حارث قدیر
پاکستان اور بھارت کے مابین تقسیم ہمالیائی خطے کے منقسم حصوں میں نوآبادیاتی جبر کے خلاف مزاحمت کی نئی آوازیں ابھر رہی ہیں۔ ایک تنازعے، مشترک جغرافیوں، ثقافتی ورثوں اور مسائل کے مشترک کردار سمیت بے شمار ایسی چیزیں ہیں جو ان مزاحمتی تحریکوں کے درمیان مستقبل میں آپسی تعلق کے استوار ہونے کی راہ ہموار کر سکتی ہیں۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیرمیں تحریک ماضی کے اتار چڑھاؤکے بعد گزشتہ 10 ماہ سے ایک تسلسل کے ساتھ چل رہی ہے۔ پاکستان کے ہی زیر انتظام گلگت بلتستان کے علاقے میں بھی ایک سال کے وقفے کے بعد پھر ہزاروں کی تعداد میں شہریوں نے سڑکوں پر آ کر نوآبادیاتی نظام کو چیلنج کیا ہے۔ جبکہ بھارت کے زیر انتظام لداخ کے دونوں اضلاع لیہ اور کارگل میں بھی ہزاروں افراد نے سڑکوں پر آ کر بھارتی حکمرانوں کے توسیع پسندانہ عزائم کو چیلنج کیا ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں تحریک کا کردار طبقاتی مسائل کے حل کی آوازوں سے نوآبادیاتی جبر اور نیو لبرل پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کی صورت نظر آ رہا ہے۔ گندم اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کیخلاف احتجاج کرتے عوام اس خطے میں پیدا ہونے والی پن بجلی کے منصوبوں پر اختیار اور پانی کے ذخائر کی بنیاد پر پیدا ہونے والی گندم پر سبسڈی کی فراہمی سمیت دیگر وسائل پر اختیار مانگ رہے ہیں۔ اسی قسم کی صورتحال گلگت بلتستان میں بھی ہے۔ دوسری طرف لداخ میں آئینی و سیاسی اختیارات کے حصول کی جدوجہد وسائل کی لوٹ مار سے سامراجی حکمرانوں کو روکنے اور اس خطے کی ڈیموگرافی کو لاحق خطرات اور خدشات کو دور کرنے جیسے مطالبات پر مشتمل ہیں۔
یہ تینوں علاقے گزشتہ 76 سال سے ایک تنازعے میں بندھے ہوئے ہیں۔ ماضی کی شاہی ریاست ’جموں کشمیر‘میں شامل قومیتوں اور علاقوں پر دونوں نوزائیدہ ملکوں کی قبضے کی خواہش نے جس تنازعے کو جنم دیا تھا وہ آج 76 سال بعد بھی حل ہونے کی بجائے مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس دوران ان سارے خطوں میں بے شمار تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ 1947ء سے مسلسل ہونے والی ان تبدیلیوں کی وجہ سے قومی محرومی کے کسی حد تک یکجا اظہار کا ایک تاثر، جو عمومی طور پر سماج پر ظاہر ہو رہا تھا، بھی کئی جہتوں میں تقسیم ہوتا ہوا نظر آیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ ان تمام تر سیاسی تبدیلیوں کے پیچھے سامراجیوں کی ’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘ کی پالیسی تھی۔ وہیں وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی شعور میں آنے والی تبدیلیاں اور محرومی کی دیگر اشکال کا ظاہر ہونا بھی ایک وجہ تھی۔
بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں پہلے جموں اور کشمیر کے درمیان تقسیم بڑھتی نظر آئی۔ ساتھ ہی پیرپنجال کے پہاڑی خطے یاقبائل کی تقسیم سامنے لائی گئی اور پھر لداخ کی تقسیم بھی سامنے آنے لگی۔ یہ تمام تفریق وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے بڑھتی رہی اور بھارتی ریاست اور حکمران طبقات اس تقسیم کو مزید ہوا دیتے ہوئے اقتدار کا تسلسل قائم کرنے اور سیاسی، معاشی و سامراجی مفادات کی تکمیل کے عمل میں مصروف رہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں تھی۔ جموں کشمیر میں اس تقسیم کو قبائل کے مابین کھینچا تانی کی شکل سامراجی منصوبہ بندی کے تحت دی گئی۔ تاہم گلگت بلتستان میں مختلف قومیتوں کے مابین ماضی کی تقسیم کو ایک جبر میں جوڑے جانے کے باوجود اس خطے میں وہ ہم آہنگی پیدا ہی نہیں ہو سکی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے درمیان پہلے سے ہی محض تنازعے کاحصہ ہونے کے سیاسی تعلق کو سرے سے ہی ختم کرنے کی پالیسی اپنائی گئی۔ گلگت بلتستان بھی لداخ کے علاقے بلتستان، گلگت ایجنسی اور متعدد چھوٹی شخصی ریاستوں پرمشتمل ہے۔ جس میں 5 بڑی زبانوں سمیت 9 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔
یہی کیفیت لداخ کی بھی ہے۔ جہاں مذہبی تقسیم کے ساتھ ساتھ زبان اور نسل کی تفریق اور تقسیم بھی موجود ہے۔ تاہم محض 3 لاکھ آبادی کی وجہ سے تقسیم لیہہ اور کارگل کے اضلاع تک ہی محدود ہے۔ اس تقسیم میں بڑی حد تک مذہب کا عمل دخل بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کو خصوصی حیثیت سے محروم کرنے کے کیلئے کسی حد تک بھارتی حکمران لداخ کے ضلع لیہہ کی آبادی کو اپنے حق میں استعمال کرنے میں کامیاب ہوئے۔ تاہم جو وعدے ان کے ساتھ کئے گئے تھے ان پر پورا نہ اترنے کی صورت 5 اگست 2019ء کو جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کیے جانے کے اقدام کے چند روز بعد ہی لیہہ میں احتجاجی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی تھیں۔
یہ درست ہے کہ زبان، ثقافت، جغرافیائی ہیئت سمیت دیگر فرق موجود تھے اور کسی رضاکارانہ عمرانی معاہدے یا منڈی کے تاریخی ارتقا کے نتیجے میں یہ خطے آپس میں نہیں جڑے بلکہ جبر کے ذریعے ایک شخصی راج میں جوڑے گئے تھے۔ 1947ء میں دو ملکوں کے درمیان ایک تنازعہ کی شکل اختیار کرنے کے بعد اس تنازعے کو ’مسئلہ کشمیر‘ ہی قرار دیا گیا تھا۔ دیگر تفریقوں کے باوجود ’مسئلہ کشمیر‘ کی وجہ سے اس سارے خطے کو آج بھی کشمیر ہی سمجھا یا قرار دیا جاتا ہے۔ البتہ گزشتہ لمبے عرصے میں ہونے والی تبدیلیوں اور آئینی و سیاسی حقوق کی جستجو سمیت سامراجی مفادات کے ٹکراؤ کے تحت کیے جانے والے اقدامات نے اس تنازعے کے ساتھ جڑے علاقوں کی کثیر القومی، کثیر اللسانی، کثیر الثقافتی اور کثیر المذہبی حیثیت کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔
جدید قوم کی تعمیر ایک قومی منڈی کی تشکیل کے نتیجے میں چھوٹی قومیتوں، زبانوں، ثقافتوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے ایک منڈی کے تحت ایک بالا دست یا کسی حد تک نئی مشترکہ ثقافت، زبان اور قدروں میں پروئے جانے کی صورت ممکن ہو پاتی ہے۔ تاہم برصغیر کی سامراجی تقسیم کے بعد تاخیر زدہ سرمایہ داری کے تحت جدید قوموں کی تشکیل میں دونوں نو مولود ریاستوں کے حکمران طبقات مکمل طور پر ناکام رہے۔ ان دونوں ملکوں کی آئینی حدود میں شامل قوموں کے باہم ادغام کا عمل بھی مکمل نہ ہو سکا اور آج بھی یہ دونوں ملک محکوم قوموں کے جیل خانوں کی شکل میں دنیا کے نقشے پر موجود ہیں۔ ایسی صورت میں نیم جاگیردارانہ سماجی ڈھانچوں پر مشتمل علاقوں کی ایک شخصی جاگیر، جسے دونوں نومولود ملکوں کے مابین سامراجی عزائم کے تحت تقسیم کر کے بین الاقوامی تنازعہ قرار دے دیا گیا، کسی طور ایک جدید قوم کی صورت میں ڈھل نہیں سکتی تھی۔ یوں اس خطے کے اندر قومیتوں کی تقسیم مزید گہری ہی ہوتی گئی ہے۔
سامراجی قبضے کو مستحکم کرنے کیلئے مختلف اوقات میں اپنائی گئی حکمت عملیاں بھی ان خطوں کے درمیان تفاوت کو مزید گہرا کرتی گئیں اور لائن آف کنٹرول (سیز فائر لائن) کے ہر دو اطراف مزید تقسیم کی بنیادیں گہری ہوتی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ اول تو پاکستانی زیر انتظام علاقے گلگت بلتستان کو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے علاقوں سے مکمل طور پر کاٹ کر الگ رکھا گیا۔ وہاں بتدریج پاکستان کا صوبہ بنائے جانے کا بیانیہ پروان چڑھتا گیا۔ جو پے درپے نافذ کیے گئے صدارتی حکم ناموں اور بعد ازاں مکمل صوبے کی جگہ عبوری صوبہ بنانے کی تجویز کے بعد پھیکا پڑ گیا۔
گلگت بلتستان کے لوگوں کو یہ باور کروایا گیا کہ جموں کشمیر تنازعہ (مسئلہ کشمیر) کے حل ہونے تک گلگت بلتستان کو پاکستان کا مکمل صوبہ نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کے علاوہ وسائل کی لوٹ مار، معدنیات کی نکاسی، پاک چین اقتصادی راہداری اور پن بجلی کے پوٹینشل کو استعمال کرنے سمیت ہر طرح کی سرمایہ کاری کے نام پر لوٹ مار اور ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کیلئے ’پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ 1951ء‘ کا نفاذ کرنے کی حد تک تو یہ علاقے پاکستان کا آئینی حصہ تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم جب وسائل پر حق اور اختیار دینے کے علاوہ سیاسی نمائندگی اور جمہوری حقوق کی فراہمی کی بات آتی ہے تو یہ اس تنازعہ کی زد میں آ جاتے ہیں۔ اس لئے حقوق کی بازیابی کی جدوجہد وسائل پر اختیار، سیاسی اختیارات کی مانگ اور ڈیموگرافی کو محفوظ رکھے جانے کے مطالبات کی صورت میں اپنا اظہار کرتی ہے۔
دوسری جانب بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھی ویلی (کشمیر) مخالف بیانیہ کو سرکاری سطح پر ترویج دی گئی۔ اکثریتی آبادی، زیادہ سیاسی نمائندگی سمیت ایسے بہت سے پہلو تھے جن کو استعمال کرتے ہوئے بھارتی ریاست نے پہلے جموں اور کشمیر کے مابین اور پھر لداخ اور کشمیر کے مابین تقسیم کو گہرا کیا۔ لیہہ میں یہ تاثر عام تھا کہ لداخ کی پسماندگی کی وجہ جموں کشمیر کی سیاسی قیادت یا حکمران اشرافیہ ہے۔ جموں میں بھی یہ تاثر عام ہے۔ اسی طرح قبائلی علاقوں میں بھی اس تاثر کو ریاستی سرپرستی میں عام کروایا گیا۔ اس پروپیگنڈہ میں سب سے اہم اور بنیادی کردار بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لیہہ وہ واحد جگہ تھی جہاں 5 اگست 2019ء کے بھارتی حکومت کے اقدام کو خوش آمدید کہا گیا اور جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام پر جشن منایا گیا۔ البتہ یہ جشن محض چند روز میں ہی پھیکا بھی پڑ گیا۔
اب لداخ کو ریاستی حیثیت دینے، ملازمتیں اور زمینیں محفوظ کرنے، سیاسی نمائندگی میں اضافے کے مطالبہ کے حصول کیلئے اس خطے کی تین لاکھ آبادی سڑکوں پر ہے۔ تاہم پاکستانی زیر انتظام علاقوں کی طرح لداخ کے عوام کی نمائندگی بھی کسی منظم سیاسی قیادت کی بجائے سیاسی، مذہبی اور سول سوسائٹی تنظیموں کی مشترکہ قیادت کے ہاتھوں میں ہے۔ ہر دو اطراف عوامی جدوجہد کو قیادتیں حکمرانوں کے ساتھ مذاکرات کے لمبے ادوار میں الجھاکر ارادی یا غیر ارادی طور پر ٹھنڈا کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ ایک تنازعے کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے حوالے سے جدوجہد کو مشترکہ بنیادوں پر جوڑنے اور وسیع مقاصد کے حصول کی جدوجہد میں تبدیل کرنے کیلئے متبادل پروگرام کے فقدان سمیت قیادت کی نظریاتی اور سیاسی محدودیت کھل کر عیاں ہو رہی ہے۔ گو کہ 7 دہائیوں کی جغرافیائی تقسیم اور محدودیت بھی ایک بڑی وجہ ہے تاہم ایک مشترک اور متبادل پروگرام کی بنیاد پر اس محدودیت پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔
حکمرانوں کے ساتھ مذاکرات اور معمولی حاصلات پر اس عوامی ابھار کو کئی بار تو زائل کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ہر بار ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ لیکن ہمالیائی پہاڑوں میں بسنے والے محنت کشوں کو ان تجربات سے سیکھنا ہو گا۔ اس ٹکڑوں میں بٹی ہوئی جدوجہد کو مشترکہ مسائل اور مقاصد کی بنیاد پر آپس میں جوڑے بغیر نجات ممکن نہیں ہے۔ تاہم یہ سلسلہ محض چھوٹے اتحادوں کی بنیاد سے ہی شروع ہو سکتا ہے۔ جو آگے چل کر محکوم قوموں کے محنت کشوں پر مبنی وسیع اتحاد کی صورت میں اپنا اظہار کر سکتا ہے۔ ان مقاصد کے حصول کیلئے تنگ نظر قوم پرستی، توسیع پسندانہ عزائم اور استعماری فکر پر مبنی قیادتوں اور نظریات سے فاصلہ اختیار کرتے ہوئے تنازعہ جموں کشمیر سے جڑی تمام قومیتوں کے حق آزادی کو تسلیم کرنا ہو گا۔ تمام قومیتوں کے محنت کشوں کے اتحاد کی بنیاد پر وسائل اور افرادی قوت کی شراکت داری کے اصولوں کو وضع کرتے ہوئے رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کے اصولوں پر اس جدوجہد کو فتح یابی کی طرف گامزن کیا جا سکتا ہے۔ یہی اتحاد نہ صرف پاکستان اور بھارت کی محکوم اور سامراجی قوموں کے محنت کشوں کے اتحاد کی بنیادیں ڈال سکتا ہے بلکہ پورے جنوب ایشیا میں آزادی اور انقلاب کے نئے راستوں کا ضامن ہو سکتا ہے۔
ہمالیہ کے پہاڑوں سے ابھرنے والی بغاوتیں جہاں سیاسی، معاشی اور جمہوری آزادیوں کے بڑے اور وسیع مقاصد کے حصول کیلئے اجتماعی سیاسی شعور کا اظہار ہیں وہاں یہ اس خطے کے محنت کشوں کیلئے ایک امید کی کرن بھی بن چکی ہیں۔ تاہم ایک متبادل انقلابی قیادت کا فقدان نہ صرف لائن آف کنٹرول کے ہر دو اطراف کھل کر اپنا اظہار کر رہا ہے بلکہ بھارت اور پاکستان میں بھی ایک متبادل انقلابی قیادت کا بحران تمام تر بحرانات کے اجتماعی اظہار کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ معروض کی ان انگڑائیوں کو موضوعی عنصر کی فراہمی نئی اور استحصال سے پاک دنیا کے قیام کا باعث بن سکتی ہے۔