ کیا ہوتا ہے۔ اس کی شفقت کیا ہوتی ہے۔ کیسے بچوں کے مستقبل کے لیے فکر مند اس باپ کی ڈانٹ میں بھی محبت غالب ہوتی ہے۔ انہوں نے تو اس کا لمس تک کبھی محسوس نہیں کیا۔ وہ اس سے شام کو لوٹتے وقت بازار سے کچھ کھلونے یا بالیاں لانے کی ضد تک نہیں کر سکے۔ ان میں سے کئی تو اس دوران بچپنے سے نکل کر آج اس تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔ بھائی بہنوں کا والدین کی محبت کے حصول میں مقابلے اور میٹھی رقابت کا رشتہ ہوتا ہے۔ پھر نوک جھونک اورعارضی لڑائیوں کے بعد صلح اور محبت کے خوبصورت احساس جو انہیں کبھی نصیب نہیں ہوئے۔ وہ آج محرومی اور جبر کے یہ تمام مدارج عبور کر کے صرف اپنے بھائیوں کے دیدار کے طلبگار ہیں۔ اس خطے میں جہاں خواتین کھل کر اپنے جیون ساتھی کا نام تک نہیں لیتیں بلکہ بچوں کے ناموں کی نسبت سے انہیں پکارا جاتا ہے وہ اپنے درد کو زباں دینے کے الفاظ کی متلاشی ہیں۔ لاڈ اور اظہار محبت تو دور‘ زندگی کی تلخ ترین آزمائشوں سے بھی صرف یادوں کے سہارے وہ اکیلی جوجھ رہی ہیں۔ طویل خاموشی کی حامل ان آنکھوں میں کھائیوں جیسی وحشت ناک گہرائیاں ہیں۔ لیکن پھر محبت کی ایسی داستانیں بھی ہوں گی جنہیں چیخنے تک کی مراعت میسر نہیں۔ وہ بچے کہ جنہوں نے جوانی کی دہلیز پر سب سے پہلے باپ کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے اور زمانے بھر سے لڑائی مول لینی ہوتی ہے۔ وہ عاجزی کے پیکر بن کر اسی باپ کی بازیابی کے طلبگار ہیں۔ یاریاں، دوستاں، محبتیں، خاندانی رشتے جو اس دنیا کے بیشتر لوگوں کے لیے معمول کے خوبصورت احساسات ہیں۔ یہ ہزاروں لواحقین ان سے یکسر محروم ہیں۔ ان کی زندگیاں معمول سے یکسر ہٹ کے ہیں۔ جنہیں یہی نہیں پتا کہ ان کے پیارے زندہ بھی ہیں یا مر گئے۔ زندہ ہیں تو کس حال میں ہیں۔ اور مارے جا چکے ہیں تو کن حالات میں۔ دھرنے کے یہ شرکا زمین کا کوئی ٹکڑا یا خزانہ نہیں بلکہ اپنے پیاروں کا پتا اور اس دنیا کے ہر انسان کی طرح ایک معمول کی زندگی چاہتے ہیں۔ ان سے یہ حق چھینا گیا ہے، نسل در نسل چھینا گیا ہے اور وحشت ناک جبر کے ذریعے چھینا گیا ہے۔

دھرنے میں شام ڈھلے الاؤ کے گرد بیٹھے نوجوانوں کی گہری اور سنجیدہ سیاسی و نظریاتی بحثوں کا سلسلہ بھی بدستور جاری رہا۔ سب سے بڑھ کر اس کا نظم و ضبط اعلیٰ سیاسی تہذیب و ثقافت کا مظہر تھا۔ جدوجہد بہت کچھ سکھا دیتی ہے۔ جیسے انقلاب روس کے معمار لیون ٹراٹسکی نے اکتوبر کی سرکشی کے دوران ایک تنگ جگہ پر بڑی تعداد میں مزدوروں اور کسانوں کے نظم و نسق سے بھرپور اجلاس کے متعلق کہا تھا کہ انقلاب نے بظاہر ان پڑھ اور اجڈ محنت کشوں کو سمٹ کر بیٹھنے کا فن بھی سکھا دیا تھا۔ ایسے ہی بلوچ قومی تحریک کی دہائیوں پر محیط جدوجہد نے نظم و ضبط، قربانی، تعمیری بحث مباحثے اور جڑت جیسی اقدار کو اس خطے کے نوجوانوں کے رگ و پے میں شامل کر دیا ہے۔

مظلوم جب اکٹھے ہوتے ہیں تو جابر ترین حالات میں بھی مزاح اپنا رستہ بنا ہی لیتا ہے۔اور حس ِمزاح کا مستقل مزاجی اور استقامت کے ساتھ مسلسل آگے بڑھتے رہنے میں اہم کردار ہوتا ہے۔ لیکن اس مزاح میں بھی پھر دہائیوں کا دکھ اور کرب موجود ہوتا ہے۔ یوں احتجاجی دھرنے میں بچوں کی شرارتیں اور کلکاریاں بھی جاری رہیں۔ ریاستی مشینری کی جانب سے جب دھرنے کے سپیکر کی چوری جیسی بھونڈی حرکت کی گئی تو ایک معصوم بچی کا شرارتی مسکراہٹ میں کہنا کہ ’’میں لاپتہ بلوچ ’سپیکر‘ کی بہن ہوں‘‘ اس بات اظہار ہے کہ ان مظاہرین کی تکلیف دہ زندگیوں میں بھی جینے اور جدوجہد کرنے کی امید بہت قوی ہے۔

یقینی طور پر اس دھرنے نے اپنے ابتدائی سیاسی اہداف بھی حاصل کیے ہیں جیسا کہ قیادت کی جانب سے بار بار کہا گیا کہ ہمارا ایک مقصد بلوچستان میں جاری جبر اور قتل و غارت کو دنیا بھر کے سامنے لانا تھا ۔ لیکن اس سے بڑھ کے بھی بلوچستان کے پہاڑوں اور پسماندہ شہر دیہاتوں سے نکل کر بڑے شہروں اور ریاستی مراکز میں جانا تحریک کی بہت بڑی کامیابی اور پیش قدمی ہے۔ جس کے نتیجے میں اس نے دیگر قوموں کے محکوم طبقات کے سامنے خود کو آشکار کیا۔ نتیجتاً مظلوم بلوچوں کے ساتھ پنجاب سمیت دیگر قوموں کے محروم طبقات اور ترقی پسند حلقوں کی بھرپور یکجہتی نے ان تعصبات پر کاری ضرب لگائی جنہیں دہائیوں سے حکمران طبقے کے لوگ پروان چڑھانے میں مصروف رہے ہیں۔ لیکن یہاں نام نہاد ‘عالمی کمیونٹی’ اور اقوام متحدہ جیسے اداروں کی مکروہ حقیقت کا ادراک بھی لازم ہو جاتا ہے۔ اس نظام کے یہ سارے ادارے اسی سامراج کے ٹکڑوں پر پلتے ہیں جس کے ہاتھ کوریا اور ویت نام سے لے کے افغانستان اور عراق تک کروڑوں بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ یہی سامراجی سرمایہ ہے جس سے ان تنظیموں کی عالیشان عمارت اور ان کے اعلیٰ اہلکاروں کی عیاشیاں جڑی ہوئی ہیں۔ آج یہ ساری نام نہاد عالمی کمیونٹی، جو بنیادی طور پر سامراجی کمیونٹی ہے، اسرائیلی صیہونیت کے ہاتھوں غزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی میں پوری طرح معاون اور مددگار ہے جس میں ہزاروں بچوں اور خواتین سمیت 25 ہزار سے زائد فلسطینی اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ کشمیر سے متعلق ان کی درجنوں قرار دادوں کو انہی کے دفاتر کی دھول چاٹ چکی ہے۔ اسی طرح کردوں سمیت دوسری بے شمار محکوم قوموں کا معاملہ ہے۔ ان سامراجی قوتوں اور ان کی آلہ کاری کرنے والے بین الاقوامی اداروں کا کردار کسی طور بھی اس ریاست سے مختلف نہیں جس کے جبر کا شکار بلوچوں سمیت اس ملک کی محکوم قومیں اور استحصال زدہ طبقات ہیں۔ عالمی سطح پر ان کا کوئی دوست او ر ہمدرد ہے تو وہ پھر دنیا بھر کے محکوم اور مظلوم لوگ ہی ہیں جن سے یکجہتی کی اپیل بھی کی جانی چاہئے اور امید بھی رکھی جانی چاہئے۔

اسی طرح حالیہ مارچ اور دھرنے نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ کوئی بھی مظلوم قوم ایک یکجا اکائی نہیں ہوتی بلکہ متحارب اور متضاد طبقات پر مشتمل ہوتی ہے۔ جس میں اس کے اپنے حکمران طبقے کا کردار سامراج کی گماشتگی پر ہی مبنی ہوتا ہے۔ یوں کسی بھی قوم کو اس کے اپنے حکمران طبقے کی سہولت کاری اور کاسہ لیسی کے بغیر محکوم رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ دھرنے کے دوران بلوچستان سے ہی تعلق رکھنے والے نگران وزیر اعظم نے جس جارحانہ انداز سے ریاستی موقف پیش کیا اور مظاہرین پر بدترین الزام تراشی کی وہ شاید کوئی پنجابی وزیراعظم بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اسی طرح پھر اس دھرنے کے مقابلے میں ریاست نے جو کیمپ لگوایا وہ بنیادی طور پر پوری مظلوم قوم میں موجود حکمران طبقے کے کیمپ کا غماز تھا۔

آج کے وقتوں میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے قطعی طور پر انکار نہیں کیا جاسکتا۔ حکمرانوں کی جانب سے اس کا استعمال تحریکوں کو دبانے، پھوٹ ڈلوانے اور انتشار و بدگمانیاں پھیلانے کے لیے بھی کیا جاتا ۔ لیکن مزاحمتی تحریکیں بھی اپنے مطالبات اور پیغام کو پھیلانے کے لیے اس کا استعمال کرتی ہیں۔ اس تحریک میں بھی سوشل میڈیا کا استعمال احسن طریقے سے کیا گیا۔ تحریک کی قیادت کی تصاویر، بیانات اور تقاریر سوشل میڈیا کے تمام مقبول ذرائع پر مسلسل گردش کرتی رہیں۔ اس بات کا فہم بھی ضروری ہے کہ بہت سے رجعتی رحجانات بھی ایسی تحریکوں میں سرایت کرنے کی واردات میں مصروف ہوتے ہیں اور بعدازاں پلٹ کر وار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ جیسے کم از کم سوشل میڈیا کی حد تک تحریک انصاف کے لوگوں نے اس تحریک اور ماہ رنگ کی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے درجنوں پیجز کی تشکیل کی یا پرانوں کے نام بدلے اور اس آڑ میں اپنا کتھارسس کرتے رہے جو یقینی طور پر وہ اپنی یا اپنی پارٹی کی شناخت کے ساتھ کرنے سے گریزاں تھے۔ ان پیجز پر اب گاہے بگاہے انصافی فسطائیت دوبارہ امڈ رہی ہے۔ یوں سوشل میڈیا کے اہم کردار کے ادراک کے باوجود سیاسی لڑائی فیصلہ کن طور پر زندہ سماجوں میں ہی لڑی اور جیتی جا سکتی ہے۔

بلوچ نوجوانوں کی ہراول پرتیں، جو ظلم کی بھٹی میں تپ تپ کر کندن بنی ہیں، ان حقائق سے بخوبی واقف بھی ہیں۔ وہ جبر کا بھی شکار ہیں اور ان کے ساتھ دھوکے اور فریب بھی ہوئے ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر ان کا کئی حوالوں سے بہت محتاط ہونا بھی قابل فہم ہے۔ لیکن پھر محکوم قوموں کی جدوجہد کو طبقاتی خطوط پر استوار کر کے پورے خطے اور دنیا بھر کی قوموں کے استحصال زدہ طبقات سے جوڑے اور سوشلسٹ پروگرام اور لائحہ عمل سے لیس کر کے ہی آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ بصورت دیگر وہ ایک تنگ نظر اور زہریلی قوم پرستی کے خول میں بند ہو کے راستہ اور منزل کھو دیتی ہیں۔ طبقاتی یکجہتی سے بڑھ کر طاقتور اور حقیقی جڑت کوئی نہیں ہو سکتی۔ اس تناظر میں ان نوجوانوں کو مسلح جدوجہد اور انفرادی دہشت گردی کے طریقوں کی محدودیت اور بیشتر صورتوں میں ان طریقوں کے متضاد نتائج کا ادارک بھی کرنا ہو گا اور غیرمقامی محنت کشوں پر حملوں کے انتہائی رجعتی اور تحریک کے لیے یکسر مضر مضمرات کو بھی سمجھنا ہو گا اور اس حوالے سے دوٹوک موقف اپنانا ہو گا۔ کیونکہ ایسے اقدامات آخری تجزئیے میں سامراجی ریاست اور حکمران طبقات کا کام ہی آسان کرتے ہیں۔ اس خطے میں ہر شکل کا قومی جبر اور محرومی اسی دیوالیہ اور تاخیرزدہ سرمایہ دارانہ نظام کی ناگزیر پیداوار ہے۔ یوں قومی نجات کی جدوجہد کو سرمایہ داری کے انقلابی خاتمے کے فریضے کی ادائیگی کے ذریعے ہی کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے۔