اداریہ جدوجہد
8 فروری کے عام انتخابات بارے بورژوا صحافت اور سیاست میں بہت کچھ لکھا اور بولا جا رہا ہے۔ تجزیوں، تبصروں، پیش گوئیوں، الزامات، خدشات اور صفائیوں کا ایک انبار ہے۔ جس میں کچھ حقائق بھی یقینا شامل ہیں لیکن جھوٹ، منافقت، مکاری اور فریب کی بھی کمی نہیں ہے۔ لیکن حکمران طبقات کے سنجیدہ ترین دانشوروں اور پالیسی سازوں کے تجزیوں اور تناظروں پر بھی غور کریں تو وہ تاریخی پس منظر سے کٹے ہوئے، عالمی حالات سے ماورا، سطحی اور جزوی ہی نظر آتے ہیں۔ کچھ ادھوری سچائیوں کو بیان کرنے کے باوجود وہ پاکستانی سرمایہ داری کی کوکھ میں سلگتے تضادات کے ادراک اور انہیں حل کرنے کے کسی ٹھوس لائحہ عمل سے عاری ہونے کے سبب عملی مناسبت یا مطابقت کے حوالے سے بالکل کھوکھلے اور بے معنی ہو کے رہ جاتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر حکمران دانش اور فکر کا بحران ہے جو دنیا بھر میں گہرا ہی ہوتا جا رہا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ سرمایہ داری کے ان علمبرداروں اور رکھوالوں کی خود اپنے نظام سے متعلق پیش بینی کسی بہتری کے امکان اور رجائیت سے خالی نظر آتی ہے۔ نیا حکومتی سیٹ اپ ابھی بنا نہیں ہے لیکن اس کے نہ چل پانے یا مسلسل غیر یقینی کیفیات میں گھرے رہنے کے خدشات کا اظہار پہلے سے کیا جا رہا ہے۔ یوں آئندہ کے اس اقتدار کی حالت مرزا غالب کے بقول کچھ ایسی ہے کہ
؎تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
پاکستانی سرمایہ داری اپنی پسماندگی اور تاریخی تاخیرزدگی کے سبب یوں تو روزِ اول سے مسلسل عدم استحکام کی زد میں رہی ہے لیکن 2008ء کے بعد اس کا بحران ایک معیاری اظہار کے ساتھ کھل کے سامنے آیا ہے۔ 2017ء میں نواز شریف کی بے دخلی کے بعد یہ مزید بھڑک اٹھا ہے اور مختلف کیفیات سے گزرتا ہوا موجودہ حکومت کی تشکیل کے ساتھ اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ اس صورتحال کا ایک مجتمع شدہ سیاسی اظہار حالیہ انتخابات میں بھی ہوا ہے۔ جن کے نتائج تمام تر ”مینجمنٹ“ اور جبر کے باوجود خود ریاستی پالیسی سازوں کے لئے بھی بڑی حد تک غیرمتوقع رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے جن کو واپس بوتل میں بند کرنا ان کے لئے بہت مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ جیسا کہ ہم نے گزشتہ تحریروں میں واضح کیا تھا کہ 9 مئی کے بعد دھونس، جبر اور کریک ڈاؤن وغیرہ کے ذریعے تنظیمی طور پر تو تحریک انصاف کو تتر بتر کر دیا گیا ہے لیکن عمران خان کی مقبولیت نہ صرف موجود ہے بلکہ ڈیڑھ سال میں پی ڈی ایم حکومت نے عوام کا جو حال کیا ہے اس سے عمران خان مزید مقبول ہو گیا ہے۔ حتیٰ کہ ن لیگ اور دوسری جماعتوں کا بہت سا ووٹ ٹوٹ کر تحریک انصاف کی طرف چلا گیا ہے۔ اس میں پھر عمران خان کے مظلومیت اور ”مزاحمت“ کے ناٹک کا بھی اہم کردار ہے۔ کیونکہ عام لوگوں میں ریاستی اداروں کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
بہرحال عمران خان جیسے رجعتی اور عوام دشمن انسان کا ملک کا مقبول ترین سیاسی رہنما بن جانا بذات خود پاکستانی سماج کے گہرے بحران اور ثقافتی و سیاسی زوال پذیری کی علامت ہے۔ لیکن پھر تحریک انصاف کے مظہر کو بھی ایک ایسے یک رخے یا میکانکی انداز سے نہیں دیکھا جا سکتا جس میں بالخصوص 2011ء کے بعد محض ریاستی لانچنگ اور پشت پناہی کو ہی اس کے ابھار کی وجہ گردانا جائے۔ مختلف سیاسی مہروں کو لے کے ایسی کوششیں ماضی و حال میں کئی بار کی جا چکی ہیں اور بیشتر صورتوں میں ناکام ہی ہوئی ہیں۔ کوئی بھی سیاسی مظہر معروضی بنیادوں اور حمایت کے بغیر نہ اتنے بڑے پیمانے پر ابھر سکتا ہے نہ خود کو طویل عرصے تک برقرار رکھ سکتا ہے۔ تحریک انصاف نے مخصوص معروضی حالات میں مقبولیت حاصل کی ہے جس میں بالخصوص 1980ء کے دہائی کے بعد سے سرمایہ داری کی نیولبرل بنیادوں پر استواری کے ساتھ یہاں ایک پڑھی لکھی، پروفیشنل یا وائٹ کالر مڈل کلاس کی پیداوار کا اہم کردار ہے۔ جس نے پیٹی بورژوازی کی پرانی ہیئت، ساخت، ثقافت اور سوچ کو بڑی حد تک تبدیل کیا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں کچھ دوسرے عوامل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جن میں 2008ء کی پیپلز پارٹی حکومت کی بدترین ناکامی کے بعد پارٹی کا بڑے پیمانے پر عوامی استرداد بھی شامل ہے۔ یہ ایک ایسا خلا تھا جسے محنت کش طبقے کے عدم تحرک اور مزدور تحریک کے تعطل یا جمود کے حالات میں تحریک انصاف پُر کرنے کی طرف گئی۔ لیکن 2008ء کے بعد پیپلز پارٹی مزید دائیں جانب ہی جھکتی چلی گئی ہے اور عملاً دیکھا جائے تو آج پاکستانی سیاست کے بائیں بازو سے ن لیگ کے بائیں بازو میں تبدیل ہو چکی ہے۔ تاہم یہ ساری صورتحال پھر ن لیگ کی اپنی ناکامی اور زوال پذیری کی بھی غماز ہے۔ جو یہاں کے حکمران طبقے کے تاریخی طور پر مخصوص گماشتہ اور خصی کردار کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور معاشی بحران کی شدت کے ساتھ بڑھتی گئی ہے۔
ان حالات کو ایک بین الاقوامی و عالمی تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف جس دائیں بازو کے پاپولزم کا مظہر ہے وہ پوری دنیا میں مختلف شکلوں اور شدتوں کے ساتھ اپنا اظہار کر رہا ہے۔ جس کی بڑی وجہ پھر دائیں اور بائیں بازو کی روایتی سیاست کا استرداد ہے۔ کیونکہ لبرل یا بائیں بازو کی اصلاح پسندی کی یہ سیاست جن معاشی بنیادوں پر استوار رہی ہے وہ 2008ء کے بعد بری طرح سے ہل گئی ہیں اور مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی جا رہی ہیں۔ نتیجتاً ان بنیادوں پر کھڑے مروجہ سیاسی ڈھانچے بھی مسلسل لرز رہے ہیں۔ اگر غور کریں تو 2008ء کے بحران نے نہ صرف دوسری عالمی جنگ کے بعد تشکیل پانے والے لبرل آرڈر بلکہ 1980ء کی دہائی میں ’واشنگٹن اتفاقِ رائے‘ (Washington Consensus) کی شکل میں اس کی نیولبرل تشکیل نو کو بھی اڑا کے رکھ دیا ہے۔ عالمی معیشت بحالی کی بجائے بیشتر صورتوں میں مزید سست روی اور گراوٹ کا شکار ہو رہی ہے۔ لوگوں کا معیارِ زندگی اور حقیقی آمدنیاں گر رہی ہیں۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگلے چار سالوں کے لئے دنیا کی تین چوتھائی حکومتیں آسٹریٹی (کٹوتیوں) کے منصوبے بنائے ہوئے ہیں۔ یہ ایک دھماکہ خیز صورتحال ہے جو مروجہ سیاست کے تہس نہس ہو جانے کے امکانات سے لبریز ہے۔ جن میں بڑی مزاحمتیں اور بغاوتیں بھی شامل ہیں۔ لیکن ان حالات میں عوامی غم و غصے کو جہاں کہیں انقلابی سوشلسٹ پروگرام اور لائحہ عمل سے لیس نہیں کیا جا سکے گا وہاں قدامت پرستی، نسلی تعصب اور فسطائیت کی مختلف شکلوں پر مبنی دائیں بازو کے نئے رجحان سامنے آئیں گے جو محنت کشوں پر سیاسی و معاشی جارحیت کی انتہا کر دیں گے۔
خود پاکستان میں تمام تر سیاسی انتشار اور میڈیائی تماشوں کے باوجود لوگوں میں مروجہ سیاست سے شدید بیزاری اور بے رخی کی نفسیات پائی جاتی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کو درست مان لیا جائے تو بھی حالیہ انتخابات میں ٹرن آؤٹ 48 فیصد سے بھی کم رہا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ سیاسی پولرائزیشن میں شدت کے باوجود آبادی کی اکثریت نے انتخابی عمل سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ انتخابی نتائج کا ایک اور اہم پہلو سماجی سطح پہ چھائی مذہبیت کے باوجود مذہبی پارٹیوں کا بری طرح شکست سے دوچار ہونا بھی ہے۔ مولوی فضل الرحمان کی پارٹی کی چند ایک سیٹوں کو چھوڑ کر باقی مذہبی پارٹیاں انتخابی کامیابی حاصل نہیں کر پائی ہیں۔ اگرچہ یہ مظہر الگ سے تجزئیے کا متقاضی ہے۔
بہرحال ان حالات میں کم از کم 40 تا 50 سیٹوں کی ہیر پھیر کے ساتھ جو نئی مخلوط حکومت تشکیل دی جا رہی ہے وہ اقتدار میں آنے سے قبل ہی اپنی ساکھ کھو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف نے فی الوقت پیچھے ہٹ جانا ہی مناسب سمجھا ہے تاکہ کسی زیادہ نازک مرحلے پر استعمال ہونے کے لئے خود کو بچا رکھے۔ لیکن ان کی اصل رسوائی اور نامرادی اقتدار میں آنے کے بعد شروع ہو گی۔ معیشت کے خسارے اور قرضے تاریخی طور پر بلند ترین سطح پر کھڑے ہیں۔ اگلے تین سال میں پاکستان پر 75 ارب ڈالر سے زائد کا صرف بیرونی قرضہ واجب الادا ہے۔ چنانچہ آئی ایم ایف کے پروگراموں سے جان چھوٹنے والی نہیں ہے اور انہیں کٹوتیوں، مہنگائی، نجکاری و بیروزگاری کے حملے مسلسل کرنے پڑیں گے (اگرچہ نگران حکومت سے بہت سی واردات پہلے کروا لی گئی ہے)۔ خود نواز شریف نے کہا ہے کہ اگلے دو سالوں میں سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔ پیپلز پارٹی وزارتیں نہ لینے جیسے جتنے بھی بھونڈے اقدامات کرتی رہے‘ وہ اس حکومت کے ہر اقدام میں برابر شریک اور ذمہ دار ہی تصور ہو گی۔ حکمرانوں کی یہ مفاہمت محنت کشوں سے ہر روز اس سماج میں زندہ رہنے کا انتقام لے گی۔ ان حالات میں عمران خان کی مقبولیت میں یقینا اضافہ ہی ہو گا۔ چاہے اسے لمبے عرصے تک منظر عام سے غائب ہی کیوں نہ رکھا جائے۔ لیکن عمران خان کے بعد بھی کسی نئے چہرے کے ذریعے تحریک انصاف کے جزوی تسلسل کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
فی الوقت تحریک انصاف کے ہاتھ پیر مزید باندھنے کی کوششیں جاری ہیں جس میں ڈبل ایجنٹوں کی وسیع واردات بھی شامل ہے اور اب سنی اتحاد کونسل کی آلہ کار قیادت کو بھی استعمال کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ جیسا کہ مخصوص نشستوں کے مسئلے میں نظر آ رہا ہے جس میں سنی اتحاد کونسل کے رہنما نے خود الیکشن کمیشن کو لکھ دیا ہے کہ انہیں مخصوص نشستیں نہیں چاہئیں۔ بہرحال تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد اراکین کو دھونس، لالچ اور جبر وغیرہ کے طریقوں سے ہر ممکن حد تک قابو میں رکھنے اور استعمال میں لانے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن اس ساری صورتحال میں پھر (بالخصوص عمران خان کے حوالے سے) ریاست کے اندر موجود تقسیم اور دھڑے بندی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جو فی الوقت تو کسی حد تک دبی ہوئی ہے لیکن مخصوص حالات میں دوبارہ بھڑک بھی سکتی ہے اور بڑی ٹوٹ پھوٹ کی نہج تک بھی جا سکتی ہے۔ لہٰذا حالیہ انتخابات کی طرح ضروری نہیں آئندہ بھی ان کی ہر منصوبہ بندی اور حکمت عملی کامیاب ہو پائے۔ نظام اس قدر عدم استحکام اور غیریقینی صورتحال کا شکار ہے کہ نئی حکومت کے لمبے عرصے تک چل سکنے کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے۔ لیکن یہ چلتی بھی ہے تو خود حکومتی اتحادیوں کے درمیان مسلسل الزام تراشی، چھینا چھپٹی، تذبذب اور انتشار کا شکار ہی رہے گی اور معاشی حالات میں ابتری اس کے داخلی بحران کو شدیدتر ہی کرے گی۔ نظام کے بحران کی قیمت عوام سے وصول کرنے کے سخت اقدامات کے ذریعے معاشی اشاریوں میں کوئی بہتری یا استحکام بھی آتا ہے تو وقتی اور جزوی ہی ہو گا۔ تاہم مسلسل معاشی حملوں، تنگی اور جبر کے یہ حالات و واقعات محنت کش عوام کی بغاوت کو بھڑکا دینے کا موجب بھی بن سکتے ہیں۔ اس وقت گلگت بلتستان اور کشمیر سے لے کے پختونخواہ اور بلوچستان تک قومی تحریکیں مسلسل سلگ رہی ہیں۔ جن میں طبقاتی مسائل اور مطالبات کا عمل دخل بھی موجود ہے۔ لیکن حالات جس نہج کو جا رہے ہیں وہاں بڑے شہروں اور صنعتی مراکز میں طبقاتی تحریکوں کے پھٹ پڑنے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جس سے سارا ملکی منظر نامہ چند گھنٹوں میں تبدیل ہو سکتا ہے (ایسے حالات میں ریاستی آقاؤں کی جانب سے عمران خان کو بھی دوبارہ ابھارنے کی کوشش کی جا سکتی ہے)۔ لیکن ایسی کوئی تحریک بہت تیزی سے حکمران طبقے کی ساری سیاست کو چیر کے آگے نکل سکتی ہے اور انقلابی قیادت کا سوال منظر عام پہ لا سکتی ہے۔ یہ نازک حالات اور امکانات، جن میں ’طبقاتی جدوجہد‘ کی تاریخ ساز 41ویں کانگریس 2024ء منعقد ہونے جا رہی ہے، انقلابیوں کے لئے ایک تاریخی چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جس پر اس ملک، خطے اور دنیا بھر میں بڑے پیمانے اور وسیع اثر و رسوخ کی حامل بالشویک پارٹی اور انٹرنیشنل کی تعمیر کے ذریعے ہی پورا اترا جا سکتا ہے۔