اداریہ جدوجہد

اِن سطور کی تحریر کے وقت مشرقِ وسطیٰ کے حالات ایک نئی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں جو ایسی بربادی اور خونریزی پر منتج ہو سکتی ہے جس کا شاید اندازہ بھی ابھی محال ہے۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران اسرائیلی صیہونی ریاست نے غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔ اب تک تقریباً 35 ہزار فلسطینیوں کو قتل کیا جا چکا ہے جن میں 90 فیصد عام لوگ ہیں۔ صیہونی فوج نے اس قتل عام میں بوڑھوں، عورتوں، بچوں حتیٰ کہ ہسپتالوں کے بستروں پر پڑے زخمیوں اور مریضوں کو بھی نہیں چھوڑا۔ لیکن حماس کو کچلنے میں ناکام نیتن یاہو، جو اسرائیل کا غیرمقبول ترین وزیر اعظم بن چکا ہے، اب غزہ میں جاری قتل و غارت گری کو ایران کیساتھ ایک کھلی جنگ کی صورت پورے خطے میں پھیلانے کے درپے ہے۔ کیونکہ مسلسل جنگی حالات ہی اس کے اقتدار میں رہنے کی ضمانت ہیں۔ بصورت دیگر کرپشن کے سنگین مقدمات بھگت رہا ہو گا۔ لیکن اس بنیادی مقصد سے ہٹ کے بھی امریکہ سمیت مغربی سامراج کو خطے میں براہِ راست مداخلت اور اسرائیل کی بھرپور پشت پناہی پر مجبور کرنے، غزہ میں جاری بربریت سے دنیا کی توجہ ہٹانے اور ایران کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے جیسے عزائم اسرائیل کی حالیہ اشتعال انگیزیوں کے پیچھے کارفرما ہیں۔ جن میں دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ اور اہم ایرانی کمانڈروں کا قتل بھی شامل ہے۔ جس نے پھر ایران کو تاریخ میں پہلی بار اسرائیل کو براہِ راست نشانہ بنانے پہ مجبور کر کے نیتن یاہو کے ٹولے کو جوابی حملے کا جواز دے دیا ہے۔ اس صورت میں ممکنہ جنگ کے بالکل بے قابو ہو کر نہ صرف سارے مشرقِ وسطیٰ بلکہ اس سے باہر بھی پھیل جانے، ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال، خطے کی رجعتی اور عوام دشمن ریاستوں کے خلاف لوگوں کا غم و غصہ بغاوتوں کی شکل میں پھٹ پڑنے اور پہلے سے زبوں حالی کا شکار عالمی معیشت کے گہرے بحران میں دھکیلے جانے جیسے خدشات کے پیش نظر تمام سامراجی طاقتیں بشمول امریکہ، یورپ، روس اور چین اسرائیل کو مزید کسی اشتعال انگیزی سے منع کر رہی ہیں۔ لیکن یہ انتباہ، تاکیدیں اور اپیلیں نیتن یاہو کے باز رہنے کی ضمانت نہیں ہیں۔

اسی دوران یوکرائن جنگ کی خونریزیاں بھی جاری ہیں۔ بی بی سی کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اس جنگ میں اب تک 50 ہزار سے زائد روسی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ یوکرائنی فوجیوں اور عام شہریوں کی ہلاکتیں یقینا اس سے کہیں زیادہ ہوں گی۔ یہ تنازعہ بھی کسی خاطرخواہ حل سے عاری نظر آتا ہے اور مخصوص حالات میں پھیلنے کی طرف جا سکتا ہے۔ لیکن مشرقِ وسطیٰ اور وسط ایشیا میں جاری یہ خونی تصادم کوئی الگ تھلگ یا اچانک واقعات نہیں بلکہ سامراجی قوتوں یا کیمپوں کے درمیان مسلسل شدت پکڑتے ان تنازعات کی ناگزیر پیداوار ہیں جن کے پیچھے پھر بحران زدہ عالمی سرمایہ داری کی اپنی حرکیات کارفرما ہیں۔ بنیادی عمل ایک پرانے عالمی سامراج کی زوال پذیری اور نئی طاقتوں کے ابھرنے کے عزائم پر مبنی ہے۔ جاری جنگوں سے ہٹ کے لاطینی امریکہ سے لے کے افریقہ اور مشرقی ایشیا تک یہ بین السامراجی تضادات بارودی سرنگوں کی طرح ایک دبی ہوئی اور سرد حالت میں موجود ہیں جو آنے والے عرصے میں یکے بعد دیگرے پھٹ کر مزید جنگوں، خانہ جنگیوں اور دہشت گردی کی شکل میں نئی بربادیوں کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔

لیکن پھر بارود کی تباہی بھی اس نظام کی وحشت کا محض ایک رُخ یا پہلو ہے۔ ماحولیاتی بربادی اور بحران مسلسل بڑھ رہا ہے اور غیر متوقع موسمی حالات کی شکل میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔ دبئی اور ہمسایہ ممالک میں حالیہ شدید بارشیں اور سیلاب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اسی طرح مہنگائی، محرومی، غربت، بیروزگاری جیسی ذلتوں کی شکل میں سرمایہ داری کی معاشی یلغار ایک نسبتاً غیرمحسوس انداز میں ہر خطے اور سماج میں نہ صرف جاری ہے بلکہ مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ وہ زخم ہیں جو صرف دل و دماغ اور جسموں پر ہی نہیں لگتے بلکہ روح، احساس اور جذبات کو ہی چھلنی کر ڈالتے ہیں۔ انسان سے جینے کی آرزو تک چھین لیتے ہیں۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ترین ملک میں ڈپریشن اور انگزائٹی وغیرہ کے کیس تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں اور تقریباً 30 فیصد آبادی ان ذہنی عارضوں کا شکار ہے جو بنیادی طور پر مسلسل غیریقینی صورتحال، نفسا نفسی، مقابلہ بازی، بیگانگی اور تنہائی پر مبنی حالات کی پیداوار ہیں۔ منشیات، جرائم، پبلک شوٹنگ، گھریلو تشدد وغیرہ جیسے سماج دشمن رویے اور مسائل بھی انہی عوامل سے جڑے ہیں۔ مروجہ میڈیکل سائنس ایسے دماغی عارضوں کو جسم میں موجود کیمیائی مادوں کے جس عدم توازن میں تلاش کرتی ہے وہ مسئلے کی وجہ نہیں بلکہ نتیجہ یا پیداوار ہے۔ زندگی جب تعمیر و تخلیق، انسانی یکجہتی، قربت اور اشتراکی خوشی و آسودگی پر مبنی مقصدیت سے محروم ہو جائے تو انسان کی روح کو غریب، احساس کو دیوالیہ اور جینے کی امنگ کو ماند کر ڈالتی ہے۔ سرمایہ داری کا انسان انہی المیوں کا شکار ہے۔ ساحرؔ نے دہائیاں پہلے کتنے دردناک اور زوردار انداز سے سرمایہ دارانہ معاشرے کی تصویر کشی کی تھی:

یہ دنیا جہاں آدمی کچھ نہیں ہے
وفا کچھ نہیں دوستی کچھ نہیں ہے
جہاں پیار کی قدر ہی کچھ نہیں ہے
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

یہ کیفیات آنے والے وقت میں اس نظام کی زوال پذیری کے ساتھ شدید تر ہی ہوں گی۔ سرمایہ داری کی شرح منافع کے ساتھ اس کی نمو (گروتھ) اور آمدن تاریخی گراوٹ سے دوچار ہے۔ محنت کش عوام کے لئے اس کا ناگزیر مطلب مزید تنگی اور محرومی ہی ہے۔ آسٹیریٹی سے لے کے بیروزگاری اور نجکاری سے لے مہنگائی تک اس کی کئی معاشی شکلیں ہو سکتی ہیں۔ جن کے پھر ناگزیر سیاسی و سماجی مضمرات بھی ہیں جو بنیاد پرستی، انتہائی دائیں بازو کے ابھار، پولرائزیشن، محلاتی سازشوں، دھڑن تختوں اور ریاستوں کی ٹوٹ پھوٹ سے لے کے عوامی غم و غصے، بغاوتوں اور انقلابی تحریکوں وغیرہ تک جاتے ہیں۔

ان حالات میں پاکستانی ریاست بھی آج ایک وجودی بحران کا شکار نظر آتی ہے۔ سامراجی پالیسی سازوں کی اپنی رپورٹیں نشاندہی کر رہی ہیں کہ پاکستان کو غیرمعینہ مدت کے لئے آئی ایم ایف کے پروگراموں میں رہنا پڑے گا۔ کٹوتیوں کی پالیسیاں مسلسل جاری رہیں گی۔ معیشت عملاً منجمد اور مہنگائی انتہائی بلند سطح پر رہے گی۔ یوں عام انسانوں کی زندگیوں کی تلخیوں میں اضافہ ہی ہو گا۔ موجودہ حکومت شاید ملکی تاریخ کی غیرمقبول ترین حکومت ہے جبکہ ریاست کئی زاویوں سے داخلی تقسیم اور تصادموں کا شکار ہے۔ بحران کے ساتھ بدعنوانی اور کالے دھن کی سرایت نے ریاستی اداروں کے ڈسپلن کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔ بہاولنگر کا واقعہ اس عمل کی محض ایک جھلک ہے۔ سرکاری نظریات اور بیانئے سے خود ریاستی مشینری اور اَن داتاؤں کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ مسلسل انتشار اور افراتفری کا عالم ہے۔ لیکن اپنی زوال پذیری، ٹوٹ پھوٹ اور گرتی ہوئی ساکھ کے ساتھ ریاست مزید وحشت اور جارحیت پہ اترتی جا رہی ہے۔

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ صورتحال صدا یونہی برقرار نہیں رہ سکتی۔ نہ ہی ایک بتدریج طریقے سے ایک سیدھی لکیر میں آگے بڑھے گی۔ آنے والے دنوں میں نہ صرف اِس ملک بلکہ دنیا بھر میں مجتمع ہوتے چلے جا رہے معاشی، سیاسی و سماجی تضادات کا معیاری اظہار کرنے والے دھماکہ خیز واقعات لازم ہو چکے ہیں۔ جن میں رجعتی مظاہر کے ساتھ ساتھ ایسی کیفیات بھی لازماً جنم لیں گے جن میں انقلابی قیادتوں کے تحت اِس نظام کو اکھاڑ پھینکنے کا عمل شروع کیاجا سکتا ہے۔ انسان دشمن سماجوں کی اِس دنیا کو بدلنے کا یہی ایک راستہ ہے۔ بصورتِ دیگر مزید جنگیں، محرومیاں، ذلت اور بربریت انسانیت کی منتظر ہے۔