راہول
ہندوستان میں کسانوں کی تحریک ایک بار پھر زور پکڑ رہی ہے۔ پنجاب کے کسانوں سے شروع ہونے والی یہ احتجاجی لہر تیزی سے دیگر علاقوں تک پھیل رہی ہے۔ بھارتی ریاست کی جانب سے نہ صرف مظاہرین پر آنسو گیس اور واٹر کینن سے پانی وغیرہ پھینکنے کا سلسلہ جاری ہے بلکہ تحریک سے جڑے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بلاک کرنے سمیت ہر قسم کے جبری ہتھکنڈے اپنائے جا رہے ہیں۔
حالیہ مظاہرے 13 فروری کو اُس وقت منظر عام پر آئے جب تقریباً تین سال بعد ایک بار پھر کسانوں کی جانب سے اپنے مطالبات پورے نہ ہونے کے خلاف ’دہلی چلو‘ مارچ کا اعلان کیا گیا۔ اس سے قبل 2020-21ء میں پہلی بار کسانوں نے تین نیو لبرل زرعی قوانین کے خلاف ایک غیر معمولی تحریک چلائی تھی جس نے بھارتی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا تھا۔ اب ایک بار پھر کسانوں نے کم از کم امدادی قیمت کے گرد احتجاج کا آغازکر دیا ہے۔
اب تک کسان گزشتہ دو ہفتوں سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود شمبھو بارڈر پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں جہاں پولیس کے ساتھ ان کی جھڑپیں جاری ہیں۔ سنیکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) کے مطابق ٹریکٹر مارچ کے آغاز پر ہریانہ پولیس اور پنجاب کے کسانوں کے درمیان شدید جھڑپ میں ایک کسان کی موت بھی واقع ہو گئی تھی۔ ہریانہ کے کھنوری بارڈر پر پولیس اور مظاہرین کی جھڑپ کے دوران ایک 21 سالہ نوجوان شوبھکرن ہلاک ہوا جس کے بعد مظاہرین مزید مشتعل ہوئے۔ اب اپنے دیگر مطالبات کے ساتھ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ ہلاک ہونے والے کسان پر گولی چلانے والوں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے اور اس کے لواحقین کو ایک کروڑ روپے بطور معاوضہ فراہم کیا جائے۔
نوجوان کسان کی اس ہلاکت کے بعد اگلے روز کسانوں کی انجمنوں کی جانب سے یوم سیاہ منانے کا اعلان بھی کیا گیا۔ ایس کے ایم حالیہ ”دہلی چلو“ مارچ کا بظاہر حصہ نہیں ہے مگر وہ موجودہ تحریک کی بھرپور حمایت کر رہی ہے۔ کسانوں کی اس پنچایت نے 2020-21ء میں مرکز کے تین زرعی قوانین کے خلاف کسان تحریک کی قیادت کی تھی۔ پولیس کی شیلنگ اور کسانوں پر لاٹھی چارج کے بعد ایس کے ایم کے رہنماؤں نے ایک میٹنگ میں کہا کہ کسان 26 فروری کو شاہراہوں پر ٹریکٹر مارچ نکالیں گے اور 14 مارچ کو دہلی میں مہا پنچایت منعقد کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسان پولیس کاروائی کی مذمت کے لئے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور ہریانہ کے وزیر داخلہ انل وج کے پتلے بھی نذر آتش کریں گے۔
پنجاب کے علاقے فتح گڑھ صاحب میں بی بی سی ہندی کے نمائندے ابھینو گوئل نے ریلی میں شریک کسانوں سے بات کی تو اُن کا کہنا تھا کہ ”اس بار پہلے سے زیادہ لوگ ان کے ساتھ ہیں اور اگر ٹریکٹر ہزاروں کی تعداد میں ہیں تو لوگ لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔“ مزید کسانوں کا کہنا تھا کہ ”کسان ہر طرح کی رکاوٹ کو ہٹانا جانتے ہیں اور انہیں دہلی جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ وہ عزم رکھتے ہیں کہ یا تو اپنی مانگیں منوا کر آئیں گے یا پھر مودی حکومت کو گرا دیں گے کیونکہ انتخابات آنے والے ہیں۔“
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق حالیہ مظاہرے تین سال قبل ہونے والے مظاہروں سے زیادہ منظم و متحرک نظر آ رہے ہیں۔ پہلے جہاں پنجاب کی 32 کسان تنظیمیں مظاہروں میں شامل تھیں وہاں اس بار 50 سے زیادہ یونینیں موجودہ احتجاج میں سرگرم نظر آ رہی ہیں۔ جبکہ ملک بھر سے 200 سے زیادہ تنظیمیں دہلی کی جانب مارچ کرنے کے لئے تیار ہیں۔
موجودہ تحریک دراصل تین سال پہلے کسانوں کی متنازعہ زرعی اصلاحات کے قانون کے خلاف تحریک ہی کا تسلسل ہے جس میں دہلی کی سرحدوں پر ایک سال سے زیادہ عرصے تک کسانوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ بظاہر حکومت نے ان قوانین کو منسوخ کرنے پر رضا مندی دکھائی تھی جس کے بعد احتجاج کو ختم کر دیا گیا تھا مگر اب کسان ایک بار پھر سڑکوں پر نکل آئے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ان کے اہم مطالبات ابھی تک پورے نہیں ہوئے اور اس بار وہ مندرجہ ذیل مطالبات منظور ہونے تک اس تحریک کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
کسانوں کے اہم مطالبات ہیں کہ ’ایم ایس پی‘ (Minimum Support Price) پر فصلوں کی خریداری کی ضمانت دی جائے اور حکومت اس بابت نوٹیفکیشن جاری کرے۔ سوامی ناتھن کمیشن نے جو رپورٹ پیش کی اسے نافذ کیا جائے۔ کسانوں کو فصل اگانے پر آنے والی لاگت پر 50 فیصد منافع دیا جائے۔ کسانوں کے قرضے معاف کیے جائیں۔ تحریک کے دوران ان پر جو مقدمات درج ہوئے تھے وہ واپس لیے جائیں۔ حکومت کی جانب سے کام دینے کی سکیم منریگا کے تحت سال میں 200 دن کا کام فراہم کیا جائے اور یومیہ اجرت 700 روپے کی جائے۔
ان مطالبات کے ساتھ لاکھوں کسان پچھلے کئی دنوں سے ہریانہ اور پنجاب کے بارڈر پر ڈٹے رہے ہیں۔ وہ دہلی کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہاں موجود سکیورٹی فورسز انہیں آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دے رہی ہیں۔ اپنی فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت کے لئے وفاقی حکومت سے قانونی ضمانت کا مطالبہ کرتے یہ کسان نہ صرف ریاست کے تمام تر جبر اور تشدد کے باوجود اب تک سراپا احتجاج ہیں بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ تحریک کی شدت اور یکجہتی میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر’کسانوں کا احتجاج 2024ء‘ ٹرینڈ کر رہا ہے اور صارفین ریلیوں اور ان کے راستے میں حائل رکاوٹوں کی تصاویر شیئر کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ریاستی اداروں نے خوفزدہ ہوکر سماجی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر کئی کسان تنظیموں کے آفیشل پیج اور رہنماؤں کے اکاؤنٹس بلاک کر دیئے ہیں۔
برطانوی راج کے خاتمے کے ستر سال گزرنے کے باوجود پاکستان کی طرح بھارت کی دیہی آبادی کی اکثریت کے حالات میں بھی کوئی مثبت تبدیلی رونما نہیں ہو سکی اور چھوٹے کسانوں کے حالات دن بدن بد سے بدتر ہی ہوتے جا رہے ہیں۔یہ اِس خطے کی پسماندہ اور تاخیر زدہ سرمایہ داری کی ایک اور تاریخی ناکامی ہے کہ وہ زراعت کو جدید تکنیکی بنیادوں پر استوار کرنے سے قاصر رہی ہے۔ ہندوستان کی ایک ارب چالیس کروڑ آبادی کا ستر فیصد (تقریباً آٹھ سو ملین) دیہی آبادی پر مشتمل ہے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر زراعت سے منسلک ہے۔ ہندوستان کی یہ زرعی آبادی اس کے جی ڈی پی کا 16 فیصد پیدا کرتی ہے۔ ہندوستان دنیا میں سب سے زائد کپاس پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ گنا، چاول اور چینی پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک بھی ہے۔ یہاں عام طور پر ہر سال 275 ملین ٹن اناج جبکہ 300 ملین ٹن پھل اور سبزیاں پیدا کی جاتی ہیں۔ لیکن ہندوستان عام کسانوں کے لئے بدترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ کسانوں کی اکثریت حکومت کے مقرر کردہ ریٹ سے کم پر اپنی اشیا بیچنے پر مجبور ہے جبکہ قرضوں کے بھاری بوجھ، بارشوں میں کمی اور قحط سالی کے باعث اب کسانوں میں خود کشیوں کی شرح ماضی سے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ اس ساری کیفیت میں حکومت اپنی طے شدہ قیمتوں کا اطلاق کروانے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں مودی حکومت نے ملک کو خوراک فراہم کرنے والے ان کسانوں سے کیے گئے اپنے تمام تر وعدوں کو توڑا ہے۔ ایسے میں ان کروڑوں کسانوں کے پاس اب سوائے احتجاج کے کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا ہے۔ یہ تحریک مودی حکومت کے جبر اور کارپوریٹ نیو لبرل پالیسیوں کے خلاف ایک منظم بغاوت کے طور پر منظر عام پر آئی ہے۔
اس تحریک میں جہاں کسانوں کی انتھک جدوجہد دیکھی جا سکتی ہے وہیں یہ تمام تر سیاسی پارٹیوں کو بھی بے نقاب کر رہی ہے۔ کانگریس سمیت تمام ترمین سٹریم سیاسی پارٹیاں اپنی بی جے پی مخالفت میں بظاہر اس تحریک کی حمایت کا اعلان کر رہی ہیں مگر کسی بھی پارٹی کے ایجنڈا پر کسانوں کے مسائل کا نہ کوئی حل سرے سے موجود ہے او ر نہ ہی سرمایہ دارانہ بنیادوں پر کسانوں سمیت ہندوستان کی اکثریتی آبادی کو بھوک، بد حالی اور لا علاجی سمیت کسی بھی مسئلے سے چھٹکارا دلایا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف انقلابی نظریات سے انحراف کرتی پارلیمانی تنگ نظری کا شکار کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ایم) کا کردار بھی کچھ زیادہ مثبت نہیں ہے۔ جہاں بڑی سرمایہ دارانہ کارپوریشنوں اور دیگر استحصالی شعبوں اور پالیسیوں کو نشانہ بنا کر اس تحریک کو وسیع تر محنت کش عوام تک پھیلایا جا سکتا ہے وہاں کمیونسٹ پارٹی کی قیادت اس تحریک کو محض مودی حکومت کے خلاف محدود رکھنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ آنے والے انتخابات میں اسے ووٹ حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ اس اصلاح پسند بائیں بازوکا ایجنڈا کوئی انقلابی نہیں بلکہ وہی نیو لبرل اکانومی کے اندر اصلاحات کا پروگرام ہے۔ ایسے میں جہاں روایتی دایاں بازو عوام کی طرف سے مسترد ہو رہا ہے وہیں یہ اصلاح پسند بایاں بازو بھی ایک بحران کا شکار ہے۔
مودی سرکار کے لئے کسانوں کی تحریک جہاں شدید مشکلات پیدا کر رہی ہے وہیں آنے والے چناؤ میں مودی کی مقبولیت کو ٹھیس پہنچانے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے کسی نہ کسی شکل میں جاری کسانوں کی یہ بغاوتیں اس کٹھن معروض میں حوصلہ افزا ہیں۔ گزشتہ تحریک میں حاصل ہوئی جزوی فتوحات نے کسانوں کے حوصلے بلند کیے ہیں۔ لیکن یہ نظام کسانوں کو کوئی بڑا ریلیف دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ حتیٰ کہ آج یورپ کے ترقی یافتہ ترین ممالک کے کسان بھی ایسے ہی مطالبات پر سراپا احتجاج ہیں۔ ایسے میں (پاکستان سمیت) اس خطے میں بھی مزید تحریکیں ابھرنے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ رجعتی مودی سرکار کے ظلم اور جبر کے خلاف عام ہڑتالوں اور ایسی تحریکوں سے لوگ بہت کچھ سیکھ بھی رہے ہیں۔ یہ اسباق آنے والی طبقاتی بغاوتوں کی معقول سمت کے تعین میں یقینا اپنا کردار ادا کریں گے۔ لیکن ان حالات میں سب سے اہم سوال پھر انقلابی قیادت کا ہو گا۔